27 July, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia Jan 2023 Download:Click Here Views: 27773 Downloads: 1091

(4)-کیا فرماتے ہیں علماے دین؟

کیا فرماتے ہیں علماے دین؟ 

مفتی نظام الدین

مندر کے لیے چھوڑی گئی زمین پر مدرسہ بنانا کیسا ہے؟

جموں کے علاقہ راجوری میں گورنمنٹ نے ایک بہت بڑی جگہ مندر کے لیے چھوڑی تھی کچھ عرصہ بعد مند ر والوں نے اُس جگہ کو لیز پر ایک جاوید شاہ نامی شخص کے حوالے کر دیا اور اس کو پورے اختیارات کے ساتھ قبضہ بھی دے دیا، اس کے بعد جاوید شاہ نامی شخص نے اس مندر کی جگہ میں پلاٹنگ کرناشروع کر دی، اور ایک مفتی صاحب کی ترغیب پر اس جگہ میں سے ایک پلاٹ مدرسہ کے لیے بھی وقف کر دیا پھر مدرسہ کے نام کا چندہ کر کے اس جگہ میں ایک فلور کی تعمیرات کروائی گئی اور مدرسہ شروع کیا گیا اس میں ابھی تعلیم کا سلسلہ جاری ہے اور کچھ ماہ قبل جاوید شاہ صاحب نے اس مدرسہ کی جگہ کو پاور آف اٹارنی کے ذریعے ایک ٹرسٹ کے نام ٹرانسفر کر دیا اب موجودہ ٹرسٹ اس مدرسہ کی جگہ پر مزید تعمیرات کرنا چاہتا ہے اس جگہ کے حوالے سے قانونی طور پر جب یہاں کے لوکل وکیل سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ ابھی آپ کے لیے موجودہ کا غذات ہی ویلڈ ہیں اگر کبھی گورنمنٹ کی طرف سے اس جگہ کو خالی کرنے کا حکم آیا تو صرف مدرسہ کی جگہ زد میں نہیں آئے گی بلکہ پورا علاقہ ہی زد میں آئے گا۔

مذکورہ معلومات کی روشنی میں دریافت طلب امور یہ ہیں کہ :

(1) کیا مذ کورہ جگہ مدرسہ کے مد میں وقف ہو چکی ہے ؟

 (2) کیا اس جگہ پر چندہ کی رقم سے مزید تعمیرات کرنا درست ہو گا؟

(3) کیا اس جگہ پر شرعی اعتبار سے تعمیرات کی اجازت کی کوئی صورت بنتی ہے؟                            بینوا توجروا

الجواب: حکومت کے اوقاف وعطایا و مفادات کا دستور کے مطابق تحفظ لازمی ہے، یہاں کے تمام باشندے بشمول مسلمان اس کے پابند عہد ہیں اس لیے مندر کے نام حکومت کے اوقاف یا مخصوص عطایا کا بیچنا، خریدنا اپنے عہد کی خلاف ورزی اور حرام و گناہ ہے۔ فورا اس سے باز آکر دست بردار ہوں اور وہاں سے اپنی عمارتیں ہٹائی جائیں۔ قانوناً زمین کو لیز پر لینے کی اجازت ہو تو لیز پر لے سکتے ہیں۔ غیر قانونی قبضہ و تصرف کا شرعی جواز نہیں۔

     اوقاف میں لیز اور اجارے کی گنجائش ہوتی ہے، خرید و فروخت  کی نہیں۔ جو جائدادیں کسی وقف پر آمدنی کے لیے مختص ہوں انھیں لیز یا اجارہ پر دینے لینے کی اجازت ہوتی ہے مگر عام حالات میں کسی بھی وقف کو بیچنے خریدنے کی اجازت نہیں ہوتی۔

      مندر والوں نے وہ جگہ لیز پر دے دی۔

       اگر گورنمنٹ کی طرف سے قانوناً انہیں اس کی اجازت ہو تو وہ زمین لیز پر دینا، لینا درست ہے اور ظاہر یہ ہے کہ جب مندر والوں نے لیز پر دیا ہے تو قانونا اس کی اجازت ہوگی تاہم اس کی تفتیش ہونی چاہیے۔ اوقاف مثلِ مال یتیم ہوتے ہیں اس لیے شریعت نے اس کی حفاظت کے لیے خاص اہتمام کیا ہے۔ اگر حکومت کے اوقاف و عطایا ہی محفوظ نہ رہیں گے تو عام رعایا کے اوقاف و عطایا کا کیا حال ہوگا۔ اس لیے تفتیش کی جائے کہ قانونا اس مندر کے اوقاف کو لیز پر دینے کی اجازت ہے، یا نہیں۔ اجازت ہے تو ٹھیک ہے ورنہ زمین میں بیجا تصرف کی وجہ سے اس سے جڑے سب لوگ ماخوذ ہوں گے۔

       حکومت اس طرح کی جو زمینیں دیتی ہے ان کو اسی غرض میں صرف کرنا لازم ہوتا ہے جس غرض کے لیے حکومت نے دی ہے اور یہ یقینی ہے کہ وہ زمین بیچنے، خریدنے کے لیے نہیں ہوتی اس لیے مندر کی زمین کو لیز پر لے کر بیچنا اور کسی خریدار کا قبضے کے بعد اسے مدرسہ کے لیے وقف کر دینا ناجائز ہے مسجد یا مدرسہ کے لیے اپنی مملوکہ زمین کا وقف درست ہوتا ہے اور مندر کی وہ زمین ہرگز اپنی مملوکہ نہیں۔ اس لیے وہ زمین مدرسہ کے لیے وقف نہ ہوئی، فورا وہاں سے مدرسہ  کے نام موسوم عمارت ہٹائی جائے اور مسلمان ایسے غیر قانونی کام یا نام کے مدرسہ کے لیے ہرگز چندہ نہ دیں کہ یہ اپنا مال ضائع کرنا ہے۔

       اب ترتیب وار ہر سوال کے جواب ملاحظہ کریں۔

(۱) ہرگز وہ زمین مدرسہ کے لیے وقف نہیں ہوئی، نہ وہ زمین کسی مسلم کی ہے، اور نہ ہی مدرسے پر وقف کے لیے ہے اور نہ ہی اس کا وقف جائز و درست ہے ۔واللہ تعالیٰ اعلم

(۲) اس جگہ پر خلاف قانون مدرسہ کی تعمیرات کے لیے چندہ کرنا اور تعمیرات بنانا، بلکہ اس جگہ پر اپنا قبضہ مالکانہ برقرار رکھنا سب ناجائز و گناہ ہے۔ زمین مندر کو واپس کی جائے یا لیز پر قانونا لینے کی اجازت ہو تو اپنے نام لیز پر لی جائے، ورنہ اس سے جلد از جلد دست کش ہو جائیں واللہ تعالیٰ اعلم۔

(۳) گورنمنٹ نے جس کام کے لیے زمین دی ہے اس کے سوا دوسرے کام کے لیے تعمیرات کی اجازت نہیں، وہاں سے الگ ہو کر صاف زمین حاصل کر کے اپنا کام کریں۔

      ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے، جس کا ایک مرتب دستور بھی ہے اور یہاں کے تمام باشندے اس کے پابند عہد ہیں اس لحاظ سے کسی بھی مذہب کے اموال، اوقاف، اور اس کے لیے حکومت کے عطایا اور ان کے اغراض و مقاصد کا تحفظ یہاں کے ہر باشندے بالخصوص ہم قوم مسلم پر لازم ہے اور فریب و بدعہدی حرام و گناہ ہے اس لیے مندر کے نام گورنمنٹ کے عطایا و اوقاف کا تحفظ ہماری بھی ذمہ داری ہے تو اسے خریدنا، بیچنا یا وہاں عمارتیں تعمیر کرنا اس تحفظ اور عہد و میثاق کی خلاف ورزی ہے، جو حرام و گناہ ہے۔

اللہ تعالی فرماتا ہے:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بالعُقُود۔

 (القرآن الحکیم، سورۃ المائدۃ:۵، الآیة:۱)

 ترجمہ:       اے ایمان والو اپنے قول پورے کرو۔ (کنزالایمان)

       ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی فرماتا ہے:

       وَ لَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ حَتّٰى یَبْلُغَ اَشُدَّه۪ٗ. وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ۔ اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا۔

(القرآن الحکیم، سورۃ بنی اسرائیل:۱۷، آیت:۳٤)

ترجمہ:     اور یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر اس راہ سے جو سب سے بھلی ہے یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچے اور عہد پورا کرو بیشک عہد سے سوال ہونا ہے۔(کنزالایمان)

      حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا منافق کی تین علامتیں ہیں _ انھیں میں سے ایک یہ بیان کیا_  ”إذا عَاھَدَ غَدر.“

ترجمہ:      معاہدہ کرکے خلاف ورزی کرے۔

(صحیح بخاری شریف و صحیح مسلم شریف)

     مختصر یہ کہ مسلمان یہ بات یاد رکھیں کہ ہماری سماجی زندگی دستور ہند کی آئینہ دار رہے۔ ہم سب اور یہاں کے تمام باشندے باہم دستوری معاہدہ کی وجہ سے مُعاہِد ہیں اس لیے حکم اسی کے مطابق جاری ہوگا۔ معاہدے کی پابندی کو اسلام نے بہت اہمیت دی ہے وہ ہمارے قول و فعل سے محسوس ہونا چاہیے اور ہرگز ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہیے جس سے اپنے عہد یا مذہب پر کوئی شک کی گنجائش ہو واللہ تعالی اعلم۔

کفر فقہی کے مرتکب کو کافر یا مرتد کہنا کیسا ہے؟

حضرت ! کوئی شخص جو کفر فقہی کا مرتکب ہو ایسے شخص کو فقہا کے طریقے کے مطابق ”کافر ہے، مرتد ہے یا دائرۂ اسلام سے خارج ہے“ کہہ سکتے ہیں یا نہیں؟ اور اگر کوئی فقہا کے طریقہ کے مطابق ”کافر یا اسلام سے خارج ہے“ کہہ دے تو اس پر کیا حکم شرعی عائد ہوتا ہے؟

الجواب:کفر فقہی کے مرتکب کو فقہا اور ان کے متبعین کافر کہتے ہیں فتاوی ہندیہ اور اعلی حضرت امام احمد رضا ﷛کے رسالہ الکوکبة الشھابیه وغیرہ میں اس کے کثیر شواہد موجود ہیں، کفر فقہی اجماعی کے مرتکب کو کافر کہنے میں کوئی کلام نہیں کہ تمام فقہا اسے کافر کہتے ہیں تو ان کے متبعین بھی وہی حکم جاری کریں گے۔ متکلمین کی بات الگ ہے کہ گفتگو کفر کلامی میں نہیں، کفر فقہی اجماعی میں ہے۔ اعلیٰ حضرت  متکلمین سے ہیں تاہم لکھتے ہیں:

      بالجملہ ماہِ نیم ماہ و مہرِ نیمروز کی طرح ظاہر و زاہر کی اس فرقۂ متفرقہ یعنی وہابیہ اسماعیلیہ اور اس کے امامِ نافر جام پر جزمأ قطعاً یقینا اجتماعا بہ وجوہ کثیرہ کفر لازم، اور بلاشبہہ جماہیر فقہاے کرام واصحاب فتوی اکابر واعلام کی تصریحات واضحہ پر یہ سب کے سب مرتد، کافر۔ بہ اجتماع ائمہ ان سب پر اپنے تمام کفریات ملعونہ سے بالتصریح توبہ و رجوع اور از سر نو کلمۂ اسلام پڑھنافرض وواجب، اگر چہ ہمارے نزدیک مقام احتیاط میں اکفار سے کف لسان ماخوذ و مختار ومرضى ومناسب والله سبحنه وتعالى أعلم وعلمه جل مجده أتم وأحكم۔

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved