8 September, 2024


دارالاِفتاء


حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اور دور خلفاے راشدین میں کتنی اذانیں تھیں اور کہاں ہوتی تھیں، نیز اذان خطبہ کہاں ہوتی تھی ،اگر رسول اللہ ﷺ اور خلفاے راشدین رضی اللہ تعالی عنہم کے زمانے میں اذان مسجد کے باہر ہوتی تھی اور ہمارے اماموں نے مسجد کے اندر اذان کو مکروہ فرمایا ہے تو ہمیں اس پر عمل لازم ہے یا رسم ورواج پر۔ اور جو رسم ورواج حدیث شریف اور احکام فقہ سب کے خلاف پڑجائے وہاں مسلمانوں پر پیروی حدیث وفقہ کا حکم ہے یا رسم ورواج پر اڑا رہنا ۔ علما پر لازم ہے یا نہیں کہ سنت مردہ زندہ کریں۔ اگر ہے تو کیا اس وقت ان پر یہ اعتراض ہو سکے گا کہ کیا تم سے پہلے عالم نہ تھے اگر یہ اعتراض ہو سکے گا تو سنت زندہ کرنے کی کیا صورت ہوگی؟ مع دلائل بالتفصیل تحریر فرمائیں، عین کرم ہوگا۔

فتاویٰ #1477

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم – الجواب ــــــــــــــــــــ: صحاح ستہ کی مشہور کتاب ابو داؤد شریف جلد اول ص:۱۵۵ میں حضرت سائب بن یزید رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے : كَانَ يُؤَذَّنُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ الله -صلى الله عليه وسلم- إِذَا جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ وَأَبِى بَكْرٍ وَعُمَرَ. ثُمَّ سَاقَ نَحْوَ حَدِيثِ يُونُسَ. (یعنی) فلما کان خلافۃ عثمان وکثر الناس أمر عثمان، یوم الجمعۃ بالأذان الثالث ، فأذن بہ علی الزوراء فثبت الأمر علی ذلک۔ اور ایک روایت میں ہے: ’’وعلي بالکوفۃ‘‘۔ جمعہ کے دن جب رسول اللہ ﷺ منبر پر تشریف رکھتے تو حضور کے سامنے مسجد کے دروازے پر اذان ہوتی تھی، اور ایسا ہی حضرت ابو بکر وحضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے زمانے میں ہوتا تھا۔ جب حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت ہوئی اور لوگ زیادہ ہو گئے تو انھوں نے ’’زوراء‘‘ پر ایک اور اذان دینے کا حکم دیا پھر اسی پر عمل در آمد رہا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کوفہ میں بھی خطبہ کی اذان مسجد کے دروازے پر دلوائی۔ اس حدیث سے ثابت ہو گیا کہ حضور اقدس ﷺ اور خلفاے راشدین نے اپنے عہد مبارک میں خطبہ کی اذان مسجد کے باہر کے دروازے پر دلوائی اور کبھی بھی ایک بار بھی یہ اذان مسجد کے اندر نہیں دلوائی۔ ہمیشہ مسجد کے باہر مسجد کے دروازے پر دلوائی، ایسی پابندی جس کے خلاف ایک بار بھی عمل نہ ہوا ہو اس چیز کے واجب ہونے کی دلیل ہے۔ تو اب ثابت ہوا کہ مسجد کے باہر اذان دینا واجب ہے اور واجب کا خلاف گناہ تو اس سے لازم کہ مسجد کے اندر اذان دینا نا جائز ۔ اسی وجہ سے مولانا عبد الحی صاحب لکھنوی فرنگی محلی نے عمدۃ الرعایۃ میں لکھا: قولہ ’’بین یدیہ‘‘ أي مستقبل الإمام فی المسجد کان أو خارجہ والمسنون ہو الثاني۔ ’’بین یدیہ‘‘ کے معنی سامنے کے ہیں جو مسجد کے اندر یا باہر دونوں کو شامل اور مسنون یہی ہے کہ مسجد کے باہر دلوائی جائے۔ اور سب کو معلوم کہ سنت کا ترک اور اس کے خلاف پر عمل بدعت سیئہ اور گناہ، تمام فقہاے کرام مطلق فرماتے ہیں کہ مسجد میں اذان نہ دی جائے۔خزانۃ الروایۃ، خلاصۃ الفتاوی، البحر الرائق، عالمگیری، فتح القدیر، شرح نقایہ علامہ برجندی میں ہے: لا یؤذن في المسجد۔ مسجد میں اذان نہ دی جائے۔ غنیہ شرح منیہ میں ہے: الأذان إنما یکون علی المئذنۃ أو خارج المسجد والإقامۃ في داخلہ۔ اذان مینارے پر دی جائے یا مسجد کے باہر اور اقامت مسجد کے اندر۔ بلکہ فتح القدیر خاص باب جمعہ بیان خطبہ میں ہے: لکراہۃ الأذان في داخلہ۔ مسجد میں اذان مکروہ ہونے کی وجہ سے۔ نظم امام زندویستی ، پھر قہستانی پھر طحطاوی علی المراقی میں ہے: یکرہ أن یؤذن في المسجد۔ مسجد میں اذان دینا مکروہ ہے ۔ ان ارشادات میں نہ اذان پنج گانہ کی تخصیص ہے نہ اذان جمعہ کا استثنا؛ اس لیے یہ ارشادات اپنے اطلاق اور عموم کی بنا پر اذان خطبہ کو بھی شامل۔ اس لیے یہ جو رواج پڑ گیا ہے کہ خطبہ کی اذان مسجد کے اندر منبر کے متصل خطیب کے سر پر دی جاتی ہے سنت کے خلاف مکروہ اور بدعت ہے ۔ سنت یہی ہے کہ یہ اذان مسجد کے باہر خطیب کے سامنے دی جائے جیسا کہ حضور اقدس ﷺ اور خلفا ے راشدین کے زمانے میں ہوتا تھا۔ آج بھی مکہ معظمہ میں مسجد حرام شریف میں منبر سے بہت دور قدیم مطاف کی حد کے کنارے ہوتی ہے [جو عہد نبوی میں خارج مسجد تھا۔(حاشیہ: یہ اذان آج کے دور میں خارج مسجد مطاف کے کنارے ہوتی ہے یا نہیں اس بارے میں حضرت شارح بخاری رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے فتاوی میں بظاہر اختلاف پایا جاتا ہے، اس فتوے میں تو یہ ہے کہ ’’آج بھی مکہ معظمہ میں مسجد حرام شریف میں منبر سے بہت دور قدیم مطاف کی حد کے کنارے ہوتی ہے‘‘ اور ایک دوسرے فتوے میں یہ ہے کہ ’’یہ اذان ترکوں کے عہد حکومت تک خارج مسجد کنارہ مطاف پر ہوتی تھی۔‘‘ واقعہ یہ ہے کہ پہلے حضرت کو یہ نہیں معلوم تھا کہ دہابیوں نے سلف صالحین سے چلے آ رہے مسنون طریقے کو بدل دیا ہے یا نہیں، اس لیے آپ نے ترکوں کے عہد حکومت تک کا ذکر کیا لیکن بعد میں جب آپ نے حاجیوں کے ذریعہ معلوم کر لیا یا خود وہاں پہنچ کر دیکھ لیا تو وہ صراحت فرمائی جو اس فتوے میں ہے۔ محمد نظام الدین رضوی)] جیسا کہ حضور ﷺ کے زمانے میں ہوتی تھی۔اور مسجد نبوی شریف میں منبر سے کافی فاصلے پر بنے ہوئے مکبرہ پر ہوتی ہے منبر کے متصل نہیں ہوتی ہے۔ دلائل شرعیہ کی روشنی میں حق واضح ہوجانے کے بعد صرف یہ بہانہ بنا کر کہ کیا پہلے علما نہیں تھے سنت کے خلاف عمل کرنے پر اڑے رہنا جہالت ہے ۔ احیا ے سنت کا یہی مطلب ہوتا ہے کہ جب لوگ سنت چھوڑ کر خلاف سنت کام کرنے لگیں تو لوگوں کی پروا کیے بغیر سنت پر عمل کرنا چاہیے اور لوگوں کو سنت کے مطابق عمل کرنے کی دعوت دینی چاہیے، جس طرح آج کے علما یہ بہانہ کر رہے ہیں کیا پہلے علما نہیں تھے ہو سکتا ہے یہی بہانہ ہم سے پہلے علما کو رہا ہو ابتدا میں بے توجہی کی وجہ سے یہ رواج پڑ گیا اور بعد کے علما یہی بہانہ بنا کر خاموش رہے ۔ جامع مسجد شاہ جہانی دہلی میں یہ اذان منبر کے متصل نہیں ہوتی بلکہ صحن میں اس کے لیے ایک بلند مکبرہ بنا ہوا ہے وہاں ہوتی ہے۔ شاہ جہاں مرحوم خود عالم تھے اور ان کے عہد میں دہلی میں اجلہ علماے کرام کا اجتماع تھا انھوں نے جو کام کیا ہوگا علما کے مشورے سے کیا ہوگا، اگر اذان خطبہ کو منبر کے متصل دینا ضروری ہوتا تو ان کو صحن میں مکبرہ بنا نے کی کیا حاجت تھی؟ پھر ان کے صاحب زادے سلطان محی الدین عالم گیر زبردست فقیہ تھے ، دین کے احیا میں کوشاں ۔اگر یہ بات خلاف شرع ہوتی تو وہ یہ اذان مکبرہ سے ہٹا کر منبر سے متصل کر دیتے ۔ اس وقت سے آج تک ہر دور میں اجلہ علماے کرام دہلی میں ہوئے کسی نے بھی اس اذان کو مکبرہ سے ہٹا کر منبر کے متصل نہیں کیا ۔ فتح پوری، آگرہ کی شاہی مسجدوں میں بھی یہ اذان منبر کے متصل نہیں ہوتی بلکہ مسجد کے صحن میں بنے ہوئے مکبرے پر ہوتی ہے حتی کہ سہارن پور کی جامع مسجد میں بھی مکبرہ ہی پر ہوتی ہے جو صحن مسجد میں بنا ہوا ہے۔ یہ بہانے بنانے والے علما اس کا کیا جواب دیں گے۔ سب علما پر واجب ہے کہ اس مردہ سنت کو زندہ کریں اور اذان منبر کے متصل سے ہٹا کر مسجد سے باہر کریں۔ احیاے سنت کے حدیث میں بڑے عظیم ثواب وارد ہیں۔ ایک حدیث میں فرمایا: جو میری کسی سنت کو زندہ کرے گا وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔ قبل تمامیت مسجد اذان کے لیے کوئی جگہ بنالی جائے یا متعین کرلی جائے تو وہ جگہ اذان کے لیے خارج مسجد کے حکم میں ہے۔ اس لیے جن مساجد میں اذان کے لیے مکبرے بنالیے گئے یا پہلے مسجد چھوٹی تھی کسی جگہ مسجد کے باہر اذان ہوتی تھی بعد میں مسجد کی توسیع کی بنا پر وہ جگہ مسجد کے اندر آگئی تو وہاں اذان جائز ہے، وہ جگہ اذان کے لیے خارج مسجد کے حکم میں ہے۔ اس کی مثال وضو کے حوض ہیں ۔ تمام شاہی مساجد میں صحن کے وسط میں وضو کے لیے حوض بنائے گئے ہیں مسجد کے اندر وضو کرنا جائز نہیں لیکن پھر بھی ان حوضوں پر جائز ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ قبل مسجدیت بنا لیے گئے ہیں ۔ اسی طرح جو جگہ یامکبرے قبل تمامیت مسجد بنا لیے گئے ہیں، یا جہاں پہلے سے اذان ہوتی چلی آ رہی ہے مگر مسجد کی توسیع کے بعد وہ جگہ اندرون مسجد آگئی تو وہاں اذان جائز ہے ۔ عہد رسالت میں جمعہ کے لیے صرف ایک اذان ہوتی تھی۔ جب حضور اقدس ﷺ منبر پر تشریف رکھتے تو مسجد کے دروازے پر اذان ہوتی تھی۔ یہ دروازہ منبر سے تقریبا ۹۵؍ ۹۶؍ ہاتھ دوری پر مسجد کے باہر تھا۔ اور سیدنا صدیق اکبر اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہما کے عہد خلافت میں بھی صرف یہی ایک اذان تھی اور وہیں ہوتی تھی جہاں عہد رسالت میں ہوتی تھی۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے عہد خلافت میں جب لوگوں کی کثرت ہوئی اور جمعہ کی حاضری میں صرف اس اذان پر حاضری دشوار ہوئی تو انھوں نے اس سے پہلے بازار میں ایک جگہ جس کا نام ’’زوراء‘‘ تھا ، ایک اذان کا اضافہ فرمایا۔ اس کا حاصل یہ نکلا کہ عہد رسالت اور عہد شیخین کریمین رضی اللہ تعالی عنہما میں صرف ایک ہی اذان تھی جو خطیب کے منبر پر بیٹھنے کے وقت دی جاتی تھی ، جس کو آج کل اذان ثانی کہا جاتا ہے۔ ان تینوں عہدوں میں اذان اول نہیں تھی۔ یہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کا اضافہ ہے جسے تمام صحابہ نے بلا انکار پسند فرمایا۔ جس کی صحت پر اجماع صحابہ منعقد ہوگیا نیز حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: ’’علیکم بسنتي وسنۃ الخلفاء الراشدین‘‘۔ تم پر میری سنت اور خلفاے راشدین کی سنت پر عمل کرنا واجب ہے۔ اس لیے تمام امت نے اس اذان کو برقرار رکھا۔ مگر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے خطبہ کی اذان وہیں باقی رکھی جہاں عہد رسالت سے ہوتی آئی تھی، کسی روایت میں یہ نہیں کہ اذان خطبہ کو وہاں سے ہٹایا ہو اور اصل إبقا ما کان علی ما کان ہے۔ ہشام بن عبد الملک مروانی پہلی اذان کو جو ’’زوراء‘‘ پر ہوتی تھی وہاں سے منتقل کر کے مینارے پر لایا مگر خطبہ کی اذان جہاں ہوتی تھی وہیں باقی رکھی۔ تفصیل کے لیے کتاب ’’اذان خطبہ کہاں ہو؟‘‘ اور ’’تنقید بر محل‘‘ دیکھیں۔ واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵( فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved