27 July, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia March 2023 Download:Click Here Views: 82176 Downloads: 3367

(6)-توحید فی المحبۃ

مبارک حسین مصباحی

تاجدار مار ہره شیخ طریقت حضرت سید نجیب حیدر قادری برکاتی کا دعوت نامہ بعنوان ”  . توحید فی المحبۃ“پر لکھنے کے لیے موصول ہوا سالنامہ” اہل سنت کی آواز “کے لیے ہم نے حکم کے مطابق مضمون ارسال کیا ، بفضلہٖ تعالیٰ خصوصی شمارہ ”اسلام کا نظریۂ توحید“ جلد ۱۱ شعبان المعظم ۱۴۲۵ھ/ اکتوبر ۲۰۰۴ء میں شائع ہوا۔ خانقاہ برکاتیہ بڑی سرکار مارہرہ مطہرہ کے شکریے کے ساتھ ہم اس کو نذر قارئیں کرتے ہیں۔

(۴)- قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۝۲۴ (التوبه:۲۴)

ترجمہ: تم فرماؤ اگر تمھارے ماں باپ اور تمھارے بیٹے اور تمھارے بھائی اورتمھاری عورتیں اورتمھارا کنبہ اور تمھاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمھیں ڈر ہے اور تمھارے پسند کے مکان کی چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لا نے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو۔ یہاں تک کہ اللہ اپنا علم لائے اور اللہ فاسقوں کورا ہ نہیں دیتا۔

ان قرآنی ارشادات کی روشنی میں واضح ہو گیا کہ ایک بندہ مومن کوحقیقی محبت اللہ تعالیٰ ہی سے کرنا چاہیے اور کائنات کی ہر چیز پرمحبت الٰہی کو ترجیح دینا چاہیے اور ہم یہاں ایک شبہ کا ازالہ کر دینا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ توحید فی المحبۃ کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ صرف اللہ تعالیٰ سے محبت کی جائے اور باقی مخلوقات سے نفرت وعداوت رکھی جائے بلکہ اس بحث کا محور یہ ہے کہ اس کائنات میں ایک بندہ مومن کو حقیقی محبت اللہ تعالیٰ ہی سے کرنا چاہیے اور اس کے علاوہ جس سے بھی محبت ہو رضائے الٰہی کے لیے ہونا چاہیے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کا معیار اطاعت مصطفیٰ کو قرار دیا ہے۔ احادیث نبویہ کا ایک طویل نورانی سلسلہ اس مفہوم کے ارشادات پرمشتمل ہے کہ کسی بھی فرد اور مخلوق سےمحبت کرنا اگر اللہ تعالیٰ کے لیے ہو تو یہ دراصل اللہ تعالیٰ ہی سے محبت ہے اور یہ ہی بھی عین ”توحید فی المحبۃ“ہے۔ ذرادل ودماغ کی مکمل یکسوئی کے ساتھ ذیل میں احادیث نبویہ کا مطالعہ کیجیے، کس پرزور انداز میں رسول کریم نے ”الحب في اللہ والبغض في اللہ “  کا پیغام دیا ہے اورعشق انگیز بشارتیں سنائی ہیں۔

 توحید فی المحبۃ کا نقطۂ نظر احادیث نبویہ کی روشنی میں:

 (1)- عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ ’’‏ ثَلاَثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ حَلاَوَةَ الإِيمَانِ أَنْ يَكُونَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَأَنْ يُحِبَّ الْمَرْءَ لاَ يُحِبُّهُ إِلاَّ لِلَّهِ، وَأَنْ يَكْرَهَ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُقْذَفَ فِي النَّارِ ‏‘‘‏‏.(امام محمد بن اسماعیل بخاری، بخاری، کتاب الایمان، ۱/۷)

ترجمہ: حضرت انس نبی کریم ﷺسے روایت کرتے ہیں جس شخص میں تین چیزیں ہوں وہ ایمان کی شیرینی محسوس کرے گا اللہ اور رسول اسے اس کے سوا ہر چیز سے زیادہ محبوب ہوں اور کسی سے محبت رضاے الٰہی کے حصول کے لیے کرے اور کفر میں لوٹنا اسے اسی طرح ناپسند ہوجس طرح آگ میں ڈالا جانا اسے نا پسند ہے۔

(۲)- وَعَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قال اتدرون أي لأعمال احب إلي الله تعالىٰ قال قائل الصلوٰة والزكوٰة وقال قائل الجهاد، قال النبي أَفْضَلُ الْأَعْمَالِ الْحُبُّ فِي اللَّهِ وَالْبُغْضُ فِي اللَّهِ» . رَوَاهُ احمد وروی أَبُو دَاوُد. (شیخ ولی الدین العراقی، مشکوٰۃ، ص:۴۲۷)

ترجمہ: حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے انھوں نے فرمایا کہ سرکار علیہ السلام ہماری جانب تشریف لائے اور فرمایا کیا تم جانتے ہو اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل سب سے زیادہ محبوب ہے، کسی نے عرض کیا نماز اور ز کوٰۃ اور کسی نے کہا جہاد، نبی کریم ﷺنے ارشادفرمایا اللہ تعالیٰ کو تمام معمولات میں سے سب سے زیادہ پسندیده یہ ہے کہ اللہ ہی کے لیے محبت کی جائے اور اللہ ہی کے لیے نفرت کی جائے۔

(۳)- عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله تعالىٰ عليه وسلم لو ان عبدين تحابا في الله عز و جل واحد في المشرق وآخر في المغرب لجمع الله بينهما يوم القيامة يقول هذا الذي كنت تحبه في.

 (شیخ ولی الدین العراقی، مشکوٰۃ، ص:۴۲۷)

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا اگر دو بندے محض اللہ کے لپے با ہم محبت کرتے ہوں، ایک ان میں سے مشرق میں ہو اور دوسرامغرب میں تو اللہ تعالیٰ انھیں بروزِ قیامت یکجا فرمائے گا اور ارشاد فرمائے گا یہ میرے لیے محبت کرنے کا نتیجہ ہے۔

(۴)-عن ابي هريرة قال كنت مع رسول اللہ صلى الله عليه وسلم فقال رسول اللہ صلى الله عليه وسلم ان في الجنة لعمدة من ياقوت عليها عرف من زبرجد لها ابواب مفتحة تضی کما يضى الكواكب الدري فقالوا یارسول اللہ من يسكنها نال المتحابون في اللہ والمتجالسون في اللہ و المتلاقون في اللہ روی البيهقي.

(شیخ ولی الدین العراقی، مشکوٰۃ، ص:۴۲۷)

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ ﷺکے ساتھ تھا تو آپ نے فرمایا :جنت میں کچھ یاقوت کے ستون ہیں جن پر سنگ زبرجد کے محل ہیں، ان کے کھلے ہوئے دروازے روشن ستاروں کی طرح درخشاں ہیں، صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ان میں کون رہے گا ؛ارشادفرمایا: وہ لوگ جو اللہ کے لیے باہم محبت کرتے ہیں اللہ  کے لیے ہم نشین ہوتے ہیں اور اللہ کے لیے ملاقاتیں کرتے ہیں۔

(۵)-الْحُبُّ فِي اللَّهِ وَالْبُغْضُ فِي اللَّهِ مِنَ الْاِيْمَان.

(امام محمد بن اسماعیل بخاری، بخاری ۱/۶)

 ترجمہ: اللہ کے لیے محبت اللہ کے لیے بغض ایمان سے ہے۔

حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےمروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔

(۶)-افضل الاعمال الْحُبُّ فِي اللَّهِ وَالْبُغْضُ فِي اللَّهِ.

(سلیمان داؤد الطیالسی، مسند ابی داؤد)

ترجمہ:تمام اعمال سے افضل اللہ کے لیے محبت کرنا اور اللہ کے لیے عداوت کرناہے۔

(۷)-حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ فرمایا: ”اوثق عرى الإيمان الحب في اللہ والبغض في اللہ“.(مصنف ابن ابی شیبہ)

ترجمہ: ایمان کی سب سے مضبوط کرو اللہ کے لیے محبت کرنا اور اللہ کے لیے عداوت کرنا ہے۔

(۸)-حضرت امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی کہ فرمایا :

 ”من احب لله وابغض لله واعطى لله ومنع لله فقد استكمل الايمان“.(سلیمان داؤد الطیالسی، مسند ابی داؤد)

 ترجمہ: جس نے اللہ کے لیے محبت کی اللہ کے لیے عداوت کی ، اللہ کے لیے دیا، اللہ کے لیے منع کیا اس نے ایمان کامل کرلیا۔

(۹)- عن معاذ رضي الله عنه قال‏:‏ سمعت رسول الله ﷺ يقول‏:‏ ‏ "‏قال الله عز وجل‏:‏ المتحابون في جلالي، لهم منابر من نور يغبطهم النبيون والشهداء‏"‏‏ 

(ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی، جامع الترمذی)

ترجمہ: حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میری عزت و جلال کے پیش نظر ایک دوسرے سے محبت کرنے والوں کے لیے (قیامت کے دن) نور کے منبر ہوں گے، انبیاء اور شہدا بھی ان پر رشک کریں گے۔

(۱۰)-قال رسول اللہ ﷺ أن اللہ تعالى يقول يوم القيامة اين المتحابون بجلالي اليوم اظلهم في ظلي يوم لا ظل الاظلی ‘‘. (مسلم بن حجاج القشيري، الجامع الصحيح للمسلم)

ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا میرے جلال کے لیے باہم محبت کر نےوالے کہاں ہیں، آج میں انھیں اپنے سایۂ رحمت میں جگہ دوں گا جس دن میرے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں۔

ان احادیث نبویہ کی پرنور شعاعوں میں محبت الٰہی کایہ نقش جمیل نہاں خانۂ قلوب میں جاگزیں ہو گیا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا تو عین ایمان ہے ہی ،اللہ کےلیے محبت کرنا بھی ایمان ہی کا حصہ ہے۔ قرآن و حدیث میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ رسول اللہﷺ سے محبت کرنے کا درس بھی ہے، بلکہ رسول اللہ ﷺ سے محبت کرنا بھی فرض اور عین ایمان ہے کیوں کہ رسول اللہ کی محبت و اطاعت اللہ ہی کی محبت و اطاعت ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کائنات رنگ و بو میں حسن و جمال کے ہزاروں پیکر ہیں اور ایک عالم ان کی محبت کا اسیر دام بھی ہے تو پھر اللہ و رسول سے سب سے زیادہ محبت کرنے کی کیا وجہ ہے۔

حضرت علامہ یحییٰ بن شرف نووی (م ۶۷۶)نے شرح مسلم میں اس نقطۂ نظر پر بڑی ایمان افروز بحث فرمائی ہے۔ اس کا ایک اقتباس ذیل میں ملاحظ فرمائیے۔

موصوف رقم طراز ہیں:

” بعض علما نے کہا ہے کہ اللہ سے محبت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی رضا پر اس کا دل راصی ہو، انسان اس چیز کو پسند کرے جو اللہ کو پسند ہو اور جو چیزاللہ کونا پسند ہو وہ اس کو ناپسند ہو۔ بعض علما نے یہ کہا ہے کہ انسان اس چیز سے محبت کرتا ہے جس سے اس کے حواس کو لذت حاصل ہوتی ہے۔ مثلاً حسین وجمیل صورتیں، اچھی آوازیں، مزے دار کھانے اورکبھی ان چیزوں سے محبت کرتا ہے جن سے اس کی عقل کو لذت حاصل ہوئی ہے مثلاً علم و حکمت کی باتیں ،تقویٰ اور طہارت کی ، علما اورمتقی لوگ اورکبھی وہ اس شخص سے محبت کرتا ہے جو اس کے ساتھ حسن سلوک کرے اور اس سے شراورضرر کو دور کرے، محبت کے یہ تمام اسباب نبی ﷺ میں موجود ہیں ۔ حواس کی محبت کا سبب آپ کا سب سے زیادہ حسن و جمال ہے۔ عقل کی محبت کا سبب آپ کا سب سے زیادہ علم اور آپ کا سب سے زیادہ زہد وتقویٰ ہے اور حسن سلوک اور دفع شر کی وجہ سے محبت ہوتو آپ محسن انسانیت ہیں۔ آپ نے صراط مستقیم اور دوام نعیم کی ہدایت دی ہے اور جہنم کے عذاب سے بچایا ہے اور ان تمام محاسن وفضائل کا مبداء اللہ عزوجل کی ذات ہے اس لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ ﷺ سے سب سے زیادہ محبت ہونی چاہیے۔ (علامہ یحییٰ بن شرف نووی، شرح مسلم ۱/۴۹)

 محبت الٰہی کی عارفانہ تشریح:

محبت الٰہی کے تعلق سے قرآن و احادیث کی روشنی میں گفتگو کے بعداب عارفین باللہ کی مجلس میں حاضر ہوتے ہیں جہاں سوز و ساز محبت کے سوا کچھ نظر نہیں آتا، جماليات عالم کا کوئی جلوہ ان کی نظر میں نہیں بھاتا، ا ن کی محفلوں میں ہاوہو کے نعرے اور عشق و عرفان کی تجلیاں ہوتی ہیں اور پہ سوز و ساز محبت بھی بنی نوع انسانی کی خصوصیت ہے، فرشتوں کی معصومیت اس لذت دل سے آشنا کہاں! اس بارِ محبت کا امین حضرت انسان ہے اور یہ سوغات بنی نوع انسان کے لیے سرمایۂ افتخار بھی ہے اور مرحلۂ آزمائش بھی، توحید خالص کے علم برداروں کو اس سوزش دل سے دور کا واسطہ بھی نہیں۔ اس وادیِ شوق کے راہ گیروں کی پیشانیوں سے پہلے دل جھکتے ہیں۔ سالکانِ معرفت کے کعبۂ قلوب پر جب تجليات ربانی کی بارش ہوتی ہے تو بت کدۂ عالم کی سلطانیاں قدموں کی دھول بن جاتی ہیں۔ حضرت مخدوم شیخ شرف الدین یحییٰ منیری فرماتے ہیں:

”دوسری مخلوقات کو محبت سے کچھ لگاؤنہیں ہے کیونکہ ان کی ہمتیں بلند نہیں ہیں، فرشتوں کا کام  جو سیدھے راستے پر چل رہا ہے وہ اس لیے کہ ان تک محبت کا گزر نہیں ہوا ہے اور یہ او نچ نیچ جوانسان کے ساتھ پیش آیا کرتی ہے اس لیے ہے کہ اس کو محبت سے سروکار ہے”یحبہم ویحبونہ“جس کے دماغ میں ذرا بھی اس کی بوے محبت پہنچتی ہے اس سے کہہ دو کہ سلامتی سے اپنا دل اٹھا لے اور اپنی اور اپنی ہستی کو خیر باد کہہ دے۔ ”المحبة لا تبقى ولا تذر‘‘محبت کچھ باقی نہیں رکھتی اور کچھ بھی نہیں چھوڑتی۔

عشق تو مرا چناں خراباتی کرد

ورنہ بسلامت و بساماں بودم“

(مخدوم جہاں، شرف الدین احمد یحییٰ منیری ، مکتوبات صدی، ص:۳۱۵)

 عشقِ الٰہی کی تپش کوئی معمولی چیز نہیں، یہ برق نور جس پر پڑی نہال ہو گیا ، عارفوں کے دلوں میں عشقِ الٰہی کا شعلہ ازل سے لپک رہا ہے ۔ مگر مقام محبوبیت اسی امت کے کاملین کے حصہ میں آیا ۔ حضرت مخدوم مستی و بے خودی کے کیف بار عالم میں آگے لکھتے ہیں:

”سبحان اللہ سات لاکھ سال گزر گئے اور اب تک اس آگ کا شعلہ تیزی کے ساتھ لپک رہا ہے، اور ہر طرف ہزاروں جلے بھنے لوگ ہیں، اس کا ڈر ہے کہ کہیں دونوں جہاں جھلس کر نیست و نابود نہ ہوجائیں جب روز ازل سے یہ آگ جھلس  رہی ہے تو کچھ تعجب کی بات نہیں۔ اے بھائی! اس مٹی اور پانی کی دولت تھوڑی نہیں ہے اور حضرت آدم علیہ السلام  اور انسان کے کام مختصر نہیں ہیں۔ عرش اور کرسی اورلوح وقلم، آسمان اور زمین سب اسی کی بدولت ہیں، حضرت استاد بوعلی نے فرمایا اگر حضرت آدم کو اپنا خلیفہ بنایا اور حضرت ابراہیم کو اتخذ اللہ ابراهيم خليلا (اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کو اپنا دوست بنایا) اور حضرت موسی علیہ السلام  کو اصطنعتك لنفسی (ہم نے تجھ کو اپنے لیے بنایا) اور ہم کو”يحبهم ويحبونه ‘‘کہا۔ لوگوں نے کہا ہے کہ اگر اس حدیث کو دلوں کے ساتھ مناسبت نہ ہوتی تودل، دل باقی نہیں رہتا اور اگر عشق ومحبت کا آفتاب آدم اور آدمیوں پر نہ چمکتاتو آدم  کا کام دوسری مخلوقات کی طرح رہ جاتا‘‘ –

 (مخدوم جہاں، شرف الدین احمد یحییٰ منیری ، مکتوبات صدی، ص:۳۲۰)

جب دلوں کے آفاق پر تجليات ربانی کی کرنیں پڑتی ہیں تو انا، فنا میں بدل جاتی ہے اور علوم وفنون کے سارے دبستاں دل و دماغ سے محو ہو جاتے ہیں۔ کسی فانی فی اللہ نے کہا تھا۔

توبہ کردم زہرچہ دانستم             نامه چوں نام تو زبر کردم

منازلِ سلوک:

توحید فی المحبۃ سالکان معرفت کی بہت اعلیٰ منزل ہے اور نیاز مندی اور انکساری کی پہلی منزل ہے۔ فنا فی اللہ کی بلند چوٹی تک پہنچنے کے لیے برسوں تک عبادت و ریاضت کی پگڈنڈیوں سے گزرنا پڑتا ہے اور اس خلد بداماں منزل کے راہ نوردانِ شوق کے لیے قدم قدم پرشیخ کی رہنمائی اور عشق رسول کی تاب و توانائی کی حاجت ہوتی ہے۔

خاتم الاکابرحضرت سید شاہ ابو الحسین احمد نوری میاں مارہروی  فرماتے ہیں:

”فنا کے تین درجے ہیں جب تک تم ان کو حاصل نہ کرو گے سلوک میں کامیابی نہ ملے گی۔ پہلا درجہ فنا فی الشیخ کا ہے یعنی اپنے مرشد کے تصور میں اپنے کو اس قدرمحوکرے کہ اپنے نفس کو مرشد سے الگ نہ سمجھے اور اپنے جسم سے جو حرکات وسکنات ظاہر ہوں تو یہ سمجھے کہ یہ شیخ کے اعضا ہیں اور حرکت و سکون مرشدہی کے افعال و اختیارسےہے اور اپنے کو قطعاً موجود ہی نہ سمجھے نہ بطور حقیقت نہ بطور تصور ۔ دوسرا درجہ فنافی الرسول کا ہے۔ فنافی الشیخ والے مضمون کو حضور ﷺ کے لیے سمجھے اور اپنے وجود کو وہم و گمان میں بھی نہ لائے توفنا فی الرسول حاصل ہو جائے گی ۔ اس لیے مرید اپنے شیخ میں فانی ہو گیا اور ذات رسول اللہ ﷺ میں فانی ہے تو اس طرح فنا فی الرسول بہ آسانی حاصل ہو جائے گی۔ تیسرا درجہ فنا فی اللہ کا ہے یہ فنا جب اپنی حد تک  پہنچ جاتی ہے تو بقا کی ابتدا ہوتی ہے۔ جب یہ فنا حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ کو حاصل ہوئی تو فرمایا کہ چالیس سال سے میں خدا سے باتیں کرتا ہوں اور لوگ سمجھتے ہیں کہ ان سے کلام کر رہا ہوں اس قسم کے بہت سے اقوال بزرگوں سے منقول ہیں ۔ یہ فنا حاصل ہوجانے کے بعد سالک موحد بالذات ہو جاتا ہے کہ شرک کا وجود بھی باقی نہیں رہتا۔ (سید شاہ ابو الحسین احمد نوری میاں، سراج العوارف ص:۱۵۵، مطبوعہ المجمع المصباحی مبارک پور)

 اس کائنات سے رشتہ توڑ کر خدائے تعالیٰ سے تعلق قلبی کے لیے اولین شرط توبہ اور رجوع الی اللہ ہے اور جب بندہ مومن شریعت و طریقت کی منازل طے کر کے معرفت کی بلند منزل پر فائز ہو جاتا ہے پھر اس کے بعد ایک مرحلہ آتا ہے جہاں محب اور محبوب کے درمیان تصور محبت کا حجاب بھی گوارا نہیں ہوتا اور یہ فنا فی اللہ کی انتہائی اعلیٰ منزل ہے۔

کتاب التعرف لمذہب التصوف میں  ابوبکر بن ابي اسحاق محمد بن ابراہیم بخاری فرماتے ہیں:

واما ابو يعقوب يوسف بن حمدان السوسي قال اول مقام من مقام المنقطعين الى اللہ التوبة قال ايضا و قد سئل عن التوبة فقال الرجوع من كل شي ذمه العلم الی مامدحه.

وقال ابو يعقوب ايضًا لا تصح المحبة حتى تخرج حيث كان عن ان تخرج من روية المحبة الى رؤية المحبوب بفناء علم المحبة من حيث كان له المحبوب في الغيب ولم يكن هو بالمحبة فإذا خرج المحب الى هذه النسبة كان محبا من غيرمحبةٍ- (ابو ابراہیم بن اسماعيل المتملي البخاری، شرح تعرف ۱/۱۰۴، مطبوعه نول كشور، لكھنؤ)

ترجمہ: ابو یعقوب یوسف  بن حمدان سوسی نے فرمایا:

سب علائق قطع کر کے اللہ کی جانب رجوع کرنے والوں کا سب سے پہلا مقام توبہ ہے۔ ان سے  توبہ کا معنی پوچھا گیا تو فرمایا: ہر وہ چیز جس کی علم مذمت کرے اسے چھوڑ کر اس کی طرف رجوع کرنا جس کی علم مدح کرے۔ ابو یعقوب نے یہ بھی فرمایا: محبت اس وقت تک درست نہ ہوگی جب تک محبوب کے دیدار میں اس حد تک فنا  نہ ہوجائے کہ محبت  کی جانب بھی نظر نہ ر ہے نہ ہی محبت کا کوئی نشان اس کے سامنے آئے۔یہ اس لیے کہ محبوب کی ذات پردۂ ازل میں اس وقت بھی تھی جب نہ محب تھانہ اس کی محبت،تومحب  جب اس مقام تک پہنچ جائے کہ نہ اپنی ذات کو دیکھے نہ اپنی محبت کو دیکھے اس وقت وہ حقیقی معنیٰ میں محب ہوگا۔

 مصداق محبت ذات ہے یا اطاعت:

اس سلسلے  میں اختلاف ہے کہ محبت الٰہی سے مراد کیا ہے۔ بعض علما محبت باری تعالیٰ سے اطاعت مراد لیتے ہیں جب کہ عارفان حق اللہ تعالیٰ کی ذات ہی کو محبت کا مصداق بتاتے ہیں۔ ہم ذیل میں دونوں کے اقوال ودلائل نقل کرتے ہیں ۔ کشاف اصطلاحات الفنون میں ہے:

المحبة اعلم ان العلماء اختلفوا ففي معناها فقيل: المحبة ترادف الارادة بمعنى الميل فمحبة اللہ للعباد ارادة كرامتهم و توابهم على التابید ومحبة العباد له تعالیٰ طاعة.

محبت کے معنی میں اختلاف ہے۔ کہا گیا ہے کہ محبت ارادہ کے ہم معنی ہے،یعنی میلان طبعی ،لہذ االلہ تعالیٰ کا بندوں سے محبت کرنے کا معنی ہے ان کو دائمی طور عزت و توقیر عطا کرنا اور ثواب سے سرفراز کرنا، اور بندے کی اللہ تعالیٰ سے محبت کا مطلب ہے اس کی اطاعت وفرماں برداری کرنا۔

قال الامام الرازي في التفسير الكبير في تفسير قوله تعالی’’ومن الناس من يتخذ من دون اللہ اندادا يحبونهم كحب الله“ (البقرة:۱۶۵) الأية اختلف العلماني معنى المحبة فقال جمهور المتكلمين انها نوع من الارادة والارادة لا تعلق لها الا بالجائزات ، فيستحيل تعلق المحبة بذات اللہ تعالى وصفاته فاذا قلنا: نحب اللہ فمعناه نحب طاعة و خدمة او ثوابه و احسانه

واما العارفون فقد قالوا العبد قد يحب اللہ تعالى لذاته، واما حب خدمته أو ثوابه فدرجة نازلة .“(علامہ محمد علی بن محمد، کشاف اصطلاحات فنون ۱/۳۶۹)

حضرت امام رازی تفسیر کبیر میں اس ارشاد الٰہی:” اور کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں کو معبود بنا لیتے ہیں اور وہ ان سے اللہ کی طرح محبت کرتے ہیں“ کی تفسیر میں فرماتے ہیں ۔ محبت کے معنی میں علما کے درمیان اختلاف ہے، متکلمین کا قول ہے کہ محبت ارادہ ہی کی ایک نوع ہے اور ارادہ کاتعلق صرف ممکنات سے ہوتا ہے۔ لہذا اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات سے محبت کا تعلق محال ہے لہذا جب ہم نے کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں تو اس کی مراد ہوتی ہے کہ ہم اس اطاعت وفرماں برداری یا اس کے ثواب  واحسان سے محبت کرتے ہیں۔

اور ارباب معرفت کا کہنا یہ ہے کہ ایسا بھی بندہ ہوتا ہے جو اس کی ذات ہی سے محبت کرتا ہے، اس کی فرماں برداری یا ثواب سے محبت کرنا تویہ نیچے کا درجہ ہے۔

حجۃ الاسلام حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ نے بھی اس محور پر گفتگو فرمائی ہے اور ذات الٰہی سے محبت کے منکرین کار دکرتے ہوئے اپنے مدعا پر نا قابل شکست دلائل فراہم کیے ہیں اور عارفین کے مسلک کی تائید میں قرآن وحدیث سے فکر انگیز استدلال فرمایا ہے۔ حضرت امام غزالی منکرین کا استدلال نقل کرتے ہیں۔

واما محبة اللہ تعالى فقد عز الايمان بها حتى انكر بعض العلماء امكانها وقال لامعنى لها الا المواظبة على طاعة اللہ تعالى واما حقيقة المحبة فمحال الامع الجنس والمثال ولما انكرو المحبة انكروا المحبة انكروا الانس  ولذة المناجاة وسائر لوازم الحب وتوابعه ولا بد من کشف الغطاء عن هذا الامر.“(امام محمد غزالي، احياء علوم الدين، ۴/۲۹۴، دار المعرفة، بيروت، لبنان)

ترجمہ: اللہ تعالیٰ سے محبت پر ایمان نادرومشکل ہے یہاں تک کہ کچھ علما نے اس کے ممکن ہونے کا بھی انکار کیا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ سے محبت کا تو یہی مطلب ہے کہ اس کی اطاعت پرمداومت کی جائے، اللہ تعالیٰ سے حقیقی محبت اس لیے محال ہے کہ حقیقی محبت صرف اپنی جنس اور مثل سے کی جاتی ہے اور جب ان لوگوں نے اصل محبت کا انکار کر دیا تو انس وشوق لذت ومناجات اور محبت کے تمام لوازم وتوابع کا بھی انکار کر دیا ،لہذا اس گتھی کو سلجھانا ضروری ہے۔

 حضرت امام غزالی ذات الٰہی سے محبت کے ثبوت میں اجماع امت اور دلائل شواہد پیش کرتے  ہوئے رقم طراز ہیں:

اعلم أن الأمة مجمعة على ان الحب لله تعالى ولرسوله لفرض، وكيف يفرض مالا وجود له و كيف يفسر الحب بالطاعة والطاعة تبع الحب وثمرته؟ فلا بد وان يتقدم الحب ثم بعد ذلك يطيع من احب ویدل علی اثبات الحب لله تعالى قوله عزو جل (بحبهم ويحبونه) وقوله تعالى (والذين آمنوا اشد حبا لله) وهو دليل على اثبات الحب واثبات التفاوت فيه. وقد جعل رسول اللہ ﷺ الحب لله من شرط الإيمان في اخبار كثيرة.“ (امام محمد غزالي، احياء علوم الدين، ۴/۲۹۴، دار المعرفة، بيروت، لبنان)

ترجمہ: اس بات پرامت کا اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺسے محبت  فرض ہے اور وہ چیز کیسے فرض ہوسکتی ہے جس کا وجود نہ ہو اور محبت کی تشریح اطاعت سے کس طرح کی جاسکتی ہے۔ جب طاعت محبت کی تابع اور اس کا نتیجہ ہے ،لہذا ضروری ہے کہ پہلے محبت کا وجود ہو پھر محبت اطاعت کرے۔ اور اللہ تعالیٰ سے محبت کے اثبات پر یہ ارشاد الٰہی بھی دلالت کر رہا ہے ”اللہ ان سے محبت کرتا ہے اور وہ اس سے محبت کرتے ہیں“ اسی طرح یہ ارشاد الٰہی بھی ہے ”اور ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی سے محبت نہیں‘‘ یہ ارشادات اللہ سے محبت کے ثبوت اور محبت کے کم وبیش ہونے پر دلالت کرتے ہیں اور نبی کریم ﷺنے بہت سی روایات میں اللہ تعالیٰ کی محبت کوایمان کی شرط قرار دیا ہے۔

حضرت امام غزالی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس استدلال سے یہ واضح ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا قرآن وحدیث سے ثابت ہوتا ہے۔ انبیا اور اولیاسے محبت کرنا توحید فی المحبۃ کے منافی نہیں۔ اب ہم امام غزالی علیہ الرحمہ کے نور بصیرت کے اجالے میں محبت الٰہی کے ثبوت میں ایک اور نقطہ نظر سپردِ قلم کرتے ہیں۔

 اقسام محبت کے اسباب پانچ ہیں۔

(1)-انسان کی محبت اپنے وجود کے کمال و بقا سے۔

 (۲)-محبت اپنے محسن کی ایسی چیزوں میں جن سے اپنے وجود کا دوام پایا جائے اوراس کی بقا کامعین اور اس سے مہلکات کا دور کرنے والا ہو۔

 (۳)-ایسے شخص کی محبت جو بذات خود جمال والا وہ جمال ظاہری ہو یا باطنی۔

 (۴)-ایسے شخص سے محبت کہ محب اور محبوب میں خفیہ مناسبت باطن میں ہو۔

(۵)-ایسے شخص کی محبت جو لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنے والا ہو اگر چہ اس کے ساتھ بھلائی نہ کی ہو۔

 ان اسباب کی روشنی میں یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ یہ اوصاف بہ کمال و تمام ذات باری تعالیٰ میں پائے جاتے ہیں ۔  اس لیے حقیقی محبت کا مستحق صرف اللہ تعالیٰ ہے اور اس کی نسبت سے انبیاء اولیا اور دیگر مخلوقات، اس لیے کہ محب کامحبوب محبوب ہوتا ہے۔  یہاں سے ہمارے عہد کے نام نہاد موحدین کی حقیقت بھی بے نقاب ہو جاتی ہے جومحبو بان بارگاه الٰہی سے محبت کرنے کو توحید خالص کے منافی تصور کرتے ہیں اور اللہ والوں سے محبت اور مدد و استعانت کو شرک کا نام دیتے ہیں۔ اب ہم اس دعوے کے ثبوت میں امام غزالی کی فکر انگیز اور محبت افروز عبارت نقل کرتے ہیں۔ حضرت امام غزالی رقم طراز ہیں:

’’وان من احب غير الله لامن حيث نسبته إلى الله فذالك لجھلہ وقصوره معرفة الله تعالىٰ، وحب الرسول صلى الله عليه وسلم محمود لأنه عين حب الله تعالى وكذلك حب العلماء والأتقياء لأن محبوب المحبوب محبوب ورسول المحبوب محبوب ومحب المحبوب محبوب وكل ذلك يرجع إلى حب الأصل فلا يتجاوزه إلى غيره فلا محبوب بالحقيقة عند ذوي البصائر إلا الله تعالى ولا مستحق للمحبة سواه.

وإيضاحه بأن نرجع إلى الأسباب الخمسة التي ذكرناها ونبين أنها مجتمعة في حق الله تعالى بحملتها ولا يوجد في غيره إلا آحادها وأنها حقيقة في حق الله تعالى ووجودها في حق غيره وهم وتخيل وهو مجاز محض لا حقيقة له ومهما ثبت ذلك انكشف لكل ذي بصيرة ضد ما تخيله ضعفاء العقول والقلوب من استحالة حب الله تعالى تحقيقاً وبان أن التحقيق يقتضي أن لا نحب أحداً غير الله تعالى. ‘‘(امام محمد غزالي، احياء علوم الدين، ۴/۳۰۴، دار المعرفة، بيروت، لبنان)

ترجمہ: بلا شبہہ جو کوئی للہیت کے تصور کے بغٰر غیر خدا سے محبت کرے تو یہ اس کی جہالت اور اللہ کی معرفت میں اس کی کمی ہے اور رسول اللہ ﷺ سے محبت کرنا پسندیدہ ہے، اس لیے کہ وہ عین محبت الٰہی ہے، اس طرح علماے کرام اور بزرگانِ دین سے محبت کرنا ہے، اس لیے کہ محبوب کا محبوب اور رسول کا محبوب بھی محبوب ہوتا ہے اور محبوب سے محبت کرنے والا بھی محبوب ہے اور ان تمام سے محبت کا مرجع اصل محبوب ہے ، اس سے الگ نہیں، لہٰذا ثابت ہوا کہ اربابِ بصیرت کے نزدیک اللہ کے سوا حقیقی محبوب کوئی نہیں اور نہ اس کے علاوہ کوئی بالذات محبت کا مستحق ہے۔

اور اس کی تسریح یہ ہے کہ ہم جب مذکورہ پانچ اسباب محبت پر غور کرتے ہیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ تمام اسباب ذات باری تعالیٰ میں موجود ہیں اور اس کے علاوہ میں انفرادی طور پر پائے جاتے ہیں اور وہ بھی حقیقی طور پر صرف اللہ تعالیٰ کی ذات میں ہیں اور باقی میں وہم و خیال اور مجاز محض ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں اور جب یہ ثابت ہو گیا تو ہر اہل بصیرت پران کمزور دل ودماغ والوں کے اس نظریہ کا بطلان وا ضح ہو گیا کہ تحقیق کا تقاضا یہ ہے کہ بالذات اللہ کے علاوہ کسی سے محبت نہ کی جائے۔“

حضرت امام غزالی کی اس تحقیق وتشریح کی روشنی میں آپ کے دل ودماغ میں یہ حقیقت اتر چکی ہوگی کہ حقیقی محبت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ثابت ہے لیکن انبیاے عظام اور اولیائے کرام سے محبت کرنا بھی توحید فی المحبۃ کے منافی نہیں۔

توحید فی المحبۃ اور حسن معاشرت :

اسلام ایک آفاقی مذہب ہے اس میں انسانی مواخات اور حسن معاشرت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ توحید فی المحبۃ کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان رہبانیت اختیارکرلے اور دنیا میں کسی سے تعلق نہ رکھے صبروشکر کے ساتھ زندگی گزارنا ،جفاؤں پر وفاؤں کا مظاہرہ کرنا اور خدمت خلق کرنا بھی اسلام ہی کا تقاضا ہے اور ہمارا مدعاے نگارش یہ ہےکہ معاملات اور باہم ربط وتعلق کا معیار قرآن وسنت کو بنانا چاہئے۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فتوح الغیب میں ارشاد فرماتے ہیں۔

اذا وجدت في قلبك بغض شخص او حبه فاعرض اعماله على الكتاب والسنة فان كانت فيهما مبغوضة فابشر بموافقتك لله ورسوله ، وان كانت اعماله فيها محبوبة وانت تبغضه فاعلم انك صاحب الهوى تبغضه بهواك ظالم له بغضك اياه وعاص لله عزوجل ورسوله مخالف، فتب الى اللہ من بغضك واسئله محبة ذلك الشخص وغيره من احباب اللہ واولياء، واصطفا له والصالحين من عباده ولتكون موافقة له في محبتة وكذالك افعل فيمن تحبه يعني اعرض اعماله على الكتاب والسنة فان كانت محبوبة فيهما فاحببه وان كانت مبغوضة بابغضه لئلا تحبه تبه بهواك وتبغضه بهواك وقد امرت بمخالفة“هواك قال اللہ عزو جل ولا تتبع الهوى فيضلك عن سبيل اللہ. “(شیخ عبد القادر جیلانی، فتوح الغیب المقالۃ الحادیۃ والثلاثون)

ترجمہ: اگر کسی کے بارے میں اپنے دل میں محبت یا نفرت پاؤ تو اس کے اعمال کتاب وسنت کی کسوٹی پر پرکھو، اگر تم نفرت رکھتے ہو اور کتاب وسنت میں بھی اس کے اعمال باعث نفرت قرار دیے گئے ہیں تو خدا اور رسول جل وعلا وﷺ کی موافقت پر خوش ہو جاؤ اور اگر کتاب وسنت کے موافق اس کے اعمال پسندیدہ ہیں اورتم نفرت رکھتے ہو تو تم ہوا ے نفس کے غلام کہ نفسانی خواہشات کے مطابق اس سے عداوت رکھتے ہو ۔تم اپنے اس فعل کی بناپر ظالم اور اللہ تعالیٰ ورسول ﷺ کے نافرمان ومخالف ہو تمھیں  اس فعل سے خدا کی بارگاہ میں تائب ہو جانا چاہیے۔ خدا سے اس کی اور خدا کے دوسرے محبوبوں،ولیوں، برگزیدہ اور نیک بندوں کی محبت کا سوال کرنا چاہیے تا کہ تم اس کی صحبت رکھنے میں خدا کے موافق بن جاؤ۔ اسی طرح جس سے تمھارا محبت کا معاملہ ہے اس کے اعمال کتاب وسنت کی روشنی میں پرکھو اگر کتاب وسنت کے موافق ہیں تو اس سے محبت رکھو اگر کتاب وسنت میں ناپسندیدہ ہیں تو تم بھی اس سے دشمنی رکھوتا کہ ہواے نفس کی محبت ونفرت کرنے والے نہ بنو۔ کیوں کہ تمھیں  اپنی خواہشات نفس کی مخالفت کا حکم دیا گیا ہے۔ رب کائنات نے فرمایا ”خواہشات کی پیروی نہ کرو وہ تمھیں راہ خداسے بہکا دیں گی“۔

اس پوری بحث کا حاصل یہ ہے کہ حقیقی محبت کا مستحق اللہ تعالیٰ ہے اور انسان کو زندگی کی ہر منزل پر اخلاص وللہیت سے کام لینا چاہیے اسلام میں نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے کسی سے محبت و عداوت کی گنجائش نہیں اور اسلام اس کا مخالف ہرگز نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے محبت نہ کی جائے بلکہ محبت کا معیار اگر ”الحب في اللہ والبغض في اللہ ‘‘ ہو تو بھی اللہ تعالیٰ ہی سے محبت ہے لیکن اللہ کے لیے محبت کرنا اور اللہ کے لیے عداوت کرنا” توحید فی المحبۃ “کے منافی نہیں  اور اس کا معیار قرآن وسنت ہے اور یہی اہل سنت و جماعت کا مسلک ومشرب ہے اور اسی طرح رضاے الٰہی کے لیے رسول اللہ سے محبت کرنا بھی عین ایمان اور توحید فی المحبۃ کی روح ہے، اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:

لے خبر جلد کہ اوروں کی طرف دھیان گیا

مرے مولا مرے آقا ترے قربان گیا

انھیں جانا، انھیں  مانا نہ رکھا غیر سے کام

للہ الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا

 ہم اپنے پورے مقالے کی تفصیل کو کشکول اقبال میں سمیٹ کر اپنا قلم بند کرتے ہیں:

تو حیدتو جب ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے

یہ بنده وو عالم سے خفا میرے لیے ہے

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved