27 July, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia Sept 2023 Download:Click Here Views: 11843 Downloads: 1033

(1)-جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں اعلیٰ حضرت کی بارگاہ میں عقیدتوں کا خراج

نحمدہ و نصلی علی رسولہ الكريم

آج جمعہ کا دن تھا ہم حسبِ عادت اپنی قیام گاہ پر سنتیں ادا کر کے نماز جمعہ کے لیے عزیز المساجد جامعہ اشرفیہ کے لیے نکلے، ہمارا یہ معمول ہے کہ مسجد جاتے ہوئے درود شریف کا ورد جاری رہتا ہے۔ مسجد کے گیٹ پر پہنچنے میں بیس پچیس قدم کا فاصلہ ہوگا کہ محب گرامی حضرت مفتی محمد اعظم مبار ک پوری استاذ جامعہ اشرفیہ ہماری طرف چلے آرہے ہیں۔ سلام و کلام کے بعد ان سے دریافت کیا، حضرت آپ کہاں جا رہے ہیں ؟ بس آپ کے پاس ۔ ہم نے معلوم کیا ؛خیریت تو ہے ؟فرمایا : بس تقریر فرما دیجیے۔ ہم نے عرض کیا مفتی صاحب ہم بالکل خالی الذہن ہیں ہم کیا بیان کریں؟ فرمایا سفر کا مہینہ ہے بس اعلیٰ حضرت محدث بریلوی پر بیان فرما دیجیے ۔ اب ہم مسجد میں داخل ہو کر مائک کے سامنے کھڑے تھے۔ خطبۂ مسنونہ اور درود شریف کے بعد ہم نے اعلیٰ حضرت  امام احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہ پر تقریر کی تمہید کا آغاز کر دیا۔ہم نے کہا کہ اس بار مجدد دین وملت کا یہ ایک سوپا نچواں عرس ہے، امام احمد رضا محدث بریلوی کا وصال پر ملال 1340ھ/ 1921 ء میں ہوا ،  10 شوال المکرم 1272ھ/ 1856 ء میں محلہ جسولی، بریلی شریف میں آپ كي ولادت باسعادت ہوئی، آپ حضرات بخوبی جانتے ہیں۔ اعلیٰ حضرت مجدد تھے اور کوئی معمولی مجدد نہیں تھے آپ نے اپنے قلمی کارناموں سے یہ ثا بت فرمادیا کہ بلا شبہہ ایک عظیم مجدد  احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کا تاریخی کارنامہ انجام دیتا ہے ،اپنے عہد کے باطل فتنوں  کی تردید میں آپ نے یکتاے روز گار علمی اور تحقیقی خدمات انجام دی ہیں ۔ آپ ذرا تاریخی سچائیوں پر نگاہ ڈالیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ امام احمد رضا کے دور میں ناموس رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر چاروں طرف سے حملے جاری تھے، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان باطل  فرقوں کی پشت پناہی انگریز سامراج کر رہا تھا۔ کون نہیں جانتا کہ آپ سے چند سال پہلے دہلی کی سرزمین پر رسولِ مقدس کی گستاخیوں پر مشتمل تقویۃ الایمان جیسی بد ترین کتاب لکھی جاتی ہے تو انگریزوں کی شر انگيز طاقتوں نے کولکاتاسے   اس کی اشاعت کی تھی۔ جب کہ دنیا جانتی ہے کہ عظیم مجاہد آزادی امام المنطق والفلسفہ عاشق رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے شاہ اسماعیل دہلوی  کو مناظرہ  کرنے کا چیلنج دیا ، آپ نے بعض عبارتوں کی روشنی میں اپنے قلم سے تحقیق الفتویٰ جیسی اہم کتاب تصنیف فرمائی، اس میں شاہ اسماعیل دہلوی کو اسلا م سے خارج قرار دیا۔ اس فتویٰ پر اس عہد کے سترہ بڑے علما اور مشائخ کے تائیدی دستخط بھی ہیں۔ یہ دستاویزی فتویٰ بر صغیر میں مسلسل شائع ہو رہا ہے، المجمع الاسلامی مبارک پور سے بھی اس کی مسلسل اشاعت جاری ہے۔تقویۃ الایمان کی تردید میں اس عہد سے آج تک سیکڑوں  کتابیں شائع ہو چکی ہیں، اور یہ سلسلۂ خیر آج بھی جاری ہے۔

ہم نے عرض کیا کہ فتاوی رضویہ اعلیٰ حضرت قدس سرہ کا اہم تحقیق اور فقہی کارنامہ ہے۔ برسوں پہلے شہزادہ اعلیٰ حضرت مفتی اعظم ہند جامعہ اشرفیہ مبار ک پور تشریف لائے، دار العلوم اشرفیہ کے نائب شیخ الحدیث حضرت علامہ حافظ عبد الرؤف بلیاوی اور دیگر اساتذۂ کرام نے حضرت کی بارگاہ میں حاضری دی اور انتہائی مو ٔدبانہ انداز سے عرض کیا کہ حضرت فتاویٰ رضویہ کی ترتیب و اشاعت کا کیا  ہوا؟ اس کی کسی قدر وضاحت  حضرت علامہ بلیاوی علیہ الرحمہ نے خود تحریر فرمائی ہے :

”جب ایک دفعہ شہزادہ اعلى حضرت حضور مفتی اعظم ہند مولانا مصطفےٰرضا خان علیہ الرحمہ دار العلوم اشرفیہ مبار ک پور میں تشریف لائے ان سے عرض کی گئی ؛” فتاویٰ رضویہ کی اشاعت کا کوئی انتظام ہوا ؟ آپ نے فرمایا تم لوگوں کے سوا کس سے اس کی توقع کی جاسکتی ہے “۔ اس کر امت آثار جملے نے دلوں میں ہمت اور عزائم میں استواری پیدا کی اور دار العلوم اشرفیہ  کی رہنمائی میں  کام شروع ہوا اور سنی دارالاشاعت کی بنیاد رکھی گئی ۔( مقدمہ فتاوی رضویہ، جلد سوم، عرض حال ، سنی دارالا اشاعت مبار ک پور)

جو اہل علم ترتیب و تدوین کا فریضہ انجام دیتے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ کسی قلمی نسخے کو پڑھنا، نقل کرنا ، اور ترتیب کے جاں گسل مراحل سے گزارنا کتنا مشکل ہے۔ اور یہاں معاملہ عام کتاب کا نہیں بلکہ مجدد دین وملت کی انتہائی اہم اور وقیع کتاب فتاویٰ رضویہ کا تھا ، امتداد زمانہ اور کثرتِ استعمال کی وجہ سے کئی مقامات پر عبارتیں مضمحل ہو گئی تھیں، بعض مقامات پر کیڑوں نے چاٹ لیا تھاآگے پیچھے سے پڑھ کر نئی عبارت وہاں رکھنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا ،بعض عبارتوں کی ترتیب اور تصحیح میں رات رات پھر لگ جاتی تھی، اسی شش و پنج میں ہوتے کہ  فجر کی اذان کانوں میں گونجنے لگتی  اور سب کچھ اسی طرح چھوڑ کر نماز فجر باجماعت ادا فرماتے ، آپ خود تحریر فرماتے ہیں:

”فتاویٰ رضویہ کے بعض اوراق کو کیڑوں نے بری طرح چاٹ لیا تھا ان میں جہاں جہاں کتاب کی عبارت اور تصحیح ممکن تھی کر دی گئی ، جہاں ماسبق اور مالحق عبارت بن سکتی تھی بنادی گئی اور جہاں مجبوری تھی بیاض چھوڑدی گئی ۔“( مقدمہ فتاوی رضویہ، جلد سوم،  ص:۳ ، سنی دارالا اشاعت مبار ک پور)

اس عبارت سے یہ واضح ہو گیا کہ بالجبر  کسی عبارت میں کتر بیونت نہیں کی گئی ہے۔ اب بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ دار العلوم اشرفیہ مبارک پور نے بعض مقامات پر بے  جاحذف و اضافہ کیا ۔ حضرت علامہ حافظ عبدالروف علیہ الرحمہ خود تحریر فرماتے ہیں:

” جو عبارت بن سکتی تھی، بنا دی گئی اور جہاں مجبوری تھی بیاض چھوڑ دی گئی ہے“

 یہ ایک تاریخی کارنامہ  ہے جس کی جہانِ سنیت میں زبردست قدر ہونا چاہیے مگر افسوس نہیں ہوئی ، آپ خود غور کریں کہ اگر مو صوف اتنی محنت سے اپنی کتابیں مرتب فرماتے تو خدا جانے فقہ و حدیث کا کتنا ضخیم سرمایہ  مرتب فرما دیتے۔ خیر حقیقی جزادینے والا اللہ تعالیٰ ہے۔اللہ تعالیٰ ان کے مزار پر رحمت غفران کی مسلسل  بارش فرمائے۔ آمین۔

یہ ایک سچائی ہے سنی دار الاشاعت دار العلوم اشرفیہ مبارک پور میں قائم ہوا، حضور حافظ ملت علامہ شاہ عبد العزیز محدث مراد آبادی اس کی مکمل سرپرستی فرما رہے تھے ، فتاویٰ رضویہ مطبوعہ کو آپ پروگراموں میں لے جاتے اور اس کے حاصل کرنے کے لیے سامعین کو متوجہ فرماتے۔  بعد میں بحر العلوم مفتی عبد المنان اعظمی نے بھی محاذ سنبھالا اور بڑی حد تک سنی دار الاشاعت کو زندہ رکھنے کی کوشش فرمائی ، انھیں بھی جزاؤں سے سرفراز فرمائے آمین۔

خادم نے مزید عرض کیا: استاذ گرامی وقار صدر العلما حضرت علامہ محمد احمد مصباحی ناظم تعلیمات  جامعہ اشرفیہ نے رضویات کے حوالے سے تاریخی اور یادگار کا رنا مے انجام دیے ہیں۔ آپ نے امام احمد رضا محدث بریلوی کے متعدد وقیع اور علمی رسائل کی ترتیب واشاعت کا کارنامہ انجام دیا ، آپ نے فتاوی ٰرضویہ کے جدید ایڈیشن کی چند جلدوں کی ترتیب اور عربی و فارسی عبارتوں کا ترجمہ فرمایا، آپ کا خاص کا رمانہ یہ ہے کہ آپ نے ”جد الممتار علی رد المحتار“کی تحقیق و اشاعت فرمائی ۔ بلا شبہ جامعہ اشرفیہ مبارک پور نے امام احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہ کے افکارو معمولات کے فروغ میں تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ آپ جس رخ پر نظر ڈالیں مصباحیوں کے کارنامے جگمگاتے نظر آئیں گے۔

 آپ خود غور کریں که ماہنامہ” المیزان“ ممبئی نے ”امام احمد رضا نمبر “شائع کیا۔ یہ ایک علمی، تحقیق اور فقہی دستاویزات پر مشتمل نمبر ہے۔اس ضخیم نمبر کو کچھوچھہ مقدسہ کے مشائخ خاص طور پر شہزادۂ محدث اعظم ہند حضرت علامہ سید شاہ محمد مدنی اشرف اشرفی جیلانی دامت بر کا تہم القدسیہ  کی سرپرستی حاصل تھی، بفضلہٖ تعالیٰ یہ بھی دار العلوم اشرفیہ مبارک پور  ہی کے نام ور فاضل ہیں اور یہ سچائی تو سب جانتے ہیں کہ سب سے پہلے لفظ ”مصباحی“، اپنے نام کے ساتھ آپ ہی نے لکھا، آپ کے حقیقی بھتیجے حضرت علامہ سید شاہ  محمد جیلانی اشرف اشرفی جیلانی بانی جامعہ صوفیہ در گاه کچھوچھہ مقدسہ ماہ نامہ  ”المیزان“کے مدیر اعلیٰ تھے ،بفضلہٖ تعالیٰ وہ بھی نامور فرزند اشرفیہ ہیں ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ امام احمد رضا کی عبقری شخصیت و فکر پر بہت سے نمبر نکلے مگرکم از کم ہمارے نزدیک ماہ نامہ ”المیزان“ کے امام احمد رضا نمبر کی طرح مقبول اور جامع کوئی نہیں۔

رئیس التحریر مولانا یٰسٓ اختر مصباحی علیہ الرحمہ کی قلمی خدمات تو رضویات پر شہرہ آفاق ہیں ۔آپ کی کتاب ”امام احمد رضا ا ر بابِ  علم و دانش کی نظر میں “بہت مشہور ہوئی، اس نے بر صغیر کے علما اور دانشوروں کو متاثر کیا اور مختلف فرقوں کے علما اور قلم کاروں کو کم از کم دریدہ دہنی سے باز رکھا۔ آپ کی دوسری اہم کتاب ” امام احمد رضا اور رد بدعات و منکرات “ ہے ۔ عہد ماضی میں ہم اہل سنت وجماعت پر سب سے بڑا الزام یہ قائم کیا گیا کہ یہ بریلوی فرقہ بدعتی ہے۔ آپ نے حالات کے دباؤ پر نظر رکھتے ہوئے امام احمد رضا کی تصانیف سے بدعات ومنکرات کی تردیدات کو بڑے سلیقے سے جمع کیا  ہے۔ اس میں بدعات و منکرات کی طویل فہرست ہے، ہم یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ ہر وہ چیز جو عہدِ رسالت یا عہدِ صحابہ میں اپنی ہیئت کذائی کے ساتھ موجود نہ ہو اسے بدعت کہاجاتا ہے ، مگر ہر بدعت بدعتِ سیئہ  نہیں بلکہ بدعتِ ضلالت وہی ہوگی جو کسی سنت کو مٹاتی ہو یا شریعت کے کسی قاعدۂ کلیہ کے سخت ممنوعات کے زمرے میں آتی ہو۔ امام احمد رضا محدث بریلوی نے بڑے حزم و احتیاط سے کام لیا ہے یہی وجہ ہے کہ بعض مسائل میں تو اپنے بعض بزرگوں سے بھی محتاط نظر آتے ہیں ۔ مثال کے طور پر— سجدۂ تعظیمی کی حرمت کا مسئلہ —ہمارے بعض مشائخ نے اس کے جواز کا فتویٰ دیا ہے ،جب کہ امام احمد رضا قدس سرہ نے اسے ناجائز و حرام قرار دیا ہے۔ اس موضوع پر باضابطہ آپ کی ایک اہم کتاب ”الزبدۃ الزکیۃ لتحریم سجود التحیۃ“ ہے۔ اس میں متعدد آیات، چالیس احادیث اور ڈیڑھ سو نصوص فقہیہ ہیں۔ آپ تحریر فرماتے ہیں:

”مسلمان ! اے مسلمان! اے شریعت مصطفوی کے تابع فرمان جان اور یقین جان کہ سجدۂ حضرت عزت عز ّجلالہ کے سوا کسی کے لیے نہیں۔ اس کے غیر کو سجدۂ عبادت تو یقیناً اجماعاً شرک مہین و کفر مبین اور سجدهٔ تحیت حرام و گناہ کبیرہ بالیقین اس کے کفر ہونے میں اختلاف علماے دین۔ ایک جماعتِ فقہااسےتکفیر منقول اور عند التحقیق کفر صوری پر محمول ۔کما سیاتي بتوفيق المولی سبحانہ وتعالی.

ہاں ! مثل صنم و صلیب و شمس و قمر کے لیے سجدے پر مطلقاً اِکفار ، کما فی شرح المواقف وغیرہ من الاسفار ان کے مثل پیر و مزار کے لیے ہرگز ہرگز نہ جائز و مباح ۔ جیسا کہ زید کا ادعاء باطل۔ نہ شرک حقیقی نا مغفور جیسا کہ وہابیہ کا زعم باطل ، بلکہ حرام ہے اور کبیرہ و فحشاء - فيغفر لمن يشاء ويعذب من يشاء.

ابطال شرک کے لیے تو وہی واقعہ حضرت آدم اور مشہور جمہور پر واقعہ حضرت یوسف علیہما الصلاة و السلام بھی دلیل کافی۔ محال ہے کہ اللہ عز وجل کبھی کسی مخلوق کو اپنا شریک کرنے کا حکم دے، اگر چہ پھر اسے منسوخ بھی فرمائے ۔ اور محال ہے کہ ملائکہ و انبیاء علیہم الصلاۃ و السلام میں سے کوئی کسی کو ایک آن کےلیے شریک خدا بنائے یا اسے روا ٹھہرائے ۔

تو قر آنِ عظیم نے ثابت فرمایا کہ سجدۂ تحیت ایسا سخت حرام ہے کہ مشابہ کفر ہے ۔ والعیاذباللہ تعالیٰ ۔

صحابۂ کرام نے حضور کو سجدہ تحیت کی اجازت چاہی۔ اس پر ارشاد ہوا کہ کیا تمھیں کفر کا حکم دیں۔

 معلوم ہوا کہ سجدۂ تحیت ایسی قبیح چیز ہے جسے کفر سے تعبیر فرمایا ۔ جب خود حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لیے سجدہ تحیت کا یہ حکم ہے پھر اوروں کا کیا ذکر ؟ واللہ الہادي الخ. (الزبدۃ الزکیہ، بحوالہ امام احمد رضا اور رد بدعات و منکرات، ص:۲۴۳، ۲۴۴)

مولانا عبد الحی لکھنوی لکھتے ہیں:”وھی رسالۃ جامعۃ تدل علیٰ غزارۃ علمہ  وسعۃ اطلاعہ“ وہ جامع رسالہ ہے جس سے مصنف کے وفورِ علم اور وسعتِ معلومات کا اندازہ ہوتا ہے۔“

یہ اعتراف ایک دیوبندی مکتب فکر کے قلم کار  کا ہے۔

حضرت مولانا محمد حنیف رضوی مصباحی نے بھی رضویات کے حوالے سے تاریخی اور یادگار کارنامے انجام دیے ہیں۔ آپ نے جامع الاحادیث دس جلدوں پر مشتمل مرتب فرمائی، اس میں ان تمام احادیث کو یکجا مرتب کیا گیا جنھیں امام احمد رضا محدث بریلوی نے اپنی کتابوں میں رقم فرمایا تھا۔ آخری جلدوں میں تفاسیر رضویہ کو بھی جمع فرمایا ہے۔ آپ نے بریلی شریف سے جدید فتاویٰ رضویہ کی ترتیب و اشاعت بھی فرمائی ہے۔

حضرت مولانا محمد عبد المبین نعمانی قادری نے بھی متعدد کتابیں مرتب فرمائی ہیں۔کنز الایمان میں کتابت میں در آئی خامیوں کی اصلاح فرمائی  اورارشاداتِ اعلیٰ حضرت وغیرہ  آپ کی مشہور کتابیں ہیں ۔

خیر حاصل یہ کہ  جامعہ اشرفیہ مبارک پور فکر رضا کا امین و ناشر ہے ۔ حدائق بخشش نے امام احمد رضا محدث بریلوی  کو دبستانِ نعت کا امام بنا دیا ہے۔ شاید آپ کو معلوم ہو گا کہ ڈاکٹر فضل الرحمٰن شرؔر مصباحی مبارک پوری نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور اس میں کتابت وغیرہ کی غلطیاں در آئی  تھیں اپنی وسعت بھر ان کی تصحیح فرمائی اور ایک جان دار علمی اور فنی مقدمہ تحریر فرمایا ۔ سالنامہ باغِ فردوس ۲۰۱۹ء میں ساڑھے چھ سو صفحات پر مشتمل ”فروغ رضویات میں فرزندانِ اشرفیہ کا کردار “ شائع  ہو چکا ہے۔ تفصیل کے لیے آپ اس کا مطالعہ کریں۔

ملک سخن کی شاہی تم کی رضا مسلّم              جس سمت آگئے ہو سکے بٹھا دیے ہیں

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved