8 September, 2024


دارالاِفتاء


اگر نماز کے وضو کے لیے کسی نابالغ بچے سے پانی مانگ لیا جائے تو ہینڈ پائپ پر بچے کھڑے ہوں اور ان سے کہہ دیا جائے کہ پانی پائپ سے چلا کر دے دو اگر وہ دےدیں تو اس پانی سے وضو درست ہے یا نہیں؟ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وضو درست نہیں ہوتا ہے۔

فتاویٰ #1323

بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ: نابالغ بچے کے بھرے ہوئے پانی سے وضو تو بہر حال درست ہوجاتا ہے اور اس وضو سے نماز بھی صحیح ہوجاتی ہے، البتہ بعض صورتیں ایسی ہیں کہ جن میں پانی اس شخص کی ملک ہوجاتا ہے جو پانی بھرتا ہے۔ اب اگر پانی بھرنے والا عاقل بالغ ہے اور پانی اس کی ملک ہو گیا تو اسے اختیار ہے کسی کو بلا قیمت دےدے ، لیکن اگر پانی نابالغ بچے نے بھرا اور وہ اس کی ملک ہو گیا تو وہ ماں باپ کے علاوہ کسی کو بغیر قیمت نہیں دے سکتا ، اگر دے گا بھی تو جسے دے گا اسے اس پانی کا استعمال کرنا جائز نہیں ۔اس لیے کہ نابالغ اپنی چیز کو بلا عوض ہبہ نہیں کر سکتا، وہ اپنی ملک کا مالک ہوتا ہے مگر اس میں ہر قسم کے تصرف کا اختیار نہیں رکھتا۔ ہمارے دیار میں چوں کہ پانی بافراط ہے اس لیے لوگ یہی جانتےہیں کہ اس کی کوئی قیمت نہیں لیکن حقیقت میں پانی مال ہے اور اس کی قیمت ہے۔ اب نابالغ نے جو پانی بھرا اور اس کی ملک ہوگیا تو وہ کسی کو ماں باپ کے علاوہ بلا قیمت نہیں دے سکتا۔ اس لیے نابالغ کے ایسے بھرے ہوئے پانی سے جو اس کی ملک ہوجائے بلا قیمت لےکر وضو کرنا یا پینا یا کسی بھی مصرف میں صرف کرنا جائز نہیں۔ ہاں! قیمت دے کر استعمال کرنا جائز ہے جب کہ وہ بچہ اتنا سمجھ دار ہو کہ اسے خریدوفروخت کی اجازت ہو ورنہ پیسے دےکر بھی استعمال کرنا جائز نہ ہوگا ۔(حاشیہ: اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے پانی پر بچے کی ملک ثابت ہونے کی آٹھ صورتیں بیان فرمائی ہیں، پھر ان کے احکام تحقیق کے ساتھ قلم بند فرمائے ہیں، آپ کے الفاظ یہ ہیں: آٹھ صورتوں میں وہ پانی اُس نابالغ کی مِلک ہے اور اُس میں غیر والدین کو تصرف مطلقاً حرام حقیقی بھائی اُس پانی سے نہ پی سکتا ہے نہ وضو کرسکتا ہے ہاں طہارت ہوجائے گی اور ناجائز تصرف کا گناہ اور اُتنے پانی کا اس پر تاوان رہے گا مگر یہ کہ اس کے ولی سے، یا بچّہ ماذون ہو جس کے ولی نے اسے خرید فروخت کا اذن دیا ہے تو خود اس سے پُورے داموں خریدلے ورنہ مفت یا غبن فاحش کے ساتھ نابالغ کی مِلک دوسرے کو نہ خود وہ دے سکتا ہے نہ اُس کا ولی۔ رہے والدین وہ بحالت حاجت مطلقاً اور بے حاجت حسبِ روایت امام محمد اُن کو جائز ہے کہ اُس سے بھروائیں اور اپنے صرف میں لائیں، باقی صورتوں میں اُن کو بھی رواہ نہیں مگر وہی بعد شراء۔ تنبیہ : یہاں سے اُستاد سبق لیں معلموں کی عادت ہے کہ بچّے جو اُن کے پاس پڑھنے یا کام سیکھنے آتے ہیں اُن سے خدمت لیتے ہیں، یہ بات باپ دادا یا وصی کی اجازت سے جائز ہے جہاں تک معروف ہے اور اس سے بچّے کے ضرر کا اندیشہ نہیں مگر نہ اُن سے پانی بھروا کر استعمال کرسکتے ہیں نہ اُن کا بھرا ہوا پانی لے سکتے ہیں ... تنبیہ : بہشتیوں کے بچّے اکثر کنویں پر پانی بھرتے ہیں لوگوں کی عادت ہے کہ ان سے وضو یا پینے کو لے لیتے ہیں یہ حرام ہے اور عوام کو اس میں ابتلاے عام ہے ولا حول ولا قوۃ ا لّا باللہ العلی العظیم۔[فتاوی رضویہ، ج:۱،ص: ۴۳۳، ۴۳۴، باب المیاہ، رضا اکیڈمی] محمد نظام الدین رضوی) پانی بچے کی کب ملک ہوگا کب نہیں یہ بہت تفصیل طلب بات ہے۔ مجدد اعظم امام احمد رضا قدس سرہ نے فتاوی رضویہ جلد اول میں ،ص:۴۲۱ سے لے کر ص:۴۴۰ تک اس پر مفصل بحث فرمائی ہے ۔ ہینڈ پائپ دو قسم کے ہوتے ہیں: ایک ذاتی کسی کی ملک جس میں یہ اجازت نہیں ہوتی کہ جس کا جی چاہے پانی بھر کے لےجائے۔ دوسرے وہ جو بازاروں اور مساجد وغیرہ میں لگے ہوئے ہیں جس میں اذن عام ہوتا ہے جس کا جی چاہے پانی بھرے۔ اس دوسرے قسم کے ہینڈ پائپ سے اگر نابالغ بچہ پانی بھرے گا اور کسی برتن میں جمع کر لے گا تو وہ اس کی ملک ہو جائے گا۔ اس پانی کو وہ والدین کے علاوہ کسی کو بلا قیمت نہیں دے سکتا۔ بھرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ پانی برتن میں جمع کر دے اور اگر وہ ہینڈ پائپ چلا رہا ہے اور دوسرے نے اپنے برتن میں لے لیا تو وہ نابالغ کی ملک نہ ہوا۔ واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد ۵،(فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved