8 September, 2024


دارالاِفتاء


عرض یہ ہے کہ سال گزشتہ ہم نے کوشش کر کے حضرت علامہ مفتی سید افضل حسین صاحب فیصل آباد، پاکستان کے ذریعہ اور دیگر علماے متبحرین کی نگرانی میں امسٹرڈم (ہالینڈ) کا نقشہ اوقات الصلاۃ تیار کرایا تھا، شائع ہونے کے بعد گرمی کےچند ایام جن میں حنفیہ کے نزدیک عشا کا وقت نہیں ہوتا اس کے بارے میں یہاں کچھ انتشار پیدا ہوگیا ہے مسلمانوں کے انتشار اور فتنہ فساد کو دفع کرنے کے لیے جن ایام میں شفق ابیض غروب نہیں ہوتی، کیا اگر صرف شفق احمر کے غروب کا ثبوت مل جائے تو صاحبین کے قول پر عمل کرتے ہوئے نماز عشا ادا کی جا سکتی ہے۔ جواب با صواب سے جلد از جلد نوازیں۔

فتاویٰ #1399

مفتی امداد حسین پیر زادہ صاحب کا جواب ــــــ: ہالینڈ میں اوقات نماز سے متعلق حضرت مفتی سید محمد افضل حسین صاحب کا فتوی نگاہوں سے گزرا جس میں آپ رقم طراز ہیں کہ ’’ گرمیوں کی بعض راتوں میں ہالینڈ کے اندر افق مغرب پر سفیدی موجزن رہتی ہے تاریکی نہیں آتی اور جب تک تاریکی نہ ہو حضرت امام ابو حنیفہ کے نزدیک عشا کی نماز کا وقت نہیں آتا۔ لہذا ان ایام میں عشا کی نماز قضا کی جائے ‘‘چناں چہ ہالینڈ میں ایک جماعت اس فتوی پر عمل پیرا ہے دیگر تنظیمیں اس کی مخالفت کر رہی ہیں اور عوام انتہائی تشویش کا شکار ہیں، چند دن ہوئے ہالینڈ اسلامک مومنٹ نے عید میلاد النبی ﷺ کے جلسہ میں اس ناچیز کو حاضری کا شرف بخشا۔ بندہ نے حالات کا تفصیلی جائزہ لیا۔ وہاں اپنی جماعت کے نوجوان فاضل اور محقق عالم حضرت علامہ بدر القادری صاحب سے ملاقات کی، ان کی زبانی ان کا مشاہدہ معلوم ہوا کہ گرمیوں کی چند راتوں میں واقعی یہاں سفیدی قائم رہتی ہے۔ البتہ صرف سرخی غائب ہو جاتی ہے۔ اب اس سے پہلے کہ میں اپنی راے پیش کروں عشا کے وقت سے متعلق فقہاے اسلام کا نقطہ نظر ملاحظہ فرمائیں: جملہ فقہاے اسلام اور چاروں ائمہ مذہب کا اس بارے میں اتفاق ہے کہ نماز عشا کا وقت شفق غائب ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے ۔ البتہ شفق کی تعریف اور تعیین میں اختلاف ہے جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ : غروب آفتاب کے بعد افق مغرب کو تین حالات پیش آتے ہیں : احمرار، بیاض ، سواد۔ یعنی پہلے سرخی پھر سفیدی اور پھر تاریکی ۔امام ابو حنیفہ کے نزدیک شفق وہ سفیدی ہے جو سرخی کے بعد نمودار ہوتی ہے۔ لہذا جب تک وہ سفیدی غائب ہو کر تاریکی نہ چھا جائے امام ابو حنیفہ کے نزدیک نماز عشا کا وقت نہیں ہوتا۔ اس اعتبار سے حضرت مفتی صاحب کا فتوی درست اور قابل قدر ہے مگر ائمہ ثلاثہ (حضرت امام شافعی، امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالی) اور صاحبین (حضرت امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ تعالی) کے نزدیک شفق سے مراد سرخی ہے جس کے غائب ہوتے ہی عشا کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔ اس تحقیق سے متعلق فقہ کی معتبر ترین کتب کے چند حوالہ جات ملاحظہ فرمالیں۔ تو فیصلہ کرنے میں بہت آسانی ہو جائے گی۔ (۱) الفتاوی عالم گیریہ،جلد اول،ص:۵۹ وقت المغرب منہ إلی غیبوبۃ الشفق وہو الحمرۃ عندہما بہ یفتی ہکذا في شرح الوقایۃ۔ یعنی مغرب کا وقت شفق کے غائب ہونے تک رہتا ہے اور شفق سے مراد صاحبین کے نزدیک سرخی ہے اور اسی پر فتوی دیا جاتا ہے۔ (۲) فتح القدیر جلد اول ص:۲۲۲ الشَّفَقُ هُوَ الْبَيَاضُ الَّذِي فِي الْأُفُقِ بَعْدَ الْحُمْرَةِ عِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ ، وَقَالَا : هُوَ الْحُمْرَةُ وَهُوَ رِوَايَةٌ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ رَحِمَهُ اللَّهُ تعالی. رَوَى الدَّارَقُطْنِيُّ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- قَالَ: الشَّفَقُ الْحُمْرَةُ ، فَإِذَا غَابَ وَجَبَتِ الصَّلَاةُ۔ یعنی امام ابو حنیفہ کے نزدیک شفق سے مراد وہ سفیدی ہے جو سرخی کے بعد نمودار ہوتی ہے اور صاحبین فرماتے ہیں: شفق سے مراد سرخی ہے، اور امام شافعی علیہ الرحمہ بھی یہی فرماتے ہیں کہ شفق سے مراد سرخی ہے کیوں کہ دار قطنی نے ابن عمر سے آں حضرت ﷺ کا ارشاد نقل فرمایا ہے کہ آں حضور نبی آخر الزماں ﷺ نے فرمایا : شفق سے مراد سرخی ہے جب یہ سرخی غائب ہو جائے تو نماز عشا واجب ہو جاتی ہے۔ (۳) المبسوط شمس الدین السرخسی جلد اول ،ص:۱۴۵ وفي قول أبي يوسف ومحمد والشافعي -رحمہم اللہ تعالی- الحمرة التي قبل البياض وهو قول عمر وعلي وابن مسعود -رضي الله تعالى عنهم- واحدی الروايتين عن ابن عباس -رضي الله تعالى عنهما-، وهكذا روى أسد بن عمرو عن أبي حنيفة -رحمه اللہ تعالی- ۔۔۔ فكذلك في الغوارب المعتبر لدخول الوقت الوسط وهو الحمرة فبِذهابِها يدخل وقت العشاء وهذا؛ لأن في اعتبار البياض معنى الحرج فإنه لا يذهب إلا قريبا من ثلث الليل. وقال الخليل بن أحمد: رأيت البياض بمكة فما ذهب إلا بعد نصف الليل. وقيل لا يذهب البياض في ليالي الصيف أصلا بل يتفرق في الأفق ثم يجتمع عند الصبح فلدفع الحرج جعلنا الشفق الحمرة. ملخصاً یعنی امام ابو یوسف امام محمد اور امام شافعی علیہم الرحمہ نے شفق سے مراد سفیدی سے پہلے کی سرخی کو لیا ہے اور حضرت عمر، علی، ابن مسعود اور ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کا ارشاد بھی یہی ہے کہ سرخی کے جاتے ہی وقت عشا شروع ہو جاتا ہے اگر شفق سے مراد سفیدی لیا جائے تو حرج واقع ہوتا ہے کیوں کہ بعض دفع سفیدی رات کے تیسرے حصہ تک رہتی ہے اور کبھی آدھی رات تک اور کبھی موسم گرما میں پوری رات سفیدی رہتی ہے لہذا اس حرج کو ختم کرنے کے لیے ہم شفق سے مراد سرخی لیتے ہیں۔ مذکورہ بالا کتاب علامہ سرخسی کی ہے جس کے متعلق رد المحتار جلد اول ص:۷۰ پر مرقوم ہے : علامہ سرخسی اماموں کے سورج ہیں، آپ کا فتوی آجائے وہاں دوسرے فتوی جات کو ترک کر دینا چاہیے۔ (۴) در مختار و رد المحتار میں ہے: وقت المغرب إلی غروب الشفق وھو الحمرۃ عندہما وبہ قالت الثلاثۃ وإلیہ رجع الإمام في شرح المجمع وغیرہا فکان ہو المذہب (قولہ إلیہ رجع الإمام) أي إلی قولہما الذي ہو روایۃ عنہ أیضا وصرح في المجمع بأن علیہ الفتوی۔ یعنی در مختار کے الفاظ کا مفہوم یہ ہے کہ مغرب کا وقت غروب شفق تک رہتا ہے صاحبین کے نزدیک شفق سے مراد سرخی ہے ، ائمہ ثلاثہ (امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل علیہم الرحمہ) کا ارشاد بھی یہی ہے اور امام ابو حنیفہ علیہ الرحمہ نے بھی اسی قول کی طرف رجوع کیا ہے۔ پس مذہب یہی ہو گیا کہ شفق سے مراد سرخی ہے اس کی شرح کرتے ہوئے علامہ شامی علیہ الرحمہ رد المحتار میں رقم طراز ہیں کہ : امام ابو حنیفہ علیہ الرحمہ نے صاحبین کے قول کی طرف رجوع کر لیا، کیوں کہ خود امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی ایک روایت ایسی ہی ہے، اور اس بات کی تصریح ہوگئی کہ فتوی اسی پر ہے یعنی سرخی کے بعد عشا کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ مذکورہ بالا حوالہ جات سے بات پاے ثبوت کو پہنچی کہ ائمہ اربعہ کا مختار مذہب یہی ہے (کیوں کہ در مختار اور رد المحتار میں حضرت امام ابو حنیفہ کا رجوع بھی ثابت ہے) کہ شفق سے مراد سرخی ہے جس کے غائب ہوتے ہی عشا کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ اور حضرت علامہ بدر القادری کے مشاہدہ کی رو سے وہاں سرخی غائب ہوجاتی ہے لہذا اس مشاہدہ اور مذکورہ فقہی تصریحات کی روشنی میں نماز عشا کا وقت پایا گیا اور نماز عشا پڑھنی چاہیے۔ اللہ تعالی مسلمانوں کو نماز پنج گانہ کی توفیق سے سرفراز فرمائے آمین ثم آمین نوٹ: رہا یہ سوال کہ شفق کب غائب ہوتا ہے اور نماز عشا کتنے بجے پڑھی جائے اس سلسلے میں حضرت علامہ بدر القادری کی خدمت میں گزارش کی جائے چوں کہ آپ وہاں قیام فرما ہیں اگر آپ مختلف تنظیموں کے چند ذمہ دار افراد کو ساتھ لے کر خود مشاہدہ کر کے اوقات نماز کا تعین فرمادیں تو اس علاقے کے جملہ مسلمانوں کو اتفاق واتحاد کے ساتھ اس کے مطابق نماز عشا کا اہتمام کرنا چاہیے۔ ہذا ما عندی واللہ تعالی أعلم بالصواب (علماے دین کا ادنی خادم محمد امداد حسین پیر زادہ) بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب ــــــــــــ: اس پر تمام ائمہ کا اجماع ہے کہ مغرب کا وقت غروب شفق تک ہے، اختلاف اس میں ہے کہ شفق سے مراد وہ سرخی ہے جو غروب آفتاب کے ساتھ ساتھ پیدا ہوتی ہے اور تھوڑی دیر کے بعد ختم ہو جاتی ہے، یا وہ سفیدی ہے جو سرخی کے بعد مغرب میں جنوباً وشمالاً پھیلی رہتی ہے۔ اس پر بھی اتفاق ہے کہ اس سفیدی کے غروب کے بعد معاً صبح کاذب کی طرح افق سے کچھ اوپر پورب پچھم لمبی جو سفیدی پیدا ہوتی ہے جو صبح کا ذب کے مثل ہے یہ ہرگز مراد نہیں اور اس اخیر سفیدی کے وقت بہر حال مغرب کا وقت نکل جاتا ہے اور عشا کا وقت داخل ہو جاتا ہے ۔ سیدنا امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کا مذہب یہ ہے کہ :شفق سے مراد وہ سفیدی ہے جو سرخی کے بعد فوراً پیدا ہوتی ہے وہ جنوباً وشمالاً افق کی جڑ تک رہتی ہے یہ سفیدی صبح صادق کے مقابل ہے اور یہی قول امام مفتی بہ اور راجح اور مختار ہے۔ ہدایہ میں ہے: ثم الشفق ہو البیاض الذي في الأفق بعد الحمرۃ عند أبي حنیفۃ وعندہما ہو الحمرۃ وہو روایۃ عن أبي حنیفۃ وہو قول الشافعي لقولہ علیہ السلام: الشفق الحمرۃ۔ ولأبي حنیفۃ قولہ علیہ السلام: واٰخر وقت المغرب إذا اسود الأفق وما رواہ موقوف علی ابن عمر ذکرہ مالک في المؤطا۔ شفق وہ سفیدی ہے جو افق میں سرخی کے بعد ہوتی ہے ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک، اور صاحبین کے نزدیک وہ سرخی ہے ۔ امام اعظم سے ایک روایت یہ بھی ہے اور یہی امام شافعی کا قول ہے کیوں کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا: شفق سرخی ہے اور امام اعظم رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی دلیل حضور اکرم ﷺ کا یہ ارشاد ہے: مغرب کا آخر وقت یہ ہے کہ افق سیاہ ہو جائے۔ اور جو امام شافعی نے روایت کیا ہے یہ حضور اقدس ﷺ کا ارشاد نہیں حضرت عبد اللہ بن عمر کا قول ہے جسے امام مالک نے مؤطا میں ذکر فرمایا۔ أقول: امام صاحب سے جو ایک روایت ہے کہ شفق سرخی کا نام ہے یہ روایت نادرہ شاذہ ہے جو اسد بن عمرو سے مروی ہے ۔ کتب ظاہر روایت میں اس کا کہیں پتہ نہیں ،ظاہر روایت کے خلاف روایت نادرہ شاذہ پر فتوی دینا اصول افتا کے خلاف ہے یہی وجہ ہے کہ عامۂ متون میں امام صاحب کا قول صرف یہی ذکر کیا کہ شفق امام صاحب کے نزدیک سفیدی کا نام ہے ۔ فتاوی قاضی خاں میں ہے: قال أبو یوسف ومحمد والشافعي: ہي الحمرۃ، وقال أبو حنیفۃ رحمہ اللہ تعالی: ہو البیاض الذي یلي الحمرۃ حتی لو صلی العشا بعد ما غابت الحمرۃ ولم یغب البیاض المعترض الذي یکون بعد الحمرۃ لا تجوز عندہ۔ امام ابو یوسف ومحمد وشافعی نے فرمایا شفق سرخی ہی کا نام ہےاور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا شفق وہ سفیدی ہے جو سرخی سے ملی رہتی ہے یہاں تک کہ اگر کسی نے عشا کی نماز ایسے وقت میں پڑھی کہ سرخی غائب تھی اور وہ پھیلی ہوئی سفیدی غائب نہیں ہوئی تھی تو امام صاحب کے نزدیک اس کی نماز عشا نہ ہوئی۔ در مختار میں جو یہ قول کیا کہ امام صاحب نے اس کی طرف رجوع فرمایا لہذا یہی مذہب ہوا اور جو شرح وقایہ میں فرمایا اسی پر فتوی ہے اس کا رد امام ابن ہمام نے فتح القدیر میں بڑے شدو مد سے فرمایا، لکھتے ہیں: روى الدارقطني عن ابن عمر أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: { الشفق الحمرة ، فإذا غاب وجبت الصلاة } قال البيهقي والنووي : الصحيح أنه موقوف على ابن عمر ، ومن المشايخ من اختار الفتوى على رواية أسد بن عمرو عن أبي حنيفة رحمه الله كقولهما ولا تساعده رواية ولا دراية ، أما الأول فلأنه خلاف الرواية الظاهرة عنه ، وأما الثاني فلما قدمنا في حديث ابن فضيل وأن آخر وقتها حين يغيب الأفق ، وغيبوبته بسقوط البياض الذي يعقب الحمرة وإلا كان باديا ، ويجيیء ما تقدم : أعني إذا تعارضت الأخبار لم ينقض الوقت بالشك . وقد نقل عن أبي بكر الصديق ومعاذ بن جبل وعائشة وابن عباس -رضي الله عنهم- في رواية وأبي هريرة ، وبه قال عمر بن عبد العزيز والأوزاعي والمزني وابن المنذر والخطابي ، واختاره المبرد وثعلب ، (إلی أن قال) أن النظر عند الترجيح أفاد ترجيح أنه البياض هنا ، وأقرب الأمر أنه إذا تردد في أنه الحمرة أو البياض لا ينقضي بالشك ، ولأن الاحتياط في إبقاء الوقت إلى البياض؛ لأنه لا وقت مهمل بينهما فبخروج وقت المغرب يدخل وقت العشاء اتفاقا ، ولا صحة لصلاة قبل الوقت ، فالاحتياط في التأخير. دار قطنی نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی، نبی ﷺ نے فرمایا شفق سرخی ہے، جب سرخی غائب ہو جائے تو نماز واجب ہوگی۔ اس کا جواب محقق علی الاطلاق یہ ارشاد فرماتے ہیں ، بیہقی ونووی نے کہا صحیح یہ ہے کہ یہ ابن عمر پر موقوف ہے( یعنی حضور کا ارشاد نہیں ،عبد اللہ بن عمر کا قول ہے) بعض مشائخ نے اسد بن عمرو کی روایت پر فتوی دینا پسند فرمایا جو امام ابو حنیفہ سے صاحبین کے قول کے مثل ہے۔ (صاحب فتح القدیر اس کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔) اس کی موافقت نہ روایت کرتی ہے نہ درایت۔ روایت یوں موافقت نہیں کرتی کہ امام سے جو ظاہر روایت ہے کہ شفق سفیدی کا نام ہے اس کے خلاف ہے ۔ (اور ظاہر روایت کے خلاف فتوی دینا اصول افتا کے خلاف ہے) درایت یوں موافقت نہیں کرتی کہ ہم پہلے ابن فضیل کی روایت نقل کر آئے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مغرب کا آخر وقت وہ ہے کہ افق نظروں سے غائب ہو جائے۔ اور افق کا نظروں سے غائب ہونا اسی وقت ہوگا جب کہ سرخی کے بعد والی سفیدی ختم ہو جائے جب تک یہ سفیدی باقی رہے گی افق نظر آتا رہے گا، نیز جب حدیثیں متعارض ہیں تو وقت شک سے نہیں ختم ہوگا ۔ ان کے تلمیذ قاسم نے بھی اپنی کتاب تصحیح القدوری میں اسی کو ترجیح دیا اور اس کے آخر میں کہا: ثابت ہو گیا کہ امام کا قول ہی زیادہ صحیح ہے شفق سفیدی ہی کو کہتے ہیں یہی حضرت صدیق اکبر اور معاذ بن جبل اور حضرت عائشہ اور ابن عباس کا ایک روایت میں اور ابو ہریرہ کا قول ہے، اور یہی عمر بن عبد العزیز اور اوزاعی اور مزنی اور ابن منذر اور خطابی کا قول ہے اور اس کو مبرد اور ثعلب نے اختیار کیا ،علاوہ اس کے جب ترجیح پر غور کیا جاتا ہے تو یہاں بیاض ہی کا قول ترجیح پاتا ہے، اور بہت آسان بات یہ ہے کہ جب اس میں تردد ہو گیا کہ شفق سرخی کا نام ہے یا سفیدی کا تو شک سے وقت نہیں نکلے گا۔ نیز احتیاط سفیدی تک مغرب کا وقت باقی رکھنے میں ہے اس لیے کہ سرخی اور سفیدی غائب ہونے کے درمیان باتفاق ائمہ کسی نماز کا وقت نہیں تو مغرب کا وقت نکلتے ہی عشا کا وقت داخل ہو جائے گا بالاتفاق، اور قبل وقت کوئی نماز صحیح نہیں اس لیے احتیاط نماز عشا مؤخر کرنے میں ہے۔ مجھے سخت حیرت ہے کہ فتح القدیر کی ابتدائی عبارت نقل کی اس سے دھوکا ہوگیا کہ صاحب فتح القدیر کا مذہب یہی ہے کہ شفق سرخی کا نام ہے اب ہم نے پوری عبارت سامنے رکھ دی، اب ہر منصف فیصلہ کرے کہ دیانتاً امام ابن ہمام کا مذہب کیا ثابت ہوتا ہے، سابقہ فتوی میں در مختار کی عبارت نقل کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ امام صاحب نے صاحبین کے قول کی طرف رجوع کر لیا ہے۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ در مختار کے اسی قول کے تحت خاص تصریح ہے کہ امام صاحب کا صاحبین کے قول کی طرف رجوع ثابت نہیں، علامہ شامی تحریر فرماتے ہیں: وقال تلمیذہ العلامۃ القاسم في تصحیح القدوری: إن رجوعہ لم یثبت لما نقلہ الکافۃ من لدن الأئمۃ الثلاثۃ إلی الیوم من حکایۃ القولین۔ شارح مجمع کے تلمیذ علامہ قاسم نے اپنی کتاب تصحیح القدوری میں فرمایا کہ امام کا صاحبین کے قول کی طرف رجوع ثابت نہیں؛ اس لیے کہ تینوں ائمہ حنفیہ کے زمانہ سے آج تک سب کے سب دونوں قول نقل کرتے چلے آئے ہیں۔ یعنی یہ کہ امام صاحب کا قول یہ ہے کہ شفق سفیدی کا نام ہے اور صاحبین کا قول یہ ہے کہ شفق سرخی کا نام ہے اگر واقعی امام نے صاحبین کے قول کی طرف رجوع کر لیا ہوتا تو دو قول منقول نہ ہوتے کہ امام صاحب یہ کہہ رہے ہیں اور صاحبین یہ کہہ رہے ہیں اگر رجوع صحیح ہوتا تو یوں منقول ہوتا کہ شفق سرخی کا نام ہے یہی تمام ائمۂ احناف کا مذہب ہے۔ علامہ زین بن نجیم فتح القدیر اور علامہ قاسم کی مذکورہ بالا ابحاث کو نقل کرنے کے بعد اپنا فیصلہ سناتے ہیں۔ وبهذا ظهر أنه لا يفتى ويعمل إلا بقول الإمام الأعظم ولا يعدل عنه إلى قولهما أو قول أحدهما أو غيرهما إلا لضرورة من ضعف دليل أو تعامل بخلافه كالمزارعة وإن صرح المشايخ بأن الفتوى على قولهما كما في هذه المسألة. اس سے ظاہر ہو گیا کہ صرف امام اعظم ہی کے قول پر فتوی دیا جائے گا اور صرف اسی پر عمل کیا جائے گا اور امام صاحب کے قول کو چھوڑ کر صاحبین یا ان میں سے کسی ایک یا ان کے علاوہ کسی اور کے قول کو نہیں اختیار کیا جائے گا مگر بالضرورۃ ، مثلاً امام صاحب کے قول کی دلیل کمزور ہے یا تعامل اس کے خلاف ہے اگرچہ مشائخ تصریح کریں کہ فتوی صاحبین کے قول پر ہے جیسا کہ اس مسئلہ میں ہے۔ نیز علامہ شامی نے منحۃ الخالق میں علامہ قاسم کے قول کو نقل کر کے باقی رکھا، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ بھی اسی کو مختار سمجھتے ہیں۔ سب سے زیادہ تعجب خیز بلکہ تکلیف دہ مبسوط شمس الائمہ سرخسی کی ناقص عبارت پیش کر کے وہ بھی عبارت کا وہ حصہ جو امام ابو یوسف وغیرہ کے بیان مذہب اور ان کے دلیل کی نقل پر مشتمل تھا۔ اسے امام موصوف کا فتوی قرار دے دیا گیا۔ امام سرخسی کی پوری عبارت یہ ہے: والشفق البياض الذي بعد الحمرة في قول أبي حنيفة -رحمه الله تعالى- وهو قول أبي بكر وعائشة -رضي الله تعالى عنهما- وإحدى الروايتين عن ابن عباس -رضي الله تعالى عنهما-. وفي قول أبي يوسف ومحمد والشافعي -رحمهم الله تعالى- الحمرة التي قبل البياض وهو قول عمر وعلي وابن مسعود -رضي الله تعالى عنهم- وإحدي الروايتين عن ابن عباس -رضي الله تعالى عنهما- وهكذا روى أسد بن عمرو عن أبي حنيفة -رحمه الله تعالى-. ووجه هذا أن الطوالع ثلاثة والغوارب ثلاثة ثم المعتبر لدخول الوقت الوسط من الطوالع وهو الفجر الثاني۔ ان سب کا حاصل یہ ہوا کہ صاحبین اور امام شافعی کی دلیل یہ ہے کہ طلوع کرنے والی تین چیزیں ہیں اور غروب ہونے والی بھی تین چیزیں ہیں، سورج، سرخی، اور سفیدی۔ فجر کے وقت کے داخل ہونے کے لیے طلوع کرنے والوں میں سے بیچ معتبر ہے اور یہ فجر ثانی ہے تو اسی طرح عشا کا وقت داخل ہونے کے لیے غروب ہونے والوں میں بیچ کا متعبر ہونا چاہیے اس لیے اس کے جانے سے عشا کا وقت داخل ہونا چاہیے اور یہ اس لیے کہ بیاض کے اعتبار میں حرج ہے اس لیے کہ یہ تہائی رات کے قریب تک جاتی ہے۔ خلیل بن احمد نے کہا: میں نے مکہ میں دیکھا کہ سفیدی آدھی رات کے بعد گئی، اور یہ بھی کہا گیا کہ گرمیوں کی راتوں میں سفیدی بالکل نہیں جاتی بلکہ افق میں متفرق رہتی ہے پھر صبح کے وقت مجتمع ہو جاتی ہے اور حرج کے دفع کرنے کے لیے ہم نے شفق سرخی کو مانا۔ یہاں تک امام سرخسی نے صاحبین اور امام شافعی کے قول کو نقل فرمایا اور ان کی دلیل ذکر کی۔ اب اس کے بعد کی عبارت کے متصل بغیر فصل کے امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی وہ دلیل قاطع اور ساطع نقل فرماتے ہیں جس کے بعد کسی منصف کو شک نہیں رہ جاتا کہ شفق سرخی نہیں، سفیدی کا نام ہے۔ فرماتے ہیں: وأبو حنيفة -رحمه الله تعالى- قال : الحمرة أثر الشمس والبياض أثر النهار فما لم يذهب كل ذلك لا يصير إلى الليل مطلقا وصلاة العشاء صلاة الليل كيف وقد جاء في الحديث { وقت العشاء إذا ملأ الظلام الظراب } وفي رواية: { إذا إدْلَـهَمَّ الليل} أي استوى الأفق في الظلام وذلك لا يكون إلا بعد ذهاب البياض، فبذهابه يخرج وقت المغرب ويدخل وقت العشاء. امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے دعوی پر کہ شفق سفیدی کا نام ہے دلیل پیش کی کہ سرخی سورج کا اثر ہے اور سفیدی دن کا، تو جب تک یہ سب ختم نہ ہو جائیں مطلقا رات نہ ہوگی اور عشا کی نماز رات کی نماز ہے، کیسے حالاں کہ حدیث میں آیا ہے کہ جب تک تاریکی ، اور ایک روایت میں ہے جب رات نیچے تک لٹک جائے یعنی افق تک اندھیرا چھا جائے اور یہ سفیدی جانے کے بعد ہی ہوگا، اس لیے سفیدی ختم ہونے پر مغرب کا وقت نکلے گا اور عشا کا وقت داخل ہوگا۔ کتنا بڑا ظلم ہے جو حرکت فتح القدیر کی عبارت کے ساتھ کی گئی اس سے بد تر یہاں کی گئی ۔ یہاں امام شمس الائمہ نے دونوں کے اقوال اور دونوں کے دلائل ذکر کیے ہیں صراحۃً اپنی کوئی راے ظاہر نہیں فرمائی پھر یہ کہنا کہ امام شمس الائمہ سرخسی نے یہ فتوی دیا ہے کہ شفق سرخی کا نام ہے کیسے درست ہوگا بلکہ علما کے طرز بیان سے جو واقف ہے وہ یہی کہے گا کہ امام سرخسی کے نزدیک راجح یہی ہے کہ شفق سفیدی کا نام ہے اس لیے کہ عادت یہی ہے کہ جو قول مصنف کے نزدیک راجح ہوتا ہے اس کی دلیل بعد میں ذکر کرتے ہیں اور یہاں حضرت شمس الائمہ نے امام صاحب کے قول کی دلیل اخیر میں ذکر فرمائی ہے اس سے مستفاد ہوا کہ ان کے نزدیک مختار یہی قول ہے۔ لہذا جیسا کہ مفتی صاحب نے تحریر فرمایا ہے مذکورہ بالا کتاب علامہ سرخسی کی ہے اس کے متعلق رد المحتار جلد اول ص:۷۵ پر مرقوم ہے کہ : علامہ سرخسی اماموں کے سورج ہیں، آپ کا فتوی آجائے تو وہاں دوسرے فتوی جات کو ترک کر دینا چاہیے ۔ اس لیے مفتی صاحب کے تسلیم کردہ قاعدہ کی رو سے صاحبین کا قول واجب الترک اور امام صاحب کا قول واجب القبول۔ حضرت امام سرخسی نے جو صاحبین وغیرہ کے قول کی دلیل میں ان لوگوں کا یہ قول نقل کیا کہ سفیدی تہائی رات سے پہلے نہیں جاتی، یہ آدھی رات کے بعد تک مکہ میں دیکھی گئی یا گرمیوں میں رات رات بھر رہتی ہے یہ بھی امام سرخسی کی تحقیق نہیں بلکہ امام شافعی وغیرہ کے مویدین کا قول ہے اور یہ صحیح نہیں، ان لوگوں کو اشتباہ لگا جس طرح طلوع آفتاب سے پہلے دو سفیدیاں آسمان پر نمودار ہوتی ہیں : ایک صبح کاذب جو افق کے اوپر شرقا غربا لمبی بھیڑیے کے دم کی طرح ہوتی ہے جس کے نیچے افق سیاہ ہوتا ہے۔ دوسری صبح صادق جو کنارۂ افق سے سورج طلوع ہونے کی جگہ سے ابھرنا شروع ہوتی ہے اور جنوباً شمالاً پھیلتی ہے۔ اسی طرح غروب آفتاب کے بعد دو سفیدیاں پیدا ہوتی ہیں: پہلی وہ افق کے کنارے سے لے کر اوپر تک ہوتی ہے اور جنوباً شمالاً پھیلی ہوتی ہے یہی شفق ہے۔ دوسری اس کے ختم ہونے کے بعد پیدا ہوتی ہے جو کنارۂ افق سے اوپر ہوتی ہے جس کے نیچے کنارۂ افق سیاہ ہوتا اور یہ بھیڑیے کی دم کی طرح گچھے دار شرقا وغربا لمبائی میں پھیلی ہوتی ہے۔ اس سفیدی کا کہیں اعتبار نہیں، نہ مغرب کے وقت میں اس کو دخل ہے نہ فجر کے وقت میں دخل ہے۔ جس طرح طلوع صبح صادق سے وقت فجر شروع ہوتا ہے اس کے پہلے صبح کاذب تک عشا کا وقت رہتا ہے اسی طرح بعد غروب پہلی سفیدی تک مغرب کا وقت رہتا ہے اس کے ڈوبنے کے بعد مغرب کا وقت ختم ہوجاتا ہے اور عشا کا وقت داخل ہوجاتا ہے ۔ امام شافعی وغیرہ کے مویدین نے جو یہ کہا تھا کہ طوالع بھی تین ہیں اور غوارب بھی تین ہیں اور فجر کا وقت داخل ہونے میں بیچ کا طالع یعنی فجر ثانی معتبر ہے لہذا ایسے ہی عشا کے وقت کے داخل ہونے میں بیچ کے غارب یعنی سرخی کا اعتبار ہونا چاہیےکسی طرح درست نہیں؛ اس لیے کہ تین طوالع میں اگر صبح کاذب بھی داخل ہو تو طوالع تین نہیں چار ہوئے صبح کاذب، صبح صادق، قبل طلوع کی سرخی و سورج لہذا اعتبار دخول وقت میں وسط کا نہ ہوا بلکہ دوسرے کا ہوا اس کے بعد دو طوالع باقی رہ جاتے ہیں ۔اور اگر تین طوالع سے مراد سورج، سرخی، صبح صادق ہے تو بھی دخول وقت میں وسط کا اعتبار نہ ہوا۔ اسی طرح گھپلا غوارب میں بھی ہے اگر تین غوارب سے مراد سورج، سرخی، پہلی سفیدی ہے اس سے ان کا استدلال یوں ساقط ہو جاتا ہے کہ مقیس علیہ طوالع تھے طوالع میں کیوں سرخی کو چھوڑ دیا اور اگر سرخی کو شمار کیا تو اعتبار وسط کا نہ ہوا آخر کا ہوا پھر اسی طرح غوارب میں بھی چاہیے کہ اعتبار تیسرے غارب یعنی سفیدی کا کریں۔ اور اگر غوارب سے ان کی مراد کچھ اور ہے تو اسے ظاہر کرنا چاہیے، لازم تو تھا کہ جب طوالع میں فجر اول یعنی صبح کاذب کو شمار کیا اور سرخی کو چھوڑ دیا اسی طرح ان کو چاہیے تھا کہ غوارب میں بیاض ثانی کو بھی شمار کرتے اور سرخی کو چھوڑ دیتے تاکہ تناسب باقی رہتا، ایک جگہ فجر اول کو لینا اور سرخی کو چھوڑ دینا اور دوسری جگہ سرخی کو لینا اور بیاض ثانی کو چھوڑنا غیر مناسب بات ہے۔ مناسب بات یہ ہے کہ طوالع بھی چار ہیں ۔ فجر اول ،فجر ثانی، سرخی، آفتاب۔ اور غوارب بھی چار ہیں: سورج، سرخی، بیاض اول، بیاض ثانی ، جیسے فجر کے وقت کی ابتدا میں اعتبار فجر ثانی کا ہے اسی طرح عشا کے دخول میں اعتبار بیاض ثانی کے غروب کا ہونا چاہیے، امام شافعی وغیرہ کے مویدین نے جس سفیدی کو تہائی رات کے بعد تک یا آدھی رات کے بعد تک بتایا ہے وہ وہی بیاض ثانی ہے ورنہ از روے قواعد ہیئت کم از کم مکہ معظمہ میں پہلی سفیدی آدھی رات تک باقی نہیں رہ سکتی اور جہاں آدھی رات کے بعد تک باقی رہتی ہے وہاں صبح صادق آدھی رات کے پہلے ہی چمک آئے گی تو پھر عشا کا وقت ہی نہیں پایا جائے گا حالاں کہ مکہ معظمہ کے بارے میں کسی کا یہ قول نہیں کہ وہاں سال میں کبھی ایسی رات آتی ہے جس میں حضرت امام اعظم کے قول کے بموجب عشا کا وقت نہ پایا جائے، بات وہی ہے کہ دیکھنے والے نے بیاض ثانی کو دیکھا، اور یہ بات ہم بتا آئے کہ یہ مثل صبح کاذب ہے جیسے صبح کاذب کا فجر کے وقت اعتبار نہیں اسی طرح اس بیاض ثانی کا مغرب کے وقت کے خارج ہونے اور عشا کے وقت کے داخل ہونے میں اعتبار نہیں۔ خلاصۂ ابحاث یہ ہوا صحیح وراجح اور مختار اور مفتی بہ قول امام ہی ہے کہ شفق اس سفیدی کا نام ہے جو سرخی کے بعد پیدا ہوتی ہے اس لیے کہ یہی قول امام ہے، اور قول امام سے عدول بلا عذر شرعی جائز نہیں۔ جیسا کہ صاحب بحر کا قول گزرا اور یہاں کوئی ضرورت نہیں عوام کا خلفشار اگر عدول کی علت قرار دی جائے تو پھر دین کا خدا حافظ، یہاں تعامل بھی نہیں اور اگر ہو بھی تو جب دلائل شرعیہ سے قول امام کی ترجیح ثابت ، یہی ظاہر روایت ہے اور ظاہر روایت کے مقابلہ میں روایت نادرہ پر فتوی درست نہیں، اسی میں احتیاط ہے صاحب بحر اور علامہ شامی نے سراج وہاج سے نقل فرمایا: ’’قول الإمام أحوط‘‘ اور اختلاف میں احتیاط پر عمل مستحب وپسندیدہ ہے غروب آفتاب سے مغرب کا وقت داخل ہوگیا، غروب حمرۃ سے وقت نکلا کہ نہیں دلائل میں تعارض کی وجہ سے اس میں شک پیدا ہو گیا اور شک یقین کو زائل نہیں کرتا۔ لہذا بیاض اول تک مغرب کا وقت باقی ، اس پر سارے ائمہ کا اجماع کہ مغرب وعشا کے مابین کسی نماز کا وقت نہیں، نیز اس پر بھی اجماع کہ وقت سے پہلے نماز درست نہیں،نہ قضا نہ ادا، اگر غروب حمرۃ کے معاً بیاض اول کے بقا کے وقت عشا کی نماز پڑھیں تو قول امام پر جو مختار ومرجح ہے عشا کی نماز نہ قضا ہوگی نہ ادا اور بیاض اول کے غروب کے بعد پڑھیں تو بالاتفاق نماز بلا کراہت درست، قول امام یہی ہے اور اس سے صاحبین کے قول کی طرف رجوع صحیح نہیں۔ اس لیے یہ بات بلا کسی شبہہ کے ثابت ہوگئی کہ مغرب کا وقت بیاض اول کے غروب تک ہے۔ عوام میں انتشار صرف اس لیے ہے کہ ان کو صحیح مسئلہ نہیں بتایا گیا ۔سوال کے ساتھ جو فتوی آپ نے بھیجا اس کا جو حال ہے وہ میں نے تحریر کر دیا انتشار کا سبب اسی قسم کے فتاوی ہیں۔ نیز عوام پر یہ بار محسوس ہوتا ہے کہ عشا کی نماز قضا کر کے پڑھیں حالاں کہ یہ کوئی بار کی بات نہیں نہ اس میں کوئی گناہ ہے، گناہ اس صورت میں ہے کہ وقت عشا ہوتے ہوئے بالقصد چھوڑی جائے اور جہاں نماز کا وقت ہی نہیں ہوتا وہاں اگر قضا پڑھی جائے تو کوئی گناہ نہیں بلکہ وہاں قضا پر بھی وہی ثواب ملے گا جو ادا کا ہے۔ سرخی ختم ہونے کے بعد سفیدی باقی رہتے ہوئے اگر عشا کی نماز پڑھیں گے تو نہ ادا ہوگی نہ قضا اس صورت میں ضرور نماز عشا چھوڑنے کا وبال سر پر رہے گا۔(حاشیہ: اس فتوے میں وقت عشا کے بارے میں مذہب امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالی کی تحقیق کی گئی ہے اور بعض عبارات سے کچھ علما کو جو غلط فہمی ہوئی اس کی مناسب اصلاح کی گئی ہے اور یہ امر بجاے خود بہت اہم ہے تاکہ مذہب صاحبین کو مذہب امام اعظم بتا کر لوگوں کی غلط رہنمائی نہ کی جا سکے۔ رہ گئی یہ بات کہ ہالینڈ میں مذہب امام اعظم پر وقت عشا نہ پایا جائے تو کیا کیا جائے؟ اس بارے میں اصل مذہب تو یہی ہے کہ ان دنوں کی نماز عشا قضا کی جائے جیسا کہ اس فتوے میں صراحت ہے اور بر بناے حاجت اس کی بھی گنجائش ہے کہ مذہب صاحبین کے مطابق نماز عشا پڑھ لی جائے جیسا کہ اس کے بعد والے فتووں میں اس کی صراحت ہے۔ نظام الدین رضوی غفر لہ) ہذا ما عندی والعلم بالحق عند ربی وعلمہ جل مجدہ أتم وأحکم وہو تعالی أعلم(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵ (فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved