ہریانہ سے منی پور تک کی خوں ریز سرگذشت
مبارک حسین مصباحی
ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے ، اس میں ہندو مسلم اور سکھ عیسائی وغیرہ سب رہتے آئے ہیں ،تقسیم وطن کے بعدخاکِ ہند میں اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ قتل و خوں ریزی اور ظلم و تشدد کی آگ پہلے ہی سے بھڑکی ہوئی ہے مگر جب سے بی جے پی بر سرِ اقتدار آئی ہے اس نے دیگر اقلیتوں اور خاص طور پر مسلم سماج کو ظلم و جبر کا محور بنا لیا ہے،مضبوط دستاویز کے باوجود صرف آستھا کی بنیاد پر بابری مسجد شہید کر دی گئی، گیان واپی مسجد وارانسی، نشانے پر ہے وزیر اعلیٰ کے ایک موجودہ بیان نے مسلمانوں اور انصاف پسند طبقات کو چونکا دیا ہے، اسی طرح سیکڑوں مساجد نشانے پر ہیں ،بہت سی مساجد اورعید گاہوں پر تنازع جاری ہے ۔مختلف کورٹس میں مقدمات چل رہے ہیں ۔
میوات میں کیا ہوتا رہا ہے ،اکثریتی فرقے کے شرپسندوں نے یکے بعد دیگرے جبری طور پر مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارا ۔ان تمام معاملات پر گفتگو ہوتی رہی ہے، نتائج سب کے سامنے ہیں، ہمیں اپنے قلم سے لکھنے کی ضرورت نہیں۔ ۳۱ جولائی 2023 کو مذہبی یاترا کے دوران تشدد پھوٹ پڑا، یہ حادثہ نوح ہریانہ کا ہے ،فرقہ وارانہ فساد کی یہ آگ ہریانہ کے کئی شہروں کو اپنی زد میں لے چکی ہے۔ ان میں توڑ پھوڑ، گھروں اور دوکانوں اور دیگر املاک کو نذر آتش کرنا، مار پیٹ اور ظلم وتشدد کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔چھ سے زائد لوگ اب تک اپنی جانیں گنوا چکے ہیں ۔ نوح میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ، انٹر نیٹ بند کر دیا گیا ، یہ فساد کی آگ سوہنا، فرید آباد ،پلول اور گروگرام میں زیادہ رنگ دکھا رہی ہے ۔ خاص بات یہ ہے کہ شر پسندوں نے سیکٹر ۵۷میں واقع انجمن مسجد پر دھاوا بول دیا ہے۔ آدھی رات کو ہوئے اس حملے میں شر پسندوں کی گولیوں اور لاٹھی ڈنڈوں سے مسجد کے امام سمیت تین لوگ بری طرح زخمی ہوگئے ۔ بعد میں مسجد کو بھی آگ لگا دی گئی ، ان تینوں زخمیوں کو ہاسپیٹلائز کیا گیا جہاں مسجد کے نائب امام حافظ سعد کو مردہ قرار دے دیا گیا، جبکہ دنوں زخمی آئی سی یومیں ہیں خورشید کی حالت نازک ہے ۔۱۹ سالہ حافظ سعد چھ ماہ قبل ہی مسجد میں امامت کے فرائض کے لیے منتخب ہوئے تھے۔ وہ بہار کے سیتا مڑھی کے رہنے والے تھے۔
وہیں منگل کی دوپہر گروگرام کے بادشاہ پور کی قدیمی جامع مسجد کو شر پسندوں نے گھیر لیا۔ اس کے بعد وہاں بڑی تعداد میں پولیس اہلکاروں کو تعینات کر دیا گیا۔ شر پسند کسی طرح اس مسجد پر بھی حملہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ افسوس کی بات ہے کہ انتظامیہ ایسے شرپسندوں کے ساتھ سختی سے پیش نہیں آرہی ہے یہی وجہ ہے کہ شر پسندوں نے بادشاہ پور میں اقلیتی طبقہ کی دوکانوں پر حملہ کر دیا۔ قریب دوسوشرپسندوں نے وہاں پہنچ کر آگ زنی بھی کی۔
گروگرام کے ڈپٹی کمشنر نشانت یادو کا کہنا ہے کہ فی الحال حالات قابو میں کر لیے گئے ہیں ہم فلیگ مارچ کر رہے ہیں۔ سوہنا میں بھی کچھ دوکانوں میں توڑ پھوڑ کی گئی ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ کئی اضلاع میں دو گروپ آمنے سامنے ہیں اور پتھر بازی و آگ زنی جاری ہے۔ اطلاع کے مطابق اب تک قریب سو گاڑیوں میں توڑ پھوڑ اور آگ لگائی گئی ہے۔ پلول کی ایک مسجد پر بھی شرپسندوں نے گزشتہ شب حملہ کر کے آگ لگادی۔ پولیس فورس وہاں تعینات کر دی گئی ہے، لیکن حالات کشیدہ ہیں۔
مسجد کے سامنے رہنے والے بلد یوراج نے بتایا کہ رات کو ۲۰-۳۰ لوگ آئے تھے اور انھوں نے مسجد میں آگ لگادی۔ محلے کے لوگوں نے ہی آگ بجھائی ۔ پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ میوات کو ہندوؤں کا قبرستان نہیں بنے دیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ سامنے کے حالات کے بعد ایسا لگ رہا ہے کہ میوات منی پاکستان بن گیا ہے، یہ پریس کانفرنس وشو ہندو پریشد نے منعقد کی تھی۔
بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ آئےدن مسلمانوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ آپ خو د غور کریں کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ ہے ، اب آپ دیکھیں سینٹر میں بی جے پی کی حکومت ہے اور ہریانہ بھی بی جے پی کے زیر اقتدار ہے ۔ کہاں ہیں ریاست کے وزیرا علیٰ منوہر لال کھٹر اور ریاستی وزیر داخلہ اور دیگر ارباب اقتدار، کچھ کچھ ہم بھی سمجھ رہے ہیں مقصد صرف آنے والا مرکزی الیکشن ہے۔ اقلیتوں کو ستاؤ ، برباد کرو اور ان کی جانوں سے کھیلو ، حکومت خاموشی اختیار کرے،مگر سچی بات یہ ہے کہ حکومت فساد کراتی بھی ہے اور ختم بھی کراتی ہے۔
جے پور سے ممبئی جاری ٹرین میں ایک انتہائی افسوس ناک حادثہ پیش آیا کہ آر پی ایف کے کانسٹیبل چیتن سنگھ نے اپنی اے کے 47 رائفل سے اپنے ایک سینیئراور تین مسلمانوں کو اپنی گولیوں کا نشانہ بنایا، اس قاتل نے ایک مسلمان کی لاش پر کھڑے ہو کر کہا، اگر ہندوستان میں رہنا ہے تو مودی جی اور یوگی جی کو ووٹ دینا ہوگا۔ ملک بھر میں اس کے خلاف احتجاج جاری ہے، اس کو پھانسی دینے کا پرزور مطالبہ کیا جا رہا ہے، مرنے والوں کی حکومتی سطح پر مدد کرنے کی مانگ کی جاری ہے۔ آپ ذرا سوچیں اب مودی میڈیا اور بی جے پی سے انعام یافتہ میڈیا کے افراد لیپا پوتی کرنے میں لگے ہیں کہ قاتل کا دماغی توازن درست نہیں تھا ، سوال یہ ہے کہ اگر واقعی اس کا دماغی توازن درست نہیں تھا تو رائفل دے کر اسے ڈیوٹی پر کیوں رکھا گیا ۔ اگر واقعی اس کا دماغ خراب تھا تو اس نے اندھا دھند گولیاں کیوں نہیں چلائیں، مختلف بوگیوں میں تلاش کر کے صرف داڑھی والےمسلمانوں ہی کو کیوں نشانہ بنایا اور موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اسی کے دوسرے دن ایک اور داڑھی والے مسلمان کا پولیس والے نے سر پھاڑ دیا۔ ایک اور شہر میں چند مسلمانوں کو شر پسند دوڑا رہے ہیں، دوڑنے والوں میں ایک عالم بھی ہے۔
منی پور ہمارےملک کا ایک صوبہ ہے وہاں بنیادی طور پر تین برادریوں کے لوگ بستے ہیں (۱) میتئی (2) قبائلی گروہ کو کی (۳)ناگا – کوکی اور ناگا سمیت دیگر قبائل کے افراد پہاڑی علاقوں میں رہتے ہیں، جبکہ میتئی کی اکثریت وادی میں رہتی ہے۔ میتئی برادری کے لوگ زیادہ تر ہندو ہیں جبکہ نا گا اور کوکی برادری کے لوگ بنیادی طور پر مسیحی [کرسچین] مذہب سے تعلق رکھتے ہیں ۔ میتئی منی پور کے 10 فیصد علاقے میں آباد ہیں جبکہ نوے فیصد میں ناگا ، کوکی او دیگر قبائل کے لوگ بستے ہیں۔
میتئی آبادی والے زیادہ سیاسی اثر رکھتے ہیں ،وہ تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے ترقیاتی شعبوں میں ہیں ۔ منی پور میں 60 ایم ایل اے ہیں جن میں چالیس میتئی کمیونٹی کے ہیں اور بیس نا گا اور کو کی قبائل سے ہیں۔ ان عہدوں کی وجہ سے منی پور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا ریاست کے اکثریتی قبیلے میتئی کو بھی شیڈیولڈ کاسٹ یعنی اقلیتی قبیلے میں شمار کیا جائے اور اسے بھی وہ مراعات دی جانی چاہئیں جو اقلیتی اور پسماندہ طبقات کو دی جاتی ہیں۔ انھیں ریاست کے بہت سارے علاقوں میں زمینیں خریدنے کی اجازت نہیں ۔ یہ زیادہ تر شہروں اور دار الحکومت امپھال اور اس کے گردونواح میں رہنے کے مجاز ہیں۔ اس نے ہائی کورٹ امپھال میں عرضی داخل کی، ہائی کورٹ نے اپنی تجاویز مرکزی حکومت کو بھیجیں ۔
اس کے بعد کوکی برادری کو تشویش لاحق ہوئی کہ یہ لوگ اگر پہاڑوں پر زمین خریدناشروع کر دیں گے، نیز دیگر امور میں بھی میتوں کو اقلیتی درجہ مل گیا تو یہ دیگر میدانوں میں بھی ہم سے آگے نکل جائیں گے۔ وہاں پر اقلیتی برادریوں اور خصوصی طور پر کو کی برادری نے احتجاج کیا ، اس احتجاج پر میتئی برادری وغیرہ نے حملے کیے اور ظلم وستم ،آگ زنی اور قتل و خونریزی کا نہ ختم کر ہونے والا سلسلہ جاری ہو گیا۔ یہ نسلی فساد 3 مئی ۲۰۲۳ کو شروع ہوا اور آج تک جاری ہے ۔ اب تک ہندو بنام مسیحی فسادات میں سیکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں ،سیکڑوں زخمی ہو چکے ہیں اور پچاس ہزار سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں اور منی پور کے امدادی کیمپوں میں رہنے کے لیے مجبور ہیں، دوسو سے زائد گرجا گھر ، بیس سے زائد پولیس اسٹیشن اور کئی ہزار مکانات اور دو کانیں نذرر آتش کی جا چکی ہیں، نجی اور سرکاری املاک آگ میں بھسم کر دی گئی ہیں۔
فساد زدہ منی پور سے جب 76 دنوں بعد ایک ہجوم کے سامنے کوکی برادری کے دو خواتین کے کپڑے اتار کر پریڈ کرانے اور ان پر جنسی تشدد کا دل دہلا دینے والی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی ، جس نے پورے ملک کے عوام و خواص اور سیاسی و سماجی حلقوں کو ہلا کر رکھ دیا، جس کی وجہ سے پورے ملک کا سر شرم سے جھک گیا ۔ اس پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے منی پور تشدد پر تشویش اور برہمی کا اظہار کر تے ہوئے کہا کہ ’’کل شیئر کی گئی ویڈیوز سے ہم بہت پریشان ہیں۔ ہم اپنی گہری تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ حکومت قدم اٹھائے اور کارروائی کرے۔ یہ ناقابل قبول ہے‘‘۔
ملک بھر کے 550 سے زیادہ سول سوسائٹی کے باوقار لوگوں نے اجتماعی طور پر ایک بیان جاری کیا تھا۔ بیان میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ ’’مرکز اور ریاست منی پور میں بی جے پی اور اس کی حکومتوں کی طرف سے کھیلی گئی تقسیم کی سیاست کے سبب آج منی پور بری طرح جل رہا ہے۔ ان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس جاری خانہ جنگی کو روکیں، اس سے پہلے کہ مزید جانیں ضائع ہوں۔‘‘ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ریاست نے اپنے سیاسی فائدے کے لیے دونوں برادریوں کے اتحادی ہونے کا ڈرامہ کیا، لیکن موجودہ بحران کے حل کے لیے اور بات چیت کی سہولت فراہم کرنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی گئی، بلکہ ان کے درمیان تاریخی کشیدگی کو مزید بڑھا دیا گیا۔
منی پور کی پولیس نے اس وائرل ویڈیو کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ یہ واقعہ چار مئی کو ضلع تھوبل میں پیش آیا تھا جس پر نامعلوم افراد کے خلاف اغوا، گینگ ریپ اور قتل کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
ویڈیو سامنے آنے تک اس سلسلے میں پولیس نے ملزمان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی تھی، لیکن اب حکام کا کہنا ہے کہ چار افراد کو اس سلسلے میں گرفتار کیا گیا ہے۔اخبار انڈین ایکسپریس کے مطابق چار مئی کو تھوبل میں کوکی زومی برادری کی خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔تاہم جنسی ہراسانی کا مقدمہ 18 مئی کو ضلع کانگپوکپی میں درج کیا گیا۔ اس کے بعد متعلقہ پولیس اسٹیشن کو کیس بھیج دیا گیا۔ ویڈیو میں ایک خاتون کی عمر 20 برس جبکہ دوسری کی 40 برس بتائی گئی ہے۔
ان خواتین نے پولیس کو دیے بیان میں کہا کہ ویڈیو میں صرف دو خواتین نظر آ رہی ہیں جبکہ وہاں موجود جتھے نے 50 سال کی ایک خاتون کے بھی کپڑے اتارے تھے۔ایف آئی آر میں درج ہے کہ ایک نوجوان خاتون کو دن کی روشنی میں گینگ ریپ کیا گیا۔
متاثرین نے کہا کہ تین مئی کو تھوبل میں ان کے گاؤں میں جدید ہتھیاروں سے لیس 800 سے 1000 افراد نے حملہ کیا جو وہاں گولیاں برسانے اور لوٹ مار کرنے لگے۔ان حالات میں ایک نوجوان اور دو معمر خواتین اپنے والد اور بھائی کے ہمراہ جنگل کی طرف بھاگیں۔
شکایت کے مطابق پولیس نے انھیں بچا لیا۔ جب پولیس انھیں تھانے لے جا رہی تھی تو تھانے سے دو کلو میٹر دور ایک جتھے نے ان خواتین کو اغوا کیا اور کپڑے اتارنے پر مجبور کیا۔
ایف آئی آر کے مطابق مظاہرین نے ان خواتین کو پولیس کی تحویل سے لیا جس کے بعد نوجوان خاتون کے والد کو موقع پر قتل کر دیا گیا۔
ایف آئی آر کے مطابق ایک جتھے نے تین خواتین کو مظاہرین کے سامنے بغیر کپڑوں کے چلنے پر مجبور کیا جبکہ نوجوان خاتون کو ہجوم کے سامنے گینگ ریپ کیا گیا۔ ان کے بھائی نے انھیں جتھے سے بچانے کی کوشش کی مگر اسے بھی قتل کر دیا گیا۔
اب ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیے کہ دونوں صوبوں میں بی جے پی براجمان ہے، مرکزی حکومت ان کی سرپرستی کر رہی ہے، آسام میں بھی یہی سب کچھ ہو رہا ہے۔ درد ناک سوال یہ ہے کہ کسی بھی مقام پر فساد ہوتے نہیں کرائے جاتے ہیں۔ اگر حکومت چاہے تو چند گھنٹوں میں فساد ختم ہو جائے۔ اب آپ دیکھیں کہ ہریانہ اور میوات علاقو ں میں جان و مال کا نقصان ہوا اور ملک کے دیگر علاقوں میں مسلسل ہوتا رہتا ہے ۔ جب بعد میں گرفتاریاں ہوتی ہیں تو مظلوموں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا جاتا ہے ، انھی پر سختیاں کی جاتی ہیں اور ان ہی پر جرمانے عائد کیے جاتے ہیں۔ جبکہ اصل فسادی کھلے گھوم رہے ہوتے ہیں۔
یہ مسئلہ صرف ہریانہ، دہلی، آسام اور اتر پردیش کا نہیں تقریباً ہر جگہ کا ہے ۔ اب پوزیشن یہ ہے کہ مسلمان ہزاروں کی تعداد میں محفوظ مقامات کی تلاش میں سرگرداں ہیں ۔ اب آپ منی پور اور اس کی راج دھانی امپھال ہی کو دیکھ لیجیے، وہاں مسلمانوں کا مسئلہ نہیں بلکہ ہندو اور کرشچین کا تصادم ہے مگر بہر حال انسانیت دشمنی ہے ، عورت کا تعلق کسی بھی برادری اور کسی بھی مذہب سے ہو اس کا تحفظ ہم سب کی ذمہ داری ہے ، شرم و حیا کسی نہ کسی درجے کی سب میں ہوتی ہے ۔ ہریانہ میں غیر ملکی کہہ کر یا گورنمنٹ کی زمینوں پر بتا کر غریبوں کی ۲۵۰ سے زائد جھگیاں توڑ دی گئیں اور مقامی لوگوں کی پکی عمارتیں اور دوکانیں بھی زمین بوس کی جا رہی ہیں ۔ ان تمام فسادتا کا مقصد ۲۰۲۴ء کے مرکزی الیکشن ہیں۔ غریبوں اور بی جے پی فکر کے مخالفین کو ستاؤ اور ہندو اکثریتی طبقات کو اپنی جانب متوجہ کرو۔
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org