27 July, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia March 2023 Download:Click Here Views: 82382 Downloads: 3367

(13)-ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا

محمد اعظم مصباحی مبارک پوری

نام و نسب اور خطابات:

آپ کا نام عائشہ ہے۔ خطاب اُم المومنین ہے۔ القاب صدیقہ، حبیبۃ الرسول، موَفقہ، طیبہ، محبوبۂ محبوب رب العالمین اور حمیرا  ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے بنت الصدیق سے بھی آپ کو یاد فرمایا ہے۔علاوہ ازیں رسول اللہ ﷺ نے آپ کو یَا عَائشُۃ کے نام سے بھی خطاب فرمایا ہے۔آپ کا مبارک نسب نامہ یہ ہے

والد کی طرف سے نسب یوں ہے:عائشہ بنت ابی بکر الصدیق بن ابی قحافہ عثمان بن عامر بن عمر بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک۔

والدہ کی طرف سے نسب یوں ہے:عائشہ بنت اُمِ رومان زینب بنت عامر بن عویمر بن عبد شمس بن عتاب بن اذینہ بن سبیع بن وہمان بن حارث بن غنم بن مالک بن کنانہ۔

والد کی طرف سے عائشہ رضی اللہ عنہا کا نسب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب سے مرہ بن کعب پر آٹھویں پشت پر ملتا ہے اور والدہ کی طرف سے عائشہ رضی اللہ عنہا کا نسب رسول اللہ ﷺ کے نسب سے مالک بن کنانہ پر گیارہویں پشت پر ملتا ہے۔

والدین:

آپ کے والد ابوبکر صدیق ابن ابی قحافہ عثمان رضی اللہ عنہ ہیں جو سب سے پہلے اسلام لائے ۔آپ کی والدہ ام رومان زینب بنت عامر ہیں ۔

ولادت با سعادت:

 آپ رضی اللہ عنہا کی ولادت با سعادت بعثت نبوی کے پانچویں سال ماہ شوال مطابق ماہ جولائی 614ء کو مکہ مکرمہ میں کاشانۂ صدیق میں ہوئی۔حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا کاشانہ وہ برج سعادت تھا جہاں خورشیداسلام کی شعاعیں سب سے پہلے جلوہ فگن ہوئیں اسی بنا پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب سے میں نے اپنے والدین کو پہچانا ، مسلمان پایا۔

رسول اکرم سے نکاح:

 ایک دن رسالت مآب ﷺ گھر میں آرام فرمارہے تھے کہ عالم خواب میں حضرت جبرائیل علیہ السلام سبز ریشمی پارچہ پر سیدہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی تصویر لائے اور عرض کیا: ’’یارسول اللہ ﷺ! یہ خاتون اس دنیا اور آخرت میں آپ کی زوجہ ہے‘‘۔

بیوی کا چہرہ دیکھنے کے بعد آپ ﷺ نے خواب میں ہی ارشاد فرمایا:’’اگر یہ خواب اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے ہے تو ضرور پورا ہوگا اور اللہ تعالیٰ ایسی زوجہ ضرور عطا فرمائے گا‘‘۔

اور یہ خواب مسلسل تین رات آتا رہا اور یہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے لئے بہت بڑی منقبت ہے کہ حضور اکرم ﷺ کو ان کے آنے سے پہلے ہی ان کے جمال پُرانوار کا محب و مشتاق بنادیا۔

ایک روز رسول کریم ﷺ گھر میں تشریف فرما رہے تھے کہ حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی زوجہ حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا حاضر خدمت ہوئیں اور عرض گزار ہوئیں:

’’یا رسول اللہ ﷺ! میرے ماں باپ آپ پر قربان، آپ دوسرا نکاح کرلیں‘‘۔

’’کس سے؟‘‘ حضور اکرم  ﷺ نے دریافت فرمایا۔

 ’’بیوہ اور کنواری دونوں طرح کے رشتے ہیں جسے پسند فرمائیں‘‘۔حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا نے عرض کیا۔

 حضور اکرم  ﷺ نے پوچھا:’’کون ہیں؟‘‘

حضرت خولہ زوجہ عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:

 ’’بیوہ تو حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا ہیں اور کنواری آپ کے قریب ترین دوست اور عاشق زار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں‘‘۔

حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’دونوں جگہ بات کرو‘‘۔

حضور اکرم ﷺ سے اذن پانے کے بعد حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا سیدھی سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے در دولت پر پہنچیں  اور حضور کا پیغام دیا۔

دوسرے دن ان سےحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے  فرمایا:

’’خولہ! مجھے تمہارے توسط سے حضور اکرم ﷺ کا پیغام ملا ہے، میرا جو تعلق آپ ﷺ سے ہے اس کی روشنی میں کیا یہ جائز ہے؟ عائشہ   تو رسول اللہ ﷺ کی بھتیجی ہیں‘‘۔

’’میں حضور اکرم ﷺ سے اس ضمن میں بات کروں گی پھر اطلاع دوں گی‘‘۔ حضرت خولہ بنت حکیم نے کہا اور اٹھنے لگیں تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ایک اور بات ہے‘‘۔ ’’وہ کیا ہے؟‘‘ ’’میں عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے لئے جبیر بن مطعم سے وعدہ کرچکا ہوں، وعدہ خلافی ہوگی تاوقتےکہ اس طرف سے کوئی جواب نہ ملے‘‘۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بتایا تو وہ اٹھ کر چلی گئیں اور سیدھی آنحضرت ﷺ کے کاشانۂ اقدس پر پہنچیں اور عرض کیا:

 ’’یارسول اللہ ﷺ! سودہ (رضی اللہ عنہا) نے آپ کو اختیار دے دیا ہے کہ جو چاہیں اس کے حق میں فیصلہ صادر فرمائیں‘‘۔

پھر عرض کیا: ’’میں آپ کے دوست اور جانثار کے ہاں بھی گئی تھی‘‘۔ ’’کیا کہتا ہے؟‘‘ ’’حضور ﷺ! وہ کہتے ہیں کہ عائشہ (رضی اللہ عنہا) تعلق کے لحاظ سے آپ کی بھتیجی لگتی ہے، کیا یہ رشتہ جائز ہوگا؟‘‘ حضور ﷺ نے یہ سن کر ارشاد کیا: ’’ابوبکر (رضی اللہ عنہا) میرا صرف دینی بھائی ہے، نکاح جائز ہے‘‘۔

ایک بات انہوں نے یہ بھی بتائی تھی کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے لئے انہوں نے جبیر بن مطعم سے وعدہ کررکھا ہے۔ ’’ٹھیک ہے‘‘۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا اور پھر حضرت سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا سے شادی ہوگئی جنہوں نے اپنے آقا و مولا ﷺ کی بیٹیوں کی اپنی اولاد سے بڑھ کر دیکھ بھال کی۔

چند دنوں کے بعد جبیر بن مطعم نے خود ہی رشتہ کرنے سے انکار کردیا تو حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدہ خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا کو بلا بھیجا جب آئیں تو کہا:

’’جبیر نے عائشہ  سے شادی کرنے سے انکار کردیا ہے اب آپ جاکر آنحضرت ﷺ سے کہہ دیں کہ جب چاہیں، عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے شادی کرلیں‘‘۔

چونکہ یہ نکاح مشیت الٰہی میں مقدر ہو چکا تھا اس لی سیدنا ابوبکر بھی رضامند ہوگئے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا نکاح مکہ میں ہجرت سے 3 سال پہلے چھ شوال کو ہوا جبکہ رخصتی تین سال کے بعد شوال ہی کے مہینے میں ہجرت کے بعد ہوئی۔اس بے مثال وبے نظیر نکاح پاک کا مہر 500 درہم تھا جسے حضرت صدیق اکبر کو ادا کیا گیا ۔

ازدواجی زندگی :

 رسول اللہ ﷺ کی تمام زندگی ہمارے لئے نمونہ ہے۔تمام امور میں پیدائش سے موت تک نبی کریم ﷺ کی ذات ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔گھریلو زندگی کے بارے میں کہا جاتا ہے۔ کہ ایک معمولی سا حجرہ تھا۔ بلندی اتنی تھی کہ ایک آدمی کھڑا ہوتا تو ہاتھ چھت کو لگ جاتا تھا۔چھت کھجوروں کے ٹہنیوں کی تھی۔ ایک چارپائی، چٹائی،بستر، کھجور کی چھال سے بھرا تکیہ اور چند برتن ہی کل مال ومتاع تھا۔کاشانہ مصطفیٰ تو مرکز انوار وتجلیات تھا لیکن حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا خود فرماتی ہیں کہ چالیس چالیس راتیں گزر جاتیں اور ہمارے گھر کا چراغ نہیں جلتا تھا۔کھانا پکانے کی نوبت بھی کم ہی آتی تھی۔کبھی تین دن ایسے نہیں گزرے کہ خانہ نبوت نے پیٹ بھر کر کھایا ہو۔

نبی کریم ﷺ کے ساتھ رفاقت کا دورانیہ نو برس رہا۔ اس تمام عرصہ آپس میں محبت و شفقت اور ہمدردی، میں گزرے۔ گھر میں خادمہ کے ہوتے ہوئے بھی رسول اللہﷺ کے کام اپنے ہاتھ سے انجام دینے کو باعث فخر و عزت گرادنتی تھیں۔کبھی کبھار نوک جھوک ہوجائے اور رسول اللہﷺناراض ہوجاتے تو اس وقت تک چین سے نا بیٹھتی کہ جب تک رسول اللہ ﷺ کو راضی نہ کرلیتیں۔

فضائل وکمالات :

حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ رسول اقدس ﷺ سے پوچھا : یا رسول اللہ !آپ کو دنیا میں سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ فرمایا : عائشہ عرض کی مردوں میں کون ہے؟ فرمایا : اس کا باپ۔ ایک دفعہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی حضرت حفصہ ام المؤمنین کو سمجھاتے ہوئے کہا :بیٹی عائشہ کی ریس نہ کیا کرو ، رسول اللہ ﷺ کے دل میں اس کی قدر ومنزلت بہت زیادہ ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :مردوں میں بہت کامل گزرے لیکن عورتوں میں سے مریم بنت عمران اور آسیہ زوجہ فرعون کے سوا کوئی کامل نہ ہوا اور عائشہ کو عورتوں پر اسی طرح فضیلت ہے جس طرح ثرید کو تمام کھانوں پر۔امام ذہبی لکھتے ہیں کہ سیدہ عائشہ پوری امت کی عورتوں سے زیادہ عالمہ ،فاضلہ ، فقیہہ تھیں۔ عروہ بن زبیر کا قول ہے : میں نے حرام وحلال ، علم وشاعری اور طب میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ میں فخر نہیں کرتی بلکہ تحدیث نعمت کے طور پر کہتی ہوں کہ دنیا میں ۹ چیزیں ایسی ہیں جو صرف اللہ نے مجھے عطا کی ہیں میرے سوا کسی کو نہیں ملیں:

(1)خواب میں فرشتے نے حضور ﷺ کے سامنے میری صورت پیش کی۔

(2)جب میں سات برس کی تھی تو آپ ﷺ نے مجھ سے نکاح کیا۔

 (3) جب میرا سن ۹ برس کا ہوا تو رخصتی ہوئی۔

 (4) میرے سوا کوئی کنواری بیوی آپ ﷺ کی خدمت میں نہ تھی ۔

(5) آپ ﷺ جب میرے بستر پر ہوتے تب بھی وحی آتی تھی ۔

(6) میں آپ ﷺ کی محبوب ترین بیوی تھی ۔

(7) میری شان میں قرآن کی آیتیں اتریں۔

 (8) میں نے جبریل علیہ السلام کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔

 (9) آپ ﷺ نے میری گود میں سر رکھے ہوئے وفات پائی۔

حضرت عائشہ صدیقہ حضور اکرمﷺ کی محبوب ترین رفیقہ حیات تھیں۔ وہ حسین و جمیل ہی نہیں بلکہ نہایت ذہین، عقل مند، معاملہ فہم، دور رس نگاہ کی حامل تھیں۔ تفسیر، علم حدیث فقہ و قیاس، عقائد اور خواتین کے بارے میں خصوصی علوم کی حامل تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہا نہایت عبادت گزار اور وفا شعار خاتون تھیں سخت گرمی میں بھی روزے رکھا کرتی تھیں۔ خادمہ کی موجودگی میں بھی آٹا خود پیستیں، حضور اکرم ﷺ کو روٹی پکا کر دیتیں، آپﷺ کا بستر بچھاتیں، کپڑے دھوتیں وقت نماز وضو کیلئے پانی اور مسواک مہیا کرتی تھیں۔ بیوی کا سب سے بڑا جوہر شوہر کی فرمانبرداری ہوتا ہے جو آپ میں بدرجہ اتم موجود تھا۔ آپ ﷺ کے ساتھ نو برس تک خلوت

حضرت عائشہ اور خدمت حدیث:

احادیث مصطفیٰ خواتین میں سب سے زیادہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے، حضرت عائشہ مکثرین الروایة صحابیات میں سے ہیں، آپ کی مرویات کی تعداد 2210بیان کی گئی ہے جن میں286 حدیثیں بخاری ومسلم میں موجود ہیں مرویات کی کثرت کے لحاظ سے صحابہ کرام میں ان کا چھٹا نمبر، مرویات کی کثرت کے ساتھ احادیث سے استدلال اور استنباط مسائل، ان کے علل واسباب کی تلاش وتحقیق میں بھی ان کو خاص امتیاز حاصل تھا اور ان کی اس صفت میں بہت کم صحابہ ان کے شریک تھے کتب حدیث میں کثرت سے اس کی مثالیں موجود ہیں۔امام زہری جو کبار تابعین میں سے ہیں وہ فرماتے ہیں:

 ”کانت عائشة اعلم الناس یسالھا الاکابر من اصحاب رسول اللہ ﷺ“ .

یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تمام لوگوں میں سب سے زیادہ علم رکھنے والی تھیں اجِلہ صحابۂ کرام ان سے مسائل دریافت کرتے تھے۔

 دوسری جگہ یوں رقم طراز ہیں:

”اگر تمام ازواج مطہرات کا علم بلکہ تمام مسلمان عورتوں کا علم جمع کیا جائے تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا علم سب سے اعلیٰ وافضل ہوگا“۔(الاستیعاب )

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ سے مروی احادیث کی تعداد دو ہزار دو سو دس ہے۔ مرویات کی کثرت کے ساتھ احادیث سے استدلال اور استنباط مسائل، ان کے علل واسباب کی تلاش وتحقیق میں بھی آپ کو خاص امتیاز حاصل تھا اور آپ کی صفت میں بہت کم صحابہ ان کے شریک تھے، کتب حدیث میں کثرت سے اس کی مثالیں موجود ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استفادہ کے معاملے میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سب سے آگے تھیں۔ ان کے ذہن میں جو بھی اشکال پیدا ہوتا وہ فوراً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اس کا اظہار کرتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اس کی وضاحت فرمادیتے۔

آپ کی روایات سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سیرت مقدسہ کے ان گوشوں اور پہلوؤں کا پتہ چلتا ہے کہ آپ کی گھریلو زندگی میں تقسیم کار کیا، ازواج مطہرات سے آپ کا سلوک کیسا تھا، آپ کی راتیں کیسے بسر ہوتی تھیں، آپ کتنا سوتے اور کتنا جاگتے تھے، اور کس قدر عبادت و ریاضت میں شب بسر کرتے، کیسے ہم کلام ہوتے وغیرہ وغیرہ۔

حضرت عائشہ کی فقہی بصیرت:

شریعت کے اکثر مسائل جن میں بیشتر خواتین سے متعلق ہیں وہ آپ اور دیگر ازواج مطہرات کے ذریعے امت کو معلوم ہوئے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو فقہی امور پر کامل دسترس حاصل تھی اور علم کا کوئی گوشہ ایسا نہ تھا جس کے بارے میں آپ کو کمال درجے کی معلومات نہ ہوں۔ آپ قرآن مجید کی حافظہ تھیں، بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ اپنے اختلافی مسائل آپ کے سامنے پیش کرتے آپ اپنی اجتہادی بصیرت اور وسعت علمی سے انہیں حل کر دیتیں۔

ایک مرتبہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:مَن حُوسِبَ عُذِّبَ.( روزِ قیامت جس کا حساب لیا گیا وہ گرفتارِ عذاب ہوگا۔)

اس پر حضرت عائشہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! قرآن میں تو کہا گیا ہے:فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَاباً یَسِیْراً ( اس سے آسان حساب لیا جائے گا۔)

اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ اس سے مراد اعمال کی پیشی ہے۔ جس کے اعمال میں جرح شروع ہو گئی وہ توہلاک ہوگیا ‘‘ ۔( بخاری، کتاب العلم،۱۰۳)

حضرت عائشہ کے شاگردِ خاص اور بھانجے حضرت عروہ بن زبیر کہتے ہیں: ’’ میں حضرت عائشہ کی صحبت میں رہا۔ میں نے ان سے زیادہ آیات کی شانِ نزول، فرائض، سنت ، شعر و ادب ، عرب کی تاریخ اور قبائل کے انساب وغیرہ اور مقدمات کے فیصلوں، حتیٰ کہ طب کا جاننے والا کبھی کسی کو نہیں دیکھا۔

عطا بن ابی رباح کہتے ہیں:’’حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   لوگوں میں سب سے بڑی فقیہ سب سے زیادہ علم رکھنے والی اور عوام میں سب سے اچھی أصابت رائے رکھنے والی تھیں۔‘‘امام ذہبی فرماتے ہیں:’’رسول اللہ ﷺ کی امت میں، بلکہ مطلقاً سب ہی عورتوں میں ان سے زیادہ علم والی کسی عورت سے میں واقف نہیں ہوں۔‘‘ حضرت عائشہ فتوی اور درس دیا کرتی تھیں، یہی نہیں بلکہ آپ نے صحابہ کرام کی لغزشوں کی بھی نشاندہی فرمائی۔

 دیگر علوم وفنون :

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نہ صرف قرآن و حدیث پر مہارت رکھتی تھیں بلکہ  تاریخ ادب، خطابت اور شاعری میں بھی خاص ملکہ حاصل تھا۔ علم طب میں بھی انہیں اچھی خاصی واقفیت حاصل تھی۔ تذکرۃ الحفاظ میں ہشام بن عروہ کا بیان ہے کہ میں نے قرآن، فرائض، فقہ، شاعری، عرب کی تاریخ اور علم الانساب میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے زیادہ عالم اور واقف کسی کو نہیں دیکھا۔ حضرت عائشہ صدیقہ کے بھانجے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا اسی قسم کا فرمان زرقانی نے بھی نقل کیا ہے۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  سے ایک شخص نے پوچھا: آپ شاعری کرتی ہیں اس لئے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہیں۔ اسی طرح عرب کی تاریخ اور علم الانساب میں حضرت صدیق اکبر خاصی مہارت رکھتے تھے۔ ان علوم کی آشنائی حضرت عائشہ کی وراثت ہے مگر آپ کو علم طب سے کیسے واقفیت ہوئی؟ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   خود فرماتی ہیں: حضور نبی اکرم ﷺآخری عمر میں بیمار رہا کرتے تھے۔ عرب کے طبیب آکر جو آپ ﷺ کو بتاتے وہ یاد کرلیتی تھی۔

وصال پرملال:

اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  رمضان المبارک ۵۸ ہجری میں بیمار ہوگئیں۔ چند روز علیل رہیں۔ مرض الموت میں وصیّت فرمائی کہ مجھے دیگر ازواجِ مطہرات کے ساتھ جنت البقیع میں رات کے وقت دفن کیا جائے، صبح کا اِنتظار نہ کیاجائے۔

17رمضان المبارک کو منگل کی رات 63 سال کی عمر میں رات کو نماز وتر کے بعد اِس دارِ فانی سے پردہ فرمایا۔اِن کے اِنتقال سے تمام عالم اسلام صدمے میں مبتلا ہو گیا۔  نمازِ جنازہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے پڑھائی جو اُس وقت مروان بن حکم کی طرف سے مدینہ منورہ کے حاکم تھے۔ اور حسب ِ وصیت رات کے وقت جنت البقیع میں دفن ہوئیں۔  محمد ابی بکت کے بیٹے حضرت قاسم  ، حضرت عبداللہ بن عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘ حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبداللہ بن زبیر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قبر میں اُتارا

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved