8 September, 2024


دارالاِفتاء


عن السائب بن یزید قال: كَانَ يُؤَذَّنُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ الله -صلى الله عليه وسلم- إِذَا جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ۔ اس حدیث سے بظاہر اذان خطبہ مسجد کے دروازے پر ہونا ثابت ہوتا ہے۔ لیکن فقہاے احناف کی تشریحات اور حدیث مذکور میں تضاد معلوم ہوتا ہے جیسا کہ ذیل میں ہے: (الف) نور الایضاح میں ہے: والأذان بین یدیہ کالإقامۃ (یعنی خطبہ کی اذان امام کے سامنے اقامت کی طرح کہنا سنت ہے۔) (ب) مراقی الفلاح میں ہے: والأذان بین یدیہ جری بہ التوارث کالإقامۃ بعد الخطبۃ۔ یعنی خطبہ کے بعد اقامت کی طرح خطیب کے سامنے قریب سے خطبہ کی اذان دینے کا معمول چلا آ رہا ہے۔ (ج) امداد الفتاح میں ہے : والأذان بین یدیہ کالإقامۃ سنۃ۔ یعنی خطیب کے سامنے قریب سے اذان دینا اقامت کی طرح سنت ہے۔ (د) ’’ما لا بد منہ‘‘ میں ہے : ’’چوں امام بر منبر بہ نشیند اذان دوم روبروے او گفتہ شود‘‘ ذیل میں لفظ ’’بین یدیہ‘‘ اور ’’علی باب المسجد‘‘ پر اشکال ہے۔ اشکال دور فرما کر لفظ ’’بین یدیہ‘‘ اور ’’علی باب المسجد‘‘ کی شرح کیجیے تاکہ مسئلہ بالکل واضح ہو جائے۔ (۱) آثار السنن میں مذکورہ بالا حدیث نقل کرنے کے بعد تحریر ہے (قال البغوي: علی باب المسجد غیر محفوظ) علی باب المسجد غیر محفوظ سے کیاثابت ہوتا ہے۔ (۲) اگر مذکورہ بالا حدیث معمول بہ ہے تو فقہاے احناف نے اس حدیث سے روگردانی کیوں کی؟ (۳) بین یدیہسے قریب کا سامنا مراد لیا جائے یا دور کا۔ اگر دور کا مراد لیا جائے تو اس حدیث ’’خرج علینا رسول اللہ -صلی اللہ تعالی علیہ وسلم- بالہاجرۃ فصلی بالبطحاء الظہر والعصر رکعتین ونصب بین یدیہ عنزۃ ‘‘ میں امام اور سترہ کی دوری کیا ہوگی جیسا کہ علامہ ابن عابدین شامی فرماتے ہیں: السنۃ أن لا یزید ما بین وبینہا علی ثلثۃ أذرع‘‘۔ یعنی سنت یہ ہے کہ نمازی اور سترہ کے درمیان تین ہاتھ سے زیادہ فاصلہ نہ ہو۔ (۴) کس علت کی وجہ سے بخاری، نسائی مشکات اور خود ابو داؤد کی ایک روایت میں علی باب المسجد کا لفظ نہیں ہے اگر چہ راوی سائب بن یزید ہی ہیں؟ ہر دو حدیثوں اور فقہاے احناف کی عبارتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسی تحقیق پیش کیجیے تاکہ تضاد رفع ہو جائے اور اشکالات ختم ہو کر مسئلہ بالکل واضح ہو جائے۔

فتاویٰ #1482

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم – الجواب ــــــــــــــــــــ: (۱-۴) اذان خطبہ کے سلسلے میں مخالفین کے اس قسم کے سارے شبہات کے جوابات نوے سال پہلے علماے اہل سنت بھرپور دے چکے ہیں جس کے جواب سے مخالفین کے بڑے بڑے چوٹی کے علما عاجز رہے ہیں، آپ کو تحقیق کا شوق ہے تو ’’وقایۃ أہل السنۃ، أذان من اللہ، سد الفرار‘‘ وغیرہ کا مطالعہ کریں، یا چاہیں تو یہ دو کتابیں مطالعہ کرلیں ’’اذان خطبہ کہاں ہو؟، تنقید بر محل‘‘۔ جن باتوں کا بار بار جواب دیا جا چکا ہے، جس کے جواب سے بڑے بڑے عاجز رہ کر دنیا سے جا چکے ان کو دوبارہ لوٹانا دیانت نہیں ، بہر حال صرف ا س لیے کہ آپ کی چار آنکھیں ہو جائیں گی اور کہیں گے کہ ہمارے سوالوں کا جواب نہیں دیا، چند باتیں معروض ہیں۔ ’’بین یدیہ‘‘ کے معنی سامنے کے ہیں اور یہ دور ونزدیک سب پر صادق ،قرآن مجید میں ہے: يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ اللہ تعالی ان کے آگے پیچھے کی تمام چیزوں کو جانتا ہے ۔ کون ایمان دار یہ کہے گا کہ اس آیت میں مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی لوگوں کے آگے کا دو گز اور پیچھے کا دو گز جانتا ہے۔ ہر مسلمان اس آیت سے یہی سمجھتا ہے کہ یہ ’’بین یدیہ‘‘ محدود نہیں، خود ابو داؤد کی حدیث میں ’’بین یدیہ‘‘ بھی ہے ’’وعلی باب المسجد‘‘ بھی ہے۔ مسجد کا دروازہ منبر اقدس سے کم از کم چورانوے ہاتھ دور تھا اس لیے کہ مسجد اقدس حضور ﷺ کے زمانے میں سو ہاتھ لمبی اور سو ہاتھ چوڑی تھی منبر کو فرض کر لیجیے کہ تین یا چار ہاتھ ہوگا منبر اور دیوار قبلہ میں کچھ فاصلہ بھی رہا ہوگا۔ سب ملا کر حد سے حد چھ ہاتھ رہا ہوگا تو جب حدیث میں وارد ’’بین یدیہ‘‘ چورانوے ہاتھ کی دوری پر صادق تو یہ کہنا کہ ’’بین یدیہ‘‘ صرف دو تین ہاتھ تک خاص ہے حدیث صحیح کو جھٹلانا ہے ۔ آپ نے جو فقہ کی عبارتیں پیش کی ہیں ان میں ’’بین یدیہ‘‘ ہے۔ جن کا ترجمہ مالا بند منہ میں ’’رو برو‘‘ کیا ہے یعنی سامنے اور جب ’’بین یدیہ‘‘ حدیث کی نص صریح کے مطابق چورانوے ہاتھ کی دوری، خارج مسجد، دروازہ پر صادق تو ان عبارات کو حدیث کے معارض سمجھنا کسی طرح صحیح نہیں جب حدیث میں بھی ’’بین یدي‘‘ ہے اور ان عبارات میں بھی ’’بین یدي‘‘ ہے تو تضاد کیسا؟ اگر آپ کو ’’کالإقامۃ‘‘ سے شبہہ ہوتا ہوتو آپ خود غور کیجیے ’’امداد الفتاح میں ’’سنۃ‘‘ کہہ کر اس شبہے کو ختم کر دیا، مطلب یہ ہوا کہ اذان خطبہ کی تشبیہ اقامت کے ساتھ صرف اس بات میں ہے کہ دونوں سنت ہیں، اور اگر آپ یہ نہ مانیں بلکہ یہ کہیں کہ یہ تشبیہ بجمیع وجوہ ہے تو لازم آئے گا کہ اذان خطبہ کی طرح اقامت بھی امام کے سامنے کہی جائے نہ کہ امام کے پیچھے۔ نور الایضاح کی عبارت کا مطلب صاف صاف یہ ہوا کہ جمعہ کی اذان خطیب کے سامنے کہی جائے۔ اس اذان کے خطیب کے سامنے ہونے ہی پر توارث ہے یعنی اور اذانوں کے لیے کوئی خاص طرف مخصوص نہیں مگر اذان خطبہ کے لیے سنت یہ ہے کہ خطیب کے سامنے ہو، اسی پر عمل در آمد ہے، یہی سنت ہے جیسے اقامت کا خطبہ کے بعد ہونا سنت ہے۔ آپ نے مراقی الفلاح کے ترجمہ میں بڑی جراَت کی ہے کہ ’’قریب‘‘ کا لفظ بڑھا دیا ہے۔ ’’بین یدیہ‘‘ کے معنی میں قریب کا ہونا داخل نہیں۔ چلیے آئیے ایک غیر جانب دار عالم کی بات سنیے مولانا عبد الحی لکھنوی عمدۃ الرعایۃ حاشیہ شر وقایہ میں شارح کے قول ’’بین یدیہ‘‘ پر لکھا: في المسجد کان أو خارجہ والمسنون ہو الثانی۔ ’’بین یدیہ‘‘ داخل مسجد پر بھی صادق اور خارج مسجد پر بھی صادق۔ خطبے کی اذان میں سنت یہی ہے کہ مسجد کے باہر ہو۔ اس عبارت سے دو باتیں ثابت ہوئیں: ایک یہ کہ ’’بین یدیہ‘‘ کے معنی قریب کے نہیں صرف روبرو اور سامنے کے ہیں تو قریب وبعید دونوں پر صادق۔ دوسری بات یہ کہ سنت یہی ہے کہ اذان خطبہ مسجد سے باہر ہو۔ آثار السنن کے دیوبندی مصنف کا اپنے مذہب کی بےجا پاس داری میں یہ کہنا کہ ’’علی باب المسجد‘‘ غیر محفوظ ہے فریب کاری ہے۔ اس کی تائید میں سائب بن یزید رضی اللہ تعالی عنہ کی وہ روایتیں پیش کرنا جن میں ’’علی باب المسجد‘‘ نہیں، اصول حدیث سے ناواقفی کی دلیل ہے، محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ ثقہ کی زیادتی مقبول ہے، ابو داؤد کی اس حدیث کے تمام رواۃ ثقہ ہیں اس لیے ’’علی باب المسجد‘‘ کو غیر محفوظ کہنا زیادتی ہے، یہ تو میں نہیں کہہ سکتا کہ آثار السنن کا دیوبندی مصنف اس قاعدے کو نہیں جانتا تھا ، جان بوجھ کر آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے۔ علاوہ ازیں امام اجل فخر الدین رازی نے ’’تفسیر کبیر‘‘ میں پھر زمخشری نے ’’کشاف‘‘ میں پھر ’’تفسیر نیشاپوری‘‘ میں پھر ’’فتوحات الہیہ‘‘ میں ’’علی باب المسجد‘‘ کا لفظ موجود ہے ۔ فتوحات الہیہ میں اتنا زائد ہے: وعلي بالکوفۃ۔ اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کوفہ میں اذان خطبہ مسجد کے دروازے پر دلواتے ۔ امام شعرانی نے ’’کشف الغمہ‘‘ میں فرمایا: وکان الأذان علی باب المسجد۔ یہ اذان مسجد کے دروازے پر تھی۔ اخیر میں دیوبندی مذہب کے امام ثالث مولوی خلیل احمد انبیٹھی کا ایک اعتراف پیش کر رہے ہیں ۔ اس حدیث کے تحت بذل المجہود میں ہے: ولامنافاۃ بین یدي رسول اللہ ﷺ وبین علی باب المسجد فإن باب المسجد ہذا کان في جہۃ الشمال فإذا جلس رسول اللہ ﷺ علی المنبر للخطبۃ یکون ہذا الباب قدامہ فکونہ بین یدیہ عام شامل لما کان في محاذاتہ أو شیئا منحرفا إلی الیمین أو الشمال أو یکون علی الأرض أو الجدار۔ بین یدي اور علی باب المسجد میں منافات نہیں اس لیے کہ مسجد کا دروازہ شمال جانب تھا جب رسول اللہ ﷺ منبر پر خطبے کے لیے بیٹھتے تو یہ دروازہ حضور کے سامنے ہوتا ’’بین یدیہ‘‘ عام ہے اسے بھی شامل ہے جو محاذات میں ہو اور اسے بھی جو کچھ دائیں بائیں ہو زمین پر ہو یا دیوار پر ۔ یہ تصریح کر رہے ہیں کہ ’’بین یدیہ‘‘ (روبرو) اور ’’علی باب المسجد‘‘ میں منافات نہیں جب کہ یہ فاصلہ ۹۴؍ہاتھ یعنی ایک سو اکتالیس فٹ کا کم از کم ہے یہ اسی وقت صحیح ہوگا کہ ’’بین یدیہ‘‘ کا معنی قریب کے نہ لیے جائیں بلکہ عام ہوں خواہ قریب ہو یا دور ؛اس لیے فقہ کی کتابوں میں وارد ’’بین یدیہ‘‘ سے یہ دلیل لانا کہ یہ اذان منبر کے متصل ہونی چاہیے فاسد ہے۔ مزید دیوبندیوں کے یہی بزرگ اسی کتاب میں اسی حدیث کے تحت لکھتے ہیں : ہذا الحدیث استدل بہ علی کراہیۃ الأذان في المسجد، وقالوا: إن باب المسجد کان خارجا منہ فأذن علیہ فیکرہ الأذان في الداخل۔ اس حدیث سے اس پر دلیل قائم کی گئی ہے کہ مسجد میں اذان مکروہ ہے؛ اس لیے کہ مسجد کا دروازہ مسجد سے خارج تھا اور یہ اذان دروازے پر ہوتی تھی تو ثابت ہوا کہ اذان مسجد کے اندر مکروہ ہے۔ نیز دیوبندی جماعت کے دوسرے بہت بڑے بزرگ انور شاہ کشمیری ’’العرف الشذی‘‘ جلد اول ص:۱۱۶ پر لکھتے ہیں: ولکن في سنن أبي داؤد ،ص:۱۵۵، ما یدل أن یکون في خارج المسجد۔ لیکن سنن أبي داؤد ص:۱۵۵ پر جو حدیث ہے وہ اس پر دلالت کرتی ہے کہ اذان خطبہ مسجد کے باہر ہونی چاہیے۔ دیوبندی جماعت کے صف اول کے منتخب روزگار دو بزرگوں نے یہ تصریح کردی کہ ابو داؤد کی ص:۱۵۵، والی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ مسجد کے اندر یہ اذان دینا مکروہ ہے۔ مسجد کے باہر ہونی چاہیے۔ نیز یہ بھی ثابت ہو گیا کہ ان دونوں دیوبندی بزرگوں کے نزدیک ابو داؤد کی یہ حدیث جس میں ’’علی باب المسجد‘‘ مذکور ہے صحیح اور لائق حجت ہے غیر محفوظ اور ساقط الاعتبار نہیں۔ اگر ان دونوں دیوبندی بزرگوں کے نزدیک ’’علی باب المسجد‘‘ کا اضافہ غیر محفوظ ہوتا تو اس سے دلیل نہیں لاتے، بے دھڑک کہہ دیتے کہ یہ دونوں غیر محفوظ ہیں۔ واضح ہو کہ آثار السنن کے دیوبندی مصنف کے مقابلے میں خلیل احمد انبیٹھی صاحب اور انور شاہ کشمیری صاحب کا درجہ خود دیوبندی جماعت میں بہت بلند ہے اور یہ دونوں ان کے مقابلے میں ہر طرح لائق ترجیح ہیں ۔ یہ آپ کی غلط فہمی ہے کہ علماے احناف نے روگردانی کی۔ حدیث میں بھی ’’بین یدیہ‘‘ ہے اور آپ نے جو فقہاے کرام کی عبارتیں نقل کی ہیں ان میں بھی’’ بین یدیہ‘‘ہے یہ روگردانی ہے یا حدیث کی پوری پوری متابعت؟ آپ نے سترے والی حدیث میں وارد لفظ ’’بین یدیہ‘‘ سے جو معارضہ کیا ہے وہ بھی عجلت میں کر دیا ہے، ہم نے یہ کب کہا کہ ’’بین یدیہ‘‘ صرف دور ہی پر صادق ہے قریب پر صادق نہیں۔ ہمارا یہ کہنا ہے کہ ’’بین یدیہ‘‘ کا معنی مطلقا (روبرو) سامنے کے ہیں وہ سامنا خواہ قریب ہو خواہ بعید، حد نظر تک انسان کے پیش نظر جو مسافت ہے وہ سب اس کے سامنے اور بین یدیہ ہے قریب کے بھی اور دور کے بھی۔ کہیں قریب مراد ہوگا کہیں دور، سیاق جہاں جس کو متعین کرے۔ سترہ والی حدیث میں قریب اس بنا پر مراد ہے کہ گزرنے والوں پر دقت نہ ہو۔ سترے کے باہر سے نماز کی حالت میں گزر سکیں، اگر سترہ بہت دور گاڑا جائے گا تو سترے کا مقصد فوت ہوجائے گا اس لیے سترہ والی حدیث میں قریب [مراد۔ ش]ہے اور حدیث ابو داؤد میں ’’بین یدیہ‘‘ کے ساتھ ’’علی باب المسجد‘‘ بھی مذکور ہے اس لیے اس سے مراد دور ہے۔ علاوہ ازیں اذان اعلام غائبین کے لیے ہے مسجد کے اندر کہی جائے گی تو اعلام غائبین حاصل نہ ہوگا۔ اس کو مسجد کے باہر ہونا ضروری ہے تاکہ اذان کا مقصد حاصل ہو جائے۔ علاوہ ازیں خانیہ، خلاصہ قلمی، خزانۃ المفتین قلمی، عالمگیری، البحر الرائق، شرح نقایہ علامہ برجندی ،فتح القدیر ، غنیہ شرح منیہ ،نظم امام زندویستی پھر قہستانی پھر طحطاوی علی المراقی میں ہے: مسجد میں اذان نہ دی جائے۔ یہ گیارہ اہم کتب فقہ کی تصریحات ہیں۔ ان ارشادات میں نہ اذان پنج گانہ کی تخصیص ہے نہ اذان خطبہ کا استثنا اس لیے ان ارشادات کے عموم واطلاق میں اذان خطبہ بھی داخل اور دوسری اذانوں کی طرح اسے مسجد میں دینا ممنوع و مکروہ ہے۔ یہ بھی اس پر قرینہ ہے کہ اذان خطبہ کے سلسلے میں جو ’’بین یدیہ‘‘ وارد ہے اس سے مراد یہ ہے کہ مسجد کے باہر خطیب کے سامنے دی جائے ورنہ فقہا کے ارشادات میں ایسا تعارض لازم آئے گا کہ اٹھ نہ سکے گا۔ مجھے امید ہے کہ اب آپ کو پورا اطمینان حاصل ہو گیا ہوگا کہ خطبے کی اذان کا مسجد کے باہر خطیب کے سامنے دینا ہی سنت ہے، اسے خطیب کے سر پر مسجد کے اندر دینا سنت کے خلاف بدعت ہے اور یہی احناف کا مذہب ہے اور اگر بالفرض تسلی نہ ہوئی ہو تو ہم مجبور ہیں۔ فمن لم یجعل اللہ لہ نورا فمالہ من نور۔ ابو جہل نے چاند کو دو ٹکڑے ہوتے ہوئے دیکھا پھر بھی ایمان نہ لایا تو اس سے حضور اقدس ﷺ کی حقانیت پر کیا حرف آیا۔ واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵( فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved