حضرت شارح بخاری قدس سرہ کا جواب الجواب ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ: (۱)جناب مولانا شاہ بھولے میاں صاحب سے اس فتوی میں کئی لغزشیں ہوئی ہیں: (۱) ہمارے دیار میں دستور ہے کہ امام جب تک مصلے پر آنہیں جاتا اقامت نہیں کہی جاتی، اس صورت خاص میں احناف کا متفق علیہ یہ حکم ہے کہ بیٹھ کر اقامت سنیں، ’’حي علی الصلاۃ، حي علی الفلاح‘‘ پر کھڑے ہوں، مضمرات، عالمگیری، رد المحتار میں ہے: ویکرہ لہ الانتظار قائما ولکن یقعد ثم یقوم إذا بلغ المؤذن ’’حي علی الفلاح‘‘ ۔ ماضی قریب کے مشہور زمانہ عالم مولانا عبد الحی ’’عمدۃ الرعایہ حاشیہ شرح وقایہ‘‘ میں لکھتے ہیں: قولہ: ’’ویقوم الإمام‘‘ الخ أي من مواضعہم إلی الصف، وفیہ إشارۃ إلی أنہ إذا دخل المسجد یکرہ لہ انتظار الصلاۃ قائما بل یجلس في موضع ثم یقوم عند ’’حي علی الفلاح‘‘۔ ان سب کا حاصل یہ نکلا کہ اگر امام مسجد میں ہو تو کھڑے ہو کر اقامت سننا مکروہ ہے ، بیٹھ کر اقامت سنے اور ’’حي علی الفلاح‘‘ پر کھڑا ہو ۔ کراہت اسی وقت ہوگی جب کہ سنت یا واجب کا ترک ہو تو اس سے ثابت کہ بیٹھ کر اقامت سننا سنت اور کھڑے ہو کر سننا خلاف سنت اور بدعت۔ (۲) شاہ صاحب نے اپنے مدعا کے ثبوت میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث پیش کی ہے، اولاً: اس میں یہ نہیں کہ صحابۂ کرام کھڑے رہتے تھے ۔ حدیث کا ترجمہ یہ ہے: ’’رسول اللہ ﷺ کے لیے یعنی حضور کی امامت کے لیے نماز قائم کی جاتی تو لوگ اپنی صف کی جگہ لے لیتے قبل اس کے کہ نبی ﷺ اپنی جگہ کھڑے ہوں‘‘۔ صف کی جگہ لینے کا ایک مطلب یہ بھی ہے۔ صحابۂ کرام اپنی اپنی جگہ صف میں بیٹھ جاتے۔ حدیث میں کوئی لفظ ایسا نہیں جو یہ بتاتا ہو کہ صحابۂ کرام اس وقت کھڑے رہتے تھے ۔ اس کے برخلاف حدیث کا اخیر حصہ ’’قبل اس کے کہ حضور اپنی جگہ پر کھڑے ہوں‘‘ یہ بتاتا ہے کہ حضور کھڑے نہیں رہتے تھے، بیٹھے رہتے تھے۔ اب ہر شخص سوچ سکتا ہے کہ کیا صحابۂ کرام اتنی بڑی گستاخی کریں گے کہ حضور بیٹھے ہوں اور صحابۂ کرام کھڑے ہوں ۔ جب حضور بیٹھے رہتے تھے تو ثابت یہی کہ اقامت کے وقت بیٹھے رہیں۔ ثانیاً: یہ شاہ صاحب کی فہم کے مطابق کلام تھا۔ ورنہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ حضور اقدس ﷺ ابھی حجرۂ مبارکہ ہی میں رہتے مصلی پر تشریف نہیں لاتے کہ اقامت کہہ دی جاتی اور صحابۂ کرام صف میں اپنی اپنی جگہ لے لیتے تو اب صورت یہ ہوئی کہ امام مسجد میں نہیں اور اقامت کہی جا رہی ہے، اس کا ہمارے دیار کے عمل سے کوئی تعلق ہی نہیں، ہمارے دیار میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ امام مسجد میں نہ ہو اور اقامت کہی جائے پھر بھی اس حدیث کی دلالت اس پر نہیں کہ صحابۂ کرام کھڑے رہتے ۔ حدیث کے لفظ سے جو سمجھ میں آتا ہے کہ صحابۂ کرام صف میں اپنی جگہ لے لیتے یہ بیٹھ کر بھی ہو سکتا ہے۔ ثالثاً: اگر یہ مان بھی لیں کہ اس حدیث کی مراد یہی ہے کہ صحابۂ کرام کھڑے رہتے تو یہ ابتدا کی بات ہے۔ امام نووی شرح مسلم میں وہیں جہاں سے شاہ صاحب نے اپنے فتوی میں عبارت نقل کی ہے فرمایا ہے: لعل قولہ -صلی اللہ تعالی علیہ وسلم- فلا تقوموا حتی ترونی کان بعد ذلک۔ ہو سکتا ہے کہ حضور کا یہ ارشاد کہ جب تک مجھے دیکھ نہ لو کھڑے نہ ہو اس کے بعد کا ہے۔ رابعاً:شاہ صاحب بحمدہ تبارک وتعالی حنفی ہیں اور حنفی پر اپنے ائمہ کے ارشادات پر عمل واجب ہے۔ اپنے ائمہ کے ارشادات کے خلاف احادیث سے استدلال کرنا اور اس پر عمل کرنا حنفی کا کام نہیں غیر مقلد کا ہے۔ شاہ صاحب پر حنفی ہونے کی وجہ سے لازم تھا کہ وہ اپنی تائید میں کسی حنفی فقیہ کا کوئی قول پیش کرتے۔ مگر پیش کہاں سے کرتے احناف میں سے کسی کا بھی یہ قول نہیں کہ صورت مذکورہ میں اقامت بیٹھ کر سنی جائے۔ (۳) شاہ صاحب نے عالمگیری کے حوالے سے جو یہ نقل فرمایا ہے کہ امام شمس الدین حلوانی نے فرمایا ہے کہ اختلاف افضلیت میں ہے۔ امام صاحب کے نزدیک شروع تکبیر میں کھڑے ہوجانا افضل ہے ، یہ مجھے عالمگیری کے ص:۲۶ میں نہیں ملا۔ یہ قول تمام متون وشروح کے معارض ہے۔ کنز ، نور الایضاح، اصلاح، ظہیریہ، بدائع، درر، غرر، عیون المذاہب، فیض، وقایہ، نقایہ، حاوی، مختار، ملتقی، ذخیرہ، تنویر الابصار، در مختار، عالمگیری، شامی وغیرہ تمام متون وشروح وحواشی میں اس کی تصریح ہے کہ ہمارے علماے احناف کا اس پر اتفاق ہے کہ اقامت کھڑے ہو کر نہ سنے بیٹھ کر سنے۔ ’’حي علی الصلاۃ‘‘ یا ’’حي علی الفلاح‘‘ پر کھڑا ہو۔ امام زفر اور امام حسن بن زیاد نے فرمایا کہ ’’قد قامت الصلاۃ‘‘ پر کھڑا ہو، پھر یہ امام صاحب کا قول کیسے ہو سکتا ہے کہ شروع اقامت میں کھڑا ہونا افضل ہے۔ اب یاتو عالمگیری میں یہ عبارت سرے سے ہے ہی نہیں یا ہے تو کسی اور مسئلہ سے متعلق ہے یا ہے تو قول شاذ وضعیف ہے۔ قول شاذ وضعیف پر فتوی دینے کو علمانے جہالت وخرق اجماع سے تعبیر فرمایا ہے۔ در مختار میں ہے: الفتيا بالقول المرجوح جہل وخرق للإجماع۔ الفتوی بما ہو مرجوح خلاف الإجماع۔ (۴) ہمیں افسوس ہے کہ شاہ صاحب موصوف نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث کا ترجمہ بھی غلط کیا ہے۔ حدیث میں ہے: ’’فیاخذ الناس مصافہم‘‘ اس کا صحیح ترجمہ یہ ہے: ’’لوگ صفوں میں اپنی جگہ لے لیتے‘‘۔ اور شاہ صاحب نے ترجمہ کیا ہے ’’ہم لوگ کھڑے ہو کر صف درست کر لیتے تھے۔‘‘ حدیث میں کوئی لفظ ایسا نہیں جس کا معنی ’’کھڑے ہو کر‘‘ ہو۔ یا ’’صف درست کر لیا کرتے تھے‘‘ ہو۔ اب یہ شاہ صاحب ہی کو اختیار دیتا ہوں کہ وہ اپنی اس عنایت کا جو چاہیں نام رکھیں۔ (۵) شاہ صاحب نے امام نووی کو امام مسلم کا استاذ بتایا ہے ۔ تعجب ہے امام مسلم کا وصال ۲۶۱ھ میں ہوا ہے اور امام نووی کی ولادت ۶۳۱ھ میں۔ ۶۳۱ھ میں پیدا ہونے والا ۲۶۱ھ میں وفات پانے والے کا استاذ کیسے ہو سکتا ہے ؟ یہ کرامت میری سمجھ سے بالا تر ہے۔ (۶) سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ حنفی ہوتے ہوئے احناف کے متفقہ مسلک کے خلاف امام مالک کے مذہب پر امام مالک کے قول کو پیش کرتے ہیں۔ اگر کوئی شاہ صاحب ہی سے پوچھتا کہ احناف کے متفقہ مذہب کے خلاف بلا ضرورت شرعیہ کسی حنفی کو امام مالک کے مذہب پر عمل کرنا یا امام مالک کے مذہب پر فتوی دینا جائز ہے یا ناجائز؟ تو مجھے یقین ہے کہ یہ مسئلہ لکھنے سے پہلے وہ بھی یہی فرماتے کہ ناجائز ہے۔ عالمگیری،ص:۲۶ کی طرف منسوب جو عبارت شاہ صاحب نے پیش کی ہے اس میں خود تصریح ہے کہ اقامت کے وقت بیٹھنا بھی جائز ہے۔ اب شاہ صاحب سے ایک سوال یہ ہے کہ جب اقامت بیٹھ کر سننی بھی جائز تو جہاں مسلمانوں میں یہ معمول ہے کہ شروع اقامت میں بیٹھے رہتے ہیں ’’حي علی الصلاۃ، حي علی الفلاح‘‘ پر کھڑے ہوتے ہیں وہاں یہ فتوی دینا کہ کھڑے ہو کر اقامت سنو یہ مسلمانوں میں انتشار پھیلانا نہیں تو اور کیا ہے وہ بھی جب کہ ہمارے علماے احناف اس پر متفق ہیں کہ شروع اقامت کے وقت کھڑا رہنا مکروہ ہے۔ (۷) آپ نے امام قاضی عیاض کی پہلی جو عبارت نقل کی ہے وہ اس صورت سے متعلق ہے کہ امام مسجد میں نہ ہو اور اقامت کہی جائے۔ جس حدیث پر امام قاضی عیاض نے وہ عبارت لکھی ہے وہ حدیث یہ ہے: إذا أقیمت الصلاۃ فلا تقوموا حتی تروني قد خرجت۔ جب اقامت کہی جائے تو تم کھڑے نہ ہو یہاں تک کہ مجھے دیکھ لو کہ میں حجرے سے باہر آگیا۔ اس صورت میں ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ اگر امام آگے سے آرہا ہو تو اسے دیکھتے ہی مقتدی کھڑے ہو جائیں۔ حضور اقدس ﷺ کی عادت کریمہ تھی کہ حجرۂ مبارکہ میں تشریف رکھتے جب اقامت کہی جاتی تو حجرے سے باہر تشریف لاتے ، صحابۂ کرام حضور کے تشریف لانے کے پہلے ہی سے کھڑے ہو جاتے اس پر حضور اقدس ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا: اقامت کہی جائے تو تم لوگ کھڑے نہ ہو بیٹھے رہو جب مجھے دیکھو تو کھڑے ہو۔ اس مسئلے کی صورتیں چار ہیں: اول: اقامت کہنے والا امام کا غیر ہو، امام اور مقتدی سب مسجد میں حاضر ہوں۔ جیسا کہ ہمارے دیار کا عام دستور ہے ۔ اس صورت میں حکم یہ ہے کہ امام ومقتدی سب بیٹھ کر اقامت سنیں ’’حي علی الصلاۃ، حي علی الفلاح ‘‘ پر کھڑے ہوں۔ دوم: امام مسجد کے باہر ہو اور اقامت کہی جائے اور امام نمازیوں کے آگے سے آئے۔ اس صور ت میں حکم یہ ہے کہ جب مقتدی کی نظر امام پر پڑے تو سب کھڑے ہو جائیں حتی کہ اگر اقامت ختم ہو جائے اور امام نہ آئے تو مقتدی بیٹھے رہیں۔ سوم: جب اقامت کہی جائے اور امام مسجد کے باہر ہو اور صف کے پیچھے سے آئے اس صورت میں حکم یہ ہے کہ امام جس صف تک پہنچے اس صف والے کھڑے ہو جائیں۔ چہارم: امام ہی تکبیر کہہ رہا ہو تو حکم یہ ہے کہ جب تک امام پوری تکبیر نہ کہہ لے مقتدی کھڑے نہ ہوں۔ واللہ تعالی اعلم (۲) خطبے کی اذان حضور اقدس ﷺ اور حضرات صدیق اکبر وفاروق اعظم اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں مسجد کے باہر منبر کے سامنے مسجد کے دروازے پر ہوتی تھی۔ ابو داؤد شریف میں ہے حضرت سائب بن یزید رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے: ’’ كَانَ يُؤَذَّنُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ الله -صلى الله عليه وسلم- إِذَا جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ وَأَبِى بَكْرٍ وَعُمَرَ. (وفی روایۃ فلما کان عثمان وکثر الناس زاد النداء الثالث علی الزوراء )۔ حضور اقدس ﷺ جب جمعہ کے دن منبر پر تشریف رکھتے تو حضور کے سامنے مسجد کے دروازے پر اذان ہوتی تھی اور ایسا ہی حضرت ابو بکر و حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے زمانے میں بھی ہوتا تھا ۔ (جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کا زمانہ آیا اور لوگ زیادہ ہو گئے تو پہلی اذان زوراء پر دلانے لگے۔) رہ گئی اذان خطبہ وہ حسب سابق مسجدکے درواز ے پر ہوتی تھی۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ خطبہ کی اذان بھی مسجد کے باہر ہونا چاہیے البتہ اس کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ خطیب کے سامنے ہو مگر ہو مسجد کے باہر ۔ اس لیے حدیث کی نص صریح کے مطابق مسلمانوں پر لازم ہے کہ سنت کے مطابق یہ اذان خطیب کے سامنے مسجد کے باہر دلوائیں۔ منبر کے متصل خطیب کے سر پر مسجد کے اند ر ہر گز ہر گز اذان نہ دیں۔ فقہاے احناف نے مطلقا ً مسجد کے اندر اذان دینے کو مکروہ فرمایا اور اس سے منع کیا، خانیہ، خلاصہ، خزانہ، ہندیہ، شرح نقایہ، علامہ برجندی، فتح القدیر میں ہے: لا یؤذن في المسجد۔ فتح القدیر خاص باب جمعہ میں ہے: لکراہۃ الأذان في داخلہ۔ طحطاوی علی المراقی میں قہستانی اور اس میں نظم امام زندویستی سے ہے: یکرہ أن یؤذن في المسجد۔ مسجد میں اذان دینا مکروہ ہے۔ اس میں نہ کسی اذان کی تخصیص ہے نہ اذان خطبہ کا استثنا۔ اس لیے اس کے اطلاق میں اذان خطبہ بھی داخل، اس لیے دیگر اذانوں کی طرح اذان خطبہ بھی مسجد میں دینا مکروہ ہے۔ رہ گیا شاہ صاحب کا فقہاے کرام کےاس ارشاد سے کہ انھوں نے فرمایا ’’خطبہ کی اذان خطیب کے سامنے دی جائے‘‘یہ استدلال کہ یہ اذان مسجد کے اند رمنبر کے متصل خطیب کے سر پر دی جائے درست نہیں اس لیے کہ سامنے کا معنی کسی لغت میں متصل نہیں ہیں۔ آپ ابو داؤد شریف کی حدیث ہی دیکھ لیجیے اس میں ’’بین یدیہ‘‘ (سامنے) بھی ہے اور ’’علی باب المسجد‘‘ بھی ہے۔ جب کہ اس عہد میں یہ فاصلہ تقریبا چھیانوے ہاتھ ضرور تھا۔ اس لیے مسجد اقدس عہد رسالت میں سو ہاتھ لمبی، ساٹھ ہاتھ چوڑی تھی۔ تو جب حدیث کی نص صریح کے مطابق چھیانوے ہاتھ کے فاصلے پر یہ صادق ہے کہ یہ اذان منبر کے سامنے ہوتی تھی تو اس سے یہ استدلال کہ یہ اذان متصل ہو ساقط۔ مولانا عبد الحی لکھنوی عمدۃ الرعایہ حاشیہ شرح وقایہ میں لکھتے ہیں: قولہ بین یدیہ أي مستقبل الإمام داخل المسجد کان أو خارجہ والمسنون ھو الثاني۔ یعنی ’’بین یدیہ‘‘ کے معنی صرف اس قدر ہیں کہ امام کے سامنے ہو ، یہ مسجد کے اندر پر بھی صادق اور باہر پر بھی۔ مسنون یہی ہے کہ یہ اذان مسجد کے باہر دی جائے۔ ’’بذلک جری التوارث‘‘ سے مراد یہ کسی طرح نہیں کہ ’’مسجد کے اندر اذان دینے میں توارث ہے‘‘ اس لیے کہ اوپر یہ کہیں مذکور ہی نہیں کہ خطبہ کی اذان مسجد کے اندر دی جائے۔ مذکور صرف یہ ہے کہ یہ اذان خطیب کے سامنے دی جائے۔ یعنی خطبے کے علاوہ بقیہ اذانوں کے لیے شریعت کی طرف سے کوئی جگہ مقرر نہیں ، مسجد کے باہر جہاں مناسب ہو دیں لیکن اذان خطبہ کے بارے میں یہ توارث ہے کہ خطیب کے سامنے مسجد کے باہر ہونی چاہیے۔ حیرت ہے کہ اقامت کے وقت بیٹھنے والے مسئلے میں شا ہ صاحب قبلہ فقہا کے ارشادات کے خلاف حدیث سے اپنی فہم کے مطابق استدلال کر رہے ہیں، وہ بھی توڑ مروڑ کر۔ اور اذان ثانی کے مسئلے میں حدیث کے صحیح ارشاد کو چھوڑ کر فقہا کے ارشادات کے غلط معنی پہنا کر استدلال کر رہے ہیں۔ زیادہ حد ادب ۔ رہ گیا اخیر میں شاہ صاحب کا یہ کہنا کہ تاج العارفین حضرت فضل رحمٰن صاحب گنج مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ کو یہ مسئلہ نظر نہ آیا۔ انھوں نے مسجد کے اندر ہی اذان دلوائی باہر نہیں دلوائی۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے وہابی کہتے ہیں کہ میلاد شریف، قیام، عرس، فاتحہ جس ہیئت کے ساتھ آج رائج ہے اگر کوئی اچھا کام ہوتا تو حضور نے بھی کیا ہوتا۔ اور صحابہ نے بھی کیا ہوتا اور تابعین نے بھی کیا ہوتا۔ جو جواب شاہ صاحب اس کا دیں گے وہی جواب ہم شاہ صاحب کے معارضہ کا دیں گے ورنہ بالکل بات واضح ہے جب حدیث اور فقہاے کرام کے ارشادات سے یہ ثابت ہے کہ خطبہ کی اذان مسجد کے باہر ہونی چاہیے تو اس کی کوئی وقعت نہیں رہ جاتی کہ فلاں فلاں بزرگوں نے ایسا نہیں کیا۔ ہمارے لیے سب سے بڑی دلیل قرآن وحدیث وارشادات فقہا ہیں، بلکہ غور کیجیے کہ اس موقعے پر ان بزرگوں کو پیش کرنا حقیقت میں ان کی عظمت کو داغ دار کرنا ہے ۔ کوئی بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ بزرگ اس حدیث اور فقہا کے ارشادات سے واقف نہیں تھے، یا واقف تھے تو انھوں نے جان بوجھ کر حدیث کے خلاف اور فقہا کے ارشادات کے خلاف عمل کیا تو شاہ صاحب کو جواب مشکل ہو جائے گا۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ حدیث اور فقہاے کرام کے ارشادات سے جو حکم ثابت ہے اس پر عمل کریں۔ اسی میں نجات ہے اسی میں فلاح ہے۔ واللہ تعالی اعلم(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵،(فتاوی شارح بخاری))
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org