27 July, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia Jan 2023 Download:Click Here Views: 27837 Downloads: 1093

(17)-صداے باز گشت

ماہ نامہ اشرفیہ اس وقت آسمانِ صحافت پر چمک رہا ہے

بملاحظہ گرامی محبی مخلصی محترم المقام حضرت العلام مبارک العلماء و الفضلاء علامہ مبارک حسین مصباحی صاحب زید مجدہ!

 السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

 امید واثق ہے کہ آپ بخیریت ہوں گے اور علمی و تحقیقی اور تدریسی کاموں میں مصروف ہوں گے ۔  یہ امید بھی قوی ہے کہ آپ سہ ماہی مجلہ ”خاتم النبیین ﷺ“(انٹر نیشنل) کے دوسرے شمارے کے لیے مجوزہ عنوان ” تحفظ ختم نبوت اور ماہ نامہ اشرفیہ“ مبارک پور   پر  خامہ فرسائی فرما رہے ہوں گے ۔

  ناچیز ہیچ مدان  سہ ماہی مجلہ ”خاتم النبیین ﷺ“ (انٹر نیشنل) کے دوسرے شمارے کے لیے  کافی تگ ودو کر رہا ہے ۔   عالم اسلام کے نامور اہل علم و قلم کے دروازوں پر برابر دستک دے رہا ہوں  کہ شاید کہیں سے  کامیابی حاصل ہو جائے ۔ اے کاش ہمارے  اہل علم و قلم عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ اور فتنۂ قادیانیت کے رد کی اہمیت وافادیت   احسن انداز میں سمجھ جاتے تو قادیانی فتنۂ ارتدادی کے آگے  بند باندھا جا سکتا ہے اور لاکھوں بلکہ کروڑوں کلمہ گو مسلمانوں کو   مرتد ہونے سے بچایا جا سکتا ہے ۔  ورنہ پھر  صحرا  میں اذان دینے والی بات ہے اور بندہ اذان دیتا رہے گا ۔

ہمارے علما ومشائخ کو اس جانب اپنی بھر پور توجہ دینی چاہیے ختم نبوت کے تحفظ اور فتنۂ قادیانیت کے رد میں ہمیں اپنے اکابرین کی خدمات جلیلہ کو از سرِ نو جدید انداز میں  صفحۂ قرطاس پر منتقل کرکے دنیا کے سامنے لانا چاہیے۔  ہمیں اپنے خطبات و تقاریر کا رخ تبدیل کرنا چاہیے اور فروعی مسائل کے علاوہ عقیدۂ ختم نبوت  پر بھی کھل کر بولنا چاہیے  تاکہ ہمارے شائع ہونے والے مجموعۂ خطبات و تقاریر میں  عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ اور فتنۂ قادیانیت  کے رد میں بھی موضوعات  نمایاں نظر آئیں۔

 ہمارے صوفیا و مشائخ. کرام کو اپنے مریدین و معتقدین کو  عقیدۂ ختم نبوت  کی تعلیم بھی دینی چاہیے۔  ہمارے اعراس اور دیگر اسلامی تقریبات میں بھی عقیدۂ ختم نبوت کا موضوع ضرور ہونا چاہیے۔    

  ہمارے اہل علم و قلم کو بھی جہاد بالقلم کے محاذ پر  فتنۂ قادیانی کی سرکوبی کے لیے وقف ہو جانا چاہیے تاکہ ہمارے جرائد و رسائل میں عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ میں مضامین ومقالات نمایاں نظر آئیں ۔

 ہمارے شعراے کرام کو بھی اپنے نعتیہ کلام میں  عقیدۂ ختم نبوت  کے عناصر شامل کرنے چاہئیں اور فتنۂ قادیانیت کے ہجو میں بھی اشعار لکھنے چاہئیں۔ تاکہ ہمارے قول وفعل سے یہ حقیقت نمایاں نظر آئے:

انھیں جانا انہیں مانا نہ رکھا غیر سے کام

 للہ لحمد میں دنیا سے مسلمان گیا

  الحمدللہ علی احسانہ ، ناچیز ہیچ مدان کی صدائے قلب حزیں نے اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا ہے۔ سہ ماہی مجلہ ”خاتم النبیین ﷺ“ (انٹر نیشنل) کے دوسرے شمارے کے لیے مشاہیر علماے کرام ومشائخ عظام نے اپنے  بصیرت افروز اور حوصلہ افزاء پیغامات سے نوازنا شروع کر دیا ہے اور نامور اہل علم و قلم نے بھی مجوزہ عناوین میں سے  کئی عنوانات پر اپنے مضامین ومقالات لکھنے شروع کر دئیے ہیں۔ امید قوی ہے کہ ان شاءاللہ مجلے  کا دوسرا شمارہ  عظیم و ضخیم  ہوگا۔

  فقیر سہ ماہی مجلہ”خاتم النبیین ﷺ“(انٹر نیشنل) کے مجوزہ عناوین کے حوالے سے   غور وفکر میں منہمک تھا کہ اتنے میں آپ کی جانب سے  برصغیر میں عالم اسلام کی معروف درس گاہ     الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ یو پی ہند کے دینی و علمی ترجمان  ماہ نامہ”اشرفیہ“ مبارک پور کی جلد نمبر 46کا شمارہ نمبر 12،جمادی الاولی 1444ھ/ دسمبر 2022ءکی پی ڈی ایف فائل فردوسِ نظر ہوئی تو قلب کو  طمانیت حاصل ہوئی کہ ”ابھی کچھ لوگ ہیں اس جہاں میں“۔

  پیش نظر شمارے کا سرورق حسب سابق نہایت ہی عمدہ اور اعلیٰ ہے ، نہایت ہی جاذب نظر اور دل کش ہے۔ سرورق پر حافظ ملت حضرت شاہ عبدالعزیز محدث مبارک پوری قدس سرہ القوی کے روضہ مبارک کے بلند وبالا مینار  ہماری عظمتوں کی بلندیوں کی گواہی دے رہے ہیں ۔

 سرورق ہی پر سود بے سود کے بارے میں ایک استفتاء کے جواب میں آپ کا ایک فتویٰ نمایاں پر کچھ یوں دیا گیا ہے:

” سود لینا حرام ہے، اگر کوئی منافع کافروں سے ملے تو وہ مال موزی سمجھ کر لے سکتا ہے،یہ سود نہیں، بہر صورت ڈپازٹ کا روپیہ حکومت سے لے کر فقرا کو دے دے تو بہتر۔“

 آپ نے اس مختصر مگر جامع فتویٰ میں سود بے سود کے بارے میں ایسا بے مثال جواب رقم فرمایا ہے کہ گویا کوزے میں دریا بند کر دیا گیا ہے۔  اس سے آپ کی شان فقاہت کی بلندی نمایاں نظر آتی ہے۔

” اداریہ “  میں آپ نے نہایت چابکدستی سے دو موضوعات کو نہایت ہی احسن انداز میں نبھایا ہے۔

 پہلا موضوع ایک تعزیتی شذرے پر مشتمل ہے جو آپ نے اپنے سوگوار قلم سے حضرت مولانا اسرار احمد مصباحی معروف بہ بابا رحمۃ اللہ علیہ کے وصال پر ملال  پر رقم فرمایا ہے۔ اس میں آپ نے نہایت اختصاریت اور جامعیت سے آپ کے خاندان ، ولادت، حلیہ، اخلاق و کردار، تعلیم وتربیت، نماز جنازہ اور  تدفین تک کے مناظر تک کو احاطۂ تحریر میں لے آئے ہیں۔ حضرت ﷫ کا نام مصباحی علما میں نہایت ہی ممتاز اور نمایاں ہے،اس پر آپ کے مشاہیر اساتذہ اور تلامذہ شاہد و ناطق ہیں۔ ضرورت ہے کہ کوئی فاضل آگے بڑھے اور آپ کی حیات وخدمات پر قلم اٹھائے اور ایک نہایت ہی مفصل مقالہ سامنے لائے۔

   مولانا موصوف مرحوم و مغفور کے لیے میری تو یہی قلبی دعا ہے:

باغ نعیم ہو،ترے مرقد کی وسعتیں

 جنت کے گل ہوں تیرا کفن اے ”ابوالحسن“

   دوسرا موضوع”عرس کی شرعی حیثیت“کے عنوان سے سجایا گیا ہے۔  آپ نے اس موضوع پر اٹھایا اور خوب  چلایا آپ نے عنوانات قائم کرکے   موضوع کو  خوب نبھایا ،  آپ نے دلائل و براہین کی روشنی میں ثابت فرمایا کہ اولیائے کرام کے اعراس کی روایت مسلمانوں میں صدیوں سے جاری و ساری ہے۔ نیز آپ نے  اپنے ادارتی مقالے میں قبروں پر حاضری کا جواز،ایصال ثواب کے شرعی احکام، رسول کریم ﷺ کے عمل سے عرس کا ثبوت ، اصحاب مزارات کے توسل سے دعاؤں کی جلد قبولیت  کو قرآن وحدیث اور سلف صالحین کے ارشادات کی روشنی میں ثابت فرمایا ہے۔ نیز مزارات پر نذر اور تبرک کی حقیقت کو بھی ظاہر و باہر فرما دیا ہے۔  آخر میں آپ نے نہایت  ہی ناصحانہ انداز میں مزارات کے طواف اور شور و غل کی ممانعت   کو بھی احاطۂ تحریر لا کر ” عرس کا پیغام نماز باجماعت کا اہتمام “  بھی دیا ہے جس میں اعراس کے منتظمین کے لیے دعوتِ غوروفکر ہے کہ وہ اعراس میں نماز باجماعت کا اہتمام ضرور کریں تاکہ اعراس کی برکات سے محروم نہ ہو سکیں۔

 مولانا محمد حبیب اللہ ازہری نے”  قسم کے احکام قرآن کریم کی روشنی میں“   کے عنوان پر نہایت فقیہانہ انداز میں قلم اٹھا کر کمال کر دیا ہے۔    آج کل مسلمان چھوٹی چھوٹی   باتوں پر قسمیں اٹھانے  سے نہیں چونکتے لہذا  قسم کے معاملے میں کافی احتیاط کی ضرورت ہے۔ 

”ایصالِ ثواب“ کے عنوان سے آپ کے  جاری سلسلے کی آخری قسط   بھی نتیجہ خیز ثابت ہوئی ہے۔  اس میں آپ نے عبادت مالیہ اور بدنیہ کے ذریعے ایصالِ ثواب  کا ثبوت فراہم کیا ہے ، ایصالِ ثواب کے بارے میں فقہی احکام دیے ہیں۔آخر میں  آپ نے ایصالِ ثواب کے منکرین سے سات سوالات کرکے موضوع کو اختتام پذیر کیا ہے۔   آپ کے مقالے سے یہ نتیجہ سامنے آیا ہے کہ” قرآن کریم، احادیث اور صحابہ کرام سے ایصالِ ثواب پر عملی طور پر اجماع ہے“۔

 سلسلہ وار  ”آپ کے مسائل“ کے عنوان سے مفتیِ اشرفیہ علامہ مفتی محمد نظام الدین رضوی کے قلم سے  مختلف موضوعات پر سائلین کے فقیہانہ جوابات رقم فرماتے ہیں۔ اس بار آپ نے  دو موصولہ سوالات کے جوابات رقم فرمائے ہیں۔ پہلا سوال، ذاتی ملکیت کی چھت پر مسجد و مدرسہ کی زمین کے وقف کے بارے میں ہے اور دوسرا سوال   ”کیا غوث اعظم ﷫ فرشتوں کے بھی پیر  ہیں“؟ کے حوالے سے ہے۔ ان دونوں سوالات کے جوابات نہایت ہی عالمانہ اور فقیہانہ ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگلا مقالہ ” عروج وزوال کے اسباب اور ہندوستانی مسلمانوں کا مستقبل“ ہے جو الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور کے نائب ناظم  مولانا محمد ادریس بستوی کے اثر قلم کا نتیجہ ہے  ۔  جو  انتہائی فکر انگیز ہے۔ 

   ساتویں نمبر پر مقالہ” عصر حاضر میں ہلال احمر کے اعلان نامے، ایک لمحۂ فکریہ“ہے جو مولانا محمد مبشر رضا ازہر مصباحی کے اثر قلم کا نتیجہ ہے۔  یہ اس مقالہ کی آخری قسط ہے ۔ رویت ہلال کے موضوع پر یہ ایک منفرد  تحریر ہے۔ 

آٹھواں مقالہ” تحفظ ناموسِ رسالت ﷺ اور قرآن مجید“ ہے جسے دارالعلوم غریب نواز الہ آباد یو پی کے استاذ علامہ مفتی محمد کونین نوری مصباحی نے نہایت محنت و تحقیق سے صفحۂ قرطاس پر منتقل فرمایا ہے۔ 

 آپ نے اس مقالہ میں  ناموسِ رسالت مآب ﷺ کاتحفظ  قرآنی آیات سے ظاہر و باہر فرمایا ہے۔ اس سے موضوع کی اہمیت وافادیت دو چند ہو جاتی ہے۔

 نوواں اور دسواں مقالہ حافظ ملت حضرت شاہ عبدالعزیز محدث مبارک پوری دائم الحضوری  ﷫ کی حیات وخدمات کے حوالے سے ہیں۔    مولانا حافظ افتخار احمد قادری نے  ”حضور حافظ ملت ایک عہد ساز شخصیت“ کے عنوان سے عقیدت مندانہ قلم اٹھایا اور ان کی جلالت و عظمت کو سامنے لایا۔ مولانا غلام  مصطفیٰ رضوی مصباحی نے”حیات حافظ ملت کے چند خاص گوشے“ کچھ اس انداز میں سامنے لائے  کہ آپ کی کتاب زیست کا خلاصہ قاری کے سامنے رکھ دیا۔

  گیارہواں مقالہ” حواری رسول حضرت زبیر بن عوام ﷛“ ہے جسے جامعہ اشرفیہ کے استاذ مولانا محمد اعظم مصباحی نے سپرد قلم فرمایا ہے اور بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں ان کا مقام رفیع دکھایا ہے۔

بارہواں مقالہ مجھ ناچیز ہیچ مدان کے حوالے سے ہے جسے آپ نے پہلے پہل مجلہ” ذوق“ اٹک کے اس خاص نمبر کے لیے لکھا تھا جو مجھ فقیر سراپا تقصیر کے حوالے سے  شائع ہوا تھا۔  بعد میں آپ اس میں مزید رنگ بھرتے گئے اور ماہ نامہ”اشرفیہ“  میں قسط وار  سامنے لاتے رہے۔  آپ جہاں باکمال زود نویس ہیں وہاں مجھ ناچیز سے آپ کی محبت و مؤدت بھی دیدنی ہے  ہنوز یہ سلسلہ دراز ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ابھی اس شمارے میں اس کی پانچویں قسط سامنے آئی ہے اور آگے بھی جاری ہے!!!

 یہ مجھ ناچیز کے لیے ایک اعزاز اور سعادت ہے کہ  حافظ ملت  حضرت شاہ عبدالعزیز محدث مبارک پوری دائم الحضوری ﷫ کے ایک خوشہ چین    جو صرف نام ہی کے”مبارک“ نہیں ہیں  بلکہ ”خطۂ مبارک پور“ سے بھی تعلق رکھتے ہیں اور ان کا ہر اقدام ہی ”مبارک“ ہے۔ پھر میرے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا ”مبارک“ہو گی کہ مجھ ناچیز ہیچ مدان کا ذکر بار بار   الجامعۃ الاشرفیہ کے مؤقر دینی و علمی ترجمان”  ماہ نامہ اشرفیہ“ مبارک پور کے صفحات میں ہو رہا ہے۔ 

 یہ یقیناً مجھ پر حضرت حافظ ملت ﷫ کی نظر التفات ہے اور فیضانِ بے بہا ہے ورنہ من آنم کہ من دانم۔

  تیرہواں مقالہ” خلیفۂ راشد سیدنا صدیق اکبر ﷛“ہے جسے مولانا محمد اسید الرحمن سعید نے لکھنے کی سعادت حاصل کی ہے ، مختصر ہے مگر خوب تر ہے۔

 چودہواں مقالہ” افضل البشر بعد الانبیاء“ ہے جسے مولانا محمد ہاشم اعظمی مصباحی نے ترتیب دیا ہے۔ یہ بھی اگرچہ مختصر ہے مگر مفید تر ہے۔

 پندرہویں نمبر پر  نقد و نظر کے تحت سہ ماہی مجلہ” فکر فردا“  آن لائن کے تیسرے شمارے پر آپ کا تبصرہ ہے جسے پڑھنے کے بعد قاری اس مجلے کو پڑھنے کے لیے بے تاب ہو جاتا ہے۔

سولہویں نمبر پر حضور حافظ ملت ﷫ کی شان میں مناقب ہیں  ۔

 پہلی منقبت مولانا محمد سلمان رضا فریدی صدیقی مصباحی کے اثر خامہ کا نتیجہ ہے جس کا مطلع ہے:

کتاب عزم و ہمت کے غازی حافظ ملت

 کمالات و ہنر میں سب پہ بھاری حافظ ملت

 دوسری منقبت شاعر اشرفیہ مہتاب پیامی کے قلم سے ہے جس کا مطلع ہے:

 تعالیٰ اللہ کیا عظمت نشاں ہیں حافظ ملت

 کمال علم کے ہفت آسماں ہیں حافظ ملت

   سترہویں نمبر پر    مولانا محمد شرف الدین مصباحی کے سوگوار قلم سے  ” استاذ العلماء الحاج مفتی مجیب الرحمٰن کا وصال پر ملال“ کے عنوان سے تعزیتی شذرہ ہے  جس میں سنی دارالعلوم محمدیہ مینار مسجد کے قدیم مایہ ناز مفتی عالم دین استاذ العلماء الحاج مفتی مجیب الرحمٰن ﷫ (پ:1955ء۔۔۔۔۔م:2022ء ) کے وصال پر ملال پر مختصر سے تعزیتی شذرے میں ان کی حیات وخدمات کا ذکر کیا گیا ہے۔

  اٹھارہویں نمبر پر جامعہ اشرفیہ مبارک پور اور مسلم مسائل کے عنوان سے علامہ مبارک حسین مصباحی کے مابین گفتگو شامل کی گئی ہے۔

  انیسویں نمبر پر” صدائے بازگشت“ کے عنوان سے مدیر اعلیٰ کے نام  اہل علم و قلم کے مکتوبات شامل ہیں۔ اس فقیر کے چار مکتوبات شامل ہیں۔ الحمدللہ۔

 بیسویں نمبر پر”خیر و خبر“کے عنوان سے اہل سنت کی علمی و تحقیقی خبریں شامل ہوتی ہیں۔ اس بار  دو خبریں سامنے آئی ہیں:

1:صوفیاے ہند کے تذکرے پر مشتمل انسائیکلو پیڈیا کی تیاری کے سلسلے میں قومی اردو کونسل میں ایک نہایت ہی اہم میٹنگ کی تفصیل دی گئی ہے۔2:فیض آباد کی قدیم اور مشہور مسجد بلال سبھاش نگر میں تکمیل درس قرآن کے روح پرور مناظر کی خبر دی گئی ہے۔

   یہ سارے موضوعات اور عنوانات  رسالہ کے 58صفحات پر محیط ہیں۔ رسالہ کے بیک ٹائیٹل پر اشرفیہ کلینڈر 2023ء کی اشاعت کی نوید دی گئی ہے۔

  المختصر ماہ نامہ اشرفیہ  اس وقت آسمان صحافت پر ایک آفتاب کی مانند چمک دمک رہا ہے۔  اللہ کرے یہ اسی طرح  آب و تاب سے مطلع صحافت پر طلوع ہوتا رہے اور روشنیاں بکھیرتا رہے۔

 بندہ نے جب اس کی پی ڈی ایف فائل کھولی، اسے دیکھا تو بس دیکھتا رہ گیا جب پڑھنا شروع کیا تو آخر تک پڑھتا ہی چلا گیا۔  جب اس کے بارے میں ایک مختصر سا تأثر لکھنے بیٹھا تو لکھتا ہی چلا گیا اور یوں آپ کے نام یہ نامۂ محبت  طویل ہوتا گیا۔  طوالت پر معذرت خواہ ہوں۔

  حافظ ملت حضرت شاہ عبدالعزیز محدث مبارک پوری دائم الحضوری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر انوار پر حاضر ہو کر مجھ ناچیز کی جانب سے نیاز مندانہ سلام پہنچا دیں اور فاتحہ خوانی بھی فرما دیں۔ وہاں کے تمام علمی و تحقیقی احباب ذی وقار کی خدمت میں اس عاجز کا سلام محبت و عقیدت بھی ضرور پیش فرمائیں۔ اپنی دعاؤں اور نیک اداؤں میں ہمیشہ یاد رکھیں۔         والسلام مع الاکرام

گدائے کوئے مدینہ شریف

احقر سید صابر حسین شاہ بخاری قادری غفرلہ

برہان شریف ضلع اٹک پنجاب پاکستان

مختصر جواب

,وعلىكم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ

آپ کی خسروارنہ نوازشات سے میری گردن خمیدہ ہو گئی ہے بر وقت کچھ لکھنے سکت نہیں ہے ۔ ابھی حضور حافظ ملت قدس سرہ کا 25 دسمبر میں قل شریف ہے آپ کو خصوصی دعوت پیش کرتے ہیں تشریف لاکر شکریے کا موقع عنایت فرمائیں کرم بالاے کرم ہوگا باقی احوال اچھے ہیں۔

بروز اتوار بدایوں شریف عرس قادری میں شرکت کے لیے نکلنا ہے وہاں سے 13دسمبر کی شام تک مبارکپور واپس آنا ہے۔ خصوصی دعاؤں کا محتاج ۔۔۔۔احقر ۔مبارک حسین مصباحی عفی عنہ

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved