8 September, 2024


دارالاِفتاء


ایک امام صاحب جن کے جسم پر سفید داغ ہے، نیز امام صاحب ہاف آستین کی قمیص پہنتے ہیں جس پر جاندار کی تصویر بھی موجودہے، جس کی وجہ سے چند مقتدی کراہیت محسوس کرتے ہیں،لہذا ایسے امام کی اقتدا کیسی ہے؟ اگر امام اپنالباس بدل دے تو اس کی اقتدا جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائزہے تو سفید داغ کی کراہیت دور ہونے کی صورت کیاہوگی؟ جب کہ مذکورہ بالا امام کے علاوہ کوئی ایسا آدمی نہیں جو امامت کا کام انجام دے۔

فتاویٰ #1714

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- اگر سفید داغ تھوڑا سا ہے تو سفید داغ کی وجہ سے نماز میں کوئی کراہت نہیں ہوگی۔ اور اگر سفید داغ زیادہ ہے تو اس کے پیچھے نماز مکروہ تنزیہی ہے۔ اور یہ امام جب ایسا کپڑا پہنتا ہے جس پر جانوروں کی تصویریں بنی ہوئی ہیں تو اس کے پیچھے نماز میں دو وجہ سے کراہت ہے: ایک تو یہ کہ ایسا کپڑا پہننا ناجائز۔ جس کی وجہ سے یہ فاسق معلن ہوگیا، اور فاسق کو امام بنانا گناہ، اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی، واجب الاعادہ۔ دوسرے یہ کہ ایسا کپڑا پہن کر نماز پڑھنے سے خود اس کی نماز مکروہ۔ جب اس کی مکروہ تو مقتدیوں کی بدرجہ اولیٰ مکروہ۔ علاوہ ازیں : ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ تصویر کی طرف منھ کرکے نماز پڑھنا بھی مکروہ ہے۔ خصوصاً جب کہ تصویر مصلی کے سامنے ہو تو جو لوگ امام کے پیچھے ہوں گے ان کی نماز ایک اور طرح مکروہ ہوگی۔ امام کو سمجھایا جائے کہ وہ تصویر والا کپڑا پہننے سے احتراز کرے۔ یوں ہی آدھی آستین کا کپڑا نہ پہنے۔ اس سے بھی نماز مکروہ (تنزیہی)ہوتی ہے، اور توبہ کرے تو ایسی صورت میں جب کہ کوئی اس کے علاوہ امامت کے لائق نہیں، اس کو امام بنانے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن اگر یہ تصویر والا کپڑا پہننا نہیں چھوڑتا اور توبہ نہیں کرتا تو ہرگز ہرگز اس کو امام نہ بنایا جائے۔ کسی بھی صحیح خواں، صحیح نماز پڑھنے والے صالح متدین کو امام بنائیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved