27 July, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia Sept 2023 Download:Click Here Views: 11883 Downloads: 1035

(9)-ام المومنین سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا

ذکر جمیل

محمد اعظم مصباحی مبارک پوری

نام و نسب:آپ کا اسم گرامی زینب ہے ایام جاہلیت میں آپ کا نام برہ تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تبدیل فرماکر زینب نام رکھا۔

کنیت: ام الحکم ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اواہۃ (بارگاہ الٰہی میں بہت خشوع وخضوع کرنے والی)کا لقب عطا کیا ۔والد کا نام جحش اور والدہ امیمہ بنت عبد المطلب ہیں ۔

والد کی طرف سے سلسلہ نسب یہ ہے :زینب بنت جحش بن رباب بن یعمر بن صبرہ بن مرہ بن کثیر بن غنم بن دودان بن سعد بن خزیمہ۔حضرت سیدہ زینب بنت جحش کی والدہ امیمہ حضرت عبد المطلب کی بیٹی تھیں اس نسبت کی بنا پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آپ پھوپھی زاد بہن ہوئیں۔

والدہ کی طرف سے سلسلہ نسب یہ ہے :زینب بنت امیمہ بنت عبد المطلب، بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ۔

قبولِ اسلام اور ہجرت: اُمّ المؤمنین حضرت سیدہ زینب بنتِ جحش رضی اللہ عنہا قدیمُ الاسلام صحابیات رضی اللہ تعالیٰ عنہنَّ میں سے ہیں۔ اِسْلَام قبول کرنے کے بعد آپ نے حبشہ کی طرف دونوں ہجرتوں میں شرکت فرمائی اور پھر سرکارِ اقدس صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہجرت فرما کر مدینۂ منوّرہ تشریف لانے کے بعد آپ نے بھی اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ حبشہ سے مدینہ شریف کی طرف ہجرت کرلی۔

نکاح: پہلی شادی رسولِ کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارِثہ رضی اللہ عنہ سے ہوئی تھی۔ حضرت زید قبیلہ قضاعہ میں سے تھے۔ لڑکپن میں گرفتار ہوکر مکہ میں حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کے ہاتھ بطور غلام فروخت ہوئے۔ حضرت خدیجہ نے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کردیا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے پہلے ان کو آزاد کر کے متبنیٰ بنالیا اس لیے لوگ ان کو زید بن محمد کہا کرتے تھے۔ حضرت زید سابقین اولین میں سے تھے ان پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاص توجہ تھی۔ آپ اہم امور میں ان سے کام لیتے اور لشکر کی قیادت تک ان کے سپردکردیتے۔ اسی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نکاح اپنی پھوپھی امیمہ بنت عبد المطلب کی صاحب زادی زینب بنت جحش سے کردینا چاہا مگر زینب اور ان کے بھائی راضی نہ ہوئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت زید  موالی (آزاد کردہ غلام) تھے اور سیدہ زینب ایک شریف اور معززخاندان سے تعلق رکھتی تھیں ، عرب کا دستور یہ تھا کہ موالی سے نکاح کرنا عار سمجھا جاتا ہے۔ اس پر یہ آیت اتری:

(ترجمہ)-کسی مسلمان مرد یا عورت کو لائق نہیں جس وقت خدا اور اس کا رسول کوئی کام مقرر کردے کہ ان کو اپنے کام میں اختیار ہواور جو کوئی اللہ  اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہ ہو گیا۔ (احزاب، ع ۵)

حضرت زینب نکاح پر راضی ہوگئیں اور نکاح ہو گیا۔

حضرت زید اگر چہ عربی الاصل تھے مگر قریشی نہ تھے۔ قریش کی لڑکیوں خصوصاً اولاد عبد المطلب کے لئے اَشرافِ قریش میں کفو تلاش کیے جاتے تھے اس لئے کچھ عرصہ طبعی طور پر حضرت زید رضی اللہ عنہ حضرت زینب کی حرکاتِ عادِیہ کو کبر و تعاظم پر محمول کرنے لگے اور حضرت زینب بھی ان سے متکدر رہنے لگیں ۔ چنانچہ حضرت زید نے رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی شکایت کی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس طرح کی باتوں پر طلاق نہیں دیا کرتے۔ اسی امر کی طرف اس آیتِ کریمہ  میں اشارہ ہے۔

(ترجمہ)-اور جس وقت تو کہہ رہا تھا اس شخص سے جس پر اللہ نے اور تونے انعام کیا ہے کہ اپنی بیوی کو اپنے لیے تھام رکھ اور خدا سے ڈر اور تو اپنے جی میں چھپاتا تھا اس چیز کو جسے اللہ ظاہر کرنے والا ہے اور تو لوگوں سے ڈرتا تھا اور اللہ زیادہ لائق ہے اس کا کہ تو اس سے ڈرے۔(احزاب، ع۵)

 حضرت زید رضی اللہ عنہ نے طلاق دے دی۔ عدت گزرنے پر رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید ہی کو نکاح کا پیغام دینے کے لئے زینب کے پاس بھیجا۔حضرت زید بن حارثہ فرماتے ہیں کہ میں رسولِ کریم ﷺ کے حکم کے مطابق حضرت زینب کے گھر گیا تو دیکھا وہ آٹا گوندھ رہی ہیں، میں نے شرماتے ہوئے اپنا رخ دوسری طرف کر کے کہا کہ زینب تمہارے لیے خوش خبری ہے، حضور نے مجھے یہ پیغام دے کر بھیجا ہے کہ تمھیں حبالۂ عقد میں لے کر ازواجِ مطہرات میں شامل فرما لیں، تمہاری کیا راے ہے؟ اس پر  حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ میں استخارہ کرلوں ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:

(ترجمہ)-پھر جب زید کی غرض اس سے نکل گئی تو ہم نے وہ تمہارے نکاح میں دیدی کہ مسلمانوں پر کچھ حرج نہ رہے ان کے لے پالکوں کی بیبیوں میں جب ان سے ان کا نکاح ختم ہوجائے اور اللہ کا حکم ہو کر رہتا ہے۔ (احزاب، ع۵)

حضرت زینب ابھی استخارہ کے لیے مصلے پر تھیں کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی اور یہ پیغام دیا گیا کہ ہم نے آپ کی شادی حضرت زینب کے ساتھ آسمانوں پر کر دی ہے، یہ حکم نازل ہونے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ زینب کے گھر تشریف لے گئے اور آپ کو نکاح کے بارے میں اطلاع دی ۔ حضرت زینب نے سجدۂ شکر ادا کیا اور شادی کے لیے رضا مند ہو گئیں۔

اس طرح حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح ( ۳ ھ یا ۵ ھ میں ) 35 برس کی عمر میں ہوگیا۔ حضرت زینب فخر کیا کرتی تھیں کہ دیگر ازواج مطہرات رضی اللہ عنہا کا نکاح تو ان کے باپ یا بھائی یا ان کے گھر والوں  نے کردیا مگر میرا نکاح اللہ تعالیٰ نے آسمان سے کردیا۔ اس نکاح میں یہ حکمت بھی تھی کہ منہ بولے بیٹے  کی مطلقہ کا حکم معلوم ہو گیا۔

جب یہ نکاح ہو گیا تو مخالفوں نے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے بیٹوں کی بیویوں سے نکاح حرام کردیا مگر خود اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرلیا۔ اس پر یہ آیتیں اتریں :

(ترجمہ)-محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن خدا کے پیغمبر اور خاتم النبیین ہیں ۔ (احزاب، ع۵)

(ترجمہ)-اور تمہارے لے پالکوں کو تمہارے بیٹے نہیں بنایا یہ تمہارے مونہوں کی بات ہے۔ - (احزاب، ع۱)

لہٰذا حضرت زید رضی اللہ عنہ جو زید بن محمد کہلاتے تھے اس کے بعد زید بن حارثہ کہلانے لگے۔

دعوتِ ولیمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی نکاح کے موقع پر اس قدر ولیمے کا اہتمام نہیں فرمایا جس قدر حضرت زینب سے نکاح کے بعد ولیمے کا اہتمام فرمایا۔ آپ نے ایک بکری ذبح فرمائی، صحابۂ کرام کو دعوت دی، لوگوں نے پیٹ بھر روٹی اور گوشت تناول کیا۔ ایک روایت کے مطابق اس ولیمے میں تین سو افراد نے شرکت فرمائی۔

اَوصاف و کمالات :خوفِ خُدا، تقویٰ وپرہیزگاری، عِبادت وریاضت، دنیا سے بے رغبتی اور جُود وسخاوت وغیرہ حضرت زینب جحش کے نمایاں اوصاف ہیں۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے ان سے بڑھ کر دین دار، اللہ عَزَّوَجَلَّ  سے ڈرنے والی، حق بات کہنے والی، صلۂ رحمی کرنے والی اور صدقہ وخیرات کرنے والی کوئی عورت نہیں دیکھی۔

روایت حدیث:حضرت زینب روایتیں کم کرتی تھیں، کتب حدیث میں ان سے صرف گیارہ رواتیں منقول ہیں، راویوں میں حضرت ام حبیبہ، زینب بنت ابی سلمہ، محمد بن عبد اللہ بن حجش ، کلثوم بنت طلق وغیرہ شامل ہیں۔

امتیازی خصوصیات:حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدہ زینب اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما دونوں اپنے اپنے طور پر فخر کیا کرتی تھیں سیدہ زینب رضی اللہ عنہا فرماتیں: میں وہ ہوں جس کا نکاح آسمان پر ہوا، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتیں: میں وہ ہوں جس کی عفت و پاک دامنی کی گواہی آسمان سے آئی۔

خدا خوفی:ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین میں کچھ مال تقسیم فرمارہے تھے، سیدہ زینب رضی اللہ عنہا بھی آپ کے قریب پردے ہی میں  تشریف فرما تھیں، سیدہ زینب نے کوئی بات کہی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو منع کیا جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:عمر !زینب سے درگزر کرو، یہ اَوّاہ ہیں یعنی عاجزی و انکساری کے ساتھ اللہ کے حضور آہ و زاری سے دعائیں مانگنے والی ہیں ۔

ایک حدیث میں ہے کہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:میں نے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کسی کو خشوع و خضوع کرنے والا نہیں دیکھا۔

سخاوت اور فیاضی:سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سخاوت میں بہت مشہور تھیں جو کچھ ہوتا راہ خدا میں خرچ کر دیتیں۔ آپ کی سخاوت کا اندازہ اس ایک واقعے سے کیا جا سکتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہاکی خدمت میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں 12000 دراہم بھیجے۔ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے دعا کی اور فرمایا: اللہ تعالیٰ عمر رضی اللہ عنہ کی بخشش فرمائے، میری دوسری بہنیں امہات المؤمنین مجھ سے زیادہ اس نوازش کی حق دار ہیں۔

حضرت زینب  رضی اللہ عنہا کو بتایا گیا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کے لئے بھی الگ بھیجاہے، یہ سب آپ ہی کا ہے۔فرمانے لگیں: سبحان اللہ! پھر اسے ایک کپڑے سے چھپا کرڈھانپ دیا اوربرزہ بنت رافع کو کہا کہ اس کو لوگوں میں بانٹ دو، اُن لوگوں میں سے کچھ آپ رضی اللہ عنہا کے عزیز بھی تھے اور کچھ مسکین و یتیم لوگ بھی تھے۔انہوں نے آپ کے حکم پر لوگوں میں تقسیم کیا اس کے باوجود بھی کچھ رقم بچ گئی تو برزہ بنت رافع نے کہا: اس میں ہمارا بھی حق ہے۔سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے فرمایا: جو کپڑے کے نیچے باقی ہے، سب آپ کا ہے۔اس میں85 درہم باقی تھے۔

وصالِ: سیدہ عائشہ صدّیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ بعض ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہنَّ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: ہم میں سے کون  سب سے  پہلےآپ سے ملے گی؟ فرمایا:  جس کے ہاتھ سب سے لمبے ہیں (یعنی جو زیادہ صدقہ و خیرات کرنے والی ہے)۔

سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کثرت سے صدقہ کرنے والی خاتون تھیں اس لئےپیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے ظاہری پردہ فرمانے کے بعد ازواجِ مطہرت رضی اللہ تعالی عنہن میں سے سب سے پہلے آپ کا ہی وصال ہوا۔

آپ کا سنِ وصال 20ھ میں ہوا۔ یہ امیرُالمؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کا دَورِ خلافت تھا، سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی۔ آپ کے بھتیجوں اور بھانجوں میں سے حضرت محمد بن عبد اللہ ، اسامہ بن ابو احمد اور محمد بن طلحہ نے آپ کو قبر میں اتارا۔ جنت البقیع آپ کی آخری آرام گاہ ہے۔ 

وصیت: وصال شریف سے پہلے بھی آپ نے صدقہ کرنے کی وصیت کی،فرمایا: میں نے اپنا کفن تیار کر رکھا ہے، ہو سکتا ہے کہ (حضرت) عمر (رضی اللہ عنہ) بھی کفن بھیجیں اگر وہ بھیجیں تو ان میں سے کسی ایک کو صدقہ کر دینا اور مجھے قبر میں اُتارنے کے بعد اگر میرا پٹکا بھی صدقہ کر سکو تو کر دینا۔

مالِ وراثت آپ رضی اللہ عنہا نے وراثت میں کوئی مال نہیں چھوڑا صرف ایک گھر تھا جسے بعد میں وُرَثَا نے مسجدِ نبوی شریف کی توسیع کے وقت وَلِید بن عبد الملک کے ہاتھ فروخت کر دیا۔

حضرت عائشہ کے تعریفی کلمات: آپ رضی اللہ عنہا کے انتقال پر اُمُّ المؤمنین حضرتِ عائشہ صِدِّیقہ رضی اللہ عنہا نے یہ تعریفی کلمات کہے:

ایک قابلِ تعریف اور فَقِیْدُ المثال خاتون چل بَسیں جو یتیموں اور بیواؤں کی پناہ گاہ تھیں اور فرمایا: زینب نیک خاتون تھیں۔

خصوصیات: ام المومنین سیدہ زینب بنت جحش کی چند ایسی خصوصیات ہیں جو دیگر ازواج مطہرات کو حاصل نہیں۔ وہ یہ ہیں:

 (۱) حضرت زینب کے نکاح کے بعد جاہلیت کی یہ رسم ختم ہو گئی کہ لے پالک بیٹے اصلی بیٹے کا حکم رکھتے ہیں۔

(۲) اس نکاح سے یہ بھی حکم معلوم ہو گیا کہ منہ بولے بیٹے کی بیوہ یا مطلقہ سے نکاح ہو سکتا ہے۔

(۳) حضرت زینت کا نکاح آسمانوں پر ہوا ۔

(۴) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح کے موقع پر ولیمے کا جس کا قد ر ا ہتمام فرمایا دوسرے نکاح میں اس قدر نہیں فرما یا ۔

(۵) اس نکاح کے بعد پردے کا حکم نازل ہوا اور یہ حکم دیا گیا کہ کوئی شخص بغیر اجازت دوسر کے گھر میں داخل نہ ہو۔

(۶) حضرت زینب رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے کہا کرتیں کہ مجھے تین باتوں میں آپ پر ناز ہے :

-۱- میرے اور آپ کے جد امجد ایک ہیں۔

-۲- آپ کے ساتھ میرا نکا ح آسمانوں پر اللہ تعالیٰ نے پڑھایا ۔

-۳- میرے معاملۂ نکاح کے سفیر حضرت جبریل علیہ السلام ہیں۔

(بخاری  شریف، مسلم شریف، مسند امام احمد ، طبقات کبریٰ، استیعاب، اصابہ وغیره )

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved