مولانا حبیب اللہ ازہری
اللہ وحد لا شریک کا ارشاد ہے:
مَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِيْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ١ؕ وَ اللّٰهُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ۰۰۲۶۱ ۔[سورۂ بقرہ: ٢٦١]
یعنی جو لوگ اپنا مال راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں ان کے خرچ کی مثال اس دانے کی سی ہے جس نے سات خوشے اگائے، جس کے ہر خوشے میں سو دانے ہیں، اور اللہ جس کو چاہتاہے مزید عطا فرماتا ہے، اللہ وسعت وعلم والا ہے۔
نیکی کوئی بھی ہو باعث اجر وثواب ہوا کرتی ہے، جب بھی کوئی بندہ نیک کام کرتا ہے اس کو دس گونا ثواب دیا جاتا ہے، سورۂ انعام میں ہے:
مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْرُاَمْثَالِهَا١ۚ وَمَنْ جَآءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزٰۤى اِلَّا مِثْلَهَا وَ هُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ۔
[ سورۂ انعام: ١٦٠]
جو ایک نیکی کرے اس کے لیے دس نیکیوں کے مثل ثواب ہے، اور جو ایک گناہ کرے اس کو ایک ہی گناہ کی سزا دی جائے گی، اور اس پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔
اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ در منثور میں بیان فرماتے ہیں کہ ابو یعلی نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:
مَن هَمَّ بِحَسَنَةٍ فَلَمْ يَعْمَلها كُتِبَتْ لَهُ حَسَنَةً، فَإنْ عَمِلَها كُتِبَتْ لَهُ عَشْرًا، ومَن هَمَّ بِسَيِّئَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْها لَمْ يُكْتَبْ عَلَيْهِ شَيْءٌ، فَإنْ عَمِلَها كُتِبَتْ عَلَيْهِ سَيِّئَةً.
یعنی جو نیک کام کرنے کا ارادہ کرے تو نیکی کرنے سے پہلے ہی اس کے اعمال نامے میں ایک نیکی لکھ دی جائے گی، اور اگر وہ نیک کام کرلے تو اس کے اعمال نامے میں دس نیکیاں لکھی جائیں گی، اور اگر کوئی گناہ کا قصد کرے تو گناہ کے ارادے پر اس کے اعمال نامے میں کوئی گناہ درج نہیں ہوگا، اور اگر وہ گناہ کر بیٹھے تو اس کے اعمال نامے میں صرف ایک گناہ لکھا جائے گا۔
دوسری روایت میں ہے کہ اگر بندہ توبہ کرلے تو اللہ اس ایک گناہ کو بھی معاف فرمادےگا۔
اللہ عزوجل کا اپنے بندوں پر خصوصی کرم دیکھیں کہ اولاً انھیں نیکیوں کی توفیق دیتا ہے، پھر ان نیکیوں کو قبول فرماتا ہے، اور قبولیت بھی ایسی کہ ہر نیکی پر دس نیکیوں کا ثواب مرحمت فرماتا ہے، اور بعض نیکیاں وہ ہیں جن پر اس سے بھی زیادہ ثواب عطا فرماتا ہے، چناں چہ راہ خدا میں خرچ کرنے کے حوالے سے فرمایا:
مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضٰعِفَهٗ لَهٗۤ اَضْعَافًا كَثِيْرَةً۔[سورۂ بقرہ: ٢٤٥]
کون ہے جو اللہ کو قرض حسن دے؟ جو اللہ کو قرض حسن دے گا اللہ اسے کئی گنا اضافے کے ساتھ عطا فرمائے گا۔
یعنی جو راہ خدا میں خرچ کرتا ہے وہ اپنا مال اللہ کے حضور محفوظ کرلیتا ہے، اور قیامت کے دن جب اللہ اپنے بندے کو اس کا مال عطا فرمائے گا تو کئی گنا اضافے کے ساتھ عطا فرمائے گا، رہی یہ بات کہ کتنا اضافہ کرے گا تو اس کو دوسرے مقام پر کامل وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا، ارشاد باری ہے:
مَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِيْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ١ؕ وَ اللّٰهُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ۔ [سورۂ بقرہ: ٢٦١]
یعنی جو لوگ اپنا مال راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس کاشت کار کی سی ہے جو زمین میں ایک دانہ بوتا ہے، اس سے سات بالیاں نکلتی ہیں، ہر بالی میں سو دانے ہوتے ہیں، اس طرح ایک دانے سے سو دانے بن جاتے ہیں، پروردگار عالم نے جس طرح ایک دانے سے سو دانے برآمد کیے، بالکل اسی طرح راہ خدا میں ایک روپے خرچ کرنے پر سات سو روپے خرچ کرنے کا ثواب عطا فرماتا ہے، اور اللہ جس کو چاہتا ہے مزید سے مزید تر عطا فرماتا ہے، اس لیے کہ اس کے فضل وکرم کی کوئی انتہا نہیں، اور اسے ہر شی کا علم ہے۔
قرآن کریم کی اس آیت کا واضح مطلب یہی ہے کہ راہ خدا میں خرچ کرنا ایک ایسی نیکی ہے جس پر صرف دس گنا نہیں، بلکہ سات سو گنا زیادہ ثواب دیا جاتا ہے، اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ نوازشات کا یہ سلسلہ سات سو پر آکر نہیں رکتا، بلکہ جس قدر اخلاص میں اضافہ ہوگا اسی قدر اجر وثواب میں برکت ہوگی۔
قرآن مجید نے انفاق فی سبیل اللہ کے ثواب کو ایک عظیم مثال کے ذریعے واضح فرمایا، تاکہ بندوں کو اس بات کا علم ہوسکے کہ جس طرح ایک دانے سے سات سو دانوں کی برآمدگی کے لیے بہت سے مراحل ہوتے ہیں بالکل اسی طرح ایک روپے کے صدقے کے عوض سات سو نیکیاں کمانے کے لیے بھی بہت سے مراحل، آدابِ اور تقاضے ہوتے ہیں، جب تک ان تقاضوں کو پورا نہ کیا جائے ان کے صدقات نتیجہ خیز اور ثمربار نہیں ہوسکتے۔
قرآن کریم کی بیان کردہ مثال اور راہ خدا میں خرچ کیے جانے والے مال پر غور کرنے کے بعد جو نتائج سامنے آتے ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں۔
1- اگر کوئی کاشت کار اپنے پاس دو دانے محفوظ رکھے تو وہ ایک مدت کے بعد بڑھ کر چار نہیں ہوسکتے، ہاں اگر انھیں زمین میں دفن کردے تو اس سے پودے نکلیں گے اور بار آور ہوں گے، بالکل اسی طرح اگر کوئی اپنے پاس مال محفوظ رکھے، اور صدقے کی نیت کرلے تو اسے نیت کا ثواب تو مل سکتا ہے، لیکن وہ سات سو گنا ثواب کا حق دار نہیں ہوسکتا، ہاں اگر وہ اپنا مال راہ خدا میں خرچ کردے تو اب ثواب کی امید کی جاسکتی ہے۔
2 -اگر کوئی دانہ زمین میں بودے، لیکن زمین ہی بنجر ہو تو اس سے کوئی کونپل نہیں نکل سکتی، بالکل اسی طرح اگر کوئی کار خیر میں خرچ کردے، اور اس کے دل میں ایمان ہی نہ ہو تو وہ سات سو گنا ثواب کا مستحق نہیں ہوسکتا، حضرت حق سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے:
وَ قَدِمْنَاۤ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰهُ هَبَآءً مَّنْثُوْرًا۔
[سورۂ فرقان: ٢٣]
یعنی پھر ہم ان کے اعمال کا قصد کریں گے، اور انھیں منتشر غبار کے مانند کر چھوڑیں گے۔
ایک دوسرے مقام پر فرمایا:
وَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍۭ بِقِيْعَةٍ يَّحْسَبُهُ الظَّمْاٰنُ مَآءً١ؕ حَتّٰۤى اِذَا جَآءَهٗ لَمْ يَجِدْهُ شَيْـًٔا وَّ وَجَدَ اللّٰهَ عِنْدَهٗ فَوَفّٰىهُ حِسَابَهٗ١ؕ وَ اللّٰهُ سَرِيْعُ الْحِسَابِ۔[سورۂ نور:۳۹]
قیامت کے دن کفار کے اعمال چٹیل میدان کی سراب کے مانند ہوں گے، جس کو پیاسا پانی گمان کرتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس جائے گا تو کچھ نہیں پائے گا، وہاں اللہ کو پائے گا جو اس سے پورا حساب لے گا، اور اللہ جلد حساب فرمانے والا ہے۔
3 -اگر کوئی قابل کاشت زمین میں دانہ دبادے، لیکن وہ دانہ ہی خراب ہو تو اس سے کوئی پودا برآمد نہیں ہوسکتا، بالکل اسی طرح اگر کوئی مسلمان راہ خدا میں خرچ کردے، لیکن وہ مال حرام اور ناجائز کمائی کا ہو تو بارگاہ الٰہی میں مقبول نہیں ہوسکتا، اور اس پر کسی بھی قسم کا ثواب مرتب نہیں ہوسکتا، رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إنَّ اللهَ طيِّبٌ لا يقبل إلا طيِّبًا۔ [صحیح مسلم]
یعنی اللہ طیب ہے، وہ حلال و طیب ہی کو قبول فرماتا ہے۔
4-اگر کوئی کاشت کار زمین میں دانہ دبادے، زمین بھی درست ہو اور دانہ بھی صحیح ہو، لیکن اس دانے کو مناسب مقدار میں پانی اور دیگر ضروری اشیا فراہم نہ ہوں تو اس دانے سے کوئی پودا تیار نہیں ہوسکتا، بالکل اسی طرح اگر کوئی مسلمان اپنا حلال وطیب مال راہ خدا میں خرچ کرے، اور اس مال میں خلوص وللہیت کا خمیر اور خشیت ورجا کے آنسو شامل نہ ہوں تو خاطر خواہ نتائج اور بھر پور ثواب کی توقع نہیں کی جاسکتی، اللہ رب العزت اپنے نیک بندوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:
اِنَّ الَّذِيْنَ هُمْ مِّنْ خَشْيَةِ رَبِّهِمْ مُّشْفِقُوْنَۙ۰۰۵۷ وَ الَّذِيْنَ هُمْ بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُوْنَۙ۰۰۵۸ وَ الَّذِيْنَ هُمْ بِرَبِّهِمْ لَا يُشْرِكُوْنَۙ۰۰۵۹ وَ الَّذِيْنَ يُؤْتُوْنَ مَاۤ اٰتَوْا وَّ قُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَنَّهُمْ اِلٰى رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَۙ۰۰۶۰ اُولٰٓىِٕكَ يُسٰرِعُوْنَ فِي الْخَيْرٰتِ وَ هُمْ لَهَا سٰبِقُوْنَ۰۰۶۱ ۔ [ سورۂ مومنون: ٦٠]
یعنی اللہ کے محبوب ومقرب بندے وہ ہیں جو اپنے رب سے خائف ہوتے ہیں، جو اپنے رب کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں، جو اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے، اور جب وہ راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں توان کے دل اس بات سے خوف زدہ ہوتے ہیں کہ انھیں خدا کے حضور حاضر ہونا ہے، اور اس بات سے بھی خائف ہوتے ہیں کہ کہیں ان کے صدقات مردود نہ ہوجائیں، یہی لوگ نیکیوں میں جلدی کرتے ہیں اور دوسروں پر سبقت لے جاتے ہیں۔
5 - اگر کوئی کاشت کار پودا لگائے، اور مضر اثرات اور تباہ کن جراثیم سے اس کی حفاظت نہ کرے تو اس کے ہرے بھرے پودوں میں کیڑے پڑ جائیں گے، اور اس کی ساری محنت رائیگاں چلی جائے گی، بالکل اسی طرح اگر کوئی مسلمان اپنا حلال وطیب مال راہ خدا میں خرچ کرے اور اس میں ریا کاری کا دخل ہو، یا خلوص کے ساتھ خرچ کرنےکے بعد احسان جتادے تو وہ صدقہ باطل ومردود ہوجائے گا، اور ایسا شخص عذاب نار کا مستحق قرار پائے گا، ارشاد باری ہے:
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰى ١ۙ كَالَّذِيْ يُنْفِقُ مَالَهٗ رِئَآءَ النَّاسِ وَ لَا يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ الْيَوْمِ الْاٰخِرِ١ؕ فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَاَصَابَهٗ وَابِلٌ فَتَرَكَهٗ صَلْدًا١ؕ لَا يَقْدِرُوْنَ عَلٰى شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُوْا١ؕ وَ اللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ۔ [سورۂ بقرہ: ٢٦٤]
یعنی اے ایمان والو! اپنے صدقات کو احسان جتاکر اور ایذا پہنچا کر برباد نہ کرو، اس منافق کی طرح جو دکھاوے کے لیے خرچ کرتا ہے، جو اللہ اور روز اخیر پر ایمان نہیں رکھتا، اس کی مثال اس ہموار چٹان کی سی ہے جس پر مٹی پڑی تھی، اس پر زور دار بارش ہوئی تو اسے صاف بناکر چھوڑ گئی، یہ لوگ اپنے عمل کا کچھ بھی ثواب نہیں پائیں گے، اللہ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا۔
جس طرح بارش کے بعد چٹان پر مٹی باقی نہیں رہتی بالکل اسی طرح ریاکاری کے بعد اعمال نامے میں کوئی نیکی نہیں رہتی، لہٰذا ریاکاری میں ملوث ہوکر اپنے صدقات کو برباد نہ کرو۔
6 - ایک کاشت کار پیداوار کے لائق زمین میں عمدہ دانہ بونے کے بعد زمین کو سیراب کرتا ہے، اور اس کی ہر ممکن طریقے سے حفاظت کرتا ہے، فصل تیار ہونے کی متعینہ مدت گزر جانے کے بعد ہی ایک دانے کے بطن سے سیکڑوں دانے بر آمد ہونے کی امید کرتا ہے، بالکل اسی طرح بندۂ مومن کے صدقات کے اجر وثواب کا ایک وقت مقرر ہے، اور وہ ہے روز آخرت، بندے کو چاہیے کہ روز آخرت کا انتظار کرے، اور اپنے رب سے بھر پور اجر وثواب کی امید رکھے۔
7 -زمین زیادہ اچھی ہو، اور دانوں میں قوت بھر پور ہو، تو فصل بھی اچھی ہوگی، اور غلہ بھی زیادہ ہوگا، بالکل اسی طرح صدقہ دینے والے مسلمان کا ایمان مستحکم ہو، اور اخلاص بھی غیر معمولی ہو تو ثواب سات سو گنے سے زیادہ ہوسکتا ہے، ارشاد فرمایا:
وَ اللّٰهُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَآءُ ۔
قرآنی آیات کے تتمہ کی ایک اہم خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس میں پوری آیت کا خلاصہ مضمر ہوتا ہے، کچھ یہی اعجاز پیش نظر آیت میں بھی نظر آتا ہے، وہ اس طور پر کہ ایک نیکی پر سات سو گنا ثواب عطا کرنے کے لیے بے انتہا وسعت وفراخی درکار ہے، اور علی حسب الاخلاص ثواب میں اضافے کے لیے علم وآگہی ضروری ہے، قرآن کریم اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:
وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ۔
اللہ وسعت وعلم والا ہے۔
یعنی وہ ہر بندہ ٔمومن کو حسب وعدہ سات سو گنا اضافے کے ساتھ ثواب عطا فرمائے گا، کیونکہ اس کے پاس بے انتہا وسعت ہے، اور جس میں خلوص وللہیت زیادہ ہوگی اس کے ثواب میں اضافہ فرمائے گا، کیوں کہ اسے ہر ایک کے اخلاص کا علم ہے۔
یہ ہے اس آیت کی تمثیل میں پوشیدہ بعض اسرار ورموز، اللہ تعالیٰ ہم سب کو خلوص وللہیت کے ساتھ اپنی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین۔
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org