خیابان حرم
اطہر عبد اللہ سوداگر ٹانڈوی
ان کی عظمت ، ان کی سطوت، انکی شان نرالی دیکھ
ختم رسل ممدوح خدا ہیں ان کا رتبہ عالی دیکھ!
رحمت عالم کے گلشن کی پاکیزہ ہریالی دیکھ
ایمان کے پھولوں سے مزین وحدت کی ہر ڈالی دیکھ
جن کا بستر ایک چٹائی ان کا رتبہ عالی دیکھ
انکے در پہ شاہ جھکے ہیں جن کے ایک سوالی دیکھے
رشک صد گلزار نہ کیوں ہو گوشہ گوشہ طیبہ کا
جن و ملک کرتے ہیں جن کی ہر لمحہ رکھوالی دیکھے
سائل کو جو دے کر روٹی خود بھوکے رہ جاتے ہیں
فقر و فاقہ شان ہے جن کی میرے وہی ہیں والی دیکھ
دین کے رہبر شافع محشر صدق و صفا کے پیکر ہیں
لب پہ تبسم شیریں لہجہ ان کی نرم مقالی دیکھ
بادۂ عرفاں کا طالب ہوں اپنے آقا سے ہمدم
تشنہ لبی کی شدت ہے اور جام ہے میرا خالی دیکھے
دن جو بچے ہیں ان کو اطہرؔ، ہوں ہی تو بر پاؤ نہ کر
اچھا ہے جا باغِ مدینہ عرفاں کی ہریالی دیکھ
جانِ عجم شاہِ عرب
ثاقب قمری مصباحی
---------------------------------------------------
نور افزاے قمر، شمعِ شبستانِ عرب
نازشِ لالہ و گل، خارِ مغيلانِ عرب
کاش مل جائے پئے مدحتِ سلطانِ عرب
کعب کا حُسنِ ادا ، لہجۂ حسانِ عرب
"ورفعنا لك ذكرك" کا وہ نقشِ کامل
حاملِ شانِ "فَتَرْضیٰ" شہِ شاہانِ عرب
آپکو رب نے "سَیَكْفِیْكَهُمُ اللّٰه" کہا
آپ ہو سکتے نہیں زیر بہ مردانِ عرب
جوہرِ دیدهٔ یعقوب نہ ہرگز گھٹتا
دیکھ لیتے وہ اگر جلوۂ کنعانِ عرب
ہم کہاں عیب صفت، ننگ نما، عار نشان
تم کہاں نورِ ازل، جانِ عجم، شانِ عرب
طبِ یونان کا ہر قضیہ ہے مرہونِ حجاز
حکمتِ مصر بھی خیراتِ دبستانِ عرب
تحتِ امکان کہاں تجھ سے تَقابُل میرا
میں سیہ فامِ عجم، تو مہِ تابانِ عرب
قالبِ اُسوۂ سرکار میں ڈھل کر ثاقبؔ!
حُسنِ تہذیب کا پیکر بنا دہقانِ عرب
کاش میں سنگِ درِ سیدِ والا ہوتا
سید نور الحسن نورؔ
---------------------------------------------------
حور و غلماں کے لیے جان تمنا ہوتا
کاش میں سنگ در سید والا ہوتا
اپنے دل نذر مجھے کرتے زمانے سارے
روضۂ سید عالم کا دریچہ ہوتا
چوم لیتا کبھی آقائے دوعالم کے قدم
یوں جو ہو جاتا کہ سنگ رہِ طیبہ ہوتا
سرور کون و مکاں سامنے بیٹھے ہوتے
حسن میں عارض گل رنگ کا لکھتا ہوتا
اپنی چاہت کے گہر مجھ کو عطا کرتے حضور
دور میں ان کے جو میں چھوٹا سا بچہ ہوتا
رشک کرتے مری تقدیر پہ شاہان زماں
خادم در جو میں سرکار کے گھر کا ہوتا
میری آنکھیں کیا کرتیں ہمہ دم ان کا طواف
گرد سرکار کے ہر وقت میں پھرتا ہوتا
چاہتا جب بھی چلا جاتا میں ان کے در پر
کوئی انسان نہ ہوتا میں پرندا ہوتا
اپنا دربان مقرر جو مجھے کرتے حضور
سوچتا رہتا ہوں کیا ہوتا جو ایسا ہوتا
خاک میں ان کی گلی کی میں نہاتا دن رات
کل بدن میرا کسی گل سا مہکتا ہوتا
چومتا گنبد خضرا کو مرا دیدۂ شوق
مسجد سرور کونین میں بیٹھا ہوتا
شہر طیبہ مرا گھر میرا وطن ہوتا کاش
کاش اے کاش کہ بھارت میں نہ پیدا ہوتا
جتنا سوچا ہے وہ سب ایک حقیقت ہوتی
کیا ضروری تھا کہ میں خواب گزیدہ ہوتا
نور دیدار کا ہر روز ملا کرتا شرف
ان کے کوچے میں اگر میرا ٹھکانا ہوتا
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org