27 July, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia March 2023 Download:Click Here Views: 82448 Downloads: 3368

(19)-شیخ المسلمین علامہ سید حسنین رضا قادری علیہ الرحمہ کا اسلوبِ نگارش

زبان و ادب کی دنیا میں اسلوب کی بڑی اہمیت ہے۔ تنقید نگار کسی ادیب کا ”ادب پارہ“ یا فن کار کے ”فن پارہ“ کو میزانِ تنقید پہ رکھ کر کھرے و کھوٹے سے متعلق فیصلہ سنانے میں جن امور کو سامنے رکھتا ہے، ان میں ایک اہم شئی” اسلوب“ بھی ہے۔ کسی بھی نظم و نثر نگار کی حذاقت و مہارت سے ہم کما حقہٗ واقفیت اسی وقت حاصل کر سکتے ہیں جب ان کا اسلوبِ نگارش اپنے تمام خد و خال کے ساتھ ہماری نگاہ میں رہے اور ہم طرزِ تحریر کی خوبیوں و خامیوں کی تہہ تک رسائی پانے میں کامیاب ہو جائیں۔ کیوں کہ جب ہم کسی فن پارہ کا مطالعہ کرنے کے بعد  انصاف و دیانت داری کے ساتھ اس کا علمی تجزیہ کرتے ہیں تو اس درمیان محرر کی بھی ایک مکمل تصویر ہمارے ذہنی دریچے میں ثبت ہوجاتی ہے، ان کے افکار و خیالات ٹھیک طرح پہ مترشح ہوتے ہیں اور فن پارہ کو ایک درست معیار دینے میں ہم کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ لکھنے والا یک گونہ اپنے ماحول سے بھی متاثر ہو کر لکھتا ہے، وہ سماجی، سیاسی، تہذیبی اور معاشی نظام وغیرہ سے آنکھیں نہیں چرا سکتا، سماج و معاشرے کی چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی اس کے اندر اس امر کے لیے تحریک پیدا کر دینے کے تئیں اپنی جگہ پہ بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں اور اس طرح مطالعہ کرتے وقت قاری کے سامنے عہدِ مصنف کی ایک واضح تصویر ابھرنے کے ساتھ ان کے افکار و نظریات بھی مثبت/ منفی لباس پہن کر سامنے آ جاتے ہیں۔ کیوں کہ ادبی اصطلاح میں کسی مصنف کے فہم و ادراک کی خاص روش اور اس کے بیان کے افکار کو اس کی ترکیب کلمات، انتخاب الفاظ اور طرزِ تحریر پر غور کرتے ہوئے سمجھنے کے عمل کو ہی ”سبک“ یا ”اسلوب“ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ”اسلوب“ ایک ایسا طرزِ اظہار ہے جو بالکل آئینہ کی حیثیت رکھتا ہے اور اس میں انسانی شخصیت کی بہترین چھاپ نظر آتی ہے۔ کیوں کہ تحریر، محرر کے کردار و شخصیت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی اسلوب کے حوالے سے لکھتے ہیں:

”ہر لکھنے والا اپنے اسلوب میں اپنی پوری شخصیت کو پیش کر دیتا ہے، اگر وہ شخصیت کو پس پردہ رکھنا چاہے اور نفی شخصیت کے نظریے کا قائل ہو تب بھی اس کے اسلوب میں کسی نہ کسی زاویے سے اس کی پوری شخصیت کا عکس نظر آ جاتا ہے۔ وہ شعوری طور پر چاہے بھی تو اس صورت حال سے دامن نہیں چھڑا سکتا۔

یہ اسلوب دو بنیادی چیزوں کا مرکب ہوتا ہے ایک تو خیال یا تجربہ جس میں لکھنے والے کی پوری شخصیت ظاہر ہوتی ہے۔ دوسرے اس تجربے کو ظاہر کرنے کے لیے الفاظ کا استعمال۔ اسی لیے تو کہا گیا ہے اور اس بنیادی خیال سے سب ہی متفق ہیں کہ اسلوب در حقیقت شخصیت ہے جو الفاظ کا لباس پہن کر جلوہ نما ہوتی ہے“۔ [اسالیب نثر اردو، ص: ۸، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد، پاکستان]

کسی بھی نوعیت کا اسلوب ہو وہ فکر اور صورت سے ہی مرکب ہوتا ہے، کمیت و کیفیت اس کے اجزا کے حیثیت رکھتے ہیں اور جب کوئی موضوع فکری ہو تو اس کی ترجمانی کسی نہ کسی خاص شکل یا قالب میں ضرور ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ایک ہی چیز (اسلوب) کے دو رخ (فکر و صورت) ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ لاکھ کوششوں کے باوجود اسلوب اور شخصیت کو جدا جدا نہیں کر سکتے ہیں، یہ لازم و ملزوم ہیں، اسلوب کو صاحب اسلوب کی شخصیت سے الگ خانے میں ہرگز نہیں رکھا جا سکتا۔

پروفیسر نثار احمد فاروقی نے بھی نثر کے حوالے سے بڑی اچھی اور جامع بات کہی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

”اسلوب افکار و خیالات کے اظہار و ابلاغ کا ایسا پیرایہ ہے جو دل نشیں بھی ہو اور منفرد بھی ہو، اسی کو انگریزی میں اسٹائل (Style) کہتے ہیں۔ اردو میں اس کے لیے ”طرز“ یا ”اسلوب“ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی اور جدید فارسی میں اسی کو ”سبک“ کہتے ہیں۔ ان الفاظ کی اصل پر غور کرنے سے ہی یہ اندازہ ہو سکتا ہے کہ اسلوب میں ترصیع یا صناعی کا مفہوم شامل رہا ہے۔ طرزِ نگارش یا اسلوبِ تحریر شخصیت کے اظہار کا ذریعہ اور آئینہ ہوتا ہے، جس میں مصنف یا شاعر کے فکر و خیال اور ذوق و وجدان کا عکس دکھائی پڑتا ہے۔ ڈاکٹر بوفان کا قول ہے” اسلوب خود انسان ہے“۔

اردو دنیا‌ میں اگرچہ بہت پہلے یہ اعتراض کیا جاتا تھا کہ اردو کے ناقدین و محققین اپنا زورِ قلم صرف اور صرف ارود شاعری پر ہی صرف کرتے ہیں، وہ نثری ادب اور اسلوبیات کی طرف زیادہ توجہ نہیں کرتے ہیں__لیکن دور حاضر میں اگر انصاف کے ساتھ اردو زبان و ادب کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ اب حالات تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہے ہیں اور نثری ادب کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کرنے میں اردو خادمین بیدار ہوگئے ہیں، اردو اسالیب پہ بھی تیزی کے ساتھ کام ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو نثر کے اسالیب و ارتقا پر محمد یحییٰ تنہا اور حامد حسن قادری وغیرہ کی مفید کتابیں دستیاب ہیں۔

یہ حقیقت آفتاب نیم روز کی طرح روشن ہے کہ اردو زبان و ادب کے فروغ و ارتقا میں خواجہ بندہ نواز گیسو دراز، عبداللہ حسینی، شاہ میران جی، برہان الدین جانم اور امین الدین اعلیٰ جیسے صوفیاے کرام اور بزرگانِ دین کا بھی بڑا حصہ رہا ہے۔ جس دور میں شمالی ہند سے پہلے خطۂ دکن میں اردو بولی ٹھولی کی زبان کی حیثیت سے آگے بڑھ رہی تھی اس وقت انہی حضرات نے ہی مقامی بولیوں کے سانچے میں اردو صنفِ نثر و نظم کو بال و پر عطا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

اس ضمن میں یہاں ڈاکٹر امیر اللہ خاں شاہین [صدر شعبہ اردو:  میرٹھ یونیورسٹی، میرٹھ] کا وہ اقتباس نقل کرنا مناسب سمجھتا ہوں جو انھوں نے پروفیسر مسعود حسین خان کی کتاب”مقدمۂ تاریخ زبان اردو“  سے اخذ کیا ہے۔ مسعود حسین نے اردو نثر کی آٹھ سو سالہ تاریخ کو دکھانے کے لیے  اپنی اس کتاب کو پانچ ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ ڈاکٹر امیر اللہ خاں شاہین لکھتے ہیں:

”پہلا دور قدیم دکنی نثر کے ان نمونوں کو پیش کرتا ہے جو ملا وجہی کی ” سب رس“ تک منتہی ہیں، دوسرا دور اورنگزیب عالمگیر کی وفات ۱۷۰۷ء سے ۱۸۲۴ء تک کے مطالعہ پر مشتمل ہے، اس میں شمالی ہند میں لکھی گئی شخصی اور سرکاری نثر کا جائزہ ہے جس کے ایک سرے پر فضلی کی ”کربل کتھا“ اور دوسرے سرے پر رجب علی بیگ سرور کا ”فسانہ عجائب“ ہے۔ تیسرا دور ۱۸۲۵ء سے ۱۸۷۵ء تک کل پچاس برسوں پر مشتمل ہے۔ اس میں اخباری نثر واجد علی شاہ اور ان کی بیگمات کے خطوط ، مطبعوں کی توسیع، اخباروں کی بڑھتی ہوئی اشاعت اور ان سب سے اردو اسالیب کی اثر پذیری کا حال ہے۔ چوتھا دور ۱۸۷۹ء سے ۱۹۱۴ء پر محیط ہے۔ اس عہد میں سرسید کی علی گڑھ تحریک مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں اردو کے کم و بیش چھ جان دار، بنیادی اور معیاری اسالیب سامنے آتے ہیں۔ اسی عہد میں سرسید، محمد حسین آزاد، چراغ علی، نذیر احمد، حالی اور شبلی انتقال کر جاتے ہیں۔ پانچواں دور ۱۹۱۴ء سے حال پر محیط ہے۔ اس میں ناول، سوانح نگاری، ڈرامہ، افسانہ، انشائیہ اور مضمون نگاری جیسے جدید اصناف ادب پر گفتگو کی گئی ہے“۔

[اردو اسالیب نثر، ص: ۱۱، از: ڈاکٹر امیر اللہ خاں شاہین]

اردو اسالیب نثر کی ترقی میں فصیح الملک مرزا غالب دہلوی [۱۷۹۷ء- ۱۸۶۹ء] کا نام تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ غالب ہی ہیں جنھوں نے بیانیہ اسلوب، توضیحی اسلوب، انانیتی اسلوب، تاثراتی و شگفتہ اسلوب، طنزیہ اور ظرافت آمیز اسلوب، خطیبانہ اسلوب، بنیادی اسلوب اور امتزاجی اسلوب کی بنا ڈالی، اس کی بہترین آبیاری کی اور باغِ اردو میں خوشنما پھول کھلائے۔ غالب کے بعد سر سید احمد خان [۱۸۱۷ء-۱۸۹۸ء] بھی ایک اہم کڑی کے طور پر نظر آتے ہیں، انھوں نے سپاٹ و سادہ اور بنیادی اسلوب کو فروغ بخشا۔ اردو نثر کے ارتقا میں محمد حسین آزاد [۱۸۳۳ء-۱۹۱۰ء] بھی اس لحاظ سے غالب، وجہی، رجب علی بیگ سرور اور سر سید سے کم نہیں ہیں کہ انھوں نے بھی ”اسلوب جلیل“ کی ابتدا کی۔ اس طرح اردو کی نثری تاریخ پر ایک تجزیاتی نگاہ ڈالنے سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اردو اسالیب نثر کو پروان چڑھانے میں وجہی، تحسین، میرامن دہلوی، رجب علی بیگ سرور، غالب،سرسید، محمد حسین آزاد، ابن صفی اور قرۃ العین حیدر کو سبقت و سیادت حاصل ہے۔ 

یہ حقیقت بالکل درست ہے کہ اردو دنیا‌ میں مرصع نثر لکھنے کے ساتھ عاری اور سادہ و سپاٹ نثر لکھنے کا رواج شروع ہی سے رہا ہے۔ نثر مرصع کوئی عیب کی بات نہیں ہے، مگر سادہ و عاری نثر حلقۂ قارئین میں زیادہ مقبول ہیں۔ پر تکلف، مسجع و مقفٰی اور رنگین اسالیب نگارش یقیناً لطف و چاشنی فراہم کرتے ہیں اور مطالعہ کے وقت دلچسپی بنی رہتی ہے۔مگر کم پڑھے لکھے یا متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے لیے یہ نثر  معانی و مطالب کی تفہیم میں مشکل پیدا کرتی ہیں، جب کہ سادہ نثر عام فہم پیرائے میں عرض مدعا کے لیے کافی مقبول ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ جن رابطہ عوام سے زیادہ ہوتا ہے وہ سادہ اسلوب نگارش کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ 

اردو دنیا کے قابل ذکر ادبا و شعرا کی طرح علماے اہل سنت اور مشائخ عظام کی بھی ایک ایسی لمبی فہرست ہے، جن کی تحریروں میں نثر مسجع، سادہ اور سلیس کی جھلک بخوبی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ماضی قریب میں فاضل بریلوی امام احمد رضا خان قدس سرہ العزیز، صدر الشریعہ علامہ امجد علی اعظمی، علامہ ظفر الدین بہاری، رئیس التحریر علامہ ارشد القادری اور حافظ ملت علامہ شاہ عبد العزیز محدث مرادآبادی وغیرہم کے یہاں بھی سادہ، مسجع، مرصع اور علمی نثر کی بہترین ترجمانی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ایسے ہی دور حاضر کے سرخیل علماے اہل سنت پر اس حوالے سے تجزیاتی نگاہ دوڑاتے ہیں تو ایک ایسی ہی مرنجاں مرنج ذات ابھر کر ہمارے سامنے آتی ہے، جنھوں نے اپنی خدا داد علمی قابلیت کی بدولت تا حیات جہاں مختلف زاویوں سے خدمت دین کا پرچم بلند فرمایا وہیں اپنی شگفتہ اور دل نشین اسلوبِ تحریر سے اردو نثر کو بھی مالا مال کرنے میں اپنا بہترین حصہ ڈالا ہے۔ یقیناً حضور شیخ المسلمین، علامہ سید حسنین رضا قادری رحمۃ اللہ علیہ [۱۵، اپریل ۱۹۵۱ء-۴،مئی ۲۰۲۱ء] کی ذاتِ گرامی کو قدرت نے مختلف صلاحیتوں سے شادکام فرمایا تھا۔تبلیغ و خطابت کے ساتھ ساتھ آپ کا قلم بھی بڑا سیال اور زود رفتار واقع ہوا تھا۔ آپ نے خانقاہ رحمانیہ، کیری شریف، بانکا[بہار] کی تمام تر ذمہ داریوں کے ساتھ تصنیف و تالیف اور تحریر و قلم کے میدان میں بھی اپنے زرنگار قلم سے نصف درجن کتابیں منصہ شہود پر لا کر خلق خدا کی رہنمائی کا بڑا خوبصورت کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ تصوف کا میدان آپ کا خاص اور دلچسپ میدان تھا۔ جی ہاں! اس سچائی سے ہم قطعی انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ آج ملک کی اکثر خانقاہوں میں جب کہ صوفی ازم کی تابندہ روایت دھندلی پڑ رہی ہے، اکثر ذمہ دارانِ خانقاہ یا تو دنیا داری میں اتر گئے ہیں یا پھر وہاں کے گدی نشین مادی زندگی کے حصار میں ایسے بندھ گئے ہیں کہ انھیں اس پاکیزہ عمل کے لیے ذرہ برابر بھی وقت نہیں مل پا رہا ہے، مگر شیخ المسلمین کی ذات گرامی تصوف کے پرچار و پرشار میں بھی کمال کا درجہ رکھتی ہے۔ اپنے اسلاف و بزرگوں کی روش پر ہی گامزن رہنے میں انھوں نے اپنے اور ساری انسانیت کے لیے فلاح و نجات کا ذریعہ سمجھا، یہی وجہ ہے کہ جہاں آپ کی پوری زندگی تصوف و ریاضت کے سنہرے رنگ سے نکھرتی رہی وہیں سماج و معاشرے کو بھی تمام تر برائیوں سے پاک و صاف کرکے ہمیشہ تصوف کے ڈگر پر چلانے کے لیے تگ و دو کرتے رہے، سفر و حضر میں بھی اپنے مریدین و متوسلین کے درمیان تصوف کے حوالے سے پند و نصائح فرماتے رہے اور یہی وہ علت جامعہ ہے جس نے آپ کو تصوف پر اہم کتابیں تصنیف کرنے کے لیے ابھارا۔ 

آپ کی تحریر بڑی جامع اور پرمغز ہوا کرتی تھی۔ قرطاس و قلم کی جس دولتِ لازوال سے آپ بہرہ ور ہوئے تھے، اس کا مثبت استعمال کرکے اردو نثر و ادب کے بکھرتے زلفوں کو سنوارنے میں بھی سعی محمود کی ہے۔ حسن اخلاق اور جامع کردار کے منصب جلیلہ پر ہی فائز ہونے کا یہ خوشگوار نتیجہ تھا کہ خلق خدا کی ایک کثیر تعداد آپ کا عقیدت کیش اور مداح تھی۔ راقم الحروف کا یہ آنکھوں دیکھا حال ہے کہ جب کبھی کسی علاقے میں تبلیغی امور کے غرض سے آپ کی آمد و رفت کی خبر پہنچتی تو وقت مقررہ پر سامعین کی ایک بھاری تعداد امنڈتے ہوئے سیلاب کی طرح کشاں کشاں چلی آتی تھی۔

ہاں! یہ حقیقت ہے کہ ترسیل کے نقطہ نظر سے نثر نگار تین طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جنھیں مخاطب یاد رہے یا نہ رہے، اپنی ذات ضرور یاد رہتی ہے۔ دوسرے وہ جنھیں اپنی ذات یاد رہے یا نہ رہے مگر مخاطب ضرور یاد رہتا ہے اور تیسرے وہ جنھیں نہ اپنی ذات کا پتہ ہوتا ہے اور نہ مخاطب کا۔ اس کسوٹی پر جب ہم شیخ المسلمین کی ذات کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے مخاطب کو کبھی نہیں بھولتے ہیں۔ معراج زندگی در بندگی، معراج الموحد علی الثنویتہ و التثلیثیتہ، معراج التصوف فی الاسلام، معراج روحانیت، معراج القلوب، معراج المؤمن فی اجتناب الغیبۃ اور حیاتِ مخدوم وغیرہ علمی گلدستوں سے آپ اپنی آنکھوں کا رشتہ بحال کریں تو معلوم ہوگا کہ شیخ المسلمین کی تمام تر تصنیفات میں یہ خوبی چاندنی کی طرح پھیلی ہوئی ہے اور ان کی تحریر کی تاثیر و دل نشینی میں اضافہ کر رہی ہے۔

اردو نثر کی مختلف قسمیں رائج ہیں۔ مثلاً: نثر مرصع، نثر مرجز، نثر مسجع، نثر مقفی اور نثر عاری وغیرہ۔ اسی طرح معنی کے اعتبار سے بھی دو قسمیں ہیں، سلیس اور دقیق۔ حضور شیخ المسلمین کی نثر کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ سلاست و روانی کے معیار پر کھری اترتی ہے۔ نثر عاری کی جھلکیاں بھی صاف نظر آتی ہیں۔ کیوں کہ ان کا تعلق عوام سے زیادہ تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ ارشاد و تبلیغ کی کامیابی کے راز عام فہم زبان میں ہی پوشیدہ ہیں، نثر جس قدر سلجھی ہوئی اور پاکیزہ ہو وہ سامعین کے عقل و خرد پہ اتنی ہی جلدی اثر انداز بھی ہوتی ہے۔ اس ضمن میں ممدوح موصوف کی تصنیف لطیف ”معراج القلوب“ کو اختصاص و امتیاز حاصل ہے اور اس میں مختلف جہتوں سے معانی و مفاہیم کی ادائیگی میں علمی ہنر آزمائے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر ”معراج القلوب“ کا یہ اقتباس دیکھیں:

”متکبرین کی فطرت میں ایک فطرت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کی توہین و تضحیک کرنا اپنا شعار بنا لیتے ہیں، رفتہ رفتہ یہ عادت ان پر غالب آ جاتی ہےاور یہ شرعی اعتبار سے ممنوع اور گناہ کی راہ ہے۔ مذکورہ عادت بد کا انجام یہ ہوتا ہے کہ متکبر کی جانب سے عوام الناس شفقت و ہمدردی سے بری رہتے ہیں، دنیوی مصلحتوں کے پیش نظر اس کے روبرو خندہ پیشانی سے خیر مقدم‌کرتے ہیں لیکن قلب اس کی طرف مائل نہیں ہوتی، قلبی طور پر اس سے نالاں رہتے ہیں۔ اس کا نقصان کسی ایسے وقت میں ظاہر ہوتا ہے کہ تغیر عالم کے تحت اگر اس پر کوئی آفت و مصیبت حملہ آور ہوتی ہے تو کوئی اس کا معاون و مددگار اور ہمدردی کا اظہار کرنے والا نظر نہیں آتا“۔ [ ص:۶۱]

مذکورہ عبارت کے مطالعہ کے بعد ہمارے لیے یہ فیصلہ کرنا اور بھی آسان ہو جاتا ہے کہ شیخ المسلمین رحمۃ اللہ علیہ  نے نثر دقیق سے ہرگام دامن بچانے کا کام کیا ہے اور اپنے مخاطب کو پیش نظر رکھتے ہوئے سادہ نثر کے استعمال کو ترجیح دیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ممدوح موصوف سادگی و صفائی کے بڑے ہی دلدادہ تھے، یہی وجہ ہے کہ سادگی ان کی زندگی کا جلی عنوان بھی ہے اور ان کے اسلوب کا امتیازی نشان بھی‌۔

حضور شیخ المسلمین اپنے اسلوب کو مؤثر بنانے کے لیے جن حربوں کو استعمال میں لاتے ہیں ان میں شعوری طور پر تمثیل نگاری بھی سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہاں مقصد ہی یہی ہوتا ہے کہ مثالوں کے ذریعے اپنے مدعا کو قاری کے ذہن و دل میں نقش کرا دیا جائے۔ ان کے اسلوب کا یہی تو کمال ہے کہ تمثیل نگاری کی شعوری کوششوں کے باوجود نثر میں کہیں سے بھی مصنوعی پن پیدا نہیں ہوتا ہے، کیوں کہ شیخ المسلمین لوح و قلم کو محض سیاہی میں ڈبو کر ہی نہیں لکھتے تھے بلکہ بھرپور خلوص اور قابل رشک جانفشانی کے جذبوں سے سرشار ہوکر اپنے افکار و نظریات کو صفحہ قرطاس پر اتارتے چلے جاتے تھے۔ مثال کے طور پر ”صفحاتِ توحید“ کا یہ اقتباس دیکھیں اور فیصلہ کریں کہ مصنف موصوف نے وحدۃ الشہود اور وحدۃ الوجود کی تفہیم میں کتنی عمدہ مثال کو اپنے ذہنی دریچوں سے صفحہ قرطاس پہ اتار لایا ہے:

”ذکر و اذکار، ریاضت و مجاہدات سے منازل معرفت حاصل کر لینے سے بندہ خدا نہیں ہو سکتا اور یہ بھی ناممکن ہے کہ بندہ اپنے حقیقت سے محروم ہو جائے۔ نست و نابود اور نسیاً منسیاً ہونا ایک الگ امر ہے اور کسی شئی کا نادیدہ ہونا ایک الگ امر ہے۔ اس معمہ کو اس طرح فہم و فراست میں جاگزیں کیا جا سکتا ہے کہ آپ اس عالم کو اپنے تصور میں ایک آئینہ کی مانند تصور کریں اور یہ امر حقیقت ہے کہ آئینہ کے پیش نظر جو شئی بھی آئے گی آئینہ اس کی حقیقت کو من و عن واضح کر دے گا۔ اس عالم کو تصورات و خیالات میں جو مثل آئینہ ہے، تصور کیا ہے۔ بعض اوقات اس آئینہ میں سالک کو خدا ہی نظر آتا ہے۔ وحدۃ الشہود کی منزل میں بعد رسائی سالک اس قدر دیدارِ محبوب میں مستغرق ہو جاتا ہے کہ یہ عالم جو اس کی نظر میں مثل آئینہ ہے اس کی نظر ہمت سے مفقود ہو جاتا ہے“۔ [ص: ۵۴، ناشر: الرحمن اسلامک تحقیقاتی مشن، کیری شریف، بانکا]

شیخ المسلمین نے سادہ اسلوب کے ساتھ ساتھ علمی اسلوب تحریر بھی اختیار فرمایا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ تبلیغی اسفار میں عوام الناس سے آپ کا رابطہ زیادہ رہا مگر خالص علمی نثر میں بھی دقیق سے دقیق تر مسائل کی تفہیم میں اپنے جوہر خوب بکھیرے ہیں۔ ُ معراج الموحد علی الثنویتہ و التثلیثیتہ“ کے اسلوب میں آپ کی استعداد علمی اور زبان دانی کے گہرے اثرات موجود ہیں۔ جگہ جگہ فارسی الفاظ و تراکیب بھی بڑی خوبصورتی سے کھپائے گئے ہیں‌۔ اس ضخیم کتاب میں عالمانہ انداز و بیان کے پیراے میں تصوف و وحدت کی بڑی قیمتی اور جامع باتیں تحریر کی گئیں ہیں۔ اسلوب سادہ اور سلیس ہے مگر اس میں محققانہ جلوہ سامانیوں کا ایک ہجوم سا بسا ہوا ہے، قلب و نظر کو جلا بخشنے کے لیے پوری کتاب میں جس طرح علمی بحثیں جال کی طرح پھیلی ہوئی ہیں وہ آپ کی وسعت علمی کے ثبوت میں روشن دلائل کا کام کرتی ہیں، استدلال کا انداز بھی بڑا انوکھا اور شگفتہ ہے، اہم دلائل کی جلو میں عرض مدعا کے طُرق بھی چاند کی طرح روشن ہیں۔ جن سے شائد ہی کوئی انکار کر سکیں۔ علم ” ما کان و ما یکون“ کی میں پارہ نمبر: ۵، سورۃ النساء کی آیت کریمہ:

”لا خَيْرَ فِى كَثِيرٍۢ مِّن نَّجْوَىٰهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَٰحٍ بَيْنَ ٱلنَّاسِ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ ٱبْتِغَآءَ مَرْضَاتِ ٱللَّهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا“ کے تحت بطور تشریح بڑی فاضلانہ باتیں رقم کی گئی ہیں۔ لکھتے ہیں:

”اس آیت کریمہ میں علم کے تعلق سے دو صیغہ کا استعمال ہوا ہے ایک ”مالم تکن تعلم“ میں ”تعلم“ ثلاثی مجرد سے تعلق رکھتا ہے۔ اور دوسرا ”علّمک“ میں ”علم“ ثلاثی مزید فیہ سے تعلق رکھتا ہے۔ ثلاثی مزید فیہ کے اندروں عظیم خصوصیت یہ ہے کہ وہ علم جو مختلف ذرائع سے کسی معلم کے اعانت اور تعاون سے بذات خود محنت و مشقت کرکے حاصل کیا ہو۔ لہذا قرآنی فرمان یہ ذہن دے رہا ہے کہ پیارے نبی ﷺ کا اس فرش زمین پر کوئی معلم نہیں۔ آپ کا معلم حقیقی ذات باری تعالیٰ ہے، جس نے آپ کی شان اقدس میں ”علمک مالم تکن تعلم“ کا تاج زریں پیش کرکے آپ کو معلم کائنات کے شرف سے مشرف فرما دیا۔ اس میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لیے علم عطائی کا ثبوت پایا جاتا ہے، کہ اللہ جل شانہٗ صفت علم ”ما کان و ما یکون“ سے متصف فرما کر ابتداے تخلیق کائنات سے تاقیامت اور ما بعد کے علم سے معمور فرما کر نوعِ انسانی کی جانب ارسال فرما دیا“‌۔ [ص: ۲۶۵]

ملاحظہ کریں کہ اس تحریر میں وہ کیا چیز ہے جو ذہن کو سب سے زیادہ متاثر کر رہی ہے؟ جس مسئلے کا ذکر ہے وہ خالص علمی نوعیت کا ہے، نثر بوجھل ہونے کی بجائے اس میں عالمانہ شیفتگی ہے اور لکھنے والے کی ذات الفاظ کے پیچھے چھپی ہوئی ہے، زبان علمی ہے، اندازِ پیشکش خوشنما ہے اور یہی وہ چیز ہے جو شیخ المسلمین کو ان کے ہم عصر نثر نگاروں میں مقامِ انفراد فراہم کرتی ہے۔ در اصل انشا پردازی کا کمال ہی یہی ہوتا ہے کہ اس میں مضامین و خیالات آبشار کی لہروں کی طرح بیان ہوتے چلے جاتے ہیں، ایک عجیب روانی سے کی کیفیت اپنا طلسم بکھیرتی ہے اور قاری اس کے رو میں بڑی سنجیدگی کے ساتھ بہتا چلا جاتا ہے۔ طبیعت نہ تو کہیں اوبتی ہے اور نہ ہی اضمحلال کا شکار ہوتی ہے، وجہ صرف یہی ہوتی ہے کہ مصنف/ محرر اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا اظہار اس چابک دستی سے کرتا ہے کہ قاری کے ذہن و دماغ پر پیش کردہ مواد بار گراں بن کر ہرگز نہیں گزرتا ہے بلکہ افہام و تفہیم کی راہیں آسان ہوتی چلی جاتی ہیں۔ 

ممدوح موصوف کی نثر میں یہ صفت بھی دیکھنے کو ملتی ہے کہ وہ اپنے اندر بیانیہ حسن رکھتی ہے اور اس میں خطاب کی بھی آمیزش جلوہ گر ہوتی ہے۔ اصطلاح میں عام طور پر سادگی سے چھوٹے چھوٹے جملوں کا استعمال مراد لیا جاتا ہے، لیکن شیخ المسلمین کے یہاں جملے مختصر ہونے کی بجائے متوسط درجے کے ہیں، نہ زیادہ طویل اور نہ ہی انتہائی مختصر، غرض یہ کہ ان کی نثر میں اسلوب کے بنیادی صفات ” سادگی، قطعیت اور اختصار“ کی جامعیت ہوتی ہے، کم جملوں میں مضمون ادا کرنے کی کوشش ہر جگہ برقرار رہتی ہے۔ ان تمام چیزوں کے ساتھ ساتھ سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ تحریر ابتدا تا انتہا تصوفانہ رنگ لیے رہتی ہے۔ جس کی وجہ سے یہ احساس مزید پختگی اختیار کر لیتا ہے کہ جیسے گفتگو میں دھیما پن کا عنصر شامل ہو گیا ہے اور باتیں اثر انگیز ہوتی جا رہی ہیں۔ بیانیہ نثر کی مثالیں ”صفحاتِ توحید“ میں بکثرت موجود ہیں، ہر باب کے آخر میں جہاں آپ نے خلاصہ بحث کے طور پہ خود سے سوال قائم کرکے جواب دینے کی جو روش اختیار کی ہے، وہ دلوں کو خوب بھاتی ہیں۔ پیچیدہ سے پیچیدہ اور گنجلک و خشک مضامین کو سنجیدہ اسلوب میں میزانِ تفہیم پر اتارنے میں سو فیصد کامیابی سے ہمکنار ہوئے ہیں اور یہ رنگ آخر کتاب تک برقرار ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ شیخ المسلمین ایک صوفی بزرگ اور درویش صفت انسان تھے، انھوں نے جو کچھ بھی لکھا وہ عوام اور قوم کی صلاح و فلاح کے لیے لکھا۔ وہ تصوف کے اس مہتم بالشان روایت کے امین تھے جو بر صغیر کی صدیوں پرانی تاریخ کا ایک اٹوٹ حصہ ہے۔ بلاشبہ روحانیت کی یہ روایت انتہائی قدیم ہے، اسی کی وجہ سے نورِ ہدایت کی دولتِ کمال پا کر لا تعداد بندگانِ خدا نے اپنے خوابیدہ مقدر جگائے اور ان کے لیے صراطِ مستقیم کی تلاش آسان تر ہو گئی، شیخ المسلمین زندگی بھر ہی اس قول و عمل کا رسیہ بنے رہے کہ کسی طرح عوام الناس تک وسیع پیمانے پر صلاح و فلاح کا یہ آفاقی پیغام پہنچے، یہی وجہ ہے کہ ان کی نثر میں کہیں سے پیچیدگی و ژولیدگی کا ذرہ برابر بھی شائبہ تک نہیں ملتا، اگرچہ خیال کتنا ہی مجرد اور موضوع کتنا ہی فلسفیانہ کیوں نہ ہو، وہ دقیق اور توجہ طلب علمی موضوع کو بھی اپنی نثر میں اس طرح کھپا گئے ہیں کہ جیسے سامنے کی باتیں کر رہے ہوں۔ ان کا اصل میدان، ان کی دلچسپی و لگن کا اصل موضوع اور ان کی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال راہ راست سے بھٹکے ہوئے عوام کو تصوف کے اہم اسرار و رموز سے روشناس کرانے ہی میں صرف ہوا ہے۔ یقیناً شیخ المسلمین کو یہ ورثہ اس روایت سے ملا تھا جسے والد گرامی، خلیفہ اعلیٰ حضرت علامہ سید شاہ عبد الرحمن قادری البیتھوی  رحمۃ اللہ علیہ  [۱۲۹۴ھ_۱۳۹۲ھ] نے چودہویں صدی کے عظیم مجدد، الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی قدس سرہ العزیز سے حاصل کیا تھا۔ 

جی ہاں! نثر کو اثر انگیز بنانے کے لیے آپ نے کہیں بھی رنگین تشبیہ و استعارے کا سہارا نہیں لیا بلکہ زبان میں صفائی اور موزونیت کا ہر لمحہ خیال رکھا، اسی وجہ سے تحریر میں سادگی و پختگی کا ایک رچاؤ سا پیدا ہوتا گیا اور ان کے اسلوب نگارش کی سلاست و روانی نے بڑی آسانی کے ساتھ اہم علمی و تحقیقی مباحث کا احاطہ کر لیا۔ یقیناً، سالوں قبل سر سید احمد خان اور ان کے رفقا نے علی گڑھ تحریک کے تحت رسالہ” تہذیب الاخلاق“ کے سہارے سادہ و مدلل اسلوب نگاری کی جو عظیم مہم چھیڑی تھی، آج شیخ المسلمین کی سادہ اور علمی نثر پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کا یہ اسلوب نگارش بھی اس تحریک کے ارتقائی سفر کی ایک ایسی اہم کڑی ہے، جس سے چشم پوشی کی راہ نہیں اپنائی جا سکتی ہے۔ آپ کی تمام تر تصانیف میں یہی طرزِ تحریر نمایاں ہے، عوام کی فہم و ادراک کا ہر لمحہ خیال رکھا گیا ہے، مرصع و مقفی نثر سے دامن بچاتے ہوئے عاری اور سادہ نثر کے سانچے میں سلاست و روانی کے شاداب گلشن آباد کیے گئے ہیں۔ بلاشبہ اس جہت سے اردو اسالیب نثر کے فروغ میں شیخ المسلمین کی تحریری لیاقت اور منہ بولتی علمی صلاحیت سے آج اردو دنیا قطعاً آنکھیں نہیں موڑ سکتی ہے۔

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved