7 October, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia July 2023 Download:Click Here Views: 41895 Downloads: 997

(12)-زندگی میں رشتوں اور محبتوں کی اہمیت

نور علم

خالدہ فوڈکر

---------------------------------------------------

انسانی زندگی میں رشتوں کی خوبصورتی کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ قرابت داروں سے میل جول قائم کیا جائے۔ بد گمانی یا انا کی وجہ سے ٹوٹے ہوئے رشتوں کو باہمی افہام و تفہیم سے جوڑنے کی کوشش کی جائے۔ چھوٹےچھوٹے تنازعات اور ناراضگی بر وقت دور کر لی جائے تو کئی قیمتی تعلق ٹوٹنے سے بچ جائیں

رشتہ داروں کی خوشی اور غم میں پورے خلوص سے شرکت خاندان کے افراد کو دائمی انس و محبت کی ڈور میں باندھے رکھتی ہے۔

فطری طور پر انسان ایک سماجی جاندار ہے۔ تنہا رہنا کبھی بھی انسان کی سرشت نہیں رہی۔ گروہ میں رہنا انسانوں کی فطرت بھی ہے اور سماجی ضرورت بھی ہے۔ زندگی ہر انسان کو کسی نہ کسی مرحلے پر کسی دوسرے کا محتاج بنائے رکھتی ہے کہ ہماری متفرق ضرورتوں کی تکمیل ایک دوسرے کے وسیلے اور تعاون پر منحصر ہے۔ احباب اور رشتہ داروں کا ساتھ زندگی کے مشکل مراحل میں بڑی غنیمت ہے۔ مل جل کر رہنے میں تحفظ اور اپنائیت کا جو احساس ملتا ہے وہ سماج سے کٹ کر تنہا رہنے میں حاصل نہیں ہوتا۔ عزیزوں اور قرابت داروں سے جڑے رہنے والے طرز حیات کی بہترین مثالیں پرانے زمانوں کے مشترک رہائش والےخاندانوں میں پائی جاتی تھیں جہاں سارے قریبی رشتے ایک چھت کے نیچے رہتے تھے اور ایک دوسرے کے شریک حال ہوا کرتے تھے، آپسی محبت، ہمدردی، تعاون اور غمگساری جیسے سارے اوصاف اور سہولتیں اس طرز زندگی کا طرہ امتیاز ہوا کرتے تھے۔

 وقت بدلتا گیا، بدلتی ضروریات و رجحانات اور شہروں کی مصروف و مشینی زندگی نے اب بڑے خاندانوں کو چھوٹی چھوٹی اکائی میں بانٹ دیا ہے۔ تعلیم و روزگار کی خاطر شہروں کی جانب ہجرت کرنے پر مجبور افراد کے لیے پرانے زمانے والی مشترک رہائشیں اور بڑے کنبوں کا نظم اب ممکن نہیں رہا۔ اس سماجی تغیر کا کافی منفی اثر ہماری روایات اور اخلاقیات پر پڑا ہے۔ ہمارے معاشرتی رویوں اور زندگی کے اسلوب میں ہونے والی تبدیلیوں نے ہمارے متحد خاندانی نظام کا شیرازہ بکھیر دیا ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف ہم اپنے قریبی رشتوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں بلکہ آپسی تعلقات، ایک دوسرے کی خبر گیری، مدد اور تعاون کے اوصاف بھی ہماری زندگیوں سے دن بدن معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ تعلقات اور رشتے داری نبھانے کا جذبہ اور وقت دونوں ہی باقی نہیں رہے، ہر تعلق اب زبانی اور تکلف تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔

 گو کہ مواصلات کے جدید ترین ذرائع، موبائل اور سوشل میڈیا کے ان گنت ایپس نے فرد کو فرد سے غائبانہ یا آج کل کی زبان میں آن لائن سے جوڑ رکھا ہے مگر رو برو ملاقات والا لطف اور احساس و اخلاص غائب ہے۔ مصروفیات کے باعث کئی دفعہ ضرورت کے وقت بھی ہم اپنے دوستوں، عزیزوں کو ذاتی طور پر میسر نہیں ہو پاتے۔ رشتہ داری نبھانے کا کام موبائل کے سر ڈال دیا گیا ہے۔ اپنی آسانی کی خاطر مبارکبادی، تعزیت اور خبر گیری کےآن لائن پیغامات اور جوابی پیغام فارورڈ کرکے ذمہ داری سے فارغ ہو جانے کا مزاج عام ہوتا جا رہا ہے، اس تن آسانی نے ہمارے آپسی تعلق اور رشتہ داریوں کو برائے نام کر دیا ہے گویا؂

مختلف انداز میں اب ہے مزاج دوستی

رابطہ سب سے ہے لیکن واسطہ کوئی نہیں

 والی صورتحال ہے۔ ٹوٹتے بکھرتے رشتوں کی ایک افسوس ناک حقیقت یہ بھی ہے اب صرف ہمارے خاندان ہی چھوٹی چھوٹی اکائیوں میں نہیں بٹ رہے ہیں بلکہ دلوں اور گھروں کی وسعتیں بھی سکڑتی جا رہی ہیں۔ دیگر قریبی ترین رشتے تو درکنار، اکثر گھروں میں اب بزرگوں اور ضعیف والدین کی بھی گنجائش نہیں ہوتی، ہماری نیوکلیئر فیملی کی تعریف میں اب بوڑھے والدین بھی اضافی شمار ہونے لگے ہیں۔ ہماری تنک مزاجی کو بزرگوں کی باتیں، نصیحتیں اور رویے برداشت نہیں ہوتے۔ اولڈ ایج ہومز کے عام ہوتے رجحان اس تکلیف دہ صورتحال کے غماز ہیں۔

 یہ حقیقت مسلم ہے کہ خاندانی نظام اپنی آبائی شناخت اور رشتوں سے جڑے رہنے کا واحد ذریعہ ہے جس کی افادیت اور اہمیت سے کسی کو انکار نہیں۔ انسانی زندگی میں رشتوں کی خوبصورتی کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ قرابت داروں سے میل جول قائم کیا جائے۔

 بد گمانی یا انا کی وجہ سے ٹوٹے ہوئے رشتوں کو باہمی افہام و تفہیم سے جوڑنے کی کوشش کی جائے۔ چھوٹےچھوٹے تنازعات اور ناراضگی جو اکثر اوقات برسوں تک چلتی رہتی ہیں اگر بر وقت دور کی جاسکیں تو کئی قیمتی تعلق ٹوٹنے سے بچائے جا سکتے ہیں۔ امیری غریبی اور ادنیٰ و اعلیٰ اسٹیٹس کی تفریق بھی رشتہ داریوں کے کئی قیمتی تعلق برباد کر دیتی ہے، برتری اور تفاخر کے زعم سے بالاتر ہو کر  رشتہ داروں کی خوشی اور غم میں پورے خلوص سے شرکت خاندان کے افراد کو دائمی انس و محبت کی ڈور میں باندھے رکھتی ہے۔

 شائستہ و شیریں زبان ہر تعلق کی استواری کی بنیاد ہے لہٰذا ہم کوشش کریں کہ ہماری بد زبانی یا رویوں کی سختی و خرابی کسی رشتے کے ٹوٹنے کی وجہ نہ بن سکے۔

 رشتہ داری اور تعلقات کو خلوص اور ذمہ داری سے نبھانے کا وصف و ہنر ہمیں اپنی اولاد تک منتقل کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہمارے مشرقی خاندانی نظام کی خوبصورتی، رشتوں اور تعلقات کی قدر و قیمت مستقبل کی نسلوں تک پہنچے اور قائم و دائم بھی رہے۔ محبتوں اور خیر خواہی کا خوبصورت سفر جو ازل سے شروع ہوا تھا ابد تک جاری رہے۔

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved