27 July, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia August 2023 Download:Click Here Views: 14651 Downloads: 790

(8)-مفتی اعظم راجستھان کی دینی خدمات

محمد شاہد علی اشرفی فیضانی

آج دنیا میں اسلام وایمان کی جو بہاریں ہم دیکھ رہے ہیں یہ سب اللّہ تبارک وتعالیٰ کے نیک،سچے،اچھےاورمخلص بندوں کی قربانیوں کا ثمرہ ہے۔خدا کے انہیں نیک  بندوں میں ایک ذات وہ بھی ہے جسے ہم باباے قوم اشفاق العلما حضرت علامہ الحاج مفتی محمد اشفاق حسین نعیمي علیہ الرحمه کے نام سے جانتے پہچانتے ہیں۔

        آپ صوبہ اتر پردیش کے ضلع مرادآباد شیونالی گاؤں کے باشندے تھے،آپ کے والدین نے آپ کی تعليم وتربیت میں کوئ کمی نہ چھوڑی ،آپ کے والدین کی یہ آرزو تھی کہ ہمارا بچہ ایک اچھا عالم دین بن کر قوم وملت اوردین کی خدمت کرے،چنانچہ اس معاملے میں آپ کے والدین برابر کوشاں رہے۔ایک دن وہ آیا کہ آپ کے والدین کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوااور آپ نے ۲۲سال کی عمرمیں علوم عقلیہ ونقلیہ سے فراغت حاصل کر لی اور پھر ۱۹۴۳ء میں مدرسہ اجمل العلوم کے سالانہ جلسۂ دستاربندی کے موقع پر آپ کے سرپر علما ومشائخ کے نورانی ہاتھوں سے العلماء ورثتہ الانبیاء کا تاج زریں رکھا گیا۔

علم دین اور ختم بخارى شریف کی برکت!تحصیل علم سے فراغت کے بعد جب آپ اپنے گھر تشریف لائے توآپ کی دادی محترمہ جو کہ ۱۴سال سے نابینا تھیں بغیر کسی سہارے کے چلنا ناممکن تھا ،مگر جب آپ نے دادی ماں کو ختم بخاری شریف کی خوشخبری سنائ تو دادی جان کو اس قدر خوشی ہوئی کہ ان کی زائل شدہ بینائی واپس لوٹ آئی،اس واقعہ کے بعد دیکھنے والوں کو یہ اندازہ نہیں ہو پارہا تھا کہ کبھی آپ کی دادی صاحبہ نابینا بھی تھیں ،یہاں تک کہ انہوں نے خود اپنی آنکھوں سے ۲۹ کاچاند بھی دیکھ لیا تھا۔اس واقعہ کے ایک سال بعد تک آپ باحیات رہیں۔(تلخیص از مفتی اعظم راجستھان ، ص۱۲)

          سبحان اللہ یہ ہے علم دین کی برکت اور ختم بخارى شریف کا خصوصی فیضان کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت مفتی صاحب قبلہ علیہ الرحمه کی دادی صاحبہ کی ختم شدہ بینائی کو واپس لوٹا دیا۔

تبلیغ دین کا آغاز!      تحصیل علم سے فراغت کے بعد آپ دو سال تک اپنے وطن شیو نالی ہی میں رہے اور اپنے علاقہ ہی میں دین وسنیت کی خدمت انجام دیتے رہے۔ ۱۹۴۵ء میں آپ اپنے اساتذہ کرام کے حکم پر صوبہ راجستھان کے شہر پالی مارواڑ تشریف لائے اور یہیں سے آپ نے باقاعدہ امامت وخطابت کے ذریعہ دین کی تبلیغ واشاعت کا آغاز کیا اور دو سال تک انتہائی خلوص وللہیت کے ساتھ تبلیغ دین کا فریضہ انجام دیتے رہے۔

           مگر ابھی آپ کو پالی تشریف لائے ہوئے دو سال کا عرصہ ہوا تھا کہ مرضی مولی از ہمہ اولی  کے تحت اچانک آپ کے والدبزرگوار کے انتقال پرملال کی خبر موصول ہوئی ، پھر کیا تھا کہ اس صدمہ جاں کاہ نے آپ کوبے چین وبے قرار کردیا پھر وہاں سے آپ کسی طرح اپنے وطن پہنچے ، اہل خانہ کی سوگواری دیکھی نہ گئی اور آپ بھی ان کے ساتھ حزن وملال میں ڈوب کر رہ گئے - والد بزرگوار کے وصال کے بعد اب گھریلو حالات بہت ہی کمزور ہو چکے تھے ، اب تقاضا یہ تھا کہ آپ ہمیشہ کے لیے اب گھر پر ہی رہ کر خانگی زندگی میں سدھار لانے کے لیے کسب معاش کرتے، مگر نہیں -اس لیے کہ رب العالمین جل جلالہ کوآپ کی ذات سے دین کا کام لینا تھا -ابھی آپ نے مستقبل کے لیے کوئی حتمی فیصلہ نہیں لیا تھا کہ کیا کر نا ہے کیا نہیں؟

         بس اسی دوران مدرسہ اسحاقیہ جودھپور کے کچھ باذوق منتظمین افراد نے اہل پالی کو راضی کر کے آپ کو مدرسہ اسحاقیہ میں بحیثیت صدرالمدرسین آنے کی دعوت پیش کی جسے آپ نے بخوشی قبول کرلیا -اور پھر ۱۹۴۸ء میں آپ بحیثیت صدر المدرسین مدرسہ اسحاقیہ جودھپور میں تشریف لائے۔

اسحاقیہ مکتب سے دارالعلوم تک:              جس وقت آپ مدرسہ اسحاقیہ جودھپور میں تشریف لائے اس وقت مدرسہ کا تعلیمی معیاربہت ہی کمزور ہو چکا تھا- مفتی صاحب قبلہ اس ادارہ کو تنزلی سے ترقی کی راہ پر لانے کے لیےرات دن کوششیں فرماتے رہے، اور یہ کام کوئی آسان نہ تھا-اس کا اندازہ وہی لگا سکتے ہیں جنہیں ایسے مراحل سے گزرنے کا سابقہ پڑا ہو ۔

حضرت مفتی صاحب قبلہ نے مدرسہ اسحاقیہ سے متصل زندہ شاہ مسجد کے حجرہ میں چند طلبہ کو عربی وفارسی کی تعلیم دیناشروع کی اور پوری جدوجہد کے ساتھ طلبہ کی تعليم وتربیت میں مصروف عمل ہو گئے۔ تھوڑے ہی عرصہ میں آپ کی تعلیم وتربیت کاشہرہ ہرچہار جانب پھیل گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس شمع شبستان علم کے گرد پورے صوبہ راجستھان سے تشنگان علوم نبویہ پروانہ وار حاضر ہوکر اپنی علمی پیاس بجھانے لگے-اور پھر دھیرے دھیرے مدرسہ اسحاقیہ کی فضائیں قرآن واحادیث، فقہ وتفسیر وغیرہ علوم وفنون کے پاکیزہ نغمات سے گونج اٹھیں۔

اس طرح آپ نے اس ادارے کو تعلیمی میدان میں چمکاکر اسے مراتب عالیہ اور مدارج رفعیہ تک پہنچانے میں کوئی کمی باقی نہ رکھی حتی کہ مدرسہ کی مالی حالت بھی بہت خستہ ہو چکی تھی ، کہ آپ کو جو ماہانہ تنخواہ ساٹھ روپے طے ہوئی تھی وہ بھی کئی کئی ماہ تک نہیں ملتی ،حتی کہ آپ اپنا خرچ چلانے کے لیے اپنے گھر سے پیسہ منگوایا کرتے تھے۔مگر پھر بھی اس مرد قلندر درویش کامل نے ہمت نہ ہاری اور توکل علی اللہ  اپنے دینی وعلمی مشن کو آگے بڑھاتے رہےاور اس راہ میں آنے والے تمام مصائب وآلام کو خندہ پیشانی  کے ساتھ قبول کیا اور زبان پرکبھی اس تعلق سے حرف شکایت نہ لائے۔ آپ کے خلوص وللہیت کا نتیجہ ہے کہ آج اسحاقیہ مکتب سے ایک بڑے دارالعلوم کی شکل میں تبدیل ہو کر  اہل راجستھان کے دلوں کی دھڑکن اور مرکز اہلسنت بن گیا ۔

        الحمداللہ آج اس ادارہ کے فارغیں دنیابھر میں دین وسنیت اور مسلک اعلیٰ حضرت کا ڈنکا بجا رہے ہیں۔

        ۱۹۵۶ء میں حضور مفتی اعظم ہند اور حضور محدث اعظم ہند علیہما الرحمتہ والرضوان جودھپور تشریف لائے اور مدرسہ اسحاقیہ کے لیے خصوصی دعائیں فرمائیں حضور محدث اعظم ہند کچھوچھوی قدس سرہ العزیز نے حضور مفتی اعظم راجستھان کے چہرے پر ایک نظر ڈالی اور فرمایا کہ :           مولانا اس ادارے کا مستقبل بڑاتابناک ہے اسے نہ چھوڑ یے گا آپ کو یہاں سے جانے کی اجازت نہیں۔(تلخیص از مفتی اعظم راجستھان)

فتویٰ نویسی! حضور مفتی اعظم راجستھان علیہ الرحمۃ نے جہاں امامت وخطابت، درس وتدریس کے ذریعے قوم وملت اوردین وسنیت کی بےلوث خدمات انجام دی ہیں وہیں فتویٰ نویسی کے ذریعہ بھی دین کی شاندار خدمات انجام دیں ۔            آپ کی فتویٰ نویسی پر تبصرہ کرتے ہوئے استاذ محترم حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شاہد على مصباحی تحریر فرماتے ہیں کہ :دارالعلوم اسحاقیہ کی نشأۃ ثانیہ کے ساتھ ہی ہر چہار جانب سے استفتا آنے شروع ہو گئے اور آپ درس وتدریس کے اہتمام وانصرام اور دیگر مصروفیات کے باوجود سائلین کو نہایت مدلل اور شافی جواب مرحمت فرماتے اور فتویٰ اس قدر غور وفکر کے بعد مرتب کرتےکہ کبھی رجوع کی نوبت نہ آئی ۔

حضور مفتی اعظم راجستھان کوفن افتامیں تائیدربانی حاصل تھی آپ نے اپنی تدریسی زندگی میں ہزاروں فتاوے لکھ کر قوم کی دینی وملی ضرورتیں پوری فرمائی اور ان کی الجھی ہوئی گتھیاں سلجھا کر انہیں احکام شرعیہ پر عمل پیرا کردیا ۔آپ کو فقہ کے غامض مسائل اور جزئیات پر عبور حاصل تھا،یہی وجہ ہے کہ آپ کے فتاویٰ تائیدی عبارات اور نکتہ آفرینی سے مزین ہوتے ۔فتویٰ نویسی میں آپ کے کمال ہی کو دیکھ کر معاصر علما نے آپ کو مفتی اعظم راجستھان کے لقب سے نوازا جوواقع کے عین مطابق ہے ۔آپ مفتی اعظم راجستھان کے لقب سے اس قدر مشہور ہوئے کہ اس کے پیچھے اصل نام دب ساگیا اور آج اہل راجستھان آپ کو اصل نام سے کم اور مفتی اعظم راجستھان کےلقب سے زیادہ جانتے  ہیں-(مفتی اعظم راجستھان: ص:۴۶، ۴۷)

وعظ ونصیحت:      حضور مفتی اعظم راجستھان علیہ الرحمه نے پروگراموں میں شرکت فرماکروعظ ونصیحت کے ذریعہ بھی امر باالمعروف ونہی عن  المنکرکے فریضہ الٰہی کو بحسن خوبی انجام دیا- وعظ ونصیحت بھی عوام کی اصلاح اور ان کے ایمان وعقیدے کی حفاظت کا ایک بہتر ین ذریعہ ہے،ہمارے اسلاف کرام نے بھی دین اسلام کی تبلیغ واشاعت کے لیے اس طریقہ کو اپنا یا اور اپنے پر اثروعظ ونصیحت کے ذریعہ مخلوق خدا کی بگڑی ہوئی زندگیوں کو سنوارا،حضرت کی تقریروعظ ونصیحت اور بیان بااثر ہوتے تھے، اس لیے کہ آپ کا بیان خود ستائی ، خود غرضی، مطلب پرستی اور حرص وطمع کے لیے نہیں بلکہ خالص لوجہ اللہ قوم وملت کی اصلاح کے لیے ہوا کرتے تھے-خودفقیر راقم الحروف کو بھی بار ہا حضرت کےخطابات سننے کا موقع میسرآیا-آپ کا بیان دل نشیں، جامع اور پر مغز ہو تا کہ عوام تو عوام علما ے کرام بھی آپ کے بیان سے مستفیض ہوتے-اہل محفل پر ایک عجیب سی کیفیت چھاجاتی۔آپ کا بیان وخطاب قرآنی آیات واحادیث رسول صلى اللہ علیہ وسلم اور بزرگوں کے اقوال واقعات سے مدلل وپرمغز ہوتا۔-آپ کا خطاب وبیان مختصر ضرور ہوتا مگر بڑےبڑے واعظین ومقرررین اور خطبا کی گھنٹوں کی خطابت پر بھاری ہوتا -ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء۔

      اللہ پاک ہم سب کو حضور مفتی اعظم راجستھان علیہ الرحمہ کے چھوڑ ے ہوئے مشن کو آگے بڑھانےاور اس پر عمل کر نے کی تو فیق عطا فرمائے-آمین یارب العٰلمین

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved