21 November, 2024


دارالاِفتاء


زید نے آج اپنی بیوی کو طلاق دی لیکن عمرو نے اس کے بعد یہ بتایاکہ میں نے زید سے اس کی بیوی کے حق میں ایک سال بیش تر ہی دو شہادتوں کے ساتھ طلاق حاصل کر لی تھی، مگر زید عمرو اور ہر دو گواہان نے خود عمرو کے ایما سے طلاق کی کارروائی کو صیغۂ راز میں رکھا اور اس ناروا رازداری کے باعث صحیح العقیدہ سنیوں کے مابین بلا وجہ دوامی نزاع کی بنیاد پڑ گئی۔ متعدد دوستوں کے باہمی تعلقات نہایت مذموم طورپر کشیدہ ہو گئے۔ نیز بیش تر مسلمانوں کے درمیان میل محبت کی جگہ نفرت و عداوت کے جذبات مشتعل ہوئے اور ہمیں اس کے ساتھ ہی ساتھ عمرو کی ریشہ دوانیوں کے سبب اس سلسلے میں درمیانی بزرگوں کو ایک طویل زحمت سے دوچار ہونا پڑا۔ یہ بھی واضح رہے کہ عمرو کے بیان کے مطابق زید نے اپنی بیوی کو آج سے ایک سال قبل طلاق دی لیکن ابھی چند مہینے گزرے ہوں گے کہ زید نے برادری کی پنچایت میں اپنی بیوی کو طلاق دینے کا وعدہ کیا اور اس کے بعد زید کے بزرگ نے زوردار طریقہ پر یہ سفارش بھی کی کہ لڑکی کی رخصتی کرا دی جائے، لڑکی کی رخصتی کرادی جائے، لیکن خدانخواستہ اگر زید کی بیوی رخصت ہو جاتی تو عمرو کی متذکرہ رازدارانہ کارروائی کی وجہ سے معاذ اللہ حرام کاری کا دروازہ باز ہو جاتا۔ ان حالات میں فقہ حنفیہ کی روشنی میں جواب مطلوب ہے کہ: (۱).زید کی بیوی پر عدت آج کے طلاق کے وقت سے وارد سمجھی جائے گی یا عمرو کے بیان کردہ طلاق سے زمانہ عدت کا شمار ہوگا؟ اگر ایسا ہی ہوگا تو زمانۂ عدت میں نادانستگی کے سبب عورت کے گھر سے باہر نکلنے اور آنے جانے کے غیر شرعی فعل کا مواخذہ کس سے ہوگا؟ (۲).آج کی طلاق کے ساتھ یہ شرط مربوط ہے کہ عورت کے مطالبۂ طلاق کی بنا پر طلاق دی گئی ہے، لہٰذا عورت رقم مہر و خرچہ عدت پانے کی مستحق نہیں، لیکن عمرو کی بیان کردہ طلاق بھی شرع کے نزدیک قابلِ تسلیم ہے تو اس صورت میں زید کی رقم مہر و خرچہ پانے کی حق دار ہے یا نہیں۔ جب کہ ظاہر ہے کہ سابقہ طلاق کے وقت عورت کے مطالبۂ طلاق کا کوئی سوال نہ تھا۔ (۳).ایک سال پہلے والی طلاق کو چھپانے کی بنا پر عمرو نے جو عام فتنہ برپا کیا اور سنی مسلمانوں کے دلوں میں باہمی تنفر کی آگ بھڑکائی اور اس مذموم کارروائی میں دو گواہوں اور خود زید نے عمرو کا ساتھ دیا، لہٰذا شرع الٰہیہ کے نزدیک عمرو ، زید اور دونوں گواہوں کے لیے کیا حکم ہے؟ آیا ان کی حرکت غیر ایمانی اور شیطانی ہے یا نہیں؟ (۴).طلاق کو چھپانے کے باعث اگر زید کی بیوی کی رخصتی ہو جاتی تو طلاق کے بعد میاں بیوی کے اختلاط کے ذریعہ ہونے والی حرام کاری کا ذمہ دار کون ہوتا۔ ساتھ یہ بھی وضاحت فرمائیے کہ اس حرام کاری کے ذرائع پیدا کرنے والوں کے لیے خدا اور رسول کا کیا حکم ہے؟ (۵).اگر طلاق راز میں نہ رکھی جاتی تو اب تک غالباً زید کی بیوی زمانۂ عدت گزار کر نکاحِ ثانی کر چکی ہوتی، لیکن عمرو وغیرہ کی اس حرکت نے ایک عورت کو بلا وجہ تادیر مجرد زندگی گزارنی پڑی، کیا یہ حق دار کا حق غصب کرنے اور بے گناہ پر ظلم کرنے کے مترادف نہیں؟ اگر ہے تو اس ظلم کرنے والے کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟ امید کہ حضور عالی استفتا پیشِ نظر کا تفصیلی جواب عطا فرما کر شکریہ کا موقع دیں گے۔

فتاویٰ #1166

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ: زید نے جو ایک سال قبل اپنی زوجہ کو عمرو کے بیان کے مطابق طلاق دی ، اگر اس کے دو گواہ شرعی ہیں اور شہادت دیتے ہیں تو وہ طلاق واقع اور ثابت ہے، کیوں کہ طلاق واقع ہونے کے لیے شوہر کا عاقل بالغ ہونا شرط ہے۔ طلاق کا اعلان یا ظاہر کرنا یا عورت کو بتانا شرط نہیں، لہٰذا وہ طلاق واقع ہو گئی، اگرچہ اس کو صیغۂ راز میں رکھا گیا۔ طلاق کے ظاہر کرنے میں اگر شدید فتنہ کا خوف نہ ہوتا تو صیغۂ راز میں رکھنا کس طرح مناسب تھا، لیکن جب پوشیدہ رکھنے کی وجہ سے مسلمانوں میں نفاق و شقاق اور عداوت پیدا ہو گئی ، نیز مطلقہ کا حق بھی فوت ہوا، تو اس صورت میں زید و عمرو اور دونوں گواہوں کو طلاق ظاہر کرنا لازم تھا، پوشیدہ رکھنے سے یہ سب گنہگار ہوئے۔ ان سب پر توبہ لازم ہے، عورت بالکل بے قصور ہے ۔ اگر طلاق کے بعد تین حیض پورے ہو گئے تو عدت ختم ہو گئی۔ عدت کا نفقہ چوں کہ عدت ہی کے لیے ہوتا ہے ، لہٰذا جب عدت ختم ہو گئی تو نفقہ بھی ختم ہو گیا، البتہ مہر واجب الادا ہے۔ وھو تعالیٰ اعلم۔(فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved