27 July, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia June 2023 Download:Click Here Views: 19813 Downloads: 842

(10)-مسلم لڑکیاں اورغیرمسلموں سےشادیاں ایک اصلاحی جائزہ

بزمِ دانش میں آپ ہر ماہ بدلتے حالات اور ابھرتے مسائل پر فکر و بصیرت سے لبریز نگارشات پڑھ رہے ہیں۔  ہم اربابِ قلم اور علماے اسلام کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ دیے گئے موضوعات پر اپنی گراں قدر اور جامع تحریریں ارسال فرمائیں۔  غیر معیاری اور تاخیر سے موصول ہونے والی تحریروں کی اشاعت سے ہم قبل از وقت معذرت خواہ ہیں۔          از :مبارک حسین مصباحی

جولائی ۲۰۲۳ کا عنوان                    ہمارے ملک کی جمہوری قدریں

اگست ۲۰۲۳ کا عنوان                    شاعروں اور مقرروں کا متعین اوقات کی اجرت طے کرنا— شرعی نقطۂ نظر

فتنۂ ارتداد اور ہماری ذمہ داریاں

از: محسن رضا ضیائی

موجودہ وقت میں اُمّتِ مسلمہ جہاں تعلیمی،سماجی،معاشی اور ملکی مسائل اور چیلنجز سے دوچارہے وہیں کئی طرح کے شرور و فِتن سے بھی نبردآزما ہے۔مسائل کی اِس قدر بہتات و کثرت ہے کہ کبھی ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ اور رہے شرور و فتن تو وہ ہر آئے دن نت نئی شکلوں اور مختلف صورتوں میں نمودار ہورہے ہیں اور سادہ لوح لوگوں کے ساتھ ساتھ اب تو تعلیم و ترقی یافتہ لوگوں کو بھی اپنے دامِ تزویر میں پھنسارہے ہیں۔ اِن میں خاص طور سے قابلِ ذکر فتنۂ ارتداد ہے،جو اِن دنوں بہت زیادہ مستعد و سر گرمِ عمل ہے۔یہ مکمل طور پر اپنے بال و پر پھیلا چکا ہے اور اب تک ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے اور ابھی بھی ہزاروں لوگ اِس کے دہانے پر ہیں۔خاص طور سے مسلم بچیوں اور عورتوں کو جھوٹی محبت کے جال میں پھنسا کر نہ صرف ان کا ایمان و عقیدہ تباہ و برباد کیا جارہاہےبلکہ ان کی عصمت و ناموس کو بھی تار تار کیا جارہاہے،جو ہمارے لیے بہت ہی زیادہ فکر وتشویش کا باعث ہے۔

ملک کے حالات کاطائرانہ جائزہ لینے سے یہ بات نہایت ہی اعتماد و وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ بیسوی صدی کے اوائل اور اس کے نصف میں اُٹھنے والی ’’شدھی تحریک ‘‘ نے پھر سے سرابھارا ہے یا پھر اسی کی کوکھ سے اِس’’فتنۂ ارتداد کا ناجائز جنم ہوا ہے ،جو اسی کے باطل افکاروخیالات اورشدت پسند نظریات کو اپنائے ہوئے ہے۔

اب ضرورت ہےکہ اِس فتنہ کی سرکوبی کے لیے علماو دانشورانِ  اہلِ سنت کمربستہ ہوجائیں اور جس طرح بیسویں صدی کے نصف میں شہزادۂ اعلیٰ حضرت حضور مفتی اعظم ہند اور دیگر علما و مشائخِ اہلِ سنت نے ’’شدھی تحریک‘‘ کو اپنی دعوت و تبلیغ، حکمت و موعظت اور قلم و قرطاس کے ذریعےعوام و خواص کے سامنے طشت ازبام اور واشگاف کیا تھا اور اس کے استیصال و انسداد میں ناقابلِ فراموش کارنامہ انجام دیا تھا،آج ہمیں بھی اپنے اکابر و اسلاف کے طریقۂ کار اور ان کے نقوشِ راہ پر چلتے ہوئے اِس فتنۂ عظیم کے خاتمہ کے لیے جد و جہد اور تگ و دوکرتے رہنا چاہیے۔

خیال رہے کہ یہ سب کھیل اور تماشا اسلام کو پے در پے نقصان پہنچانے اور اس کی جڑوں کو کمزور کے لیے رچا گیاہے ،جس کے لیے انہوں نے بنتِ حوا کو نشانہ بنایاہے ،تاکہ وہ اُس کے ذریعہ اسلام کو دنیا بھر میں بدنام کرکے اس کی شبیہ کو داغ دار کرسکیں ۔ایسے فتنوں اور سازشوں کے دور میں اب ہماری ذمہ داریاں مزید بڑھ جاتی ہیں کہ ہم دفاع و تحفظِ اسلام کے لیے باہم شیر و شکر ہوکراُٹھ کھڑے ہوں اور اپنی بہن بیٹیوں کو اِن منصوبہ بند اور گھنونی سازشوں کا شکار ہونے سے بچائیں۔کیوں کہ بہن بیٹیاں خاندان کی زینت، گھروں کی رونق اور والدین کے آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتی ہیں،انہیں غیروں کالقمۂ ہوس نہ بننے دیں۔

اسلام میں عورت کا مقام و مرتبہ:

یاد رکھیں کہ اسلام میں عورت کو ایک اہم اور بلند مقام حاصل ہے،بلکہ قرآن و احادیث اس کے فضائل و مراتب کے شاہدِ عدل ہیں۔ توالد و تناسل اور افزائش نسل کے لا متناہی سلسلے کا انحصار بھی اسی پر مرکوز ہے۔دنیا میں یہی ایک ایسی ہستی ہے جس کے وجود سے قوم و نسل کادوام وبقا ہے ۔یہ محض مردانہ جنسی اشتہا کی تسکین ہی نہیں بلکہ فروغ انسانیت کا عظیم سبب بھی ہے۔ اسی لیے ہر لحاظ سے عورت کا مقام و مرتبہ نہایت ہی بلند و بالا ہے ،جس سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔

اللہ تعالیٰ نے اسے از روئے مقام مختلف شکلیں عطا فرمایا ہے، کہیں وہ ماں ، دای،نانی،پھوپھی،خالہ اور چچی کا کردار ادا کرتی ہے تو وہیں بہن ،بیٹی ،بہو اور ساس کا بھی روپ دھارن کرلیتی ہے۔اِس ہمہ جہت کردار کی ملکہ کورسول اللہ ﷺ نے ’’الجنۃ تحت اقدام الامہات‘‘کا تمغۂ  امتیازاعطا فرماکر اس کو ایک عظیم مقام و مرتبہ کا حق دار بنایا۔اس کے علاوہ اسے یکساں حقوق و مراعات بھی فراہم کیا،یہ تو اسلام ہے،جس نے نے عورت کو اتنےمراتب و مناصب عطا کیے ہیں،ورنہ تو دنیا کے دیگر مذاہب میں اسے یکسر طور پر محروم رکھا گیا ہے۔اِن سب کے باوجود اب اگر کوئی مسلم خاتون یا بچی دامنِ اسلام کو چھوڑ کر غیروں کے چنگل میں گئی تو گویا اس نے اپنے آپ سے نا انصافی کی ،اپنے مقام و مرتبہ کا پاس و لحاظ نہیں رکھا اور وہ اپنے دینِ قویم سے پھرکر مرتدہ ہوگئی، جس کا نہ صرف بہت بڑا گناہ ہے،بلکہ اسلام میں اس کی بہت بڑی سزا بھی ہے۔

اِرتداد کا حکم قرآن و حدیث کی روشنی میں:

اِس حوالے سے یہاں چند آیات قرآنیہ و احادیثِ کریمہ ملاحظہ فرمائیں اور اپنے نہاں خانۂ دل میں انہیںجاں گزیں کرنے کی سعی و کوشش کریں۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْهُۚ-وَ هُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(آل عمران۸۵)

ترجمہ: ”اور جو شخص اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین و مذہب کو اپنائے گا، اللہ کے ہاں اسے قبولیت نصیب نہیں ہوگی اور وہ آخرت میں خسارہ میں ہوگا۔

دوسرے مقام پر فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

وَ مَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَیَمُتْ وَ هُوَ كَافِرٌ فَاُولٰٓىٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ.

ترجمہ:تم میں جو کوئی اپنے دین سے مرتد ہوجائے پھر کافر ہی مرجائے تو ان لوگوں کے تمام اعمال دنیا و آخرت میں برباد ہوگئے اور وہ دوزخ والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

اسی طرح حدیثِ شریف میں ہے:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

 ’’مَنْ بَدَّلَ دِینَہُ فَاقْتُلُوْہُ ‘‘۔

ترجمہ:جس نے اپنا دین (اسلام) بدل دیا تو اس کو قتل کردو۔

(صحیح بخاری، ترمذی، ابوداود، ابن ماجہ، مسند احمد)

دوسری جگہ ہے: حضرت زید بن اسلم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’مَنْ غَیَّرَ دِیْنَہُ فَاضْرِبُوا عُنُقَہُ ‘‘۔

ترجمہ:جس نے اپنا دین (اسلام) بدل دیا تو اس کی گردن کو اڑادو۔ (مؤطا امام مالک)

اِن کے علاوہ اور بھی بیشتر احکامات قرآن و احادیث میں موجود ہیں،جن سے ارتداد کی راہ پر چلنے والوں کے لیے سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں،یہ تو حکمِ احادیث ہے۔ مرتد اور مرتدہ کے توبہ و رجوع اور قتل و سزا کےسلسلے میں علما،ائمہ ، فقہا اورمحدثینِ اسلام کے مختلف اقوال و مواقف اس پر مستزادہیں ۔

بہرِ حال!یہ تو آفتابِ نیم روز کی طرح واضح ہے کہ اسلام سے پھرجانے سے دنیا و آخر ت کی کس قدر تباہی و بربادی یقینی ہے۔بس قوم کی بچیوں اور عورتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے مقدس دین پر سختی کے ساتھ قائم و دائم رہیں،غیروں کے مکروفریب میں آکر اپنے دین و مذہب اور اپنی عزت و غیرت کا سودا نہ کریں،جہاں بھی جائیں یا تعلیم حاصل کریں توشریعت کے حدود میں رہیں،ہمہ وقت اپنے والدین اور سرپرست حضرات کی تربیت و نگہ داشت میں رہیں،خاص طور سے اسلامی تعلیمات و احکامات کواپنے اُوپر بوجھ نہ سمجھیں بلکہ انہیں اپنے لیے حرزِ جان بنائیں۔ ان شاء اللہ تعالیٰ اپنا دین بھی سلامت رہے گا اور عزت و آبرو بھی محفوظ رہے گی۔اللہ تعالیٰ بناتِ حوا کی عزت و ناموس اور ان کے ایمان و عقائد کی حفاظت وصیانت فرمائے۔ آمین

اب ہم یہاں اِس حوالے سے ذمہ دارانِ قوم و ملت بالخصوص خواتینِ اسلام کی خدمت میں چند معروضات پیش کرنا چاہیں گے،جن پر عمل در آمد کی صورت میں ممکن ہے کہ بہت سے مسائل کا تدارک و حل نکل آئے۔

 ذمہ داران سےچند معروضات:

ذمہ داراِ قوم و ملت کو اِس فتنہ کے اسباب و عوامل پر غور و خوض کرنا چاہیے ،جس سے اس فتنہ کی جڑوں تک بآسانی پہنچا جاسکے۔   

فتنۂ ارتداد کے خلاف ملک گیر یا علاقائی سطح پر ایک کامیاب مہم چلانا چاہیے ،جس سے مسلم سماج میں حتی الوسع بیداری لائی جاسکے۔

جو مسلم بچیاں اِس فتنہ کا شکار ہوچکی ہیں،یااس کی زد پہ ہیں،اُس علاقہ کے علما ، مشائخ اور بااثر شخصیات کو فوری ان کے گھروں پر جاکران کی بہتر اصلاح و تفہیم کرنا چاہیے اور انہیں یہ باور کراناچاہیے کہ وہ جو کررہی ہیں وہ جہاں سماج و معاشرہ کی حیثیت سے غلط ہے،وہیں اسلام و شریعت کے بھی منافی ہیں۔اس کی اِس غلط حرکت سے اس کے افرادِ خاندان کی سماج و معاشرہ میںسرِعام ذلت و رسوائی تو ہوگی ،ساتھ ہی ساتھ اس کی آخرت بھی برباد ہوجائے گی۔                

ملک گیر یا ریاستی اور ضلعی سطح پر ایسی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں، جو اِن تمام حالات پر گہری نظر رکھ سکیں اور ان کا تدارک و حل بھی نکال سکیں۔

جو بچیاں عصری اداروں میں پڑھتی ہیں،والدین کو چاہیے کہ ان کے ہر اٹھنے والے قدم پر گہری نظر رکھیں اور کوشش کریں کہ سایہ کی طرح ہمہ وقت ان کے ساتھ رہیں۔(اسلام بچیوں کی عصری تعلیم کا مخالف نہیں ہے،انہیں ہر طرح کی تعلیم دی جائے لیکن تعلیم کے نام پر جو بے حیائیاں،بے ہود گیاں اور سرِعام برائیاں انجام پارہی ہیں، دراصل ان کا مخالف ہے۔)

  جو بچیاں شادی کی عمر کو پہنچ جائے تو فوری ان کی شادیوں کا انتظام کرلیا جائے ،یاد رہے کہ تاخیر کی صورت میں اِس طرح کے فتنہ خیز حالات پیش آسکتے ہیں،لہذا اس بات کا بخوبی خیال رکھیں۔

سماج سے جبری جہیز کی لعنت اور شادیوں میں من مانی مطالبات کو یکسر طور پر ختم کریں،کیوں کہ بچیوں کا غیروں کے ساتھ بھاگ کر شادیاں کرنے کا ایک سبب یہ بھی ہے۔اس طرح کرنے والوں کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں، جو بعد والوں کے لیے درسِ عبرت بنیں۔

والدین اور سرپرست حضرات کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت و نگہ داشت پر اپنی تمام تر توجہ مرکوز رکھیں۔ اگر ان کی بہتر ماحول میں تربیت رہی تو وہ زندگی میں کبھی بھی اس طرح کی ایمان اور اخلاق سوز حرکات انجام نہیں دے سکتے۔

بچیوں کے ہاتھوں میں اسمارٹ یا اینڈرائڈ موبائل فون تھمانے کا مطلب انہیں خود گناہوں کی طرف آمادہ کرنا ہے۔عموماً یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ بچیوں کے پاس موبائل آجانے سے پیار و محبت کا ایک درازسلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور پھر دیر رات تک چیٹنگ پر چیٹنگ ہوتی رہتی ہے،جس سےفرار کی راہیں مزید ہموار ہوجاتی ہیں۔لہذا اس سے گریز کریں۔ اگر موبائل دینا اتنا ہی ضروری ہوتو ہر وقت ان کے موبائل کوچیک کرتے رہیں۔

تعلیم گاہوں یا کسی بھی طرح کی تقریبوں میں غیروں کے ساتھ ملنے جلنے اور بات چیت سے سخت منع کریں کہ اسی سے فتنہ کی شروعات ہوتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ اِرتداد کادرازہ کھلتا جاتاہے،جو آگے چل کر وبالِ جان و ایمان بن جاتا ہے۔

جو بچیاں تعلیم یافتہ ہیں اور وہ کمپنیوں میںجاب کرنے کی خواہاں ہیں، انہیں مسلم معاشرہ ہی میں ان کی اہلیت و قابلیت کے مطابق کچھ ایسے کام دیے جائیں،جنہیں وہ اپنی حیاو عفت کی حفاظت کرتے ہوئے انجام دے سکیں۔مثلا:

(۱)کسی مکتب ،مدرسہ یا اسکول میں تدریسی فرائض کی انجام دہی۔ (۲)محلہ یا علاقہ کے بچوں کو ٹیوشن یا تربیت دینا۔(۳)کمپیوٹرائز کاموں کے لیے انہیں مواقع فراہم کرناوغیرہ۔اگرتعلیم یافتہ بچیوں کو اِس طرح کے مواقع و ذرائع فراہم کیے جائیں تو ممکن ہے کہ وہ کمپینوں میں جاکر غیر مردوں کے شانہ بشانہ جاب کرنے سے احتراز کریں۔

والدین اور سرپرست حضرات سے ادباً گذارش ہے کہ وہ اپنی بچیوں کو خاص طور سے وہ کورسیز اور تعلیم بھی دلوائیں ،جنہیں کرکے وہ حیا اور پاکدامنی کے ساتھ اپنا گرز بسر بآسانی کرسکیں اور مسلم سماج و معاشرہ کی ترویج و ترقی میںاپنا کلیدی کرداربھی ادا کرسکیں۔ یہاں ہم خواتین اور بچیوں کے لیے چند اہم اور مفید کورسیز اور اسکلس کو ذکر کررہے ہیں،جنہیں کرکے وہ کام یاب اور خوش حال زندگی گزارسکتی ہیں۔

(۱) (میڈیکل)ڈاکٹر اورنرس کورس

خواتین ڈاکٹرز نہ ہونے کی وجہ سےعورتوں کا مرد ڈاکٹروں کے پاس علاج کے لیے جانا ان کی بدقسمتی بن گئی ہے۔لہذا مسلم بچیاں اگراعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں تو وہ بی یو ایم ایس،بی اے ایم ایس،بی ڈی ایس، ایم بی بی ایس اور بھی دیگر میڈیکل کورسیز ہیں،ان میں زور آزمائی کریں تاکہ ان کے ڈاکٹر یا نرس بننے سے مسلم خواتین کو غیروں کے پاس جانے کی قطعاً حاجت نہ پڑے۔اس سے وہ معاشی طور پر مستحکم بھی ہوں گی اور ان سے سماج و معاشرے کی بہت ساری ضروریات کی تکمیل بھی ہوں گی۔

(۲)عالمہ کورس

عالمہ بننے کا مطلب ‘قرآن و حدیث اور دین کی مکمل تعلیم حاصل کرناہے۔ اس کورس کو کرنے کے بعد وہ بچی نہ کبھی دین سے بیگانہ ہوسکتی ہے اور ناہی دوسروں کو دین سے بھٹکنے دے سکتی ہے۔ بعدِ ازاں وہ کسی مکتب یا لڑکیوں کے دینی ادارے میں پڑھاکر اپنی عائلی ضروریات کو پورا کرکے اپنے شوہرِ عزیز کا ہاتھ بھی بٹاسکتی ہے۔

(۳) ٹیچنگ کورس

جو بچیاں انٹر میڈیٹ یا گریجویشن کرچکی ہیں، وہ ڈی ایڈ،بی ایڈ،ایم اے ،ایم فل اورپی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کرکے اِس کم اور ناخواندہ معاشرے میں آگے بڑھ سکتی ہیں اور باحجاب رہ کر تدریسی فرائض بحسن و کوبی انجام دیں تواُس سے اچھی خاصی ماہانہ آمدنی حاصل کرکے وہ اپنے اہل و عیال کی کفالت و پرورش بہتر طریقے سے کرسکتی ہیں۔

  (۴) لیڈیز ٹیلرنگ کورس

خواتین اور بچیوں کے لیے یہ بہت ہی آسان اور مفید کورس ہے،جسے وہ چند مہینوں کی کوششوں اور محنتوں کے نتیجے میں سیکھ سکتی ہیں اور جہاں کہیں رہیں گھر بیٹھے یہ کام کرسکتی ہیں۔

(۵)مہندی کورس

امتدادِ ازمانہ کے ساتھ ساتھ عورتوں کے بناو اور سنگار میں بھی بہت زیادہ تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں،جن میں سے ایک مہندی ہے۔آج کل مختلف اور نوع بہ نوع کی ڈیزائین بنائی جارہی ہیں اور اس کے لیے باضابطہ کورسیز بھی کرائے جارہے ہیں۔ مسلم بچیاں اور عورتیں یہ ہنر سیکھ کراپنے آپ کو باپردہ رہ کر برسرِ روزگار بناسکتی ہیں۔

(۶)کلاتھ ایمبرائڈری کورس

   کلاتھ ایمبرائڈری کا آج بہت زیادہ چلن عام ہے۔مارکیٹ میں اس کی بہت زیادہ ڈمانڈ ہے۔ اگر مسلم خواتین یہ اسکل سیکھ جائے تو چہار دیواری کے اندر رہ کر بھی وہ اچھا خاصا پیسہ کماسکتی ہیں اور اپنے افرادِ خانہ کے ساتھ ایک خوش گوار و آسودہ زندگی گزارسکتی ہیں۔

(۷) گرافک ڈیزائنگ و آن لائن سروسز کورس

یہ تو کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی کا ہی دور ہے،اس سے کون انکار کرسکتا ہے۔یہ کورسیز کرکے مسلم خواتین گھر بیٹھے اچھا بڑا بزنس شروع کرسکتی ہیں اور آف لائن و آن لائن پیسہ کماکر اپنی گھریلو حاجات و ضروریات کی تکمیل کرسکتی ہیں۔

یہ چند اسکلس ہم نے اُن خواتین کے لیے ذکر کیا ہے جوازدواجی زندگی میں آنے کے بعدمعاشی طور پر خود کچھ کرنا اور اپنے رفیقِ حیات کا سہارا بننا چاہتی ہیں۔ہم نے بہت سی خواتین کو اِن متذکرہ بالاسطور کے مطابق پایا ہے کہ وہ اِن تمام میدانوں اور شعبوں میں شریعت و سنت کی پاس داری کرتے ہوئے درس و تدریس،صنعت و حرفت اور دیگر کاروباری امور کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔

قارئینِ کرام!ہم نےاپنے اِس مختصر سے مقالے میں ملک کے فتنہ خیز حالات پرچند اہم باتیں رکھنے کی جسارت و سعی کی اوراور اِن درپیش حالات و مسائل کے اسباب و عوامل کے ساتھ ساتھ ان کا تدارک و حل بھی پیش کیا ،امیدِ واثق ہے کہ انہیں سنجیدگی سے لیا جائے گا اورملک بھر میںاغیار کی شرارتوں اور فتنوں کو ناکام بناتے ہوئے قوم و ملت کی بیٹیوں کی عزت و عِصمت کاتحفظ کیا جائے گا۔اسی طرح قوم کا ہرفرد اِس سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں کو بھی محسوس کرتے ہوئے تگ و دو کرے گا۔

اللہ تعالیٰ قوم و ملت کی بیٹیوں کی حفاظت و صیانت فرمائے، نیز امتِ مسلمہ میں غیرت و حمیت کو بیدار فرمائے اور ہر شخص کو اپنے حصہ کی ذمہ داریاں بحسن و خوبی انجام دینے کی توفیقِ ارزانی عطا فرمائے۔ آمین بجاہِ سید المرسلین علیہ افضل الصلوٰۃ 

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved