27 July, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia June 2023 Download:Click Here Views: 19777 Downloads: 842

(19)-صداے باز گشت

اشرفیہ کا نہایت ہی بے تابی سے منتظر رہتا ہوں

بملاحظہ گرامی محبی مخلصی ادیب شہیر  محقق بے نظیر مبارک العلما والفضلا حضرت علامہ مبارک حسین مصباحی صاحب زید مجدہ!

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!

 اللہ کرے آپ  مع الخیر ہوں   ، چند دنوں سے آپ کی جانب سے  مبارک نامہ آیا اور نہ ہی  مجلہ اشرفیہ کا شمارہ ، آپ کے نوازش ناموں اور اشرفیہ کا نہایت ہی بے تابی سے منتظر رہتا ہوں ۔

 اگرچہ بظاہر  کافی فاصلے ہیں لیکن آپ ہمارے دل کے بہت قریب رہتے ہیں ۔  اپنی خیریت سے ضرور آگاہ فرمائیں اور اپنے احوال سے مطلع فرمائیں ۔

 ماہ اشرفیہ مبارک پور کا مئی اور جون 2023ء کے شماروں کی پی ڈی ایف فائلیں ابھی تک نہیں ملیں ؟

 مہربانی فرما کر بھیج دیں تاکہ حسبِ روایت ان سے بھی مستفیض ہو سکوں ۔  تمام احباب محبت کی خدمت میں ناچیز ہیچ مدان کا نیاز مندانہ سلام ضرور پہنچائیں اور حضور  حافظ ملت شاہ عبدالعزیز محدث مبارک پوری دائم الحضوری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر انوار پر حاضر ہو کر ان کی بارگاہ میں بھی نیاز مندانہ سلام محبت پیش فرمائیں اور فقیر کی جانب سے فاتحہ خوانی بھی کروا دیں ۔

اللہ تعالیٰ اپنے محبوب حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل آپ کو صحت و سلامتی عطا فرمائے اور ہمیشہ شاد وآباد اور با مراد رکھے ۔ آمین ثم آمین ۔

والسلام مع الاکرام

گدائے کوئے مدینہ شریف

احقر سید صابر حسین شاہ بخاری قادری غفرلہ

مدیر اعلیٰ سہ ماہی مجلہ "خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم"

 (انٹر نیشنل)  برہان شریف ضلع اٹک پنجاب پاکستان

سند العلم والفضل شیخ طریقت سید صابر حسین شاہ بخاری قادری دامت برکا تم القدسیہ

و علیکم السلام ورحمۃ اللہ و بر کاتہ

کرم نامہ نظر نواز ہوا،دل و دماغ معطر و منور ہو گئے، واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر فضل وکرم کے دروازے کھول دیے ہیں۔ آپ ماشاء اللہ تعالیٰ جتنا اچھا سوچتے ہیں اس سےاچھا لکھتے اور بولتے ہیں۔ یہ تحفظ ناموس رسالت مآب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی برکت اور فیضان ہے ۔ مالک لوح و قلم نے آپ کے قلم میں حیرت انگیز برق رفتاری و د یعت فرما دی ہے ۔  اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو دین و سنیت کی عظیم خدمات کے لیے منتخب فرما لیتا ہے ۔

ہم نے آپ کے تعلق سے ماہنامہ اشرفیہ مبارک پور میں  جو قسط وار لکھنے کی سعادت حاصل کی تھی اس دوران آپ نے خوشخبری سنائی تھی کہ اسے ہم اپنے یہاں سے شائع کرادیں گے۔ اس تعلق سے ہمیں یہ عرض کرنا ہے کہ آپ کے ملک کی چند دیگر شخصیات پر بھی حسب استطاعت کچھ تحریر کیا تھا تو کیا ان سب کو ایک ساتھ جمع کر دوں یا صرف تنہا آپ کا ۔

باقی احوال بخیر و عافیت ہیں ،آپ نے ایک مکتوب میں تحریر فرمایا ہے کہ صاحب زادہ حضرت سید محمد نعمان شاہ بخاری دام ظلہ العالی اور بہو بیٹیاں بھی زخمی ہو گئے ہیں۔ پڑھ کر غم ہوا۔ اللہ تعالیٰ سب کو صحت وعافیت سے سرفراز فرمائے۔

آمین بجاه سیدالمرسلین علیہ الصلاة والتسلیم

بفضلہٖ تعالیٰ جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے باقی احوال  بہت بہتر ہیں۔                                        آپ کا اپنا۔۔طالبِ دعا

                                                                                                                                                    احقر مبارک حسین مصباحی غفرلہ

                                           ۸ جون ۲۰۲۳ء

ٹیپو سلطان کی تلوار

محترم مدیر! سلام و رحمت۔

کہتے ہیں کہ شرنگا پٹنم کی خون آشام جنگ میں ٹیپو سلطان کی شہادت کے ۔ بعد انگریزوں نے اپنے کتوں کا نام ٹیپو رکھنا شروع کیا تھا۔ اس اوچھی حرکت ہے سے وہ ٹیپو کی جانفشانی کے سبب ان کے دلوں پر قائم ہیبت اور سماج کے ذہن پر مرتب اثرات کو زائل کرنا چاہتے تھے۔ مشتاق احمد یسوفی اس تعلق سے لکھتے ہیں بر صغیر کے کتے ۲ سو سال تک سلطان شہید کے نام سے پکارے جاتے رہے۔ کچھ برگزیدہ شہید ایسے ہوتے ہیں جن کی آزمائش عقوبت مطہرہ اور شہادت عظمیٰ ان کی موت کے ساتھ ختم نہیں ہوتی۔ رب جلیل انہیں شہادت جاریہ سے سرفراز فرماتا ہے۔

یوسفی کی اس بات پر اب یقین ہونے لگا ہے کیونکہ جنگ آزادی میں جام شہادت نوش کرنے والے اولین اور سب سے روشن ناموں میں سے ایک ٹیپو سلطان اتنے سال بعد بھی جبر واستبداد پر یقین رکھنے والے طبقے کی لعن طعن کا شکار ہے۔ شاید طالب علموں کے لیے یہ بات حیران کن ہو کہ وہ جو جواں مردی کی علامت ہے جس نے ثابت قدمی کی مثال قائم کی اور جس کی موت سے قبل کہی گئی بات حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی اسے یوں بدنام و مطعون کرنے کا کیا مقصد ہو سکتا ہے؟ در اصل اسی سوال کے جواب میں ٹیپو کی بلکہ ہندوستان کی تاریخ پوشیدہ ہے۔ در اصل مغل حکومت کے زوال اور مہاراشٹر میں چھترپتی شیواجی کی وفات کے بعد ایک بار پھر ملک میں ”منوواد“ ( او نچ نیچ  اور ذات پات کا فلسفہ ) نے  سرابها رنا شروع کردیا تھا۔ شودروں یا اچھوتوں پر وہی ظالمانہ قواعد نافذ کیے جانے لگے جو مغلوں کی آمد سے قبل نافذ تھے۔ جنوبی ہند کے ایک حصے میں دلت خواتین کو قمیص پہنے کی اجازت نہیں تھی۔ اگر انہیں اپنا سینہ ڈھانکنا  ہو تو ٹیکس ادا کرنا پڑتا تھا۔ ٹیکس کے نفاذ کا پیمانہ اتنا غلیظ تھا کہ اس کا ضبط تحریر میں لانا بھی جرم ہے۔ ٹیپو نے جب اقتدار سنبھالا تو اس نے دیگر حکمرانوں کی طرح کسی مصلحت یا پالیسی کو اپنے تخت کی پائیداری کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ حق و باطل کے اصول کے تحت  جو اسے درست معلوم ہوا وہی کرتا گیا۔ اس نے فورا اس شرم ناک چلن کو ختم کروا دیا جس کی و جہ سے کئی اعلیٰ ذات کے حکمراں اور نام نہاد مذہبی پیشوا سلطان کے دشمن ہو گئے۔ ذاتوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو اس نے سخت سزائیں دینی شروع کیں۔

یہ وہ عوامل تھے جنہوں نے ٹیپو کے دربار کے اندر اور باہر ایسے عناصر پیدا کیے جو شرنگا پٹنم کی جنگ میں انگریزوں ک ساتھ دینے پر آمادہ ہوئے۔ یہ بات انگریز خود جانتے تھے کہ ٹیپو سلطان کو کسی قیمت پر شکست دینا ان کے بس میں نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیپو کی ریاست کو تین طرف سے (انگریز/ پیشوا/ نظام کے ذریعے) گھیر کر اس پر حملہ کیا گیا ،جب کہ چوتھی سمت ٹیپو اپنے گھر میں موجود دشمنوں سے گھرا ان طاقتوں سے لڑ رہا تھا۔ یہ کہنا بالکل غلط نہیں ہوگا کہ ٹیپو سلطان نے شرنگا پٹنم کی لڑائی اکیلے ہی لڑی تھی ۔ اس کے سارے اہم سردار تو انگریزوں کی طرف ہو گئے تھے۔ ٹیپو کو شکست ہوئی ، اس نے موت کو گلے لگا لیا لیکن رہتی دنیا تک کے لیے اپنے پیچھے یہ فلسفہ چھوڑ گیا کہ گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے ۔ ٹیپو شاید وہ واحد حکمراں ہے جس کا قول ہندوستان میں ضرب المثل کی طرح مشہور ہے جسے اسکولی بچوں سے لے کر سیاسی جغادریوں تک مقابلہ آرائی کے ہر مرحلے میں فخر یہ استعمال کرتے ہیں۔

ہندوستانی تاریخ میں غالبا وہ تنہا حکمراں ہے جس کی موت میدان جنگ میں لڑتے ہوئے اور ہاتھ میں تلوار لیے  ہوئے ہوئی۔ وہی تلوار جس کا آج سارے عالم میں چرچا ہے۔ تکنیکی طور شرنگا پٹنم کی لڑائی، جنگ آزادی کا ایک حصہ ہے لیکن اصل میں نسل پرستی اور انصاف پسندی کے درمیان مقابلہ تھا جس میں نسل پرستوں کے اتحاد نے سازشوں کے دم پر بیرونی طاقت کے ہاتھوں ایک انصاف پسند حکمراں اوراس کی ریاست کا خاتمہ کر دیا۔ عجیب اتفاق ہے کہ ایک بار پھر جب کہ نسل پرست طاقتیں اسی طرح اپنے طبقے کو برتر اور دیگر سماج کو غلام بنانے کی سازشوں پر عمل پیرا ہیں، ٹیپو سلطان دنیا بھر میں بحث کا موضوع ہے۔ شرنگا پٹنم میں ٹیپو کی موت کے بعد انگریزوں کے ذریعے ضبط کی گئی تلوار کو ۲۰۰۳ ء میں ڈیڑھ کروڑ میں فروخت کیا گیا تھا جب کہ ۲۰۲۳ء میں اس کے ۱۰۰ گنازیادہ دام لگائے گئے ہیں۔ حال ہی میں لندن کی ایک فرم نے اطلاع دی ہے کہ ٹیپو کی تلوار ۱۴۳ کروڑ میں نیلام کی گئی۔ یعنی ٹیپو کی جانبازی کی قیمت ہر دن بڑھ رہی ہے۔ شیر میسور کی حیثیت سے مشہور ٹیپو کی تلوار کے قبضے کا سرا شیر کے منہ کی شکل میں تھا اور اس کے ہتھے پر خدائے پاک و برتر کے ۵ نام (یا اللہ، یا فتاح، یا ناصر، یا حامی، یا معین ) درج ہیں۔ یہ پانچوں نام خدا کے مددگار ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔ اس تلوار نے نیلامی کے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ نو ادر اشیا کی نیلامی میں اتنے دام کبھی کسی شےکے نہیں لگائے گئے، یعنی اس وقت دنیا کی نوادرات میں ٹیپو سلطان کی تلوار سے قیمتی کوئی شے نہیں ہے۔ یہ خبر ایسے وقت میں آئی ہے جب زعفرانی منافرت کے علمبردار کرناٹک میں ٹیپو سلطان کا نام ونشان مٹانے کی قسمیں کھا رہے تھے۔            از: نادر- nadir@mid-day.com

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved