۴۸؍ ویں عرسِ حافظِ ملت کی مختصر روداد
امسال جامعہ اشرفیہ سے ۴۴۵ طلبہ فارغ ہوئے
مبارک حسین مصباحی
وہ ایک خوشگوار اور روحانی صبح تھی، مبارک پور میں نمازے فجر سے فراغت کے بعد عزیزی خانقاہ کی جانب بڑھ رہے تھے، دیگر حضرات بھی کشاں کشاں چلے آرہے تھے، ہلکی ہلکی پر کیف ہوائیں چل رہی تھیں، خانقاہ کے دونوں بیرونی کمرے کھول دیے گئے تھے، باہر چبوترے پر چاندنیاں بچھا دی گئی تھیں، اندر باہر قرآن خوانی کا نورانی سلسلہ شروع ہو چکا تھا، انجمن غوثیہ کے ذمہ داران فاتحہ کے لیے رات ہی میں حلوہ تیار کر لیتے ہیں، دو تین برس سے یہ سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے کہ پڑھنے والے اگر جانا چاہیں تو وہ اپنا تبرک لے کر جا سکتے ہیں، ۲۹ جمادی الاولیٰ ۱۴۴۴ھ/۲۴؍ دسمبر ۲۰۲۲ء،۹؍ بجے صبح کے قریب مجلسِ ایصالِ ثواب شروع ہوئی ۔ قراءت ، نعت ، منقبت اور مختصر خطاب کے بعد ایصالِ ثواب کیا گیا۔ صاحبِ سجادہ عزیز ملت حضرت علامہ شاہ عبد الحفیظ عزیزی شجرہ خوانی فرماتے ہیں۔ آپ جب حسب ذیل اشعار کو دُہراتے ہیں تو مجمع کی کیفیت بدل جاتی ہے۔
قادری کر قادری رکھ قادریوں میں اٹھا
قدرِ عبد القادرِ قدرت نما کے واسطے
بخش دے جرم و خطا اور فضل فرما دائما
حافظِ ملت عزیز الاولیا کے واسطے
آپ نے رقت بھرے انداز میں ، پوری دنیا اور خاص طور پر جہانِ اہلِ سنت کے لیے امن و امان اور دین و سنیت کے تحفظ و بقا کے لیے دعا فرمائی، نظم و نسق پر نبیرۂ حافظِ ملت نعیم ملت حضرت مولانا محمد نعیم الدین عزیزی نظر رکھے ہوئے تھے، فاتحہ کے بعد تبرک تقسیم کیا گیا۔
بفضلہٖ تعالیٰ دونوں دن ظہر کے بعد خانقاہ عزیزیہ سے درگاہ عزیزیہ تک چادروں کا جلوس نکلتا ہے، قیادت حضور صاحبِ سجادہ فرماتے ہیں۔
یہ ایک سچائی ہے کہ جلالۃ العلم استاذ العلما حضور حافظِ ملت علامہ شاہ عبد العزیز محدث مراد آبادی قدس سرہ ایک عظیم علمی اور روحانی شخصیت ہیں ۔ آپ نے علمی اور روحانی علوم و معارف خواجۂ خواجگاں سلطان الہند خواجہ غریب نواز اجمیری کی خانقاہ میں حاصل کیے ۔ آپ عہدِ طالب علمی سے ہی نیک اور پاک طینت تھے۔ آپ نے اپنے اساتذہ سے علوم بھی پڑھے اور اعمال کا بھی درس لیا۔ آپ کی زندگی اور بندگی سننِ مصطفیٰ ﷺ کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی۔ آپ کے ہزاروں مریدین اور تلامذہ ملک اور بیرون ملک حق و صداقت کا پرچم بلند کیے ہوئے ہیں۔ آپ شریعت کے سخت پابند تھے ، آپ نے حرمین طیبین کا مقدس سفر بلا فوٹو کے خصوصی ویزے سے کیا۔
قناعت جس پہ کرتی ناز، تقویٰ جس کا شیدائی ہزاروں محفلوں پر بھاری جس کی ایک تنہائی
دونوں دن عشا کے بعد عزیز المساجد کے وسیع صحن یں اجلاس ہوئے اس میں قراءت کے بعد نعوت و مناقب اور وقیع خطابات بھی ہوئے ۔ انگلینڈ سے تشریف لائے حضرت مولانا یونس مصباحی نے فرمایا:
ہم نے اپنے اساتذہ سے سنا ہے کہ ہمارے مدرسے کا کوئی طالب علم ہو یا مطبخ کا کوئی کام کرنے والا ہو، وہ جہاں جائے گا وہ ان شاء اللہ کامیاب اور غالب رہے گا۔ حدیث قدسی ہے کہ اگر وہ مجھ سے کچھ مانگے گا تو میں ضرور ضرور اسے دوں گا۔آپ نے فرمایا:
ہم ایک مرتبہ جامعہ اشرفیہ مبارک پور سے اپنے گھر گجرات جا رہے تھے، اتفاق کہ اسی بوگی میں ہمارے سامنے والی سیٹ پر تین طالب علم اور نظر آئے، ہم بھی تین ساتھی تھے، تھوڑی دیر میں سامنے والے ایک طالب علم نے ہم سے پوچھا آپ کہاں سے آرہے ہیں، ہم نے جواب دیا جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں زیر تعلیم ہیں، وہیں سے ہم اپنے گھر جا رہے ہیں۔ کچھ ہی دیر کے بعد ان میں سے ایک طالب علم نے کہا کہ بھائی آپ ہم لوگوں سے کوئی سوال نہ کریں آپ منطق و فلسفہ پڑھتے ہیں ، آپ کے سوالات کا جواب ہمارے بس کی بات نہیں ،ہم دارالعلوم دیوبند میں پڑھتے ہیں۔اس واقعہ سے اندازہ لگائیں کہ غیروں کے دلوں پر بھی جامعہ اشرفیہ کی دھاک بیٹھی ہوئی ہے، حضور حافظِ ملت نے اپنی درس گاہ میں صرف پڑھایا نہیں بلکہ اپنے طلبہ کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ان کی ذہن سازی بھی کی ہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جس وقت میں یہاں تعلیم حاصل کر رہا تھا حضور تاج الشریعہ تشریف لائے تھے، مجھے یہ کہتے ہوئے خوشی ہوتی ہے کہ میں ان ہی سے مرید ہوں
قادری سلسلہ ہے مقدر مرا روشنی مجھ کو احمد رضا سے ملی
مجھے تاج الشریعہ کے یہ الفاظ آج بھی یاد ہیں، آپ نے اپنے خطاب میں فرمایا: ”اہلِ سنت کی عقیدت کا مرکز بریلی شریف ہے مگر علمی مرکز الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور ہے۔“
آپ نے سامعین سے ہاتھ اٹھوا کر وعدہ لیا کہ ہم میں سے ہر فرد رمضان المبارک میں اپنے پاس سے یا اپنے احباب سے دس ہزار روپیہ جامعہ اشرفیہ کے لیے روانہ کرے گا، انھوں نے فرمایا کہ ہم نے حضور عزیز ملت کو عہدِ طالب علمی سے آج تک ہنستے ہوئے نہیں دیکھا، جب آپ لوگ جامعہ کے لیےعطیات بھجوائیں گے تو ان شاء اللہ تعالیٰ حضور عزیز ملت کی فکر کم ہوگی اور ان کے لبوں پر مسرت و اطمینان کی مسکراہٹ آئے۔
حضرت مولانا منظور احمد عزیزی استاذ مدرسہ عربیہ سلطان پور نے اپنے خطاب میں فرمایا: اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عبادت بھی مخلصین کی قبول ہوتی ہے، بالکل اسی طرح جیسے وہ گوبر اور خون کے درمیان سے خالص دودھ عطا فرماتا ہے، جلالۃ العلم حضور حافظِ ملت نے عبادت اور فروغِ علم کا عمل اخلاص سے کیا ہے۔ اسی لیے دنیا آج ان کی تربت انور پر فاتحہ پڑھنے کے لیے چلی آرہی ہے۔ آپ نے مزید فرمایا کہ آپ کے مزار اقدس پر مجاوری بھی طلبہ کر رہے ہیں ، آپ نے فرمایا کہ ہمیں حد درجہ مسرت ہے کہ نمازوں کے اوقات میں مزارات پر چادروں کی نذر پیش کرنے کا سلسلہ موقوف ہو جاتا ہے اور باجماعت نمازوں کے یہ روحانی مناظر اعراس میں کم نظر آتے ہیں۔ حضور حافظِ ملت نے معمولی آبادیوں اور کھیت کھلیانوں میں کھیلتے ہوئے بچوں کو پڑھایا اور آج یورپ اور امریکہ وغیرہ میں دعوتی اور دینی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
حضرت مولانا مفتی منظر حسن اشرفی مصباحی نے انقلاب آفریں خطاب میں فرمایا : جامعہ اشرفیہ مبارکپور ایک ادارہ نہیں بلکہ ایک عظیم تحریک ہے ، حضور حافظِ ملت نے اس چمن کی آبیاری کے لیے پسینہ نہیں بلکہ خونِ جگر پلایا ہے۔ حضور حافظِ ملت کے مرشدِ گرامی شیخ المشائخ اعلیٰ حضرت حضور اشرفی میاں کا فیض آج بھی جامعہ اشرفیہ پر برس رہا ہے۔ آپ کے خطاب کا موضوع شرعی نکاح تھا، آپ نے فرمایا کہ آٹھ لاکھ مسلم بچیاں غیر مسلموں سے منسلک ہو گئیں، اس کی بنیادی وجہ نکاح کا مشکل ہونا ہے۔ شادیوں میں پندرہ بیس لاکھ روپئے خرچ ہونا ایک عام سی معمولی بات ہے ، بعض علاقوں میں ہونے والے شوہروں کو لاکھوں پیشگی چاہیے۔ بارات کے طعام میں اسٹاٹر ، مختلف کھانوں اور ڈیکو ریشن کے لیے لاکھوں درکار ہوتے ہیں اور جہیز کے نام پر لاکھوں کا سامان چاہیے، آپ نے مجمع سے ہاتھ اٹھوا کر وعدہ لیا کہ ہم شادیوں کے نام پر کم خرچ کریں گے جب نکاح آسان ہوں گے تو غیر مسلموں کے یہاں لڑکیوں کا جانا موقوف ہوگا ان شاء اللہ تعالیٰ۔
قصبہ باسنی ناگور سے تشریف لانے والے حضرت مولانا حافظ اللہ بخش نے جامعہ اشرفیہ مبارک پور کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا، بر صغیر میں جامعہ اشرفیہ کی طرح کوئی دوسرا ادارہ نہیں، آپ نے جامعہ کے تعاون کے لیے مخلصانہ مشورہ دیا۔ آپ نے فرمایا: ماشاء اللہ تعالیٰ عزیز المساجد بہت بڑی مسجد ہے اس کا تعمیری کام مسلسل جاری ہے، ہم بھی تعاون کرتے کراتے ہیں، آپ حضرات بھی تعاون کریے اور کرائیے۔
دار العلوم غریب نواز الٰہ آباد کے استاذ و مفتی حضرت مولانا مجاہد حسین رضوی مصباحی نے عقیدت مندانہ خراجِ عقیدت پیش کیا، آپ نے فرمایا: عرس حافظِ ملت کا پیغام نمازباجماعت کا اہتمام بلا شبہہ اس اعتبار سے حضور حافظِ ملت کاعرس انفرادی مقام رکھتا ہے۔ ہم نے چار برس تک حضور حافظِ ملت کی خدمت کی ہے، آپ دور دراز کا سفر طے کر کے آتے ، اگر اذان ہو گئی ہوتی تو اسی وقت نمازِ باجماعت میں شرکت کے لیے کھجوا والی مسجد میں تشریف لے جاتے، اس لیے آپ لوگ فیضانِ حافظِ ملت نمازِ باجماعت کا اہتمام ساتھ لے کر جائیں۔
خلیفۂ عزیز ملت استاذ القرا حضرت قاری اسلام اللہ عزیزی اپنے مریدین اور معتقدین کے ساتھ ممبئی سے تشریف لاتے ہیں، ہر برس عرس عزیزی کے موقع پراعزازی ممبران بنا کر لاتے ہیں، ایک ممبر کی رقم گیارہ ہزار ایک سو گیارہ روپئے ہوتے ہیں، امسال عرس کے زریں موقع پر ۶۶ ممبران لے کر آئے، ہر ممبر کو سند بھی پیش کی جاتی ہے۔ ۹ ممبران الحاج ا سرار الحسن رکن مجلس انتظامیہ نے بنوا کر پیش کیے، مزید دس ہزار ایک مردِ صلح نے آپ کے توسط سے پیش کیے ، آپ نے ۵۵۰۰ روپئے مجلسِ خیر خواہ کو بطور انعام پیش کیے، حضرت مولانا عرفان عالم مصباحی استاذ جامعہ اشرفیہ مبارک پور نے اپنے حلقۂ احباب سے دو ممبر پیش کیے۔حضرت عزیز ملت کے توسط سےبھی بہت سے حاصل ہوئے، حضرت صاحبِ سجادہ نے سب کا شکریہ پیش کیا۔
اس بارفخرِ گجرات گرامی وقار حضرت مولانا یونس مصباحی کو ان کی علمی اور دینی خدمات کے اعتراف میں حافظِ ملت ایوارڈ پیش کیا گیا۔ حضرت عزیز ملت دامت برکاتہم العالیہ کے ہاتھوں انھیں ایک شیلڈ اور سپاس نامہ سے سرفراز کیا گیا۔
قل شریف کی عرفانی مجلس ۱۱ بج کر ۵۵ منٹ پر شروع ہوئی ، قراے کرام نے تلاوتیں فرمائیں، آخر میں صاحبِ سجادہ نے شجرہ قادریہ عزیزیہ پڑھا اور حاضرین اور عالمِ اسلام کے لیے پر خلوص دعاکی گئی۔ حضور ﷺ، تمام انبیا اور اولیا اور خاص طور پر صاحبِ عرسِ حضور حافظِ ملت علیہ الرحمہ کی بارگاہوں میں ایصالِ ثواب کیا گیا۔
قائدِ ملت حضرت مفتی عبد المنان کلیمی نگر مفتی مراد آباد نے فرمایا: اب خطاب کا وقت ختم ہو گیا، ایک برس تک جامعہ اشرفیہ نے کیا خدمت خدمت انجام دی ، شہزادۂ حضور حافظِ ملت سربراہِ اعلیٰ نے کیا کارنامہ انجام دیا، اب قوم کے سامنے یہ خدمت پیش کرنے کا وقت آگیا۔ بفضلہٖ تعالیٰ ۴۴۵ طلبہ فارغ ہو رہے ہیں۔
آپ نے فرمایا:مسلکِ اعلیٰ حضرت نہ کسی خاندان کا نام ہے ، نہ کسی جماعت کا نام ہے، اور نہ کسی شہر کا نام ہے، مسلکِ اعلیٰ حضرت فتاویٰ رضویہ میں سیدنا اعلیٰ حضرت نے جو فکر اور آئین پیش کیا ہے اس کا نام ہے۔ اگر کسی کی ماں نے دودھ پلایا ہے تو میری بات کا رد کر دے، مسلکِ اعلیٰ حضرت کے فروغ کے لیے فتاویٰ رضویہ کو مرتب کیا اور عملی طور پر اس کی نشر و اشاعت میں کلیدی کردار جامعہ اشرفیہ نےادا کیا ہے۔ اعلیٰ حضرت نے بریلی کی سر زمین سے قانون پیش کیا ہے، اور حافظِ ملت اور جامعہ اشرفیہ مبارک پور نے اس کی ترجمانی کی ۔ اب نہ مسلکِ اعلیٰ حضرت کو الجامعۃ الاشرفیہ سے الگ کیا جا سکتا ہے، اورنہ الجامعۃ الاشرفیہ کو مسلکِ اعلیٰ حضرت سے الگ کیا جا سکتا ہے ۔
آپ نے فرمایاحضور حافظِ ملت جب اس دنیا سے تشریف لے گئے تو لوگ سمجھ رہے تھے کہ اب الجامعۃ الاشرفیہ کا کیا ہوگا۔ حضور حافظِ ملت نے اپنے لخت جگر کو سربراہِ اعلیٰ نہیں بنایا اور نہ نام زد کیا۔ انھوں نے سارے اختیارات انتظامیہ کمیٹی کو دے دیے، اس وقت کی مجلسِ شوریٰ کے علما اور مشائخ اور اہلِ مبارک پور قابلِ مبارک باد ہیں ہیں، انھوں نے سمجھا کہ جامعہ اشرفیہ کی کشتی کو پار لگانے کے لیے کوئی اور نہیں بلکہ ان کے شہزادے اور نور نظر پار لگائیں گے، جنھیں حضور حافظِ ملت کے فرزند ہونے کا حق حاصل ہے۔ ماشاء اللہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ پدر نہ کند پسر تمام کند۔ حضور حافظ ملت اپنے خطاب میں بارہا ارشاد فرماتے تھے کہ میں ایک ایسا ادارہ بنانا چاہتا ہوں جس میں کم از کم دو ہزار طلبہ ہوں، مخدوم گرامی حضور عزیز ملت نے اپنے والد گرامی کا خواب شرمندۂ تعبیر کر کے دکھا دیا کہ جامعہ اشرفیہ میں دو ہزار سے زیادہ طلبہ اس گلشنِ علم سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔
اڑتالیسویں عرسِ حافظِ ملت کا انعقاد ۲۹؍ جمادی الاولیٰ و یکم جمادی الاخری ۱۴۴۴ھ ۲۴؍ ۲۵ دسمبر ۲۰۲۲ء میں انتہائی کامیاب ہوا ۔ علما اور مشائخ ملک اور بیرون ملک سے تشریف لائے، دیگر مشاہیر خطبا میں حضرت مولانا قاری صغیر احمد جوکھن پوری ، حضرت علامہ فروغ القادری ورلڈ اسلامک مشن ، لندن، حضرت الحاج وقار احمد عزیزی بھیونڈی اور مبلغ اہل سنت مولانا زبیر احمد عطاری مبلغ مدینہ منورہ قابلِ ذکر ہیں۔
نعوت و مناقب کے ہدیے پیش کرنے والوں میں چند نام یہ ہیں، رکن مجلسِ شوریٰ جامعہ اشرفیہ محترم قاری نور الہدیٰ مصباحی، مولانا قسمت سکندر پوری، قاری اشہر عزیزی مبارک پوری، مولانا عبد الوکیل مصباحی چھپراوی، قاسم ندیمی بھدوہی، محبوب ظفر دہلوی وغیرہ۔
عزیزی کتاب میلہ بھی منفرد ہوتا ہے ، امسال پچاس کے قریب بک اسٹال لگائے گئے، ماشاء اللہ تعالیٰ جامعہ اشرفیہ اور قرب و جوار میں زمینیں وسیع ہیں، اس لیے اس عرس میں ملک کے دیگر اعراس کے مقابل دوکانیں زیادہ لگتی ہیں ، تقاریب میں میڈیا کے اندازے عام طور پر کئی گنا ہوتے ہیں، اس لیے ہم صرف اسی پر اکتفا کرتے ہیں کہ اتنا بڑا مجمع عرسِ عزیزی میں اب تک نہیں دیکھا گیا۔
دونوں دن نظامت کے فرائض حضرت مولانا مفتی زاہد علی سلامی استاذ و مفتی جامعہ اشرفیہ اور مولانا محمد قیصر اعظمی نے ادا فرمائے۔ جامعہ کے صدر المدرسین حضرت مفتی بدرِ عالم مصباحی اور نبیرۂ حافظِ ملت حضرت نعیم ملت مولانا محمد نعیم الدین عزیزی نے تمام ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی نبھایا۔
فہرست فارغین الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور ۱۴۴۴ھ/۲۰۲۲ء
تحقیق فی الفقہ ————————— ۵
فضیلت ————————— ۱۶۸
فضیلت خصوصی ————————— ۲۱
حفظ ————————— ۱۷
میزان ————————— ۲۱۱ ان کو دستاردی گئی
مولوی و قاری (روایت حفص) ———————— ۹۴
عالم ————————— ۱۴۰
میزان ————————— ۲۳۵ انھیں صرف سند دی گئی
کل فارغین ————————— ۴۴۵
دونوں دن مہمانوں کے قیام و طعام کا اہتمام عرس کمیٹی کی جانب سے ہوتا ہے، نگر پالیکا مبارک پور اور پولیس وغیرہ نے اپنا حسنِ انتظام پیش کیا۔
آخر میں شہزادۂ حافظِ ملت حضرت عزیز ملت علامہ شاہ عبد الحفیظ عزیزی دامت برکاتہم العالیہ نے سارے منتظمین اور زائرین کا شکریہ ادا فرمایا اور عرس کے اختتام کا اعلان فرمایا۔
*****
سپاس نامہ حافظ ملت ایوارڈ
بخدمت گرامی فخر گجرات حضرت مولانا محمد یونس مصباحی زید فضلہ
بانی مصباحی مشن و جامعه معینیہ از ہر العلوم (یوکے)
بسم الله الرحمن الرحيم*نحمده و نصلى على رسوله الكريم
محترم حضرات اس وقت ہم لوگ جلالة العلم ابوالفیض حضور حافظ ملت علامہ شاہ عبد العزیز محدث مراد آبادی قدس سرہ کے اڑتالیسویں عرس میں موجود ہیں۔ بفضلہ تعالیٰ اس میں ملک اور بیرون ملک کے علماو مشائخ اور حد نظر شیدائی جلوہ ریز ہیں۔ تنظیم ابناے اشرفیہ جامعہ اشرفیہ مبارک پور اپنی روایت کے مطابق عام طور پر کسی منتخب شخص کو حافظ ملت ایوارڈ تفویض کرتی ہے ، امسال جامعہ اشرفیہ کے نام ور فاضل حضرت مولانا محمد یونس مصباحی زید اقبالہ کو منتخب کیا گیا ہے۔ آپ نے جامعہ اشرفیہ مبارک پور سے فراغت کے بعد دین و سنیت اور تدریس و تصنیف کے میدانوں میں یاد گار خدمات انجام دی ہیں۔ ہم ان زریں کارناموں کے اعتراف میں تنظیم ابناے اشرفیہ مبارک پور کی جانب سے انھیں حافظ ملت ایوارڈ نذر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی خدمات کو قبول و مقبول فرمائے ۔ آمین۔
موصوف کی ولادت ۳۰ جون ۱۹۶۶ء میں ضلع بھڑوچ ، گجرات کے موضع ”و ہر اسمتی “ میں ہوئی۔ آپ نے دار العلوم شاہ عالم احمد آباد اور دار العلوم مصطفائیہ ہلد روا میں حفظ اور درجہ عالمیت کی تعلیم حاصل کی۔ خاک ہند کی مرکزی درس گاہ جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں ۱۹۸۲ء میں داخل ہوئے، باصلاحیت اساتذہ کی درس گاہوں میں محنت اور لگن سے تعلیم مکمل فرمائی اور ۱۹۸۹ء میں فراغت حاصل کی، ماشاء اللہ تعالیٰ آپ محنتی، سنجیدہ مزاج اور خاموش طبع ہیں، آپ کی نظر ہمیشہ مقاصد پر رہتی ہے ، اسی لیے آپ مسلسل یادگار کارنامے انجام دیتے رہتے ہیں۔
فراغت کے بعد آپ دیا درہ ضلع بھڑ وچ، سوراشٹر دھرل بعد میں موضع تھام میں درس نظامی پڑھاتے رہے۔ ۱۱ مئی ۱۹۹۴ء میں آپ برطانیہ تشریف لے گئے ، وہاں اسلام اور سنیت کی مختلف جہات سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ۱۹۹۵ء میں یو کے کی سرزمین پر ”اسلامک ویلفیئر مشن‘‘ کی بنا ڈالی۔ جو بعد میں’’ مصباحی مشن “ ہو گیا، اسی تحریک کے زیر اہتمام ہند اور بیرون ہند اہم کارنامے انجام پارہے ہیں۔ آپ نے ۲۰۰۳ء میں یو کے میں بچوں اور بچیوں کی دینی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا، اسی مشن کے تحت بيس مکاتب بچوں کی ابتدائی تعلیم کا کام کر رہے ہیں۔ آپ نے بھروچ میں بچیوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک اہم ادارہ قائم کیا جس میں ۱۵۰ طالبات بغیر کسی معاوضے کے علم دین سے آراستہ ہو رہی ہیں۔ آپ نے مختلف دیہاتوں میں مساجد کی تعمیر ، یتیم خانے کا قیام، مختلف ضرورت مندوں کی مدد اور جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں زیر تعلیم گجراتی طلبہ کا وظیفہ وغیرہ مقرر کیا۔ آپ نے درس نظامی سے منسلک کتابوں کی تدوین و تصنیف اور حالات کے پیش نظر گجراتی زبان میں تحریری خدمات انجام دیں۔ آپ نے ”امہ چینل “ یو کے سے سات برسوں تک مسلسل شرعی مسائل جاری کیے۔ آپ ۷۰ سے زیادہ مقامات پر معلمات کو بھیجتے ہیں۔
ہم ان تمام خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے آپ کو حافظ ملت ایوارڈ پیش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب ﷺ کے طفیل ہم سب پر کرم فرمائے، آمین ، بجاه حبيبيه عليه الصلوٰة والتسليم .
بموقع عرس عزیزی از: عبد الحفیظ عفی عنہ
يكم جمادی الآخر ه ۱۴۴۴ھ سرپرست تنظیم ابناے اشرفیہ
۲۵؍ دسمبر ۲۰۲۲ ، بروز اتوار و سربراہ اعلیٰ الجامعۃ الاشرفیہ
من جانب: تنظيم ابناء اشرفیه، الجامعۃ الاشرفیه مبارک پور ضلع اعظم گڑھ (یوپی)
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org