27 July, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia March 2023 Download:Click Here Views: 82168 Downloads: 3367

(1)-رمضان المبارک - چند مفید باتیں

مبارک حسین مصباحی

 

رمضان المبارک کا چاند دیکھنا و احب کفا یہ ہے ۔ اگر بستی میں  ایک دو لوگوں نے دیکھ لیا تو سب بری الذمہ ہوگئے اور کسی نے نہ دیکھا تو سب گنہگارہوئے ۔ رمضان کے روزے رکھنا ہر مسلمان بالغ عاقل پر فرض ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ(البقرۃ:۱۸۳)

اے مومنو! تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے تم سے پہلوں پر فرض کیے تا کہ تم تقویٰ شعار ہو جاؤ۔

اس آیت کریمہ سے تین باتیں معلوم ہوئیں :(۱)روزہ رکھنے کی فرضیت ، (۲)روزے پہلی امتوں پر بھی فرض کیےگئے تھے(۳) روزہ رکھنے کا مقصد تقویٰ شعار  ہو جانا ۔

 قرآن عظیم کی دیگر آیات اور احادیث نبویہ میں اس کی تفصیلات ہیں۔ فقہی کتابوں میں اس کے مسائل پر واضح ارشادات موجود ہیں جو جس مسلک کا مقلد ہے اسے اپنے مسلک کے مسائل پر عمل کرنا چاہیے ، حنفی ، شافعی ، حنبلی، یا مالکی ، سب مسالک اپنے اپنے طور پر حق اور سچ ہیں۔ ہم حنفی ہیں اس لیے فقہ حنفی کی روشنی میں گفتگو کریں گے۔ احادیث میں فضائل ومسائل بیان کیے گئے ہیں۔ ہم چند حدیثیں نقل کرتے ہیں:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ :” مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.“(اخرجه البخاري في الصحيح كتاب الصوم باب صوم رمضان احتساباً من الإيمان، 22/1 ،الرقم : 38 )

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھتا ہے اس کےسابقہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں ۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی صلی الہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے رمضان کے روزے رکھے اور ان کی حدود کو پہچانا اور جن کاموں کی حفاظت کرنا چاہیے تھی ان کی حفاظت کی تو یہ روزے اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ ہو جائیں گے ؟

( مسند احمد ، ج ۳،ص: 55 سنن بیہقی، ج:۲،ص : 304  )

بعض شارحین نے اگر چہ اختلاف کیا ہے مگر کثیر احادیث اور شارحین نے دلائل و شواہد سے تحریر فرمایا ہے  کہ اللہ تعالیٰ ارحم الراحمین ہے اس کے فضل و کرم سے نا امید نہیں بلکہ ہر لمحہ اسی کی عنایت اور سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شفاعت پر یقین کامل رکھنا چاہیے ، بروز حشر مومن اپنے عمل سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے نجات پائیں گے ۔

عَنْ أَنَسٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ ” تَسَحَّرُوا فَإِنَّ فِي السَّحُورِ بَرَكَةً “‏.‏

(جامع صحیح مسلم، باب فضل السحور و استحبابه و استحباب تاخيره وتعجيل الفطر)

 حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : سحری کھایا کرو کیوں کہ سحری کھانے میں برکت ہوتی ہے ۔

وَعَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَصْلُ مَا بَيْنَ صِيَامِنَا وَصِيَامِ أَهْلِ الْكِتَابِ أَكْلَةُ السَّحَرِ“ . ( جامع صحیح مسلم ، ايضًا ما سبق)

حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارے اور اہل کتاب کے روزے میں صرف سحری کھانے کا فرق ہے ۔

عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ ”لاَ يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ ‏“‏.

( جامع صحیح مسلم ، ايضًا ما سبق)

حضرت سبل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب تک لوگ افطار کرنے میں جلدی کرتے رہیں گے خیر پر رہیں گے ۔

ان احادیث کی روشنی میں سحری اور افطار کی فضیلت واضح ہوگئی ، تمام ائمۂ مذاہب اور فقہا کا اتفاق ہے کہ سحری کرنا مستحب اور بابرکت ہے۔ سحری کھانے سے روزہ رکھنے کی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے۔ سحری سے پہلے ایک مسلمان بسم اللہ پڑھے گا اور فراغت کے بعد اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتے ہوئے استغفار کرے گا ۔ سحری کرنا مسلمانوں کی خصوصیت ہے۔

ماقبل کی امتوں میں سحری کرنے کی اجازت نہیں تھی ، سحری کرنا بھی عبادت ہے۔ سحری کرنے سے اللہ تعالیٰ  کے حکم پر عمل ہے ، اس سے روزہ کرنے کی نیت تازہ ہو جاتی ہے ۔ ہم یہاں یہ عرض کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں میں روزہ داروں کے افطار کرانے میں بڑا دینی شوق  بیدار رہتا ہے ،یہ بلاشبہ حق ہے ،لوگوں کو افطار کرانا چاہیے ،مگر ہمارے بزرگ اپنے ساتھ سحری کرنے والوں کے بھی متلاشی رہتے تھے۔ ہم سب کو بھی چاہیے کہ ضرورت مندوں کو سحری کرانے کےلیے بھی بے چین رہیں، یہ بھی بڑی عبادت اور خیر و برکت کا باعث ہے۔

روزہ انتہائی اہم عبادت ہے۔ بحیثیت طب بھی اس کی بڑی ضرور ت ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی  ہے کہ اس کی جزا میں خود دوں  گا، یہ بارگاہ الٰہی میں اس کی اہمیت ظاہر کرتی ہے ۔ روزہ رکھنے کا بہ ظاہر ایک بڑافائدہ  یہ ہے کہ ایک دولت مند انسان اور پرتعیش زندگی گزارنے والا نہیں سمجھ پاتا کہ ایک غریب اور لاچار کی زندگی کیسی گزرتی ہے ۔ روزہ رکھنے کے بعد ایک دولت مند انسان کو بھی لاچار اور بے سہارا انسان کے زندگی گزارنے کا احساس پیدا ہو جاتا ہے اور وہ بھی بہ خوبی سمجھ لیتا ہے کہ ایک بھوکے اور نادار انسان کی زندگی کس طرح گزرتی ہے ۔ ایک دولت مند انسان کو یہ یقین ہوتا ہے کہ افطار کے وقت حسب منشا کھا پی کر افطار کر ے گا۔ اس سلسلے میں ہم سب کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے ۔ بڑے شہروں اور دولت مندوں میں حیرت انگیز افطار کی فراوانی رہتی ہے مگر مسنون طریقہ یہ ہے کہ پانی یا کھجور وغیرہ سے افطار کیا جائے اور اپنے ساتھ دیگر حضرات کو بھی شریک کرلے اور جو بچ جائے اسے غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم کرا دے، شریعت میں اس کی بڑی فضیلت ہے۔

روزہ دار کے لیے جنت کا دروازہ ریان ہوگا ، قرآن مجید میں روز ہ  کا مقصد تقویٰ بیان فرمایا ہے۔ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْن (البقرہ، آیت:۱۸۳) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا : التقوى ھٰهنا، تقویٰ یہاں ہے ۔ تقوی ٰدل کی اس کیفیت کا نام ہے جس کے حصول کے بعد انسان گناہ کرنے سے ڈرتا ہے۔ انسان کے دل میں اکثر خواہشات حیوانی کی زیادتی ہوتی ہے۔ روزہ رکھنے سے  یہ حیوانی  قوت کم ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے جو نوجوان مالی کمز وریوں کی وجہ سے نکاح نہیں کر سکتے اور ساتھ ہی نفسانی خواہشات پر قابو ہی نہیں رکھتے۔ ان کا علاج رسول اللہ صلی تعالیٰ علیہ وسلم نے روزہ بتایا ہے کہ شہوت تو ڑنے کے لیے یہ بہترین علاج  ہے ۔

حضرت سلمان رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کے آخری دن خطبہ دیا اس میں فرمایا: اے لوگو! تم پر عظیم مبارک مہینہ سایہ فگن ہوا ہے اس مہینہ میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے یہ وہ مہینہ ہے جس میں اللہ نے اس کے روزوں کو فرض قرار دیا ہے اور اس کی رات میں قیام کو نفل قرار دیا ہے، جس نے اس مہینہ میں کوئی نفلی نیکی کی وہ اس مہینہ کے علاوہ دوسرے مہینہ میں فرض ادا کرنے کی مثل ہے اور جس نے اس مہینہ میں کوئی فرض ادا کیا وہ اس مہینہ کے علاوہ دوسرے مہینہ میں ستر فرض ادا کرنے کی مثل ہے، یہ صبر کرنے کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے اور یہ غم خواری کرنے کا مہینہ ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں مؤمن کا رزق زیادہ کر دیا جاتا ہے، جس نے کسی روزہ دار کو روزہ افطار کرایا تو یہ اس کے گناہوں کی مغفرت ہے اور اس کی گردن کی دوزخ سے آزادی ہے اور اس کو بھی روزہ دار کے اجر کی مثل اجر ملے گا اور روزہ دار کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔ صحابہ نے کہا: یارسول اللہ ! ہم میں سے ہر شخص روزہ دار کو روزہ افطار کرانے کی وسعت نہیں رکھتا، تو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ یہ اجر اس کو بھی عطا فرمائے گا جو روزہ دار کو ایک کھجور سے روزہ افطار کرا دے یا پانی کے ایک گھونٹ سے روزہ افطار کرا دے یا تھوڑے سے پانی ملے دودھ سے روزہ افطار کرا دے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس کے اول میں رحمت ہے اور جس کے اوسط میں مغفرت ہے اور جس کے آخر میں دوزخ سے آزادی ہے، جس نے اس مہینہ میں اپنے غلام (یا نوکر) کے کام میں تخفیف کی اللہ اس کی مغفرت فرما دے گا اور اس کو دوزخ سے آزاد کر دے گا۔ اس مہینہ میں چار کام بہ کثرت کرو: دو کام تو ایسے ہیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کرو گے اور دو کام ایسے ہیں جن کے بغیر تمہارے لیے کوئی چارہ کار نہیں وہ کام جن سے تم اپنے رب کو راضی کرو گے وہ یہ ہیں کہ تم یہ گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں اور تم اللہ سے مغفرت طلب کرو اور رہے وہ دو کام جن کے بغیر تمہارے لیے کوئی چارہ کار نہیں وہ یہ ہیں کہ تم اللہ سے جنت کا سوال کرو اور اللہ سے دوزخ سے پناہ طلب کرو۔ اور جس نے کسی روزہ دار کو پانی پلایا اللہ اس کو میرے حوض سے ایسا پانی پلائے گا جس سے وہ (کبھی) پیاسا نہیں ہو گا حتیٰ کہ جنت میں داخل ہو جائے گا۔(صحیح ابن خزیمہ: ۱۸۸۷ شعب الایمان : ۱۳۶۰۸ الترغيب والترهيب للاصبہائی: ۱۷۲۶ الترغيب والترهيب للمنذری : ۱۳۶۲ دار ابن کثیر بیروت ۵۳۱۳)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ  تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: تین آدمیوں کی دعا مسترد نہیں ہوتی:

(1) جب روزہ دار روزہ افطار کرتا ہے (۲) امام عادل (۳) مظلوم کی دعا۔ اللہ اس کے اوپر سے بادل بنا دیتا ہے اور اس کے لیے آسمان کے دروازے) کھول دیے جاتے ہیں اور رب فرماتا ہے: میری عزت اور جلال کی قسم ! میں تیری ضرور مدد کروں گا خواہ کچھ وقت کے بعد ۔ (سنن ترندی : ۳۵۹۸ اس کی سند حسن ہے، سنن ابن ماجہ: ۱۷۵۲ صحیح ابن خزیمہ : ۱۹۰۱ صحیح ابن حبان : ۲۲۱۹، مسند احمد ج ۲ ص ۱۳۴۵)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ایک دن اللہ کی راہ میں روزہ رکھا اللہ اس کے چہرہ کو ستر سال کی مسافت تک دوز خ سے دور کر دیتا ہے۔

(سنن ترندی: ۱۶۶۲ سنن نسائی: ۲۲۴۳ سنن ابن ماجہ: ۱۷۱۸ اس کی سند حسن ہے )

ہم بخاری شریف کی ایک حدیث پیش کرتے ہیں:

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِي سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، أَنَّ أَعْرَابِيًّا، جَاءَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ثَائِرَ الرَّأْسِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخْبِرْنِي مَاذَا فَرَضَ اللَّهُ عَلَىَّ مِنَ الصَّلاَةِ فَقَالَ ‏"‏ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ، إِلاَّ أَنْ تَطَّوَّعَ شَيْئًا ‏"‏‏.‏ فَقَالَ أَخْبِرْنِي مَا فَرَضَ اللَّهُ عَلَىَّ مِنَ الصِّيَامِ فَقَالَ ‏"‏ شَهْرَ رَمَضَانَ، إِلاَّ أَنْ تَطَّوَّعَ شَيْئًا ‏"‏‏.‏ فَقَالَ أَخْبِرْنِي بِمَا فَرَضَ اللَّهُ عَلَىَّ مِنَ الزَّكَاةِ فَقَالَ فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم شَرَائِعَ الإِسْلاَمِ‏.‏ قَالَ وَالَّذِي أَكْرَمَكَ لاَ أَتَطَوَّعُ شَيْئًا، وَلاَ أَنْقُصُ مِمَّا فَرَضَ اللَّهُ عَلَىَّ شَيْئًا‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أَفْلَحَ إِنْ صَدَقَ، أَوْ دَخَلَ الْجَنَّةَ إِنْ صَدَقَ ‏"‏‏.‏

قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، ان سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا ، ان سے ابوسہیل نے ، ان سے ان کے والد مالک نے اور ان سے طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ نے کہ ایک اعرابی پریشان حال بال بکھرے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس نے پوچھا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! بتائیے مجھ پر اللہ تعالیٰ نے کتنی نمازیں فرض کی ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانچ نمازیں ، یہ اور بات ہے کہ تم اپنی طرف سے نفل پڑھ لو ، پھر اس نے کہا بتائیے اللہ تعالیٰ نے مجھ پرر وزے کتنے فرض کئے ہیں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رمضان کے مہینے کے ، یہ اور بات ہے کہ تم خود اپنے طور پر کچھ نفلی روزے اور بھی رکھ لو ، پھر اس نے پوچھا اور بتائیے زکوٰۃ کس طرح مجھ پر اللہ تعالیٰ نے فرض کی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے یہ بھی بتا دیا ۔ جب اس اعرابی نے کہا اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عزت دی نہ میں اس میں اس سے جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر فرض کر دیا ہے کچھ بڑھاؤں گا اور نہ گھٹاؤں گا ، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،اگر اس نے سچ کہا ہے تو یہ مراد کو پہنچایا ۔(یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ ) اگر سچ کہا ہے تو جنت میں جائے گا ۔

حدیث نبوی میں صومِ دہر یعنی ہر دن روزہ رکھنے کی اجازت نہیں ہے ،بہتر یہ ہے کہ مہینے میں تین روزے رکھے جائیں، کیوں نکہ ایک نیکی کا دس گنا اجر ملتا ہے،اور اگر اس سے زیادہ طاقت تو صومِ داؤدی رکھنا چاہیے ۔حضرت داؤد علیہ السلام کا عمل اسی پر تھا۔

شب قدر کی بھی بڑی فضیلت ہے ،ایک رات کی عبادت ایک ہزار ماہ سے زیادہ کی عبادت سے زیادہ فضیلت رکھتی ہے ۔ یہ کون سی رات ہے اس میں اختلاف ہے مگر جمہورکا مسلک یہ ہے کہ یہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں کسی رات ہوتی ہے ۔ آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

” مَنْ قَامَ لَيْلَةُ الْقَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.“(اخرجه البخاري في الصحيح ج:۱، ص:۲۷۰، اصح المطابع کراچی )

”  جس شخص نے شب قدر میں ایمان کے ساتھ اجر و ثواب کی نیت سے قیام کیا اس کے پچھلے گنا ہوں کو معاف کر دیا جائے گا۔ “

شب قدر در اصل اس امت پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل و انعام ہے ۔ ایک ہی شب ایک ہزار ماہ سے زیادہ کی فضیلت رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ  ہم سب اس انعام کے حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

مستطیع یعنی جس کے پاس ایک برس تک ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا یا ان کی مقداراس کے پاس مال نامی ہو اس پر زکوٰۃ فرض ہو جاتی ہے۔ اسی طرح بالغ اور نا بالغ کی جانب سے سالانہ فطرہ ادا کیا جاتا ہے ۔ ان کی ادائیگی کے لیے غیر مستطیع افراد کو تلاش کرنا مشکل ہوتا ہے ۔ مدارس اہل سنت بھی حیلۂ شرعی کے بعد اس کے مستحق ہوتے ہیں ۔ یہ مسائل تو قدیم ہیں مگر عام طور پر ان کا نفاذ نہیں تھا، مبارک باد کے مستحق ہیں حضور حافظ ملت علامہ شاه عبد العزیز محدث مراد آبادی قدس سرہ کہ آپ نے اس کو رواج دیا ۔ ابتدا میں مشکلات پیش آئیں مگر بعد میں کامیابی مل گئی۔رضان المبارک میں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے کثیر اجر عطا فرماتا ہے، اس لیے عام طور پر زکاۃ اس ماہ میں نکالتے ہیں۔

شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ نے تحریر فرمایا ہے:

” دین و علم کی بقا تعلیم دین سے وابسطہ ہے اور اسی سے مسلمانوں کا دینی وملی تشخص بھی متعلق ہے۔ اس لیے مدارس کے لیے حافظ ملت نے حیلہ شرعی کو رواج دیا کہ زکوٰۃ اور فطرے کی رقوم حیلۂ شرعی کر کے مدارس پر صرف کی جائیں ۔ ابتدا میں بڑی دشواریاں پیش آئیں ۔ لیکن حافظِ ملت کی فہم و تفہیم اور ترغیب کی بدولت آج ہر صاحب نصاب اپنی زکات اور فطرہ کا بہترین مصرف مدارس اسلا میہ کو سمجھ رہا ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ دینی مدارس کے لیے سرمایہ کی فراہمی میں بہت آسانی ہوگئی تھی حتی کہ آج یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ آج سب سے آسان کام مدرسہ قائم کرنا اور چلانا ہے۔“ ( حافظ ملت افکار اور کارنا ہے )

اس پس منظر میں ہم عرض کرتے ہیں کہ مسلمانوں پر جو رمضان المبارک کے روزے فرض کیے گئے ہیں انھیں پابندی سے رکھیں۔ عاشورۂ محرم کا اور اور دیگر نوافل روزوں کا اہتمام بھی ہونا چاہیے ، اور صومِ وصال رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خصو صیت ہے، امت کو اس کے رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس سے یہ یقین ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہم جیسے بشر نہیں ۔جن لوگوں نے اپنا یہ عقیدہ بنا رکھا ہے انھیں توبہ واستغفار کر کے پھر سے باضابطہ مسلمان ہونا چاہیے۔ زکات اور فطرہ مستطیع حضرات پر فرض و واجب ہیں، مستحقین  اگر نہ مل سکیں تو انھیں مدارس میں دینا چاہیے تا کہ حیلۂ شرعی کے بعد مدارس میں خر چ ہو سکیں ، تمام مدارس جو شرعی طور پر چل رہے ہیں انھیں دینا چاہیے،مگر جامعہ اشرفیہ مبارک  پور دیگر مدارس کے مقابل بڑا ہے اور اس کی ضرورتیں بھی زیادہ ہیں اگر آپ کے یہاں محصلین پہنچتے ہیں تو بہتر ہے ورنہ رسالے کی پشت پر الیکٹرانک ذرائع نوٹ ہیں ان کے ذریعے بھی آپ تعاون کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو دارین کی سعادتوں سے سرفراز فرمائے۔ آمین

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved