محمد اعظم مصباحی مبارک پوری
نام و نسب: نام حضرت خدیجہ، کنیت ام ہند، لقب طاہرہ ہے، آپ کے والد گرامی خویلد ہیں والدہ محترمہ فاطمہ بنت زائدہ ہیں سلسلۂ نسب کچھ اس طرح ہے:
والد کی طرف سے سلسلہ نسب: خدیجہ بنت خُویلد بن اسد بن عبد العزی بن قصی بن کلاب بن برہ بن کعب بن لُوَی بن غالب بن فہر۔
آپ کا نسب مبارک قصی پر رسول گرامی ﷺ کے نسب شریف سے مل جاتا ہے۔
ماں کی طرف سے سلسلۂ نسب: فاطمہ بنت زائدہ بنت الاصم بن رواحہ بن حجر بن عبد معیض بن عامر بن غالب بن فہر۔
سن ولادت مبارک: حضرت خدیجہ کا سن ولادت ۱۵؍ قبل نبوی ۵۵۶ء ہے۔
خاندان: حضرت خدیجہ کا خاندان مکہ شریف میں بہت معزز خاندان تھا آپ کے والد خویلد مکہ کے رئیسوں میں تھے، آپ ایک کامیاب تاجر ہونے کے ساتھ ساتھ جود و سخاوت میں بھی بے مثال تھے سخاوت کی وجہ سے پورے مکہ معظمہ میں عزت و وقار کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ملک یمن اور شام میں بھی کافی اثر و رسوخ تھا۔
بچپن: حضرت خدیجہ اپنے بچپن سے ہی نہایت حلیم و بردباد اور باوقار تھیں متانت و سنجیدگی اور ذہانت و فطانت کے ساتھ معاملہ فہمی اور غم خواری و غم گساری کی دولت سے بھی مالا مال تھیں۔
نکاح: نبی کریم ﷺ کی زوجیت میں آنے سے پہلے آپ نے دو شادیاں کیں اور دونوں شوہروں کے انتقال کے بعد آپ کا تیسری بار نکاح سید عالم جناب محمد رسول اللہ ﷺ سے ہوا۔
پہلا نکاح: حضرت خدیجہ جب سن بلوغ کو پہنچی تو آپ کے والد خویلد نے آپ کی شادی کے لیے اپنے بھتیجے ورقہ بن نوفل کو منتخب کیا جو تورات و انجیل کے زبردست عالم تھے جنھوں نے پوری زندگی راہ حق کی تلاش و جستجو میں گزار دی حضور انور کی بعثت تک زندہ رہے اور آپ کو پیغام نبوت کے بارے میں پیش آنے والی بہت سی دشواریوں سے آگاہ کیا اور بھرپور امداد و اعانت کا وعدہ بھی کیا مگر تبلیغ احکام کا حکم ملنے سے پہلے ہی انتقال کر گئے۔
کسی وجہ سے آپ کا نکاح حضرت خدیجہ سے نہ ہو سکا تو حضرت خدیجہ کے والد خویلد نے آپ کا نکاح ابو ہالہ ہند بن نباش بن زرارہ تمیمی سے کر دیا۔
ابو ہالہ اور ہند نامی دو بیٹے پیدا ہوئے ان دونوں بیٹوں نے اسلام کا زمانہ پایا اور حضور انور ﷺ کے دست حق پرست پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔
دوسرا نکاح: حضرت خدیجہ نے پہلے شوہر کے انتقال کے بعد قبیلہ بنو مخزوم کے ایک معزز شخص عتیق بن عائذ یا عابد بن عبد اللہ سے نکاح کر لیا۔ عتیق کے یہاں حضرت خدیجہ کے بطن سے ایک بچی پیدا ہوئی اس کا نام بھی ہند رکھا گیا۔ یہ بھی مشرف بہ اسلام ہوئیں۔
حضرت خدیجہ کے دوسرے شوہر عتیق بھی زیادہ دنوں تک زندہ نہ رہے ان کا بھی جلد ہی انتقال ہو گیا۔
تیسرا نکاح: ابو ہالہ اور عتیق کے بعد ام المؤمنین سیدہ خدیجہ کا نکاح حضور سید عالم ﷺ سے ہوا۔ اس کی کچھ تفصیل یوں ہے:
حضرت خدیجہ جو قریش کی ایک مال دار اور نیک سیرت خاتون تھیں ہمارے آقا نے ان سے مال تجارت لیا اور سفر میں تشریف لے گئے۔ اس وقت آپ کی عمر پچیس سال کی تھی۔ اس سفر میں نسطورا راہب کے پاس سے آپ کا گزر ہوا۔ اس نے آپ کو پہچان لیا کہ یہ نبی آخر الزماں ہیں، جن کا ذکر انبیائے سابقین کی کتابوں میں ملتا ہے۔ حضرت خدیجہ کا غلام میسرہ بھی شریک سفر تھا، اس نے اس سفر میں آپ کو بہت سی خرق عادت والی باتیں دیکھیں، جب آپ سفر سے واپس آ رہے تھے تو حضرت خدیجہ بالا خانے پر بیٹھی ہوئی آمد کا پر کیف منظر دیکھ رہی تھیں، آپ نے دیکھا کہ سرکار چلے آ رہے ہیں اور دو فرشتے ان پر سایہ کیے ہوئے ہیں۔ میسرہ نے بیان کیا کہ میں نے پورے سفر میں ایسا ہی دیکھا ہے اور سفر کی دوسری خرق عادت والی باتیں بھی بیان کیں۔ یہ سن کر حضرت خدیجہ کا دل ان کی طرف مائل ہونے لگا اور سرکار دو جہاں سے نکاح کی درخواست کی، جب ابو طالب کو اطلاع ہوئی تو معاملات طے ہونے کے بعد چند اشراف قریش کو لے کر حضرت خدیجہ کے گھر پہنچے، خدیجہ کی طرف سے ان کے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل ذمہ دار تھے، ابو طالب نے خطبہ پڑھا دوران خطبہ آپ نے رسول کریم ﷺ کے بہت سے فضائل و مناقب بیان کیے اور نکاح منعقد ہو گیا۔
قبولیت اسلام: ام المومنین سیدہ خدیجہ ابتدائے اسلام میں کلمہ پڑ کر حلقہ بگوش اسلام ہوئیں۔ ابن سعد نے طبقات میں ایک روایت یحییٰ بن فرات کے حوالے سے نقل کرتے ہوئے اس وقت کے اسلام کی منظر کشی کی ہے۔
عفیف کندی سامان خریدنے کے لیے مکہ آئے اور عباس بن عبد المطلب کے گھر مہمان ہوئے صبح کے وقت ایک دن کعبہ کی طرف نظر اٹھی تو دیکھا کہ ایک نوجوان آیا اور آسمان کی طرف رخ کر کے کھڑا ہو گیا پھر ایک لڑکا اس کے داہنی طرف کھڑا ہوا پھر ایک عورت دونوں کے پیچھے کھڑی ہو گئی نماز پڑھ کر یہ لوگ چلے گئے تو عفیف نے عباس سے کہا کہ کوئی عظیم واقعہ پیش آیا؟ عباس نے کہا ہاں پھر کہا جانتے ہو یہ نوجوان کون ہے یہ میرا بھتیجا محمد ہے دوسرا میرا بھتیجا علی ہے اور یہ محمد کی بیوی خدیجہ ہے میرے بھتیجے کا خیال ہے کہ اس کا مذہب رب کا مذہب ہے اور وہ جو کچھ کرتا ہے رب کے حکم سے کرتا ہے جہاں تک مجھے معلوم ہے تمام روئے زمین پر ان تینوں کے سوا کوئی اور اس دین کا پابند نہیں، یہ سن کر مجھے تمنا ہوئی کہ کاش میں چوتھا ہوتا۔
پہلی وحی اور حضرت خدیجہ: جوں جوں بعثت کا زمانہ قریب آتا جا رہا تھا تو حضور کا یہ معمول ہو گیا تھا کہ آپ آبادیوں سے نکل کر زیادہ وقت خلوت نشینی میں بسر کرتے کئی کئی روز کا توشہ لے کر غار حرا میں چلے جاتے اور عبادت میں مشغول رہتے۔ آٹھویں ربیع الاول دوشنبہ کے دن حضرت جبریل غارِ حرا میں آپ کے پاس آئے اور وحی سنا کر کہا پڑھیے، آپ نے فرمایا میں نہیں پڑھوں گا پھر حضرت جبریل نے آپ سے معانقہ کیا اور طاقت بھر دبوچا اور کہا پڑھیے آپ نے کہا میں نہیں پڑھوں گا اس کے بعد حضرت جبریل نے دبوچ کر کہا پڑھیے آپ نے کہا میں نہیں پڑھوں گا جب حضرت جبریل نے کہا اقرا باسم ربک الذی خلق۔ تو سرکار نے پڑھنا شروع کیا۔
یہ سب سے پہلی وحی تھی جس کی وجہ سے آپ کے بدن کو بڑی تکلیف ہوئی آپ اپنے دولت خانے تشریف لائے اور کہا کہ مجھے چادر اڑھاؤ حضرت خدیجہ نے آپ کو چادر اڑھائی آپ نے حضرت خدیجہ سے غار کے حالات بیان کر کے کہا کہ مجھے اپنی جان کا خوف ہے حضرت خدیجہ نے کہا کہ اللہ آپ کو رسوا نہیں کرے گا آپ غریبوں کی مدد، مفلسوں کی خیر خواہی اور راہ حق میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اس کے بعد حضرت خدیجہ آپ کو اپنے چچا زاد بھائی، ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں ورقہ بن نوفل کتب سابقہ کے عالم تھے انھوں نے پورا واقعہ سننے کے بعد کہا کہ یہ وہی فرشتہ ہے جو حضرت موسی کے پاس آتا تھا تم اس امت کے پیغمبر ہو۔
شعب بنی ہاشم اور حضرت خدیجہ: حضور ﷺ کو تبلیغ اسلام سے باز رکھنے کے لیے مشرکین مکہ طرح طرح کی لالچ دیں لیکن سرکار نے ان کی طرف کوئی توجہ نہیں فرمائی جب مشرکین مکہ اپنی تمام تر امکانی تدابیر اختیار کر کے تھک گئے تو انھوں نے آپ کے قتل کاارادہ بنا لیا جب آپ کے چچا جناب ابو طالب نے یہ دیکھا کہ قریش محمد عربی کو تکلیف پہنچا سکتے ہیں تو آپ سرکار کو لے کر شعب بنی ہاشم میں چلے گئے کفار نے آپ سے برادرانہ تعلق توڑ دیا اور طرح طرح کی سختیاں کیں ان سختیوں میں حضرت خدیجہ بھی آپ کے ساتھ رہیں۔ اور ہر طرح سے سرکار کا ساتھ دیا۔
اسلام کی نشر و اشاعت کے لیے مالی قربانی: حضور انور ﷺ کی زوجیت میں داخل ہونے کے بعد حضرت خدیجہ نے اپنا سب کچھ آپ ﷺ کے قدموں پر نثار کر دیا تھا۔
حضرت خدیجہ آپ ﷺ کی مونس و غم خوار ابتدا ہی سے تھیں، آپ ﷺ کی بعثت رسالت و نبوت کے بعد تو دل وہی اور دل داری، اور ایثار و قربانی کا وہ باب و اکیا کہ پورے عالم کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہ پہلے موجود تھی نہ ان کے زمانے میں دیکھی اور سنی گئی، اور نہ ان شاء اللہ قیامت تک پائی جا سکتی ہے۔
نبوت کے بعد حضرت خدیجہ کا مال تقریباً ان کی وفات تک آپ ﷺ اور آپ ﷺ کی اولاد امجاد کے لیے معاش کا ذریعہ بنا رہا، اور آپ ﷺ اہل و عیال کی ضروریات کو مہیا کرنے سے بے فکر ہو کر گم گشتۂ راہ انسانوں کو خداوند قدوس کی وحدانیت کا سبق پڑھاتے رہے، اور ان کو راہ راست پر لا کر دین و دنیا دونوں کی کامیابیاں ان کے قدموں میں ڈالتے رہے۔
حضرت خدیجہ کے مال نے آپ ﷺ کو صرف فکر معاش سے ہی سبک دوش نہیں کیا بلکہ وہ اسلام کی تبلیغ و ترویج اور نشر و اشاعت میں بھی خوب کام آتا رہا، چنانچہ ان کے احسان کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں، انھوں نے مالکانہ طور پر اپنا مال میرے حوالے کر دیا تو میں نے راہ خدا وندی میں اسے دین کی نشر و اشاعت کے لیے خرچ کیا۔
امتیازات و خصوصیات: حضور انور ﷺ کی تمام ازواج مطہرات میں ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ کو چند ایسی خصوصیات حاصل ہیں کہ جن میں آپ ﷺ کی کوئی اور بیوی ان کی شریک و سہیم نہیں ہے حضرت خدیجہ کے خصوصی امتیازات یہ ہیں:
(۱) وہ حضور ﷺ کی سب سے پہلے زوجۂ مطہرہ ہیں۔
(۲) آپ ﷺ کی زوجیت میں داخل ہونے کے وقت ان کی عمر چالیس برس اور آپ ﷺ کی پچیس برس تھی، بقیہ تمام ازواج مطہرات باعتبار عمر آپ ﷺ سے چھوٹی تھیں۔
(۳) عمر کافی تفاوت کے باوجود ان کی حیات میں آپ ﷺ نے کوئی دوسرا نکاح نہیں کیا۔
(۴) حضرت ابراہیم کے علاوہ آپ ﷺ کی تمام اولادیں انھیں کے بطن سے پیدا ہوئیں۔
(۵) حضرت خدیجہ سب سے پہلی خاتون ہیں جو مشرف بہ اسلام ہوئیں۔
(۶) اپنا پورا سرمایہ وقف کر کے آپ ﷺ کو معاش کی فکر سے آزاد کر دیا۔
(۷) منصب نبوت و رسالت پر فائز ہونے کے بعد سب سے پہلے آپ ﷺ کے چہرۂ انور کو انھوں نے ہی دیکھا اور نظر نبوت سب سے پہلے انھیں کے روے زیبا پر پڑی۔
(۸) خدا وند قدوس نے انھیں اپنے ہدیہ سلام سے اعزاز بخشا، اور جنت میں موتی کے ایک محل کی خوش خبری سے نوازا۔
یہ وہ اوصاف ہیں کہ ان میں ازواج مطہرات میں سے کوئی زوجہ بھی ان کی شریک و سہیم نہیں ہے۔
حضور ﷺ کی حضرت خدیجہ سے محبت: حضور حضرت خدیجہ سے بے پناہ محبت کرتے اور ان کا تذکرہ جمیل کیا کرتے حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضور سب سے زیادہ حضرت خدیجہ کا ذکر کرتے اور اکثر ایسا ہوتا کہ جب آپ کوئی بکری ذبح کرتے تو کچھ گوشت حضرت خدیجہ کی سہیلیوں کو ضرور بھیجتے کبھی کبھی میں کہتی کہ دنیا میں بس ایک خدیجہ ہی آپ کی بیوی تھیں تو آپ فرماتے کہ خدیجہ وہ ہیں جن کی شکم سے اللہ نے مجھے اولاد عطا فرمائی۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ خدا کی قسم خدیجہ سے بہتر کوئی بیوی نہیں ملی جب سب لوگوں نے مجھے جھٹلایا اس وقت وہ ایمان لائیں اور انھوں نے میری تصدیق کی جس وقت لوگوں نے مجھے مال سے محروم رکھا اس وقت انھوں نے اپنا مال مجھے دیا اور انھیں کے شکم سے اللہ نے مجھے اولاد عطا فرمائی۔
وفات: رمضان ۱۰ نبوی میں حضور اکرم ﷺ کی ہجرت مدینہ منورہ سے تقریباً تین سال قبل وہ اس عالم فانی سے عالم جاودانی کے سفر پر روانہ ہو گئیں۔
نماز جنازہ اس وقت تک مشروع نہ ہوئی تھی، اس لیے غسل دے کر کفن پہنا دیا گیا، اور لوگ جنازہ لے کر ابدی آرام گاہ کی طرف چل پڑے، حضور انور ﷺ بہ نفسِ نفیس قبر میں اترے اور اپنے مبارک ہاتھوں سے انھیں لحد میں رکھ کر سپرد خاک کیا۔ حضرت خدیجہ کی قبر مقام ”حجون“ میں پہاڑ کے اوپر آج بھی نمایاں اور ممتاز ہے۔
اولاد: حضور ﷺ کے حضرت خدیجہ سے چھ اولادیں پیدا ہوئیں، دو صاحب زادے جو بچپن میں انتقال کر گئے اور چار صاحب زادیاں نام حسب ذیل ہیں:
حضرت قاسم بن محمد، حضرت محمد ﷺ کے سب سے بڑے بیٹے تھے، انھیں کے نام پر آپ ابو القاسم کنیت کرتے تھے صغر سنی میں مکہ میں انتقال کیا، اس وقت پیروں پر چلنے لگے تھے۔
زینب بنت محمد، آپ ﷺ کی سب سے بڑی صاحب زادی تھیں۔عبد اللہ بن محمد نے بہت کم عمر پائی، چونکہ زمانۂ نبوت میں پیدا ہوئے تھے، اس لیے طیب اور طاہر کے لقب سے مشہور ہوئے، رقیہ بنت محمد، ام کلثوم بنت محمد، فاطمہ زہرا و عنہن اجمعین۔
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org