22 December, 2024


دارالاِفتاء


زید جس کی دینی تعلیم معمولی، انگریزی تعلیم کافی ہے، چند مہینے تک زید کا رہن سہن بھی انگریزی اور چہرہ بھی داڑھی مونچھ سے صاف ہی رہا۔ ادھر چند مہینے سے زید نے پابندی سے نماز ادا کرنا شروع کردیا ہے، داڑھی ابھی تو ایک مشت نہیں ہے لیکن کٹانا ترک کردیا ہے، زید عالم، حافظ یا قاری نہیں ہے۔ کیا زید کو نماز جمعہ و عیدین کا امام بنانا جائز ہے؟ جب کہ جماعت میں علما حفاظ، قُرّا ءموجود ہوں؟ بحوالۂ کتبِ معتبرہ بالتفصیل جواب عنایت فرمائیں۔

فتاویٰ #1695

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- زید نے جب داڑھی منڈانے سے توبہ کرلی ہے، اور اب اس نے داڑھی منڈانا چھوڑ دیا، تو اگرچہ ابھی اس کی داڑھی ایک مشت نہیں ہوئی ہے، سابقہ داڑھی منڈانے کی وجہ سے اس کو امام بنانے میں کوئی خلل واقع نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ گناہ سے توبہ کرتے ہی آدمی گناہ سے ایسا پاک ہوجاتا ہے کہ گویا اس نے گناہ کیا ہی نہیں۔ حدیث شریف میں ہے: التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ كَمَنْ لاَ ذَنْبَ لَہُ. بلکہ قرآن مجید میں فرمایا: اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ . بےشک اللہ توبہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ اب جب کہ زید میں کوئی ایسی بات نہیں جس کی وجہ سے اس کے پیچھے نماز پڑھنا ناجائز ہو تو عُلما، حُفَّاظ اور قُرَّاء کی موجودگی میں بھی جمعہ و عیدین کا بھی امام بنانا بلا شبہہ جائز ہے۔ متعدد احادیث سے ثابت ہے کہ خود حضور اقدس سید عالم ﷺ نے اعلم و افضل صحابہ کرام کی موجودگی میں ان کے اعتبار سے کم علم اور فضل والے صحابی کو امام بنایا۔ مشکاۃ شریف میں ہے: وعن أنس، قال : استخلف رسول اللہ ﷺ ابن أم مكتوم يؤم الناس و ھو اعمیٰ۔ رواہ أبو داود . اس حدیث کے تحت مرقات میں ہے: قال تور پشتی : استخلفہ علی الإمامۃ حین خرج إلی تبوک مع أن عَلِیّا فیھا اھ. حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی ﷫’’ اشعۃ اللمعات‘‘ میں اسی حدیث کے تحت لکھتے ہیں: گفتہ اند کہ سیژدہ بار بود، یک بار ازاں وقتے کہ بغزوۂ تبوک رفت، با آں کہ امیر المومین علی در مدینہ بود. ان سب کا حاصل یہ ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے حضرت عبداللہ بن ام مکتوم کو تیرہ بارہ اپنی عدم موجودگی میں اپنی جگہ مسجد نبوی شریف میں امام بنایا۔ ایک بار اس وقت بھی امام بنایا جب کہ غزوۂ تبوک میں تشریف لے گئے؛ حالاں کہ اس موقع پر حضرت علی کو بھی مدینہ طیبہ میں چھوڑا تھا۔ اس حدیث سے ثابت ہے کہ افضل و اعلم کے ہوتے ہوئے غیر افضل و اعلم کو امام بنانا، جائز ہے۔ چناں چہ حضرت عبدالحق محدث دہلوی ﷫اس حدیث سے یہی نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔ اشعۃ اللمعات میں اسی صفحہ پر چند سطر بعد ہے: در حدیث دلیل است بر جوازِ امامت مفضول باوجود افضل کہ باوجود امیر المومنین عَلی، ابن ام مکتوم را امامت فرمود۔ اھ. یعنی حدیث میں اس بات پر دلیل ہے کہ افضل کے ہوتے ہوئے مفضول کو امام بنانا جائز ہے۔ اس لیے کہ حضور اقدس ﷺ نے امیر المومنین حضرت علی کی موجودگی میں ابن ام مکتوم کو امام بنایا،حالاں کہ وہ نابینا بھی تھے۔ اسی مشکاۃ شریف میں، اسی صفحہ پر عبداللہ بن عمر سے مروی ہے: لَمَّا قَدِمَ الْمُھَاجِرُونَ الأَوَّلُونَ المدِیْنَۃَ كَانَ يَؤُمُّہُمْ سَالِمٌ مَوْلَی أَبِي حُذَيْفَۃَ، وَ فِيھِمْ عُمَرُ، وَأَبُو سَلَمَۃَ۔ رواہ البخاري . یعنی جب مہاجرین اولین مدینہ آئے تو ان کی امامت حضرت ابو حذیفہ کے آزاد کردہ غلام حضرت سالم کرتے تھے، حالاں کہ ان میں حضرت عمر اور حضرت ابو سلمیٰ بن عبدالاسد بھی تھے۔ حضرت عمر ، حضرت سالم سے بدرجہا افضل تھے۔ مگر امام حضرت سالم تھے۔ بناءً علیہ عامۂ کتب فقہ، مثلا فتاویٰ قاضی خان، فتح القدیر، جامع الرموز، مراقی الفلاح، شامی اور غنیہ وغیرہ میں ہے کہ أقرأ کی موجودگی میں لوگوں نے اگر غیرِ اقرأ کو امام بنایا تو گنہ گار نہ ہوں گے۔ و عدم الإثم لعدم ترک الواجب، لِأَنَّھُمْ قَدَّمُوا رَجُلًا صَالِحًا، کذا في فتاوی الحجۃ۔ شامی میں ہے: لَا يَأْثَمُونَ ؛ لِأَنَّھُمْ قَدَّمُوا رَجُلًا صَالِحًا ۔ اس صورت میں گناہ اس لیے نہیں کہ انھوں نے کوئی واجب ترک نہیں کیا، اس لیےکہ انھوں نے ایسے شخص کو امام بنایا جو امامت کے لائق ہے۔ غرضے کہ افضل کی موجودگی میں کسی ایسے شخص کو جُو ان کے رتبے کا نہ ہو، امام بنانا بالاتفاق جائز ہے۔ اور اس میں کوئی گناہ نہیں۔ اس لیے علما و حفاظ اور قرا کی موجودگی میں بھی زید کو امام بنانا احادیث کریمہ اور ارشادات فقہا کی روشنی میں بلا شبہ جائز ہے اور اس میں کوئی گناہ نہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ استکتبہ محمد شریف الحق امجدی کتبہ محمد نظام الدین الرضوی۔ ---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved