رفیقہ پلوکر ( علی باغ)
برسوں پرانی بات ہے، ہمارے پڑوس میں ایک گھر تھا جو بند ہی پڑا رہتا تھا۔ ایک دن اچانک اس گھر کی کھڑکیاں، دروازے کھلے نظر آئے۔ ہماری دادی بیحد خوش ہوئیں۔ اشتیاق کےساتھ تانک جھانک کرنے لگیں” شاید پڑوس میں کوئی نیا کرائے دار آیا ہے، صاف صفائی چل رہی ہے۔ اچھا ہے ذرا پڑوس بھی آباد ہو جائےگا، ذرا رونق ہو جائیگی۔ “ دادی دوسرے ہی دن خیر خیریت دریافت کرنے وہاں پہنچ گئیں۔ ہم بھی پیچھے پیچھے چل دیے، دادی نے رسمی سلام دُعا کے بعد گھر کے کونوں کھدروں پر نظریں دوڑائیں اور پوچھا، سامان کہاں ہے؟ ابھی آپ رہنے نہیں آئے۔ بات چیت سے پتا چلا کہ بطور کرائے دار آنے والا شخص پیشے کے اعتبار سے ایک ڈاکٹر ہے ، ابھی اکیلے ہی گھر ک انتظام کرنے آئے ہیں بعد میں جا کر اپنی بیوی کو لے کر آئیں گے۔ لیکن تمام تر سامان وہ لا چکے تھے جو کہ پترے کی ایک بیٹی، چٹائی، ایک کیروسین پر جلنے والا اسٹو ،چند ایک برتنوں، دوکھانا کھانے کی پلیٹوں اور دو پیالوں پر مشتمل تھا۔ بس یہ ہی تھا اُن کا کل اثاثہ !
اُن کا یہ حال دیکھ کر دادی کا سینہ چھلنی چھلنی ہو گیا۔ دادی کا بس نہیں چل رہا تھا کہ انہیں اپنے ہی گھر میں مہمان بنائے رکھتیں۔ ایسا سمجھیں دادی دل ہی دل میں انہیں اپنا بیٹا تسلیم کر چکی تھیں۔
پھر گزرتے وقت کے ساتھ وہ دونوں میاں بیوی پڑوسی کم اور گھر کے افراد کی ہی حیثیت اختیار کرتے چلے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک دن دادی کو بتایا کہ وہ پانچ بھائی اور دو بہنیں کل ملا کر اپنے والدین کی سات اولادیں تھیں۔ اُن کا سانگلی میں ایک چھوٹا سا گھر ہے جو سارے کا ساراٹین سے بنا ہوا ہے۔ اسی سے متصل اُن کے والد کا ایک گیراج ہے۔ اُن کے والدین نے کڑی محنت کر کے اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلائی، چار بھائی ڈاکٹر بنے، دونوں بہنیں ٹیچر بنیں، والدین نے انہیں سہولیات و آسائشیں نہیں دیں لیکن پائی پائی جوڑ کر انہیں زیور تعلیم سے آراستہ کر کے شاہراہ حیات پر گامزن کردیا کہ ”جاؤ! اپنا جہاں آپ پیدا کروا“۔
وقت گزرتا گیا، انہوں نے بھی اپنی محنت اور لگن سے گاؤں میں اپنا ایک نام اور پہچان بنائی۔ گھر کے حالات بھی سنورتے چلے گئے۔ اُن کے گھر کا نقشہ مجھے سمجھ آنے تک اچھا خاصا بدل چکا تھا۔ اب وہ ایک آرام دہ زندگی گزارنے لگے تھے۔ اُن کے دونوں بچے بھی بہت ذہین تھے۔
ڈاکٹر صاحب اور اُن کی اہلیہ بذات خود اپنے بچوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دیا کرتے تھے۔ ہمارا جب بھی ڈاکٹر صاحب سے سامنا ہوتا تھا وہ ہم سے ہمارے امتحانات اور پھر اُن کے نتائج کے بارے میں ضرور استفسار کیا کرتے تھے۔ اپنے مریضوں سے اکثر کہا کرتے تھے کہ پیٹ پر پتھر باندھنا پڑے تو باندھ لینا لیکن اپنے بچوں کو تعلیم یا کوئی ہنر ضرور دلانا۔ بچوں کو محنت کا عادی بنانا۔ دانہ خاک میں مل کر ہی گل گلزار ہوتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی ان باتوں کے برعکس آج اگر دیکھا جائے تو والدین اپنے بچوں کی ہر خواہش پوری کرنا اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں۔ اُن کے مہنگے مہنگے شوق پورے کرنے کی ہرممکن کوشش کرتے ہیں جیسے کہ مہنگا موبائل فون ، مہنگی سے مہنگی موٹر سائیکل کی فراہمی ، ہوٹلنگ وغیرہ ۔
بچے کی ایسی کوئی خواہش، کوئی آرزو ادھوری رکھتے ہی نہیں ہیں جسے وہ اپنی محنت کے بل بوتے پر حاصل کرناچاہے ! جب کہ انھیں اپنا شکار خود مار کر کھانے کا عادی بنانا چاہیے۔ تعلیم اور ہنر دینا لازمی ہے باقی سب آپ ہی آپ آجائے گا،مقابلے کے اس دور میں حصول معاش آسان کام نہیں ہے۔ پہلے کے زمانے میں اسکولی تعلیم پوری ہونے تک نائی کا بیٹا نائی بنتا تھا ، سنار کا بیٹا سنار ہوتا تھا، جولاہے کا بیٹا جولاہا، کسان کا بیٹا کسان! بیروزگاری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ کوئی بھی پیشہ چھوٹا بڑا نہیں ہوتا، جب تک نوکری نہیں مل جاتی تھی بچے آبائی پیشہ اختیار کر چکے ہوتے تھے۔ اب حالات مختلف ہیں۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی کئی بچے نوکری حاصل کرنے کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ متوقع نوکری کے حصول یابی تک گھر کی گاڑی چلانے کے لیے اگر تعلیم کے ساتھ ساتھ کوئی ہنر حاصل کیا جائے تو کام آئے گااور ان شاء اللہ روزگار کا مسئلہ بڑی حد تک ختم ہوگا۔
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org