8 September, 2024


دارالاِفتاء


ماز فجر کی جماعت قائم ہونے کے بعد فجر کی سنت پڑھ کر جماعت میں شریک ہوناچاہیے جیسا کہ ہم حنفیوں کا طریقہ ہے یا بغیر سنت پڑھے فوراً جماعت میں شامل ہونا ضروری ہے؟ ایک شخص نے پیپل سانہ کے مسلمانوں سے یہ اعتراض کیا کہ تم لوگ قرآن و حدیث کے خلاف سنت فجر پڑھنے کھڑے ہو جاتے ہو ۔ حالانکہ حدیث مسلم و بخاری میں یہ ہے۔ ’’ اذا اقیمت الصلوۃ فلا صلوۃ الا المکتوبۃ‘‘ ) ( اور یہ کہتا ہے کہ اس میرے قول کے خلاف قرآن و حدیث لاؤ ۔فقہ میں کسی کا قول نہیں مانتا لہٰذا اس کا جواب کسی حدیث سے لکھیے۔

فتاویٰ #1037

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ: فجر کی جماعت قائم ہونے کے بعد اگر غالب گمان ہے کہ سنت پڑھ کر جماعت میں شریک ہو جائے گا تو جماعت سے الگ دوسری جگہ پہلے سنت فجر پڑھ لے اس کے بعد جماعت میں شریک ہو جائے اور اگر سنت پڑھنے میں جماعت ترک ہونے کا اندیشہ ہے یا دوسری کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں سنت پڑھے تو سنت نہ پڑھے جماعت میں شریک ہو جائے۔ احادیث کریمہ سے یہی ثابت ہے ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا اسی پر عمل ہے کوئی حدیث اس کے خلاف نہیں۔ مگر بد مذہب مسلمانوں میں اختلاف و افتراق پیداکرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں اسی میں اپنی کامیابی جانتے ہیں قرآن و حدیث کو نہ بد مذہب مانتے ہیں نہ جانتے ہیں ۔ فہم قرآن ہر نتھو خیرابدھو جمن کا کام نہیں۔قرآن مجید کا ارشاد ہے: وَمَا یَعْقِلُھَا اِلاَّ العَالِمُون۔ ) ( ان کہاوتوں کو صرف علما ہی جانتے ہیں۔ اسی لیے ارشاد فرمایا: فَاسۡئَلُوۡا اَھۡلَ الذِّکۡرَاِنۡ کُنۡتُمۡ لَاتَعۡلَمُوۡنَ۔ ) ( اگر نہیں جانتے تو جاننے والوں سے دریافت کرو۔ حدیث دانی کے متعلق تو امام اجل حضرت سفیان ابن علیہ جو امام شافعی اور امام احمد کے استاذہیں اورامام بخاری کے استاذ کے استاذ ہیں فرماتے :’’الحدیث مضلۃ الا للفقھا‘‘ حدیث سخت پھسلانے والی ہے مگر فقہا کو ۔ لہٰذا اگر حدیث پر عمل کرنا ہے تو پہلے فقہا کا دامن پکڑے۔ یہ کہنا کہ قرآن و حدیث سے جواب دو، میں فقہ میں کسی کا قول نہیں مانتا ۔یہ اس غیر مقلد کی سخت جہالت ہے وہ فقہ کو جانتا ہی نہیں وہ اپنی جہالت سے فقہ کو قرآن و حدیث کے خلاف سمجھتا ہے ۔ حالاں کہ فقہ ہی قرآن و حدیث کا صحیح مطلب ہے ۔ خصوصاً فقہ حنفی، حضرت امام اعظم کا اصول ہے کہ حدیث کے خلاف قیاس ہرگز قابل اعتبار نہیں مثلاً قہقہہ فی الصلوۃ ناقص وضو ہے ۔ یہ حدیث سے ثابت ہے اور قیاس چاہتا ہے کہ قہقہہ سے وضو نہ ٹوٹے اس لیے کہ قہقہہ کوئی نجاست نہیں ہے جو طہارت کے منافی ہو پھر اس سے وضوکیوں کر ٹوٹے گا ؟اسی لیے خارج نماز قہقہہ ناقض وضو نہیں مگر چوں کہ حدیث میں آیا ہے کہ ’’ نماز میں قہقہہ ناقص وضو ہے ‘‘ لہٰذا حضرت امام اعظم نے حدیث کے سامنے سر تسلیم خم کیا اور قیاس کوترک کردیا۔ فقہ حنفی کا ایک مسئلہ بھی ایسا نہیں جو حدیث کے خلاف ہو اور کسی حدیث سے بھی فقہ حنفی پر اعتراض کیا جاسکے ۔وجہ اعتراض صرف معترض کی جہالت یا تعصب ہے ۔ حدیث :’’ اذا اقیمت الصلوۃ فلاصلوۃ الا المکتوبۃ‘‘) ( سے مسلک حنفیہ پر اعتراض بھی جہالت ہی پر مبنی ہے جو شخص مسئلہ اداے سنت فجر سے واقف ہو اور حدیث مذکور کا مطلب جانتا ہو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے عمل سے باخبر ہو اس پر آفتاب سے زیادہ روشن ہے کہ فجر کی جماعت قائم ہونے کے بعد سنت فجر حنفیہ کے مذہب کے مطابق ادا کر کے جماعت میں شریک ہونا ہی حق ہے۔ حدیث کا یہی حکم ہے اس پر اعتراض سراسر جہالت و حماقت ہے یا تعصب و عداوت ہے ۔ لہٰذا پہلے مسئلہ ادا ئے سنت فجر بیان کیا جاتا ہے اس کے بعد حدیث مذکور کا مطلب اس کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا تعامل بیان کیا جائے گا۔ مسئلہ اداے سنت فجر: فجر کی سنتیں تمام سنتوں سے زیادہ قوی سب سے زیادہ موکد ہیں حضور ﷺ نے ان کو کبھی کسی جگہ ترک نہیں کیا۔نہ سفر میں نہ حضر میں ہمارے لیے ارشاد فرمایا ہے ۔ حدیث: قال ﷺ لاتدعو ھما وان طردتکم الخیل۔) ( یعنی فجر کی سنتوں کو نہ چھوڑو اگرچہ تمہیں گھوڑے کچل ڈالیں۔ دوسری حدیث : قال ﷺرکعتا الفجر أحب إلي من الدنیا و مافیھا۔) ( حضور نے فرمایا فجر کی سنتیں مجھے ساری دنیا اور دنیا کی ساری کائنات سے زیادہ محبوب ہیں۔ جب کہ فجر کی سنتیں حضور اقدس ﷺ کو ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں اور ہمیں ہر حال میں ان کے ادا کرنے کا حکم دیا ہے اورخودان کو ہمیشہ پڑھا ہے کبھی کسی حال میں ان کو ترک نہیں فرمایا تو حتی الامکان ان سنتوں کا ادا کرنا ضروری ہوا اور جماعت بھی ضروری ہے اس کی بھی شدید تاکید فرمائی ہے اس لیے سنت کی ادا میں یہ لحاظ ضروری ہے کہ جماعت ترک نہ ہونے پائے اور ایسی جگہ ادا کرے کہ افتراق جماعت لازم نہ آئے یعنی نہ تو صف کے برابر ہو کر پڑھے نہ صف کے قریب کہ یہ مکروہ ہے بلکہ جس مکان میں جماعت ہو رہی ہے اس سے دوسرے مقام میں علیحدہ پڑھے اور سنت پڑھ کر جماعت میں شریک ہو جائے تاکہ دونوں فضیلت حاصل کرلے اور اگر سنت پڑھنے میں جماعت جانے کا خوف ہو تو سنت نہ پڑھے بلکہ جماعت ہی میں شریک ہو جائے تاکہ جماعت ترک نہ ہو ۔ خلاصہ یہ ہے کہ جماعت قائم ہونے کے بعد ادائے سنت دوشرطوں پر موقوف ہے اول جماعت ملنے کا غالب گمان ہو ۔ دوم جس جگہ جماعت ہو رہی ہو اس سے علیحدہ دوسرے مقام میں پڑھنا۔ در مختار میں ہے : و إذا خاف فوت رکعتی الفجر لاشتغالہ بسنتھا ترکھا؛ لکون الجماعۃ اکمل. و الا لایترکھا بل لیصلیھا عند باب المسجد ان وجد مکانا. و الا ترکھا لان ترک المکروہ مقدم علی فعل السنۃ ۔) ( یعنی جب فجرکی سنتیں پڑھنے میں جماعت جانے کا خوف ہو تو سنت ترک کرے اور جماعت میں شامل ہو جائے کیونکہ جماعت زیادہ اہم اور اکمل ہے اور اگر جماعت جانے کا خوف نہ ہو تو سنتیں نہ چھوڑے بلکہ ضرور پڑھے اگر جماعت سے علیحدہ مسجد کے دروازے کے قریب پڑھے۔ اور اگر علیحدہ جگہ نہ ہو تو بھی سنت ترک کرے کیونکہ جماعت کے قریب اسی مکان میں سنت پڑھنا مکروہ ہے اور مکروہ فعل کا ترک سنت پر مقدم ہے ۔ معنی حدیث: حنفیہ کے اس مسلک پر حدیث’’ اذا اقیمت الصلوۃ فلا صلوۃ الا المکتوبۃ‘‘ سے ہرگزاعتراض نہیں ہوسکتا کیونکہ حدیث کے یہ معنی ہیں کہ جس مکان میں جماعت قائم ہے اس مکان میں سوائے اس فرض نماز کے دوسری نماز نہیں، اس مکان میں دوسری نماز پڑھنا مکروہ ہے اس لیے کہ اس میں انتشار ِ جماعت اور افتراق جماعت لازم آتا ہے ۔ نیز سنت اور فرض کا خلط لازم آتا ہے جس سے حدیث میں ممانعت فرمائی ہے ۔ لہٰذا اسی مکان میں جس میں جماعت فجر ہو رہی ہے سنت فجر پڑھنا مکروہ ہے اور حدیث میں اسی مکان میں سنت فجر کی ممانعت ہوئی لہٰذا دوسرے مکان میں دوسری جگہ سنت فجر پڑھنا حدیث سے ممنوع نہیں اس لیے یہ حدیث مسلک حنفیہ کے ہرگز خلاف نہیں۔ اور اگر حدیث کے یہ معنی ہوں کہ جب جماعت قائم ہو جائے تو دوسرے مکان میں دوسری جگہ بھی سنت فجر پڑھنا منع ہے تو لازم آتا ہے کہ کثیر صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالی عنہم اجمعین کا عمل اس حدیث کے خلاف ہو اور وہ صحابہ کرام اس حکم رسول اللہ ﷺکے تارک ہوں کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سنت فجر ادا کرتے تھے جماعت ہوتی رہتی تھی اور سنتِ فجرپڑھ کر جماعت میں شریک ہوتے تھے ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبد اللہ بن عمر ، حضرت حذیفہ حضرت ابو موسی حضرت ابو الدرداء وغیرہم صحابہ کرام کا یہی مذہب ہے یہی عمل ہے۔ جماعت ہوتی رہتی تھی مگر یہ حضرات جماعت سے الگ دوسرے مقام میں اول سنت فجر ادا کرتے تھے ، اس کے بعد جماعت میں شریک ہوتے تھے اس کے ثبوت میں کثیر احادیث کریمہ وارد ہیں حضرت عبد اللہ بن ابو موسی اپنے باپ حضرت ابوموسی سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت سعید ابن العاص نےحضرت ابو موسیٰ ، حضرت حذیفہ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو نماز فجر سے قبل بلایا۔یہ حضرات جب واپس آئے تو نماز فجر کی جماعت قائم ہوگئی تھی حضرت عبد اللہ بن مسعود مسجد کے ستون کی آڑ میں بیٹھ گئے اور سنت فجر ادا کی اور اس کے بعد جماعت میں شامل ہوئے ، حضرت ابن مسعود نے سنت فجر ادا کی اور حضرت ابو موسیٰ اور حضرت حذیفہ نے ان کو منع نہ کیا۔ یہ دلیل ہے کہ انہوں نے بھی حضرت عبد اللہ ابن مسعود کی موافقت فرمائی ان کے نزدیک بھی فجر کی جماعت شروع ہو جانے کے بعد سنت فجر کا ادا کرنا جائز ہے اور سنت فجر پڑھ کر جماعت میں شریک ہونا درست ہے ۔‘‘) ( حضرت ابو مجلہ سے مروی ہے فرمایا کہ میں فجر کی نماز کو حضرت عبد اللہ ابن عمر اور حضرت ابن عباس کے ہمراہ مسجد میں داخل ہوا۔ جماعت ہورہی تھی حضرت عبد اللہ بن عمر جماعت میں شریک ہوگئے اور حضرت ابن عباس نے سنت فجر ادا کی اس کے بعد جماعت میں شامل ہوئے۔‘‘) ( اس حدیث سے ثابت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس نے جب جماعت قائم ہو جانے کے بعد سنت فجر ادا کی اورا بن عمر نے بھی اس سے اتفاق کیا کیوں کہ ان کو منع نہیں فرمایا ۔ حضرت محمد بن کعب سے روایت ہے ، فرمایا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر اپنے مکان سے چلے اور فجر کی جماعت قائم ہوئی آپ نے مسجد میں داخل ہونے سے پہلے راستہ میں دو رکعت نماز پڑھی پھر مسجد میں داخل ہوئے اور جماعت سے نماز ادا کی ۔‘‘ ) ( اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت عبد اللہ ابن عمر نے یہ جانتے ہوئے کہ جماعت ہو رہی ہے مسجد سے باہر سنت فجر ادا کی، اس کے بعد جماعت میں شریک ہوئے۔ حضرت نافع سے روایت ہے فرمایا میں نے حضرت ابن عمر کو نماز فجر کے لیے جگایا اور جماعت قائم ہوچکی تھی آپ کھڑے ہوئے اور پہلے سنت فجر ادا کی ۔ حضرت ابو عبید اللہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو درداء مسجد میں آتے تھے اور فجر کی جماعت ہوتی رہتی تھی، پہلے آپ سنت فجر ادا کرتے اس کے بعد جماعت میں شریک ہوتے تھے ۔‘‘ ) ( حضرت ابو عبید اللہ نے اسی طرح حضرت ابن مسعود کی سنت فجر کی روایت کی ہے یعنی جس طرح حضرت ابو درداء پہلے سنت فجر ادا کرتے تھے اس کے بعد شریک جماعت ہوتے تھے ۔ اسی طرح ابن مسعود کا عمل تھا۔ ان تمام احادیث مذکورہ بالا سے ثابت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین جماعت قائم ہونے کے بعد سنت فجر پڑھتے تھے اور سنت فجر پڑھنے کے بعد جماعت میں شریک ہوتے تھے ۔ کثرت سے صحابۂ کرام کا یہ عمل دلیل ہے کہ خیر القرون میں سنت فجر ادا کرنے کا یہی طریقہ تھا اور یہی تعامل تھا ۔ چنانچہ حضرت ابو عثمان سے روایت ہے فرمایا کہ ہم بغیر سنت فجر پڑھے آتے تھے اور حضرت عمر نماز فجر پڑھاتے ہوتے تھے ہم پہلے مسجد کے اخیر حصہ میں سنت فجر پڑھتے تھے اس کے بعد جماعت میں شریک ہوتے تھے۔ دوسری حدیث میں فرمایا۔ ہم آتے تھے اور حضرت عمر نماز فجر پڑھاتے ہوتے تھے تو پہلے ہم سنت فجر پڑھتے تھے اس کے بعد جماعت میں شریک ہوتے تھے ۔ اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ جماعت قائم ہونے کے بعد سنت فجر کی ادا کا یہی طریقہ تھا کہ جماعت سے علیحدہ دوسری جگہ پہلے سنت فجر ادا کرتے تھے اس کے بعد شریک جماعت ہوتے تھے۔ دور فاروقی میں صحابہ اور تابعین کا یہی تعامل تھا، یہی حضرت امام اعظم کا مسلک ہے ۔ احادیث مذکورہ بالا سے ثابت ہوا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور تابعین کرام نے حدیث ’’اذا اقیمت الصلوۃ فلاصلوۃ الا المکتوبۃ‘‘ کا یہی مطلب سمجھا کہ جس مکان میں جماعت ہو رہی ہے اس مکان میں اسی جگہ اس فرض نماز کے علاوہ دوسری نماز کی ممانعت ہے ۔ دوسرے مکان میں دوسری جگہ ممانعت نہیں ہے ۔ حدیث کا یہی مطلب حضرت امام اعظم نے لیا ہے ۔ وہی صحابۂ کرام کا مسلک اور حضرت امام اعظم کا مذہب ہے ۔ حضرت امام اعظم اور ان کے مسلک پر طعن صحابۂ کرام پر طعن ہے ۔ غیر مقلد آنکھیں کھولیں۔ جو غیر مقلد اس حدیث کو مذہب حنفی کے خلاف بتاتا ہے اور حدیث کے یہ معنی لیتا ہے کہ دوسرے مکان اور دوسری جگہ بھی سنت فجر پڑھنا منع ہے ۔ وہ ان تمام صحابہ کرام کا مخالف ہے ،سب کے خلاف حدیث کا مطلب بتاتا ہے، ان سب کے تعامل کا مخالف ہے۔ یہ اس کی جہالت ہے غیر مقلدوں کی حدیث دانی ایسی ہی ہوتی ہے ۔ اسی پر حدیث حدیث چیخا کرتے ہیں ۔ اسی جہالت کے نشہ میں کود کود کر اچھل اچھل کر فقہائے کرام پر اعتراض کیا کرتے ہیں ۔ خصوصاً حضرت امام اعظم پر بڑے زورو شور سے تبرا کرتے ہیں۔ ان کا یہی مذہب ہے ان کا یہی کام ہے ۔ یہ ان کی روحانی غذا ہے ۔ ان سے کیا شکایت ۔ شکایت تو سنی مسلمانوں سے ہے ۔ غیر مقلد اعلان کررہا ہے ۔اور اپنی بددینی کو پکار کربتارہا ہے کہ فقہ میں کسی کاقول نہیں مانتا یعنی میں ائمہ دین میں سے کسی امام کو نہیں مانتا باوجود اس کے کہ سنی مسلمان اس کی بات سنتے ہیں اس کو منہ لگاتے ہیں ۔ مذہب حنفی پر اس جاہل کندہ ناتراش کے اعتراض کو قابل جواب سمجھتے ہیں۔ اس کا صاف و صحیح جواب یہ تھا کہ جب تو کسی امام کو نہیں مانتا تو ہم تجھے کیوں مانیں جب تو ائمہ دین کا فرمان نہیں سنتا تو ہم تیری بات کیوں سنیں۔ مسلمانو! ہوش میں آؤ اور غور سے سنو!بددینوں سے حدیث کیا قرآن مجید بھی سننا منع ہے ۔ حضرت امام ابن سیرین کے پاس ایک خارجی آیا اور کہا کہ میں آپ کو قرآن مجید سنانا چاہتا ہوں حضرت نے فرمایا میں نہیں سنتا اس نے پھر کہا آپ نے پھر انکار فرمایا اور اجازت نہ دی ۔ جب وہ چلا گیا تو حاضرین نے عرض کیا کہ حضرت آپ نے قرآن سننے سے انکار کردیا۔ آپ نے فرمایا تمہیں معلوم نہیں وہ خارجی تھا لوگوں نے عرض کیا کہ خارجی تھا تو کیا ،وہ تو قرآن مجید سناتا تھا ؟قرآن مجید سننے میں کیا حرج تھا؟حضرت امام ابن سیرین نے فرمایا کہ وہ قرآن مجید سناتا اس کے بعد اپنے مذہب کے موافق اس کا مطلب بیان کرتا ۔ممکن تھا کہ میں گمراہ ہو جاتا اس لیے میں نے دروازہ ہی بند کردیا۔ حضرت ابن سیرین کبار تابعین میں سے ہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے دیکھنے والے ہیں۔ وہ تو بد مذہب سے قرآن مجید نہیں سنتے اور گمراہی کا خوف کرتے ہیں مگر آج سنی مسلمان ہر بد مذہب غیر مقلد وہابی ، دیوبندی ، قادیانی ، نیچری وغیرہ کی ہر بات سننے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے گمراہی بڑھتی چلی جاتی ہے ۔ مسلمان اگر اس اصول پر عمل کرتے کہ وہ بد مذہب کی کوئی بات ہی نہ سنتے حتی کہ قرآن مجید بھی ان سے نہ سنتے تو مسلمانوں کا دین و ایمان محفوظ رہتا اور یہ گمراہ فرقے ترقی نہ کرتے ۔ مسلمانو! تمہیں لازم ہے کہ نہایت مضبوطی سے اپنے مذہب اہل سنت و جماعت پر قائم رہو اور ہرگز ہرگز کسی بدمذہب کی کوئی بات نہ سنو ۔اسی میں تمہارے دین و ایمان کی حفاظت ہے اسی میں سلامتی ہے ۔ واللہ تعالی اعلم ۔(فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved