8 September, 2024


دارالاِفتاء


ولی محمد ولد سلامت اللہ ساکن محلہ پورہ رانی قصبہ مبارک پورضلع اعظم گڑھ حال ساکن بمبئی محلہ مدن پورہ نے جس کی شادی شکر اللہ ولد عبد الواحد ساکن ولید پور محلہ بھٹی کی دختر مسماۃ حمید النساء سے ہوئی ہے ۔ ۱۴؍ جنوری ۱۹۴۵ء کو پنچوں کے سامنے روزنامہ لکھا ہے کہ اگر کسی مہینہ میں کسی وجہ سے مبلغ پانچ روپیے بذریعہ ڈاک روانہ نہ کر سکا تو قانوناً اور شرعاً طلاق سمجھا جائے ۔ اب عرض ہے کہ صرف ۲۹؍ جنوری ۱۹۴۵ء کو پانچ روپیہ وصول ہوا، اس کے بعد سے آج ۶؍ جون ۱۹۴۵ء تک کچھ وصول نہ ہوا ۔ روپیہ ادا نہ کرنے کے متعلق باتصدیق معلوم ہوا کہ جنوری کے بعد کسی اور مہینہ میں یعنی اب تک ۶؍ جون تک روپیہ روانہ نہیں کیا اور تین حیض کی مدت بھی گزر چکی ہے ، شرعی اور قانونی رو سے طلاق واقع ہوئی یا نہیں ۔ طلاق واقع ہونے کی صورت میں عدت کا شمار کب سے ہوگا ۔ عدت کے اند ر ولی محمد نے ایک عورت کو بھیجا کہ وہ اس کی زوجہ مسماۃ حمید النساء کو بلا کر زید کے مکان پر پہنچائے۔مگر حمید النسا کو اس کے والدنے نہیں بھیجا تو ولی محمدکایہ فعل، طلاق واقع ہونے کی تقدیر پر رجعت ہوگا یا نہیں ۔ فقط۔

فتاویٰ #1136

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ: مسئلۂ مسئولہ میں طلاق واقع نہیں ہوئی ۔ مسماۃ حمید النساء بدستور ولی محمد کی زوجہ ہے ۔ اس لیے کہ اس سوال میں پانچ روپے کی عدم روانگی کی شرط تو پائی گئی مگر اس کی جزا یعنی طلاق سمجھا جائے ’’الفاظِ طلاق‘‘ سے نہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ طلاق سمجھنا یا طلاق جاننا یا طلاق خیال کرنا طلاق کے الفاظ نہیں ۔ اس لیے کہ ہو سکتا ہے کہ شوہر نے طلاق نہ دی اور زوج زوجہ سمجھتے ہیں کہ طلاق ہو گئی تو اس سمجھنے سے کیا ہوتا ہے اور اگر حقیقتاً طلاق واقع ہو گئی اور خود شوہر اور زوجہ نے اپنی دانست میں طلاق نہ سمجھی جب بھی طلاق ہو جاتی ہے ۔ یہاں نہ سمجھنا مفید نہیں ۔ فتاویٰ عالم گیری میں ہے: ’’امرۃ قالت لزوجھا مرا طلاق دہ(الی ان قال) دادہ انگار او کردہ انگار لا یقع و ان نوی۔‘‘ یعنی اگر کسی عورت نے اپنے شوہر سے کہا ، مجھے طلاق دے ، اس نے اس کے جواب میں کہا ، دی ہوئی سمجھ یا کی ہوئی سمجھ، طلاق واقع نہ ہوگی اگرچہ شوہر نے طلاق کی نیت بھی کی ہو۔ غیاث اللغات میں ہے: ’’انگار بفتح وکاف فارسی صیغہ امراز انگا شتن بمعنی بفہم و بدان و خیال کن ‘‘۔ کشوری میں ہے: ’’انگاشتن، اٹکل کرنا،، معلوم کرنا اور یہ لفظ کاف عربی سے غلط ہے۔‘‘ اور جب طلاق واقع نہ ہوئی تو عدت کا شمار کب ؟ اسی طرح ولی محمد کا کسی عورت کو رخصتی کے لیے بھیجنا بھی اس وقت موضوعِ بحث نہیں بن سکتا۔ گو کسی عورت کو رخصتی کے لیے روانہ کرنا رجعت نہیں بلکہ خود ولی محمد بھی رخصتی کے لیے جاتا تو یہ رجعت نہیں جب تک کہ زبان سے رجعت نہ کرتا یا کوئی ایسا فعل صادر کرتا جو رجعت کے ہم معنی ہو ۔ مصرح بہ فی کتب الفقہ ۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved