27 July, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia July 2023 Download:Click Here Views: 13299 Downloads: 876

(9)-ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا

ذکر جمیل

مفتی محمد اعظم مصباحی مبارک پوری

اسم گرامی:رملہ یا ہند۔لقب: ام المؤمنین۔کنیت:ام سلمہ۔

سلسلۂ نسب اس طرح ہے: سیدہ ام سلمہ بنت ابو امیہ حذیفہ ( بعض مؤرخین کے نزدیک سہیل ہے) بن مغیرہ بن عبد اللہ بن عمرو بن مخزوم بن لقیظہ بن مُرہ بن کعب تھا۔ قریش کی ایک شاخ ’’بنو مخزوم‘‘ سے تعلق تھا۔ مکے کے دولت مند لوگوں میں سے تھے۔ جو بڑے مخیر اور فیاض تھے سفر میں جاتے تو تمام قافلہ والوں کی کفالت خود کرتے اسی لیے آپ کا لقب ’’زاد الراکب‘‘ مشہور تھا۔ 

والدہ کی طرف سے سلسلۂ نسب: ام سلسلہ بنتِ عاتکہ بنت عامر بن ربیعہ بن مالک۔ 

سیدہ والد اور والدہ دونوں طرف سے’’قریشی‘‘ تھیں۔ بعض تذکرہ نگاروں نے آپ کی والدہ عاتکہ کو جناب عبدالمطلب کی بیٹی اور سید عالمﷺ کی پھوپھی تحریر کیا ہے۔ یہ صحیح نہیں ہے۔

پہلانکاح: آپ کا پہلا نکاح حضرت ابو سلمہ سے ہوا جو آپ کے چچازاد بھائی اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی تھے۔ ابو سلمہ بن عبدالاسد۔ آپ کے شوہر بہت شریف اورسلیم الطبع تھے۔ انہوں نے آغاز اسلام میں ہی اسلام قبول کرلیا تھا۔ حالانکہ ان کا قبیلہ اسلام کا سخت دشمن تھا لیکن انہوں نے اس کی ذرہ بھر پروا نہ کی، ام سلمہ رضی اللہ عنہا بھی اپنے شوہر کے ساتھ ہی اسلام میں داخل ہو گئیں، اس طرح دونوں میاں بیوی قدیم الاسلام تھے۔   

ہجرت:حضرت امِ سلمہ اور آپ کے سوہر حضرت ابو سلمہ نے اوّلاً حبشہ کی طرف ہجرت کی پھر کسی غلط فہمی کی بنیاد پر واپس مکہ مکرمہ آگئے اور جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مدینہ منورہ ہجرت کا حکم دیاتو پہلے پہل مدینہ منورہ ہجرت کرنے والوں میں آپ کا تین افراد پر مشتمل گھرانہ بھی تھا جس کا درد ناک واقعہ آپ رضی اللہ تعالی عنہا کی زبانی سنئے چنانچہ

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:” جب حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ ہجرت کا عزم فرما لیا تو مجھے ایک اونٹ پر سوار کیا۔میرا ننھا بیٹا سلمہ میری گود میں تھا۔انہوں نے اونٹ کی نکیل پکڑ کرچلنا شروع کر دیا۔ابھی ہم مکہ مکرمہ کی حدود سے بھی نہ نکلے تھے کہ میری قوم بنومخزوم کے چند افراد نے ہمیں دیکھ کر ہمارا راستہ روک لیا اور ابو سلمہ سے کہا ’’ اگر چہ تم نےاپنی مرضی کو قوم پر ترجیح دے دی لیکن یہ ہماری بیٹی ہے ہم اسے تمہارے ساتھ جانے نہیں دیں گے،یہ کہہ کر وہ آگے بڑھےاور مجھے جانے سے روک دیا ‘‘ جب میرے شوہر ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کی قوم بنواسد نے یہ منظر دیکھا تو غضبناک ہوکر کہنے لگے کہ : خداکی قسم! ہم تمہارے قبیلہ کی اس عورت کے پاس اپنا بچہ نہیں رہنے دیں گے۔ یہ ہمارا بیٹا ہے اوراس پر ہمارا حق ہے۔ یوں وہ میرے بیٹے کو مجھ سے چھین کر اپنے ساتھ لے گئے۔ اس کھینچا تانی میں میرے بیٹے سلمہ کا ہاتھ بھی اتر گیا یہ سب میرے لیے ناقابل برداشت تھا۔ شوہر مدینہ منورہ روانہ ہوگئے تھے ۔بیٹے کو بنو عبد الاسد لے گئے تھےاور مجھے میری قوم بنومخزوم نے اپنے پاس رکھ لیا تھا۔یوں ہمارے درمیان پل بھر میں جدائی ڈال دی گئی ۔ میں غم دور کرنے کے لیے ہر صبح اس جگہ جاتی جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا۔ وہاں بیٹھ کر دن بھر روتی رہتی اور شام کے وقت گھر واپس آجاتی ،تقریبا ایک سال تک یہ سلسلہ جاری رہا ۔ ایک دن میں وہاں بیٹھی رو رہی تھی کہ میرا ایک چچا زاد بھائی میرے پاس سے گزرا۔میرا یہ حال دیکھ کر اسے رحم آگیا اور اسی وقت جا کر میری قوم کے بڑوں سے کہا کہ تم اس عورت کو کیوں تڑپا رہے ہو۔کیا تم اس کی حالت نہیں دیکھ رہے کہ یہ اپنے شوہر اور بیٹے کے غم میں کس قدر تڑپ رہی ہے آخر اسے ستانے سے تمھیں کیا ملے گا۔؟ چھوڑ دو اس بیچاری کو ۔ اس کی یہ باتیں سن کرمیرے قبیلے والوں کےدل نرم ہوگئےاور مجھ سےکہا کہ ہماری طرف سےاجازت ہے چا ہو تو اپنے خاوند کے پاس جاسکتی ہو میں نے کہا : یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں مدینہ منورہ چلی جاؤں اور میرا بیٹا بنو اسد کے پاس رہے ؟ یہ سن کر کچھ لوگوں نے بنو اسد سے بات کی تو وہ بھی راضی ہو گئے اور میرا بیٹا مجھے واپس دے دیا ۔ میں نے جلدی جلدی تیاری کی اور سوئے مدینہ منورہ اکیلی ہی چل پڑی ، مخلوق خدا میں بیٹے کے علاوہ کوئی بھی میرے ساتھ نہ تھا جب میں مقام تنعیم پر پہنچی تو وہاں عثمان بن طلحہ ملے انہوں نے کہ ’’اے بیٹی کہاں جا رہی ہو؟ ‘‘

میں نے کہا :۔ مدینہ منورہ اپنے خاوند کے پاس جا رہی ہوں ۔

انہوں نے کہا:۔ کیا اس سفر میں تمہارے ساتھ کوئی نہیں؟

میں نے کہا:۔ بخدا ! میرے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں۔

وہ کہنے لگے کہ ’’اللہ کی قسم ! اب میں تمہیں مدینہ منورہ پہنچا کر ہی واپس آؤں گا‘‘ اور اونٹ کی نکیل پکڑ کر آگے چل دیے۔

اللہ کی قسم! میں نے عرب میں اس سے زیادہ نیک دل اور شریف انسان نہیں دیکھا۔جب یہ ایک منزل طے کر لیتے تو ،میرے اونٹ کو بٹھا دیتے پھر دور ہٹ جاتے۔جب میں اتر آتی تو اونٹ سے ہودج اتار کراسے درخت کے ساتھ باندھ دیتے پھر خود دوسرے درخت کے سائے میں لیٹ جاتے۔ روانگی کے وقت اونٹ تیار کر کے میرے پاس لاتے۔ میں اونٹ پر سوار ہو جاتی تو اس کی نکیل پکڑ کر چل دیتے۔ مدینہ منورہ پہنچنے تک اسی طرح میرے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے رہے۔

جب بنو عمرو کی بستی نظرآئی تو مجھے کہا کہ‘‘ آپ کا خاوند اس بستی میں رہائش پذیر ہے ۔ اس میں چلی جائیے۔‘‘ ہمیں وہاں چھوڑ کر وہ مکہ معظمہ واپس لوٹ گئے۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح: حضرت ابو سلمہ غزوۂ احد میں شریک ہوئے۔ لڑائی کے دوران جو زخم آئے کچھ عرصہ مندمل ہونے کے بعد جاں بر نہ ہو سکے اور  انہی زخموں کی وجہ سے   ۴ ھ میں اس دارِ فانی سے کوچ فرمایا۔

    ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اپنے شوہر کے وصال کے بعد اس دعا کو اپنا ورد بنالیا ہے جسے حضور تاجدار مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے مسلمان کو مصیبت کے وقت پڑھنے کی تعلیم فرمائی وہ دعا یہ ہے۔

    اَللّٰھُمَّ أجِرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَاخْلُفْ لِیْ خَيرًا مِّنْھَا

ترجمہ :” اے اللہ !عزوجل مجھے اجر دے میری مصیبت میں اور میرے لیے اس سے بہتر قائم مقام بنا ” سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ اپنے شوہر کے وصال کے بعد اس دعا کو پڑھتی تھی اور اپنے دل میں کہتی کہ ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بہتر مسلمانوں میں کون ہوگا۔ لیکن چونکہ یہ ارشاد رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا تھا اس لیے اسے میں ورد زبان رکھتی

دوسری روایت میں ہے کہ تاجدار مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: جو میت کے سرہانے موجود ہو وہ اچھی دعا مانگے، اس وقت جو بھی دعا مانگی جائے فرشتے آمین کہتے ہیں۔ جب ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وصال فرمایا تو بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یارسول اللہ ! .صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد ان کے فراق میں کیا کہوں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: یہ کہو ”اے اللہ! عزوجل انہیں اور مجھے بخش دے اورمیری عاقبت کو اچھی بنا۔ پھر میں اسی دعا پر قائم ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بہتر عوض عطا فرمایا۔ اور وہ محبوب رب العالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تھے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکاح میں آنے سے پہلے حضرات ابو بکر و عمر نے بھی ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا لیکن حضرت ام سلمہ نے قبول نہ کیا اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کا پیغام بھیجا تو آپ نے مرحبا کہتے ہوئے لبیک کہا۔اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت ام سلمہ کے لیے ابو سلمہ سے بہتر شوہر عطا فرمایا۔

فضل و کمال:ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بہت ہی ذہین و فطین،صائب الراے،ذی علم اور حسن اخلاق کا پیکر ہونے کے ساتھ ساتھ درجہ اجتہاد پر فائز تھیں،آپ کا شمار محدثین صحابہ و صحابیات میں ہوتا ہے۔یوں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ازواج عالمہ فاضلہ اور صاحب فضل و کمال تھیں لیکن ان میں ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ اور ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہما کاکوئی جواب نہ تھا۔

چنانچہ محمود بن لبید کہتے ہیں"آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج احادیث کا مخزن تھیں، تاہم عائشہ اور ام سلمہ کا ان میں کوئی مقابل نہ تھا۔"

مروان بن حکم ان سے مسائل دریافت کرتا اور علانیہ کہتا تھا، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج کے ہوتے ہوئے ہم دوسروں سے کیوں پوچھیں۔

حضرت ابو ہریرہ اورحضرت  ابن عباس دریائے علم ہونے کے باوجود ان کے دریائے فیض سے مستغنی نہ تھے۔تابعین کرام کا ایک بڑا گروہ ان کے آستانہ فضل پر سر جھکاتا تھا۔ قرآن اچھا پڑھتیں اور حضور  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے طرز پر پڑھ سکتی تھیں، ایک مرتبہ کسی نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیونکر قرأت کرتے تھے؟ بولیں ایک ایک آیت الگ الگ کر کے پڑھتے تھے اس کے بعد خود پڑھ کر بتا دیا۔

 سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے تین سو اٹھترحدیثیں مروی ہیں ان میں تیرہ حدیثیں بخاری و مسلم میں بخاری شریف میں تین حدیثیں اور مسلم میں تیرہ اور باقی دیگر کتابوں میں مروی ہیں۔

حضرت ام سلمہ اور امر بالمعروف:ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی بھی بہت پابند تھیں۔ ایک روز ان کے بھتیجے نے دو رکعت نماز پڑھی۔ چوں کہ سجدہ کی جگہ غبار تھا۔ اس لیے وہ  سجدہ کرتے وقت مٹی جھاڑ دیتے تھے۔ یہ دیکھ کرام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے ان کو روکا اور فرمایا کہ یہ طریقہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقے کے خلاف ہے۔ ایک مرتبہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے ایک غلام (افلح) نے ایسا کیا تھا تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :’’ اے افلح! اپنا چہرہ مٹی میں ملا۔‘‘

نماز کے اوقات میں بعض امرا نے  مستحب اوقات چھوڑ دیئے تو ام سلمہ نے ان کو تنبیہ کی اور فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ظہر جلد پڑھا کرتے تھے اور تم عصر جلد پڑھتے ہو۔

سخاوت:ام المومنین سیدہ ام سلمہ بڑی فیاض اور جود و سخا کا پیکر جمیل تھیں خود بھی غریبوں،محتاجوں پر سخاوت کرتیں اور دوسروں کو بھی فیاضی کی طرف مائل کرتی تھیں۔ ایک دفعہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف نے آ کر کہا "اماں! میرے پاس اس قدر مال جمع ہو گیا ہے کہ اب بربادی کا خوف ہے، فرمایا بیٹا! اس کو خرچ کرو، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ بہت سے صحابہ ایسے ہیں کہ جو مجھ کو میری موت کے بعد پھر نہ دیکھیں گے!"

اولاد امجاد:سیدہ ام سلمہ کے پہلے شوہر سے  سلمہ، حبشہ میں پیدا ہوئے،جن کے سبب ام المومنین کی کنیت ام سلمہ تھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کا نکاح حمزہ کی لڑکی امامہ بنت حمزہ سے کیا تھا۔

وصال پر ملال:ام المومنین رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ظاہری کے بعد بہت دنوں تک بقید حیات رہیں ،رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتل سیدنا امام حسین کی مٹی آپ کو دے کر فرمایا کہ جب یہ مٹی سرخ ہو جائے تو سمجھ لینا میرا بیٹا حسین کربلا میں شہید کر دیا گیا ۔آپ واقعہ کربلا کے بعد واقعہ حرہ تک زندہ رہیں اور واقعہ حرہ کے بعد ٨٤ھ میں مدینہ منورہ میں وصال فرمایا اور جنت البقیع آپ کی آخری آرام گاہ بنی۔

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved