12 December, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia June 2023 Download:Click Here Views: 92993 Downloads: 1261

(9)-ام المومنین سیدہ ام حبیبہ بنت ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہما

مفتی اعظم مبارکپور

نام و نسب:آپ کا نام رملہ تھا، سلسلہ نسب اس طرح ہے: رملہ بنت ابوسفیان بن حرب بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف اور والدہ کی طرف سے سلسلہ نسب کچھ یوں ہے: رملہ بنت ام صفیہ بنت ابی العاص بن امیہ بن عبدشمس بن عبد مناف تھا۔ والد اور والدہ دونوں کی طرف سے پانچویں پشت میں جا کر آپ رضی اللہ عنہا کا سلسلہ نسب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب سے مل جاتا ہے۔

کنیت:آپ کی کنیت” ام حبیبہ“ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا کے پہلے شوہر عبیداللہ بن جحش سے ایک لڑکی حبیبہ پیدا ہوئی اس وجہ سے آپ کی کنیت ام حبیبہ ہے۔

ولادت:سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی ولادت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان نبوت سے 17 سال پہلے مکہ مکرمہ میں ہوئی۔

ام المومنین سیدہ ام حبیبہ کا قبول اسلام:

ام حبیبہ بنت ابوسفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہما اوائل اسلام میں مشرف بہ اسلام ہوئیں ان کے شوہر عبیداللہ بن جحش بھی مسلمان ہوئے کفار مکہ کے ظلم ستم کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایما پر مسلمانوں کا ایک قافلہ حبشہ کی طرف ہجرت کر گیا آپ نے بھی اپنے شوہر عبیداللہ بن جحش اور ایک قول کے مطابق اپنی بیٹی حبیبہ کے ہمراہ حبشہ ہجرت کی کچھ دنوں تک وہاں رہنے کے بعد عبیداللہ نصرانی ہو گیا اور اس نے سیدہ ام حبیبہ کو بھی ارتداد کی دعوت دی آپ نے انکار فرمایا اور عبیداللہ بن جحش سے علیحدگی اختیار کرلی اپنے وطن سے دوری، شوہر کے مرتد ہونے اور اس کی وفات، یہ سب سانحات ایسے تھے جن سے سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو سخت صدمات پہنچے۔ لیکن اس کے باوجود صبر وتحمل کا دامن نہیں چھوڑا بلکہ اللہ کی عبادت میں اور زیادہ مصروف ہو گئیں۔ حبشہ میں ہجرت کر کے تشریف لانے والی خواتین بالخصوص سیدہ ام سلمہ، سیدہ رقیہ، سیدہ لیلیٰ اور سیدہ اسما رضی اللہ عنہن آپ کو دلاسہ دیتی رہیں۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں:

سیدہ ام حبیبہ نے اپنے پہلے شوہر کے ساتھ حبشہ میں تھیں تو ایک رات آپ نے خواب دیکھا کہ ان کے شوہر عبید اللہ کا چہرہ مسخ ہو گیا ہے، جب آنکھ کھلی تو بعد بہت پریشان ہوئیں۔ چند دنوں کے بعد عبید اللہ نے آپ سے کہا کہ دیکھو میں پہلے نصرانی تھا پھر اسلام قبول کر لیا حبشہ آنے کے بعد میں نے محسوس کر لیا کہ نصرانیت ہی بہتر دین ہے لہٰذا میں نے دوبارہ نصرانی مذہب قبول کر لیا ہے میرا مشورہ ہے کہ تم بھی نصرانی مذہب قبول کر لو تو سیدہ ام  حبیبہ نے اسے اپنا خواب سنایا تاکہ وہ ڈر جائے اور اپنے ارادے سے باز آجائے لیکن وہ باز نہ آیا اور شراب کا عادی ہو گیا اور اسی حالت میں مر گیا۔

سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے شوہر کے مرتدہو کر فوت ہونے کی خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت صدمہ ہوا، سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی دلجوئی کےلیےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت عمرو بن امیہ ضمری رضی اﷲعنہ کو بادشاہ حبشہ نجاشی کے پاس بھیجااور یہ پیغام دیا کہ آپ ام حبیبہ سے برضا و رغبت معلوم کر کے ان کا نکاح میرے ساتھ کر دیں۔

نجاشی نے سیدہ ام حبیبہ رضی اﷲعنہا کے پاس پیغام بھیجا۔ سیدہ ام حبیبہ رضی اﷲعنہا کو اپنے سب دکھ بھول گئے آپ نے رضامندی کا اظہار فرمایا اور پیغام لانے والی باندی کو اپنے کنگن، انگوٹھیاں اور زیور اتار کر ہدیہ کر دیا اور خالد بن سعید بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کو اپنے نکاح کا وکیل بنا کر نجاشی کے پاس بھیجا۔

نجاشی نے اپنے شاہی محل میں نکاح کی مجلس منعقد کی اور حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور دیگرصحابہ کرام رضی اﷲعنہم کی موجودگی میں سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دیا اور 4000 درہم حق مہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے خود ادا کیا، یہ رقم سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے وکیل نکاح حضرت خالد بن سعید رضی اﷲعنہ کے سپرد کی گئی۔جب اس خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی تو حضور نے اسے قبول فرما لیا ، چناں چہ ابو داؤد شریف میں ہے:

(ترجمہ)-’’امام زہری بیان کرتے ہیں کہ نجاشی نے ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہا کی شادی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ چار ہزار درہم حق مہر پر کی اور اس کی خبر بذریعہ خط حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے قبول فرما لیا۔‘‘

آپ رضی اللہ عنہا نے اس رقم میں سےکچھ اس باندی کو دی جس نے نکاح کی خوشخبری سنائی تھی، لیکن اس باندی نے رقم اور دیگر زیورات وغیرہ آپ رضی اللہ عنہا کو واپس کر دیے اور کہنے لگی کہ بادشاہ سلامت کا یہی حکم ہے، خود نجاشی نے اس خوشی میں سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو بیش قیمت تحائف اور قیمتی خوشبوئیں ہدیہ کے طور پر بھیجیں۔

اسی مجلس میں نکاح کی تقریب میں شرکت کرنے والوں کو کھانا بھی کھلایا گیا۔ اس کے بعدسیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو حضرت شرحبیل بن حسنہ رضی اﷲعنہ کے ساتھ بحری جہاز میں خیبر کے راستے مدینہ منورہ روانہ کر دیا۔ آپ رضی اللہ عنہا مدینہ منورہ تشریف لائیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ بن کر ام المومنین کے معزز اعزاز سے سرفراز ہو گئیں۔

ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا جب حرمِ نبوی میں داخل ہوئیں تو اس وقت آپ کے علاوہ سیدہ سودہ بنت زمعہ ، سیدہ عائشہ بنت ابی بکر، سیدہ حفصہ بنت عمر، سیدہ زینب بنت حجش، سیدہ ام سلمہ، سیدہ جویریہ بنت حارث اور سیدہ صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہن سات امہات المومنین موجودتھیں۔

بستر رسول کی حرمت: سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سےبے حد عقیدت و محبت تھی۔اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ہر چیز کا بڑا اہتمام اور احترام کرتیں ایک بار سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے والد ابو سفیان جو اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے مدینہ منورہ آئے اور اپنی بیٹی سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے گھر پہنچے، اور آ کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر بیٹھ گئے۔ سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا فوراً اٹھیں اور والد کو ادب سے عرض کی کہ آپ اس بستر سے اٹھ جائیں۔ یہ پاک بستر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور آپ ابھی تک شرک سے پاک نہیں ہوئے۔

علم وفضل:ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا علم و فضل اور فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے اعلیٰ درجے پر فائز تھیں۔ امہات المومنین میں علم حدیث کے حوالے سے تیسرے درجے پر فائز تھیں کیونکہ پہلا درجہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور دوسرا درجہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا تھا اور تیسرا حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا، ان سے 65 احادیث مروی ہیں۔

حلیہ مبارک:خوبصورت تھیں، صحیح مسلم میں خود ابوسفیان کی زبانی منقول ہے: عِنْدِي أَحْسَنُ الْعَرَبِ وَأَجْمَلُهُ أُمُّ حَبِيبَةَ بِنْتُ أَبِي پسُفْيَانَ۔  ترجمہ:میرے ہاں عرب کی حسین تراور جمیل ترعورت اُم حبیبیہ رضی اللہ عنہا بنت ابوسفیان موجود ہے۔

روایت حدیث:آپ سے صحیحین میں تقریباً 55 احادیث منقول ہیں، آپ سے روایت کرنے والے اکابر صحابہ ہیں اور آپ کے  راویوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے، بعض کے نام یہ ہیں، حبیبہ رضی اللہ عنہا (دختر) معاویہ رضی اللہ عنہ اور عتبہ رضی اللہ عنہ پسران ابوسفیان رضی اللہ عنہ، عبد اللہ بن عتبہ، ابوسفیان بن سعید ثقفی (خواہر زادہ) سالم بن سوار (مولیٰ) ابوالجراح، صفیہ بنت شیبہ، زینب بنت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ، عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ، ابوصالح السمان، شہرابن حوشب۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی معاونت:

خلیفہ مسلمین حضرت عثمان غنی کے دور خلافت کے اخیر وقت میں بلوائیوں نے آپ کے کاشانہ مبارک کا محاصرہ کر لیا اور ہر طرح سے آپ پر سختیاں کرنے لگے، ان ایام میں بعض صحابہ حضرت عثمان غنی کی حفاظت پر مامور تھے ، سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بلوائیوں کی کچھ پرواہ کیے بغیر ہر قسم کے خطرات سے بے نیاز ہو کر پانی کا ایک مشکیزہ اور کچھ کھانا لے کر اپنے گھر سے نکلیں اور خچر پر سوار ہو کر حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر کی طرف چل پڑیں، ام المومنین نے کھانا پانی چھپا رکھا تھا بلوائیوں نے ام المومنین کو دیکھ لیا اور حضرت عثمان غنی تک پہنچنے سے روک دیا۔

 اولاد : ام المومنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہاکے یہاں تو ایک بیٹا اور ایک بیٹی پیدا ہوئے، بیٹے کا نام عبداللہ تھا اور بیٹی حبیبہ تھیں۔ حبیبہ نے آغوش نبوت میں پرورش پائی ۔ البتہ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی ام حبیبہ کے بطن سے کوئی اولاد نہ تھی۔

وصال پر ملال : سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا ۴۴ ہجری میں ۷۲ یا ۷۳ سال کی عمر میں مدینہ منورہ میں وفات پائی ۔ یہ زمانہ آپ کے بھائی سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ تھا۔ کچھ دنوں کے لیے آپ دمشق تشریف لےگئیں اور کچھ عرصہ بعد مدینہ واپس آگئیں، اور بقیہ عمر مدینے میں گزاری

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved