8 September, 2024


دارالاِفتاء


مسح راس کا مستحب طریقہ کیا ہے ؟ جواب مرحمت فرمائیں۔

فتاویٰ #1288

بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ مجدد اعظم اعلی حضرت امام احمدر ضا قدس سرہ فتاوی رضویہ جلد اول ص:۲۵۸ کے حاشیہ میں تحریر فرماتے ہیں: ’’سارے سر کا مسح سنت ہے اور اس کا جو یہ طریقہ بعض نے رکھا ہے کہ :’’ہر ہاتھ کی تین انگلیاں سر کے اگلے حصے پر رکھے انگوٹھا اور کلمے کی انگلی اور ہتھیلی نہ لگائے، ان چھ انگلیوں کو آگے سے گدی تک وسط سر پر لے جائے اور ہتھیلیوں سے سر کے کروٹوں پر مسح کرے اور کانوں کے پچھلے حصےکو انگوٹھوں اور اگلے کو انگشتان شہادت کے پیٹ، اور گردن کے پچھلے حصے کو انگلیوں کی پشت سے مسح کرے‘‘۔ اس طریقے کی کچھ حاجت نہیں، اس میں تکلفات ہیں اور وہ بھی بلا وجہ۔ بلکہ سارے ہاتھ سر کے آگے سے گدی تک کھینچ لے جائے یوں کہ سر کے اگلے حصے میں وسط سر پر دونوں طرف انگلیاں رکھے اور سر کے کروٹوں پر ہتھیلیاں اس میں سر کا استیعاب ہو جائےگا۔ پھر اسی کے ص:۷۳۰ کے حاشیے پر تحریر فرمایا: مسح سر میں اداے سنت کو یہ بھی کافی ہے کہ انگلیاں سر کے اگلے حصے پر رکھے اور ہتھیلیاں سر کے کروٹوں پر اور ہاتھ جماکر گدّی تک کھینچتا لے جائے۔ اس طریقے کی تعیین میں دونوں جگہ فتاوی قاضی خاں کی یہ عبارت پیش فرمائی: ’’قال الإمام فقیہ النفس: الاستیعاب في مسح الرأس سنۃ، وصورۃ ذلک أن یضع أصابع یدیہ علی مقدم رأسہ وکفیہ علی فَوْدَیْہ ویمدہما إلی قفاہ فیجوز۔ وأشار بعضہم إلی طریق آخر احترازا عن استعمال الماء المستعمل إلا أن ذلک لا یمکن إلا بکلفۃ ومشقۃ فیجوز الأول ولا یصیر الماء مستعملا ضرورۃ إقامۃ السنۃ۔ لیکن اسی (فتاوی رضویہ) میں ایک صفحہ پہلے ص:۷۲۹ کے حاشیے میں تحریر فرمایا: وضو میں مسح سر کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ اپنی ساری ہتھیلیاں انگلیوں کے سرے تک تر کرے، پھر دونوں انگوٹھے اور کلمے کی انگلیاں اور ہتھیلیاں جدا رکھ کر باقی تین تین انگلیاں پوری پیشانی پر رکھ کر آخر سر تک ہاتھ جما کر پھیرے پھر سر کی دونوں کروٹیں دونوں ہتھیلیوں سے مسح کرے۔ اس کی تائید میں فرمایا: مااستحسنوا في صفۃ مسح الرأس والأذنین والرقبۃ کما ذکرہ في الخلاصۃ والعنایۃ والمنیۃ وفي الحلیۃ عن الزاھدي عن البحر المحیط وفي النھر وغیرھا من الأسفار الغر، وقال في الحلیۃ: تواردھا غیرواحد من المتأخرین من غیرتعقب إھ وھذا لفظ الخلاصۃ: استیعاب الرأس سنۃ، وکیفیتہ: أن یبل کفیہ وأصابع یدیہ ویضع بطون ثلثۃ أصابع من کل کف علی مقدم الرأس ویعزل السبابتین والإبھامین ویجافی الکفین ویجرھما إلی مؤخر الرأس ثم یمسح الفودین بالکفین ویمسح ظاھر الأذنین۔ إلخ، وزاد غیرالخلاصۃ والمنیۃ ھکذا روت عائشۃ رضي اللّٰہ تعالٰی عنہا مسح رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم۔إھ پہلی عبارت سے یہ متبادر ہوتا ہے کہ راجح یہی طریقہ ہے جو خانیہ سے منقول ہوا کہ ہتھیلیوں اور انگلیوں سمیت ایک ہی بار پورے سر کا مسح کر لیں اس لیے کہ فرمایا: اس میں تکلفات ہیں‘‘ لیکن ص: ۷۲۹، ۷۳۰ کی عبارتیں اس پر نص ہیں کہ بہتر دوسرا طریقہ ہے۔ اس لیے کہ ص:۷۳۰ پر پہلے طریقے کو فرمایا۔ مسح راس میں اداے سنت کو یہ بھی کافی ہے۔اس سے خود مستفاد کہ دوسرا طریقہ بہتر ہے بلکہ ص:۷۲۹ کی عبارت نص صریح ہے کہ دوسرا طریقہ بہتر ہے۔ صاف فرمایا : مسح سر کا بہتر طریقہ یہ ہے، پھر اصل فتوے میں ’’ مااستحسنوا في صفۃ مسح الرأس ‘‘ یہ بھی اسی کی دلیل ہے۔ اب بحث یہ رہ جاتی ہے کہ یہ طریقہ مستحب ہے کہ نہیں۔ استحسان سے استحباب پر دلیل لائی جا سکتی ہے اگر چہ یہ بھی کلیۃً صحیح نہیں لیکن باعتبار اغلب واکثر درست ہے اسی لیے بہار شریعت میں اسے مستحب کہا۔(حاشیہ: بہار شریعت میں ہے: مسح سر میں مستحب طریقہ یہ ہے کہ انگوٹھے اور کلمے کی انگلی کے سوا ایک ہاتھ کی باقی تین انگلیوں کا سرا دوسرے ہاتھ کی تینوں انگلیوں کے سرے سے ملائے اورپیشانی کے بال یا کھال پر رکھ کر گدی تک اس طرح لے جائے کہ ہتھیلیاں سر سے جدا رہیں وہاں سے ہتھیلیوں سے مسح کرتا ہوا واپس لائے [حصہ دوم، ص:۳- وضو کے مستحبات، دعوت اسلامی] محمود علی مشاہدی) ہاں اس طریقے کے مستحب ہونے کی سب سے قوی دلیل جو اصل فتوے کے اخیر میں عربی عبارت میں فرمایا: ’’ وزاد غیرالخلاصۃ والمنیۃ ھکذا روت عائشۃ رضي اللّٰہ تعالٰی عنہا مسح رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ‘‘ کہ جب یہ طریقہ خود حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے مروی ہے تو کم از کم اس کے مستحب ہونے میں کیا شبہہ۔ ہذا ما عندي والعلم بالحق عند اللہ تعالی وعلمہ أجل وأتم۔(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد ۵،(فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved