8 September, 2024


دارالاِفتاء


مسجد کے امام صاحب نے جلسۂ سیرت النبی ﷺ کی مخالفت کی، اور جلسہ کو روکنے کا مشورہ دیا، جب کہ پوسٹر پر جلی حرفوں میں لکھا ہوا تھا: *ایک روزہ جلسۂ سیرت پاکﷺ* علاقے کے چند ذمہ دار لوگوں نے یہ کہا کہ حضرت یہ جلسہ سیرت پاک کا ہے، جس میں حضور ﷺ کا اسوۂ حسنہ بیان کیا جائےگا۔ اس کو ہونے دیں۔ جس پر امام صاحب نے یہ کہہ کر کہ’ روکنا ثواب ہے‘ چند لوگوں کو ہمراہ لےکر ایک گول مول مضمون کاغذپر لکھ کر پہلے خود دستخط کیا، بعد میں لوگوں کو دیا کہ اہل محلہ سے دستخط کراؤ، انھوں نے عوام کو صحیح بات نہیں بتائی، اور جلسۂ سیرت النبی کو نہ ہونے دیا، جس کی وجہ سے چند ذمہ دار مسلمانوں نے ان امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھنا چھوڑ دی، اور کچھ لوگ امام کے اس رویے سے خوش نہیں ہیں، البتہ ان کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہیں۔ براے کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں آگاہ کریں کہ :یہ امام لائق امامت ہے یا نہیں؟ اس کا یہ فعل شرعی اعتبار سے کیسا ہے؟ اور جن لوگوں نے امام کے پیچھے نماز چھوڑ دی ہے، اور جو امام کے اس فعل سے ناخوش ہیں ان کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟

فتاویٰ #1755

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- اگر سیرت پاک کے اس جلسے میں کوئی مقرر، شاعر، صدر، بد مذہب گمراہ نہیں تھا، تو امام مسجد کا اس جلسے کو روکنے کی کوشش کرنا، یہ ذکر خیر اور تبلیغ دین سے روکنا ہے۔ اس تقدیر پر امام فاسق معلن ہوگیا۔ اسے امام بنانا جائزنہیں۔ اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہے، اور اسے امامت سے معزول کرنا واجب۔ اور اگر اس جلسے میں کوئی مقرر، شاعر، صدر، اناؤنسر، کل کے کل یا ایک بھی بدمذہب تھا تو امام اور تمام مسلمانوں پر واجب تھا کہ اس جلسے کو روکتے، اس لیے کہ بد مذہبوں کا یہ طریقہ ہے کہ نام سیرت کا رکھتے ہیں اور اس کے پردے میں بدمذہبی پھیلاتے ہیں اور اہل سنت کا رد کرتے ہیں، ان پر تیر و نشتر برساتے ہیں۔ ایسی صورت میں امام نے ایک فرض ادا کیا، جس کی بنا پر وہ ثواب کا مستحق ہوگا۔ جن لوگوں نے اس کے پیچھے نماز پڑھنا چھوڑ دیا، انھوں نے بہت برا کیا، اگر جماعت بھی چھوڑ بیٹھے اور تنہا نماز پڑھنے لگے تو ترک جماعت کا ان پر وبال بھی ہوا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved