8 September, 2024


دارالاِفتاء


زید اس مسئلہ کو درست کہتا ہے لیکن بکر درست نہیں کہتا۔ براے کرم کتاب وسنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔ عین نوازش ہوگی۔ عَن جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُول اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: إِنَّ بِلَالًا كَانَ يُرَاقِبُ خُرُوجَ النَّبِيِّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فَأَوَّلَ مَا يَرَاهُ يَشْرَعُ فِي الْإِقَامَةِ قَبْلَ أَنْ يَرَاهُ غَالِبُ النَّاسِ، ثُمَّ إِذَا رَأَوْهُ قَامُوا فَلَا يَقُومُ فِي مَقَامِهِ حَتَّى تَعْتَدِلَ صُفُوفُهُمْ۔ قُلْتُ وَيَشْهَدُ لَهُ مَا رَوَاهُ عبد الرَّزَّاق عَن ابن جريج عَن ابن شِهَابٍ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا سَاعَةَ يَقُولُ الْمُؤَذِّنُ اللَّهُ أَكْبَرُ يَقُومُونَ إِلَى الصَّلَاةِ فَلَا يَأْتِي النَّبِيُّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- مَقَامَهُ حَتَّى تَعْتَدِلَ الصُّفُوفُ۔(بذل المجہود شرح أبو داؤد،ج:۱ص:۳۰۷) ترجمہ: بے شک بلال انتظار کرتے تھے نبی ﷺ کے نکلنے کا لہذا جیسے ہی حضور کو دیکھتے اقامت شروع کر دیتے تھے اس سے پہلے کہ اکثر لوگ آپ کو دیکھتے پھر جب لوگ حضور کو دیکھ لیتے کھڑے ہو جاتے پس حضور اپنے مقام (مصلیٰ) پر نہیں کھڑے ہوتے یہاں تک کہ ان کی صفیں سیدھی کر دی جاتیں اور اس کی شہادت اس سے بھی ہوتی ہے جسے عبد الرزاق نے ابن جریج سے انھوں نے ابن شہاب سے نقل کی ہے کہ لوگ اس وقت کھڑے ہوتے تھے جب مؤذن اللہ اکبر کہتا تھا نماز کے لیے۔ پس نہیں آتے تھے نبی ﷺ اپنے مقام پر (مصلےٰ) یہاں تک کہ صفیں سیدھی کر دی جاتی تھیں۔ حضرت انس بن مالک نے روایت بیان کی کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جس نے میرے حکم اور فرمان سے انکار کیا وہ میرا نہیں (یعنی میرا امتی نہیں)۔ (بخاری شریف،ج۲،ص:۷۵۷) ایک حدیث میں عبد اللہ بن زبیر سے روایت ہے کہ دو آدمیوں میں پانی پر جھگڑا ہو رہا تھا وہ دونوں حضور کے پاس گئے ۔ آپ نے فیصلہ یہودی کے حق میں کر دیا تو مسلمان نے آپ کا فیصلہ نہیں مانا اور حضرت عمر کے پاس گئے تو یہودی نے کہا کہ حضور نے میرے حق میں فیصلہ دیا ہے تو حضرت عمر نے اس مسلمان کی گردن اڑادی تب یہ آیت نازل ہوئی: فلا وربک لا یومنون۔ (پارہ :۵، تفسیر روح البیان،ص:۶۵، رکوع،۹) جس کا ترجمہ یہ ہے : تیرے رب کی قسم تیرے حکم کو نہیں ماننے والا یعنی تیری بات کو نہیں ماننے والا ، آپ کے فیصلے کو نہیں مانے والا مومن مسلمان نہیں۔ امام اعظم رحمہ اللہ کا قول ہے:أترکوا قولي بخبر رسول اللہ ﷺ۔ اگر آپ کی حدیث کے خلاف میرا قول ٹکراتا ہو تو میرا قول چھوڑ دینا۔ بھائیو! آپ نے حضور کے فرمان سے انکار کرنا پڑھ لیا اور اللہ اکبر کی حدیث پڑھ لی اور امام اعظم کا قول بھی پڑھ لیا اس کے بعد بھی اگر کوئی شخص اپنی ضد پر اڑا رہے وہ اپنی عاقبت خراب کر رہا ہے اور دوسروں کی بھی۔ جو اس حدیث کو، قرآن کو اور قول کو جھٹلائے وہ ہمارے پاس آکر دیکھ سکتا ہے اور جو غلط ثابت کر دے اس کو دس ہزار روپیہ کا انعام دیا جائے گا۔

فتاویٰ #1517

بسم اللہ الرحمن الرحیم – الجواب ــــــــــــــ: پہلی بات تو یہ کہ آپ نے حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث نقل کرنے میں فحش غلطی کی ہے آپ نے لکھا ہے: عن جابر بن سمرۃ قال: قال رسول اللہ ﷺ: إن بلالا کان یرقب (الحدیث) یہ حدیث مسلم شریف کی ہے اس میں قال: قال رسول اللہ ﷺ نہیں۔ اور بذل المجہود میں بھی نہیں ۔ اس میں معنوی سقم یہ ہوا کہ ’’ان بلالا کان یرقب ‘‘ پوری حدیث حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ کا قول ہے، آپ نے قال: قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کہہ کر حضور اقدس ﷺ کا قول بنا دیا جس سے حدیث کا پورا مضمون خبط ہو گیا اس سے ثابت ہوا کہ آپ میں بد دیانتی بھی ہے کہ جو رسول اللہ ﷺ کا ارشاد نہیں ہے اسے رسول اللہ ﷺ کا ارشاد بنا دیا جس کی وجہ سے آپ نے اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لیا جیسا کہ حدیث متواتر میں ہے: من کذب عليّ متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار۔ یہ بد دیانتی اور جہالت اس کے باوجود مجتہد بن کر حدیث سے حکم شرعی نکالنے بیٹھ گئے، سچ فرمایا ہے حضور اقدس ﷺ نے: ’’فأفتوا بغیر علم فضلوا وأضلوا‘‘۔ اب آپ سے اس کی کیا شکایت کہ جو حدیث آپ پر رد تھی اس کو اپنی دلیل بنایا۔ آپ ہی کے نقل کردہ الفاظ یہ ہیں ’’ثم إذا رؤہ قاموا‘‘ جب لوگ حضور کو دیکھتے تو کھڑے ہو جاتے ۔ اس سے ظاہر کہ اس سے پہلے بیٹھے رہتے۔ آپ نے خود ہی ترجمہ یہ کیا ہے: ’’بےشک بلال انتظار کرتے تھے نبی ﷺ کے نکلنے کا لہذا جیسے ہی حضور کو دیکھتے اقامت شروع کر دیتے تھے اس سے پہلے کہ اکثر لوگ آپ کو دیکھتے پھر جب لوگو حضور کو دیکھ لیتے کھڑے ہو جاتے ۔ ‘‘ اس سے ثابت کہ اقامت ہوتی رہتی ، صحابۂ کرام بیٹھے رہتے جب تک حضور کو نہیں دیکھتے ۔ ہاں! جب حضور کو دیکھتے تو کھڑے ہو جاتے اور یہی احناف کا بھی مذہب ہے کہ اگر امام اقامت کے وقت مسجد سے باہر ہو اور لوگ امام کو نہ دیکھ رہے ہوں تو بیٹھے رہیں اور اگر امام کو دیکھ لیں تو کھڑے ہو جائیں۔ رہ گئی عبد الرزاق والی حدیث نیز حضرت ابو ہریرہ کی حدیث اس کا محمل یہ ہے کہ ابتداءً صحابۂ کرام شروع اقامت ہی سے کھڑے رہتے اس لیے حضور اقدس ﷺ نے فرمایا: ’’إذا أقیمت الصلاۃ فلا تقوموا حتی تروني‘‘۔ جب اقامت کہی جائے تو تم لوگ کھڑے نہ ہو (بیٹھےرہو) یہاں تک کہ مجھے دیکھ لو کہ حجرے سے نکلا۔ اس حدیث کو امام احمد نے اپنی مسند میں، شیخین نے اپنی صحیحین میں، ترمذی، نسائی، دارمی نے سیدنا حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی ہے ۔ اس کاتب کے دل میں خدا کا خوف اور دین داری تو ہے نہیں اور عقل بھی نہیں، بے پڑھے لکھے عوام کو گمراہ کرنا اس کا کام ہے، عوام اس کی باتوں کو نہ سنیں جو بھی عقل والا حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ والی حدیث پر غور کرے گا اس کی سمجھ میں یہ بات آجائے گی کہ صحابۂ کرام اقامت کے وقت شروع میں کھڑے رہتے تھے اسی سے حضور نے منع فرمایا اگر لوگ کھڑے نہ رہتے تو منع کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ ممانعت کے بعد صحابۂ کرام کے ان افعال کو جو ممانعت سے پہلے وہ کیا کرتے تھے دلیل بنانا گمراہی ہے۔ وہ دن دور نہیں کہ یہ کاتب علانیہ شراب پیے گا اور اس کو جائز کہے گا اور دلیل میں شراب سے ممانعت سے پہلے کے وہ واقعات پیش کرے گا جس میں لوگوں کا شراب پینا مذکور ہے۔ یہ دین داری نہیں دین کو ڈھانا ہے۔ حضرات مجتہدین کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین تمام احادیث پر نظر رکھتے تھے ، ناسخ، منسوخ سے واقف تھے انھوں نے قرآن واحادیث سے استخراج کر کے جو منقح مسائل فقہ کی کتابوں میں تحریر کر دیے ہیں ہم کو انھیں پر عمل کرنا واجب ہے۔ اور آج کل کے جاہل حدیث کی ایک آدھ کتاب پڑھ کر فقہ کے خلاف بولتے ہیں وہ بھی اس دیدہ دلیری کے ساتھ کہ حضور اقدس ﷺ کے ساتھ جھوٹ باندھتے ہیں ان پر کان نہ دھریں۔ اقامت کے وقت عوام بیٹھے رہیں اگر امام مسجد سے باہر ہو تو اسے دیکھتے ہی کھڑے ہو جائیں، احادیث میں یہی صورت مذکور ہے اور اگر امام مصلے پر ہو یا مصلے کے قریب مسجد میں ہو تو امام ومقتدی دونوں بیٹھے بیٹھے اقامت سنیں جب مؤذن ’’حي علی الصلاۃ‘‘ پر پہنچے تو کھڑے ہونا شروع کریں،’’حي علی الفلاح‘‘ پر سیدھے کھڑے ہو جائیں۔ واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵،(فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved