8 September, 2024


دارالاِفتاء


(۱)نماز میں جہاں کہیں سورہ پڑھنے میں آگے پیچھے ہوگئی، یا درمیان سے کوئی آیت چھوٹ گئی تو عوام کو خاموش کرنے اور درستیٔ نماز کی خاطر جو امام سجدۂ سہو کرتا ہو، حد یہ کہ نماز جمعہ میں سجدۂ سہو کرتا ہو، اس کا کیا حکم ہے؟ (۲)دعاے قنوت نازلہ، فجر کے علاوہ مغرب میں بھی پڑھتا ہو اور روا سمجھتا ہو، ایک عالم کے ٹوکنے پر نہ آج تک نماز لوٹائی اور نہ لوٹانے کا حکم دیا۔ بلکہ صحیح بتانے والے کے خلاف اپنے حامیوں سے گالی دلاتا اور علما کی توہین کرتاہو، اس کی امامت کیسی ہے؟

فتاویٰ #1809

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- (۱)قراءت کی کسی غلطی میں سجدۂ سہو نہیں۔ قراءت کی غلطی کی وجہ سے یا تو نماز بالکل فاسد ہوجائےگی کہ سجدۂ سہو کرنے سے بھی صحیح نہ ہوگی۔ یا نماز بلا کراہت صحیح ہوگی۔ امام سے اگر نماز میں غلطی ہوجائےتو مقتدیوں کو ضروری ہے کہ بتائیں تاکہ اس پر غور کیا جاسکے کہ یہ غلطی کس قسم کی ہے؟ اس سے نماز فاسد ہوئی یا نہیں؟ قراءت کی غلطی پر امام کا سجدۂ سہو کرنا غلط ہے۔ اگرچہ بلا ضرورت سجدۂ سہو کرنے سے امام کی اور ان مقتدیوں کی جو پہلی رکعت سے نماز میں شریک ہیں، نماز ہوجاتی ہے۔مگر ان مقتدیوں کی جن کی ایک دو رکعت چھوٹ گئی ہو، نماز فاسد ہوجاتی ہے۔(حاشیہ: فتاوی رضویہ میں ہے: بے حاجت سجدۂ سہو نماز میں زیادت اور ممنوع ہے مگر نماز ہو جائے گی۔ ہاں! اگر یہ امام ہے تو جو مقتدی مسبوق تھا یعنی بعض رکعات اس نے نہیں پائی تھیں وہ اگر اس سجدہ بے حاجت میں اس کا شریک ہوا تو اس کی نماز جاتی رہے گی لأنہ اقتدی فی محل الانفراد۔ (ج:۶، ص:۷۸، مترجم) محمود علی مشاہدی) اس لیے امام کو بلا ضرورت ہرگز ہرگز سجدۂ سہو نہیں کرنا چاہیے ؛تاکہ مسبوقین کی نماز فاسد نہ ہو، خصوصاً جمعہ میں جب جماعت کثیرہ ہو۔ امام کو حکم شرعی بتا دیا جائے، اگر مان جائے فبہا، ورنہ اسے امامت سے معزول کردیا جائے۔ (۲)بر بناے مذہب صحیح، قنوت نازلہ ہمارے یہاں صرف نماز فجر میں ہے۔ شامی میں ہے: وَھُوَ صَرِيحٌ فِي أَنَّ قُنُوتَ النَّازِلَۃِ عِنْدَنَا مُخْتَصٌّ بِصَلَاۃِ الْفَجْرِ دُونَ غَيْرِھَا مِنْ الصَّلَوَاتِ الْجَھْرِيَّۃِ أَوْ السَّرِيَّۃِ۔ مغرب یا کسی اور نماز میں پڑھنے کا قول ضعیف اور مرجوح ہے۔ اور قول ضعیف اور مرجوح پر عمل، جہالت اور خرق اجماع ہے۔ در مختار میں ہے: أَنَّ الْحُكْمَ وَالْفَتْوَی بِمَا ھُوَ مَرْجُوحٌ خِلَافُ الْإِجْمَاعِ ۔ اس لیے امام، مغرب میں قنوت نازلہ ہرگز ہرگز نہ پڑھے، اس کو سختی سے روکا جائے۔ تاہم اگر وہ پڑھتا ہے تو اس سے نماز فاسد نہ ہوگی کہ بہر حال ایک قول یہ بھی ہے۔ اس کی مخالفت کرنے والے حق پر ہیں۔ انھیں گالی دلوانا، فتنہ و فساد کے ساتھ گناہ و معصیت بھی ہے۔ حدیث میں ہے: سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ ۔ اور کلمۂ حق پر گالی دلوانا اور سخت تر۔ اس میں اندیشۂ کفر بھی ہے۔ امام پر واجب ہے کہ وہ اس سے توبہ کرے، اور جنھیں گالی دلوایا ہے ان سب سے معافی مانگے۔ ورنہ اس امام کو امامت سے معزول کرنا واجب ہے۔ اسے امام بنائے رکھنا گناہ۔ اس کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی واجب الاعادہ۔ غنیہ میں ہے: لَوْ قَدَّمُوا فَاسِقاً یَّاثمُوْنَ بِنَاءً عَلَیٰ أَنَّ کَرَاھَۃَ تَقْدِیْمِہٖ کَرَاھَۃُ تَحْرِیْمٍ ۔ در مختار میں ہے: كُلُّ صَلَاۃٍ أُدِّيَتْ مَعَ كَرَاھَۃِ التَّحْرِيمِ تَجِبُ إعَادَتُھَا ۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ ---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved