8 September, 2024


دارالاِفتاء


کیا فرماتے ہیں علماے دین اس شخص کے لیے جس نے مدرسے کے نام سے عوام سے چندہ کیا، اور مدرسہ قائم کیا جس کی رجسٹری ایک شخص کے نام سے کی گئی، اور پھر دسیوں سال اس مدرسہ کو چلانے کے بعد مدرسہ کو بیچ دیا، اس جگہ اب رہائش گاہ بن گئی ہے، اور یہ کہا کہ اس روپے سے مدرسے کے لیے دوسری جگہ خریدی جائےگی، جب دوسری جگہ خریدی گئی تو جگہ کو مولانا صاحب نے اپنے نام سے رجسٹری کرائی جو کہ چندے کا روپیہ تھا۔یہ شخص مسجد کے پیش امام ہیں، انھیں امامت کی تنخواہ ملتی ہے، دعا تعویذ بھی کرتے ہیں، ان کے حجرے میں بےوقت عورتیں پائی گئیں، اعتراض کرنے پر انھوں نے غنڈوں کا استعمال کیا۔ لہذا آپ سے گزارش ہے کہ اس معاملے میں قرآن و حدیث کی روشنی میں فتویٰ دیں۔

فتاویٰ #1769

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- دوسری زمین اگر اس نے خریدی ہے کہ وہاں مدرسہ بنایا جائےگا تو اس میں کوئی حرج نہیں اگرچہ زمین مولانا نے اپنے نام لکھوائی ہے۔ ظاہر ہے کہ پہلے والے مدرسے کی زمین جب کمیٹی کے ایک فرد کے نام تھی تو اس کی مرضی کے بغیر وہ عمارت فر وخت نہیں ہوسکتی۔ ایسی صورت میں ظاہر یہی ہے کہ پوری کمیٹی کے مشورے سے پہلی عمارت بیچی گئی اور دوسری زمین خریدی گئی، اس لیے مولانا پر کوئی الزام نہیں۔ ہاں ! اگر مولانا نے وہ زمین اس لیے خریدی کہ اس پر اپنا ذاتی مکان بنائیں گے تو ضرور خائن او ر بد ترین فاسق ہیں۔ اب ان کو امام بنائے رکھنا گناہ، ان کے پیچھے پڑھی ہوئی نمازوں کا دہرانا واجب۔ اسی طرح اگر مسجد کے حجرے میں تعویذ لکھتے ہیں اور اس کا عوض لیتے ہیں تو بھی فاسق معلن ہوئے، مسجد کے حجرے میں خرید و فروخت جائز نہیں۔ ایسی صورت میں ان کو امام بنائے رکھنا گناہ، اور ان کے پیچھے پڑھی ہوئی نمازوں کا دہرانا واجب۔ اور اگر تعویذ کا عوض نہیں لیتے فی سبیل اللہ مخلوق کی خدمت کرتے ہیں تو کوئی حرج نہیں، بہت اچھی بات ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ ---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved