8 September, 2024


دارالاِفتاء


ایک مسجد میں عارضی طور پر ایک استنجا خانہ تھا اس سے تین فٹ ہٹ کر ایک کنواں کھودا گیا اور استنجا خانہ ختم کر دیا گیا ، ایسی صورت میں اس کنویں کے پانی سے وضو، غسل اور دیگر استعمال جائز ہے کہ نہیں؟ کچھ لوگ اس کنویں سے وضو وغیرہ نہیں بناتے ہیں ، اسے ناپاک سمجھتے ہیں اور کچھ لوگ اس پانی کا استعمال وضو و غسل وغیرہ میں کرتے ہیں تو اس میں حق بجانب کون لوگ ہیں ؟ کیا اس کنویں کا پانی پاک نہیں ہے؟

فتاویٰ #1344

بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ: اس کنویں کا پانی بلا شبہہ پاک ہے، استنجا خانہ کبھی تھا اب تو نہیں ہے اگر سابقہ استنجا خانے کا لحاظ کر کے کنویں کو ناپاک قرار دیا جائے تو سخت دشواری پیدا ہو جائے گی، کیا معلوم کہاں کہاں استنجا خانہ تھا جہاں بھی کنواں کھودیں تو وہاں احتمال ہے کہ ہو سکتا ہے کہ پہلے یہاں استنجا خانہ رہا ہو۔ اس کنویں کا پانی بلا شبہہ پاک ہے، وضو اور غسل پینے اور نہانے دھونے سب کے لائق ہے، جو لوگ اسے ناپاک بتاتے ہیں وہ لوگ غلطی پر ہیں۔ واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد ۵،(فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved