22 December, 2024


دارالاِفتاء


إن بلالا کان یرقب خروج النبي ﷺ فأول ما یراہ یشرع في الإقامۃ قبل أن یراہ غالب الناس ثم إذا رأوہ قاموا فلا یقوم في مکانہ حتی تعتدل صفوفہم قلت ویشہد لہ ما رواہ عبد الرزاق عن ابن جریح عن ابن شہاب أن الناس کانوا ساعۃ یقول المؤذن اللہ أکبر یقومون إلی الصلاۃ فلا یاتی النبي -صلی اللہ تعالی علیہ وسلم- مقامہ حتی تعتدل الصفوف إھ ۔ (بذل المجہود شرح ابو داؤد،ج۱،ص:۳۰۷) ترجمہ: بے شک بلال انتظار کرتے تھے نبی ﷺ کے نکلنے کا لہذا جیسے ہی حضور کو دیکھتے اقامت شروع کر دیتے تھے اس سے پہلے کہ اکثر لوگ حضور کو دیکھتے ۔ پھر جب لوگ حضور کو دیکھ لیتے کھڑے ہو جاتے پس حضور اپنے مقام (مصلی) پر نہیں کھڑے ہوتے یہاں تک کہ ان کی صفیں سیدھی کر دےجاتی ۔ اوراس کی شہادت اس سے بھی ہوتی ہے جسے عبد الرزاق نے ابن جریح سے انھوں نے ابن شہاب سے روایت نقل کی ہے کہ لوگ اس وقت کھڑے ہوتے تھے جب مؤذن اللہ اکبر کہتا تھا نماز کےلیے، پس نہیں آتے تھے نبی ﷺ اپنے مقام پر (مصلے) یہاں تک کہ صفیں سیدھی کر دی جاتی تھیں۔ (بذل المجہود،ج:۱،ص:۳۰۷) نوٹ: جو حضرات بھی اس حدیث کو متروک العمل (پورے عرب وعجم میں) باحوالہ غلط ثابت کردیں یا عرب وعجم میں عامل نہ ہونا ثابت کردیں ان حضرات کو دس ہزار روپے نقد انعام دیا جائے گا۔ حوالہ یا ثبوت دے کر اس پتہ پر حاصل کرلیں۔

فتاویٰ #1526

-------بسم اللہ الرحمن الرحیم – الجواب ــــــــــــــ آپ نے جو سوال بھیجا ہے اس میں ’’إن بلالا کان یراقب‘‘ سے لے کر ’’حتی تعتدل صفوفہم‘‘ تک حدیث رسول نہیں ۔ ابو داؤد میں یہ حدیث تھی: ’’جب اقامت کہی جائے تو تم لوگ کھڑے نہ ہو یہاں تک کہ مجھے دیکھ لو۔‘‘ اس پر علامہ ابن حجر نے علامہ قرطبی کا یہ شبہہ پیش کیا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور اقدس ﷺ کے حجرہ سے نکلنے سے پہلے ہی اقامت کہی جاتی تھی لیکن ’’ مسلم‘‘ میں حضرت جابر بن سمرہ کی یہ حدیث ہے کہ جب تک نبی ﷺ حجرہ سے نکل نہیں لیتے اقامت نہیں کہی جاتی‘‘۔ یہ ابو داؤد کی اس حدیث کے معارض ہے ۔ دونوں میں تطبیق کے لیے خواہ علامہ قرطبی نے خواہ علامہ ابن حجر نے وہ فرمایا جو اس دغاباز نے پہلے حدیث کے نام سے نقل کیا ہے۔ اس کے پہلے خود بذل المجہود میں یہ لفظ ہے: یجمع بینہما أن بلالا۔ اس دغا باز نے اس کو بھی ہضم کر لیا۔ اس نے سوچا ہوگا کس کو پڑی ہے کہ ’’بذل المجہود‘‘ دیکھے گا اور میری یہ خیانت پکڑی جائے گی۔ پھر اس کا کام گمراہ کرنا ہے کتنے لوگ دھوکے میں آجائیں گے۔سَو میں اگر ایک بھی گمراہ ہوا تو شیطان کا کام ہو گیا پھر یہ ہمارے معارض نہیں ہماری کتابوں میں اس کی تصریح ہے کہ اگر اقامت کے وقت امام مسجد سے باہر ہو تو سب لوگ بیٹھے رہیں امام اگر صف کے آگے سے آئے تو امام کو دیکھتے ہی سب لوگ کھڑے ہو جائیں۔ عالمگیری ، شامی وغیرہ میں اس کی تصریح موجود ہے۔ البتہ ’’مصنف عبد الرزاق‘‘ کے حوالے سے جو حدیث نقل کی گئی ہے وہ ’’بذل المجہود‘‘ میں ہے مگر اس پر پہلی گزارش یہ ہے کہ یہ حدیث منقطع ہے۔ ابن شہاب ۵۴ھ میں پیدا ہوئے ، صغار تابعین میں سے ہیں۔ حضور اقدس ﷺ کا زمانہ نہیں پایا اور جس راوی سے انھوں نے سنا ہے ان کا نام نہیں لیا، یہاں دونوں احتمال ہیں کہ ابن شہاب نے کسی صحابی سے سنا ہو یا ابن شہاب نے کسی تابعی سے سنا ہو اور اس تابعی نے کسی صحابی سے سنا ہو دونوں صورتوں میں سند منقطع ہے، پھر اس کی توضیح ظاہر ہے۔ اس حدیث میں مؤذن کے اللہ اکبر کہنے سے مراد اخیر میں اللہ اکبر کہنا ہے یہ اس لیے کہ دوسری احادیث سے تعارض نہ رہے۔ اور یہ جو ہے کہ نبی ﷺ اپنی جگہ نہیں آتے جب تک صفیں درست نہ ہو جاتیں اس سے مراد مصلی پر آنا ہے یعنی مسجد میں تشریف لاکر کہیں اور قیام فرماتے صفیں درست کراتے جب صفیں درست ہو جاتی تو مصلی پر تشریف لا کر نماز شروع فرماتے۔ یہ مضمون لکھنے والا انتہائی عیار ہے اور فریب کار، وہ جانتا ہے کہ کس کو پڑی ہے؟ کس کو فرصت ہے کہ پوری دنیا گھوم کر دیکھے کہاں کیا عمل ہو رہا ہے۔ اس لیے اس نے وہ لکھا۔ کیا اس نے سارے دیوبندیوں کی طرح پوری دنیا کے حنفیوں کو یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ اپنے مذہب کے خلاف اپنی ضد پر عمل کرتے ہیں؟ جب احناف کی کتابوں میں یہ لکھا ہوا ہےکہ امام جب مصلیٰ یا مصلیٰ کے قریب مسجد میں ہو تو بیٹھ کر اقامت سنیں۔ یقیناً دین دار احناف جہاں بھی ہوں گے اس پر عمل کرتے ہوں گے اگر یہ مراد ہے تو اسٹامپ پیپر پر لکھ دے کہ اگر کسی مذہب کی کتاب میں لکھا ہوا ہو کہ جب امام مصلیٰ یا مصلیٰ کے قریب مسجد میں ہو تو امام اور نمازیوں کو اقامت کے وقت بیٹھا رہنا چاہیے ’’حي علی الصلاۃ، حي علی الفلاح‘‘ پر کھڑے ہونا چاہیے تو اس کو دس ہزار انعام۔ اس کو چھٹی کا دودھ یاد دلادیں۔ الغرض یہ مضمون دجل وفریب ہے اس پر التفات کرنا جائز نہیں۔ واللہ تعالی اعلم(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵،(فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved