27 July, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia Feb 2023 Download:Click Here Views: 34771 Downloads: 1269

(8)-جنگ آزادی کا ایک مجاہدمبلغ اسلام مولانا رحمت اللہ کیرانوی

مبلغ اسلام مولانا رحمت اللہ کیرانوی۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کا ایک مجاہد

سید منور علی شاہ بخاری قادری رضوی غورغشتوی

مولانا رحمت اللہ بن خلیل الرحمٰن محلہ در بارکلاں کیرانہ ضلع مظفر نگر (یو پی) میں جمادی الاولی ۱۲۳۳ھ/۱۸۱۸ء میں پیدا ہوئے، آپ کا سلسلہ نسب اکتیس واسطوں سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتا ہے، اس خاندان کے ایک بزرگ گاذرون سے ہجرت کر کے پانی پت (کرنال۔ ہندوستان) آکر سکونت پزیر ہوگئے تھے، جن کی اولاد میں خواجہ مخدوم جلال الدین کبیر الاولیاء (پ :۶۳۵ھ-ف:۷۵۲ھ) ایک نامور بزرگ گزرے ہیں، مولانا رحمت اللہ کیرانوی انہی بزرگ کی چودہویں پشت میں آ تے ہیں۔ بارہ برس کی عمر میں قرآن کریم اور فارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں، پھر تحصیل علم کے شوق میں دہلی چلے آئے اور مولانا محمد حیات ( خلیفہ حضرت شاه سلیمان تونسوی) کے مدرسے میں داخل ہوگئے ، یہ مدرسہ شاہ سید صابر علی معروف بہ ”صابر بخش” کی خانقاہ میں قائم تھا، اس کے علاوہ آپ نے مفتی سعد اللہ مراد آبادی، مولانا عبد الرحمٰن چشتی ، مولانا احمد علی مظفر نگری، مولانا امام بخش صہبائی سے درس نظامی کی تکمیل کی اور شاہ الغنی وغیرہ سے دورہ حدیث پڑھا، طب کی تعلیم حکیم فیض محمد سے حاصل کی۔

 تحصیل علم سے فراغت کے بعده ۱۲۵۶ھ میں شادی ہوئی، دہلی میں کچھ عرصہ ملازمت کی، اس دوران والد ماجد کا انتقال ہو گیا تو آپ وطن واپس آ کر درس وتدریس میں مشغول ہوگئے۔ آپ کے بعض اہم شاگردوں مولاناعبدالسمیع بیدلؔ رامپوری، مصنف انوار ساطعہ (متوفیٰ: ۱۳۱۸ھ/۱۹۰۰ء)مولانا شاہ ابو الخیر دہلوی (متوفیٰ: ۱۳۴۱ٍھ/ ۱۹۲۳ء) مولا عبدالوہاب دہلوی (بانی مدرسه باقیات الصالحات، مدراس) اور مولانا نور احمد امرتسری ( متوفیٰ ۱۳۴۸ھ/ ۱۹۳۰ء)، مولانا احمد دین چکوانی(متوفیٰ ۱۳۴۷ھ/۱۹۲۹ء)، مولا حافظ الدین دجانوی(متوفیٰ:۱ٍ۳۲۵ھ/۱۹۰۷ء)کے  علا وہ متعدد کیرانوی مشاہیر شامل ہیں۔

مولانا رحمت اللہ کیرانوی نے جس دور میں آنکھیں کھولیں ، مسلمانوں کے لیے وہ بڑا رستاخیز دور تھا، نہ صرف برصغیر بلکہ پورا عالم اسلام نو آبادیات کے پنجوں میں جکڑا ہوا تھا۔ انگریزوں نے مسلمانوں کو عیسائی بنانے کے لیے ہندوستان کے طول و عرض میں مشن اسکول، مشن اسپتال اور مشن فنڈ قائم کیے، برطانیہ سے پادریوں کی ایک پوری کھیپ ہندوستان آئی اور اپنے مشن کا آغاز کردیا ،مبلغِ اسلام مولانا رحمت اللہ کیرانوی علیہ الرحمہ   نے اس طرف توجہ دی اور” ازالة الأوهام‘‘ کے نام سے عیسائیت کے رد میں ایک کتاب تالیف کرنی شروع کی،اسی دوران آپ کو خواب میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی، تا ہم پادریوں کی یلغار ہندوستان کے قریہ قریہ تک پہنچ گئی، چنانچہ مولانا کیرانوی نے مولانا احمد بٹالوی، مولانا ولی اللہ لاہوری، مولانا فیض احمد بدایونی اور ڈاکٹر وزیر خان کو عیسائیت کی تردید کے لیے تیار کیا۔

جرمن نژاد پادری سی جی فنڈر  تمام پادریوں کا سربراہ تھا، اس نے ہندوستان آکر مشنریز کی سرگرداں تیز کیں ، اس نے آگرہ  کو اپنا مستقر بنایا، اور وہیں اپنی کتاب میزان الحق کا اردو ترجمہ شائع کرایا، یہ کتاب نہ صرف انتہائی جارحانہ تھی، بلکہ اسلامی مقدسات کی تنقیص و توہین سے پُر تھی ۔

اس کتاب کا پہلا جواب مولانا آل حسن موہانی (متوفیٰ: ۱۸۷۲ء) نے ”استفسار“ کے عنوان سے دیا۔مولانا آل حسن، مولانا حسرت موہانی کے پڑنانا تھے، ان دنوں فنڈر کی قیادت میں عیسائی مبلغین کی سرگرمیاں روز بروز بڑھتی گئیں۔ انھیں حکومت کا مکمل تعاون حاصل تھا۔ ممالک متحدہ آگرہ اور اودھ کا لیفٹیننٹ گورنر ولیم میور ، پادری فنڈر کا ذاتی دوست تھا، میور کی کتاب ”لائف آف محمد“ پر فنڈر کی کتابوں بالخصوص ”میزان الحق“ کے گہرے اثرات ملتے ہیں۔ بلکہ بعض مصادرکی رو سے میور نے یہ کتاب فنڈر کے مشورے پرہی لکھی تھی۔

اس صورت حال سے اسلامیان ہند میں شدید تشویش و بے چینی تھی۔ مسلم قیادت بھی سخت اضطراب میں تھی، ان چیره دستیوں کا جواب دینے کے لیے ایک ایسے شخص کی ضرورت  تھی جو جرأت و شہامت سے بھی متصف ہو اور علم ولیاقت سے بھی ، جو نہ صرف علوم اسلامیہ پر پوری قدرت رکھتا ہو بلکہ عیسائی مذہبی علوم سے بھی کما حقہ واقف ہو، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل فرمایا اور مولانا رحمت اللہ کیرانوی نے پادری فنڈ ر کو مناظرے کا چیلنج دیا۔ (سهماہی افکارِ رضا، ممبئی، شمارہ جنوری تا جون،۲۰۰۲، ص:۳۷تا ۳۹)

اس چیلنج  کے بعد مولانا رحمت اللہ کیرانوی، مولانا امیر اللہ کے ہمراہ پادری فنڈر کے مکان پر گئے تا کہ مناظرہ کا وقت طے کریں، مگر ملاقات نہ ہوسکی، پھر باہمی خط کتابت کے ذریعہ محلہ عبد المسیح آگرہ میں ۱۱ رجب ۱۲۷۰ ھ ۱۰اپریل ۱۸۵۲ء بروز پیر کوعلی الصبح مناظرہ طے ہوا، اس مناظرے کے بنیادی موضوعات :(1) نسخِ بائبل (۲) تحریف بائبل (۳) تثلیث اور الوہیت مسیح (۴) اثبات نبوت محمدی تھے۔

مسلمانوں کی طرف سے مناظر اول مولانا رحمت اللہ کیرانوی، مناظر دوم ڈاکٹر وزیر خان اور مولانا فیض احمد بدایونی مقرر ہوئے ، عیسائیوں کی طرف سے مناظر اول پادری فنڈر اور فرنچ تھے، اس مناظرہ کے پہلے اجلاس میں جولوگ شریک تھے ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں:

مفتی ریاض الدین، مفتی خادم علی، مفتی سراج الحق، مولانا حضور سہسوانی، مولانا امیر اللہ مختار راجہ بنارس، مولانا قمرالاسلام خطیب مسجد آگرہ ، مولانا سراج الاسلام، مولانا کریم اللہ بھچریوانی، حکیم قاضی فرخندعلی گو پاموی، ماسٹراسمتھ حاکم صدر دیوانی، مسٹر کرسچن سکنڈ صوبہ بورڈ، مسٹر ولیم میور مجسٹریٹ علاقہ فوج، مسٹر لیڈلی ترجمان حکومت، پادری ولیم گلنن، پنڈت جگن کشور، راجہ بلوان سنگھ بنارس اور اس کے علاوہ ہر گروہ کے ممتاز لوگ شامل تھے، اس مناظرہ میں یہ شرط بڑی خصوصیت کی حامل تھی کہ اگر پادری فنڈر شکست کھا گیا تو وہ اسلام قبول کرلےگا۔ اوراگر مولانا کیرانوی ہار گئے تو وہ عیسائیت قبول کرلیں گے، اس لیے عوام و خواص کو اس مناظرے سے بے حد دلچسپی ہوگئی تھی، سب سے پہلے پادری فنڈ ر کھڑا ہوا اور کہا:

”یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ مناظرہ کیوں کر منعقد ہوا، یہ مولانا رحمت اللہ کی سعی و کوشش اور خواہش کا نتیجہ ہے، اس سے فائدہ کی کوئی صورت میرے نزدیک نظر نہیں آتی، میری تمنا یہ ہے کہ دین عیسوی کی حقیقت مسلمانوں کے سامنے رکھوں، مباحثہ کا عنوان نسخ و تحریف والوہیت، حیات مسیح، تثلیث اور رسالت محمد ﷺ طےہوئے ہیں۔ “

اس کے بعد مولانا کیرانوی کھڑے ہوئے اور انجیل کی تعریف پر بڑی فاضلانہ بحث کی اور عیسائیوں کی کتابوں سے نسخ و تحریف ثابت کیا، چنانچہ پادری فنڈر نے ساتھ آٹھ جگہ تحریف کا اقرار کیا، مولانا قمرالاسلام اور مفتی خادم علی نے کہا :لکھنو کے پادری فنڈرسات آٹھ جگہ تحریف کا اقرار کر رہے ہیں، اس گفتگو پر مناظرہ دوسرےدن کے لیے ملتوی ہو گیا۔

دوسرے روز ۱۲ رجب ۱۲۷۰ھ/۱۱اپریل ۱۸۵۴ء بروز منگل صبح کو دوباره مناظره شروع ہوا، جس میں مندرجہ ذیل افراد شریک تھے:

مفتی ریاض الدین، مفتی اسد اللہ صدر الصدور ، مولانا فیض احمد، مولانا حضور احمد، مولانا امیر اللہ، مولانا قمرالاسلام، مولانا امجد علی وکیل، مولانا سراج الحق، منشی خادم علی، مولانا امیر علی شاہ، مولانا قمرالدین، مولانا مظفر علی شاه جعفری، سید صفدر علی شاہ شکوہ آبادی، مولانا امیر اللہ کیل، مولانا معین الدین، سید باقر علی شاہ، مولاناکریم اللہ خاں بھچرایونی، سید حافظ حسین شاہ، حافظ خدا بخش ، ڈاکٹر الہام اللہ گوپاموی، مفتی افہام اللہ ساحرؔ، قاضی باقر علی ہمدانی، مولانا سید مددعلی شاه تپش، مرزا زین العابدین ،سید فضل حسین، ڈاکٹر وزیر الدین فرخ آبادی، غلام محمد خاں، خلیفہ گزار علی اسیرؔ، غلام قطب الدین خان باطنؔ، مولانا سراج الاسلام اور دوسرے بے شمار مسلمان سکالرز موجود تھے۔

پہلے دن کے مناظرہ کی شہرت عام ہو چکی تھی، اس لیے دوسرے دن حاضرین کی تعداد زیادہ تھی، اس اجلاس میں انجیل میں تحریف کی بقیہ بحث جاری رہی، شکست خورده پر بر افروختگی امر ہے۔ اس لیے پادری فرنچ بار بار ترش روی کا مظاہرہ کرتے، چنانچہ یہ اجلاس بھی اختتامِ بحث کے بغیر ہی ختم ہو گیا۔

تیسرے روز پادری فنڈر میدان مناظرہ میں نہ آیا اور اپنی اس خفت کو مٹانے کے لیے مولانا کیرانوی کو خط لکھا کہ آپ نے دوبارہ مناظرہ میں جو عبارات پیش کی تھیں، میں نے ان پر اعتماد کر لیا تھا، لیکن بعد میں جب اصل عبارات کو دیکھا تو مطلب کچھ اور نکلا، اس لیے میں وہ تمام عبارات بھیج رہا ہوں، حضرت مولانا کیرانوی نے پادری فنڈر کے تمام سوالوں کا جواب دیا اور یہ خط و کتابت کافی دنوں تک جاری رہی۔

اس شکست وریخت کے ایک عرصہ بعد پادری فنڈر نے ڈاکٹر وزیرخاں سے دوبارہ چھیڑ چھاڑ شروع کی تو ڈاکٹر صاحب نے اسے لکھا:

”پہلے آپ مولانا رحمت اللہ صاحب کی باتوں کا جواب دیجیے اس کے بعد مباحثہ و محرف مان  کی تثلیث کے درمیان میں قدم رکھیں، جب یہ مسئلہ طے ہو جائے گا تو حضرت خاتم المرسلین کی نبوت کے عنوان پر گفتگو کی جائے گی۔“( تجليات مہر انور، از شاه حسین گردیزی، مطبوعہ مکتبہ مہریہ، گولڑہ ،  اسلام آباد، ص:۳۱۰ تا ۳۱۴)

جنگ آزادی میں مولانا کیرانوی کا کردار:

مولانا رحمت اللہ کیرانوی کی مذہبی حمیت نے  انگریزوں کی اس بے دینی کو برداشت نہیں کیا ، اور اسلام کی مدافعت کے لیے میدان میں نکل آئے، لیکن آج کے دیوبندی مکتب فکر کا اصرار ہے کہ جہادِ حریت اور دافعیت اسلام کے سلسلہ میں خدمات انجام دینے والا طبقہ تھانہ بھون، نانوتہ، گنگوہ اور ڈابھیل سے نکلا اور ان صوفیاے کرام نے مجالس، میلاد، فاتحہ خوانی اور عرس منعقد کرنے کے سوا کچھ نہ کیا، حالاں کہ دنیا جانتی ہے کہ صوفیاے کرام کا یہی طبقہ تھا جس نے نہ صرف دین کی حمایت کے لیے مرہٹوں، سکھوں، جاٹوں، ہندووں اور عیسائیوں سے علمی اور عملی جہاد کیا ، اور انھوں نے اپنی زبان وقلم  علم اور عمل سے  اسلام کے دشمنوں کو ہرمحاز پرشکست دی، اور ان ہی کی مخلصانہ کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج اسلام باقی ہے اور مسلمانوں کے دل اللہ اور رسول کی محبت سے سرشار ہیں، نام نہاد جہادی مکتب فکر کا کہنا ہے کہ جہادحریت کےلیے علماے دیوبندی بھی مولانا رحمت اللہ کیرانوی کی طرح سرگرم عمل تھے، حالانکہ اس سلسلہ میں دیوبندی علما کا مولانا رحمت اللہ کیرانوی سے کوئی تعلق نہیں، یہ لوگ تو مجاہدین کو باغی کہتے تھے، دیوبندی مولوی محمدتقی عثمانی (کراچی) نے مولانا کیرانوی علیہ الرحمہ کی کتاب ”اظہار الحق“ کے اردو ترجمه ”بائبل سے قرآن تک“ کے مقدمہ میں دھاندلی سے کام لیتے ہوئے ، ص:۱۹۷ پر دیوبندی علما کو جنگ آزادی ۱۸۵۷ءکا مجاہد ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے جو کہ حقائق کے برعکس ہے، دیوبندی علما کا جہاد جنگ آزادی ۱۸۵۷ء میں کردار ان کی اپنی تقریروں میں ملاحظہ فرمائی۔

علماےدیوبند اور جہاد جنگ آزادی :

 اس سلسلے میں مولوی کنگوہی کے سوا نح نگار عاشق الٰہی میرٹھی لکھتے ہیں:

”جب ”بغاوت“ و ”فساد“ کا قصہ شروع ہوا اور ”رحم دل“ گورنمنٹ نے دوبارہ غلبہ پاکر باغیوں کی سرکوبی شروع کی تو جن بزدل مفسدوں کو سواے اس کے اپنی رہائی کا کوئی چارہ نہ تھا کہ جھوٹی تہمتوں اورمخبری کے پیشہ سے سرکاری خیر خواہ اپنے کو ظاہر کریں، انھوں نے

اپنارنگ جمایا اوران گوشہ نشین حضرات پر بھی بغاوت کا الزام لگایا اور یہ مخبری کی کہ تھانہ بھون کے فساد میں اصل الاصول یہی لوگ تھے، اور شاملی کی تحصیل پر حملہ کرنے والا یہی گرده تھا بستی کی دکانوں کے چھپر انھوں نے تحصیل کے دروازہ پر جمع کیے اور اس میں آگ لگادی ... سرکاری خزانہ لوٹا حالاں کہ یہ کمبل پوش فاقہ کش حضرات فسادوں سے کوسوں دور تھے۔“ (تذکرة الرشيد مطبوعہ ساڈھورہ، ص:۷۶)

مولوی رشیداحمد گنگوہی سے سوال ہوا کہ تم نے مفرور مجاہدین جنگ آزادی کا ساتھ دیا اور فساد کیا؟ مولوی رشید احمد گنگوہی نے جواب دیا:

’’ہمارا کام فسادنہیں نہ ہم مفسدوں کے ساتھی ہیں“۔

سوال ہوا کہ تم نے سرکار کے مقابلہ میں ہتھیار اٹھائے؟ مولوی رشید احمد گنگوی نے ا پنی تسبیح  کی طرف اشارہ کرکے فرمایا :ہمارا ہتھیار تویہ ہے۔(تذکرة الرشید ،ص:۸۵)

سوانح نگار عاشق الٰہی میرٹھی لکھتے ہیں کہ مولوی رشید احمد گنگوی یہ سمجھے ہوئے تھے کہ: ”میں جب حقیقت میں سرکار کا فرماں بردار ہوں تو جھوٹے الزام سے میرا بال بھی بیکا نہ ہوگا اور اگر مارا بھی گیا تو سرکار (انگریز)مالک ہے اسے اختیار ہے جو چاہے کرے۔“

(تذکرۃ الرشید، ص:۸۰)

عاشق الٰہی میرٹھی لکھتے ہیں:

”ہر چند کہ یہ حضرات حقیقتاً بے گناہ تھے، مگردشمنوں کی یاوہ گوئی نے ان کو باغی ومفسد اور مجرم سرکاری خطاوارٹھیرا رکھا تھا اس لیے گرفتاری کی تلاش تھی مگرحق تعالیٰ کی حفاظت اس لیےکوئی آنچ نہ آئی اور جیسا کہ آپ حضرات اپنی مہربان سرکار کے دلی خیر خواہ تے تا زیست خیر خواہ ہی ثابت رہے۔“(تذکرۃ الرشید،ص:۷۹ )

مولانا رحمت اللہ کیرانوی اور جہاد جنگ آزادی:

 مشہور دیوبندی مورخ پروفیسر محمد ایوب قادری (متوفی ۱۹۸۳ء۔ کراچی) لکھتے ہیں:

”ضلع مظفرنگر (یوپی) کے دوسرے محاز کیرانہ پر امیر جہاد مولوی رحمت اللہ کیرانوی تھے، جو مذہب عیسوی کے رد میں شہرتِ عظیم رکھتے تھے اور مناظر کامل تھے، کیرانہ میں مولوی رحمت اللہ نے پہ (جہادکا ) فرض پورا کیا، مولانا رحمت اللہ نے انگریزی فوج کا مقابلہ کیا، چونکہ کیرانہ اور اس کے نواح میں مسلم گوجروں کی آبادی ہے لہذا مولوی رحمت اللہ کیرانوی کے ساتھ گوجروں کی قیادت چودھری علیم الدین کر رہے تھے، اس زمانے میں نماز عصر کے بعد مجاہدین کی تنظیم و ترتیب کے لیے کیرانہ کی جامع مسجد کی سیڑھیوں پر نقارہ کی آواز پر لوگوں کو جمع کیا جاتا اور اعلان کیا جاتا ”ملک خدا کا حکم مولوی رحمت اللہ کا“۔ اس کے بعد جو کچھ کہنا ہوتا تھا وہ عوام کو سنایا جاتا، کیرانہ کے محاذ پر بظاہر شکست کا امکان نہ تھا مگر بعض ابناے وطن کی زمانہ سازی اورمخبروں کی سازش نے حالات کا رخ بدل دیا، کیرانہ میں گورا فوج اور توپ خانہ داخل ہوا، محلہ دربار کے دروازے کے سامنے توپ خان نصب کیا گیا اور گورا فوج نے محلہ در بار کا محاصرہ کرليا ہر گھر کی تلاشی لی گئی ، عورتوں، بچوں اور ہر شخص کو فردًا فردًا دربار سے باہر نکالا گیا، اس لیے کہ مخبر نے اطلاع دی تھی کہ مولانا در بار میں روپوش ہیں۔

کیرانہ کے قریب”پنجیٹھ“  مسلمان گوجروں کا ایک گاؤں ہے جہاں مولانا رحمت اللہ اپنی  باقی مانده فوج کے ساتھ پہنچے، خود گوٹھ کا رخ کیا ، کیرانہ اور قرب و جوار کے تمام حالات کی اطلاع مولانا کوملتی رہتی تھی، پنجیٹھ کے مکھیا( گاوں کا چودھری یا نمبردار) کو جب فوج کا آنا معلوم ہوا تو اس نے جماعت کو منتشر کردیا اور مولانا رحمت اللہ سے کہا کہ کھرپالے کر کھیت میں گھاس کاٹنے چلے جائیں، فوج اسی کھیت کی پگڈنڈی سے گزری، مولانا رحمت اللہ فرمایا کرتے تھے، میں گھاس کاٹ رہا تھا اور گھوڑوں کی ٹاپوں سے جو کنکریاں اڑتی تھیں وہ میرے جسم پر لگتی تھی اور میں ان کو اپنے پاس سے گزرتا ہوا دیکھ رہا تھا۔“

گورافوج نے گاؤں کا محاصرہ کیا ،مکھیا کوگرفتارکرلیا گیا، پورے گاؤں کی تلاشی لی گئی، مگر مولانا کا پتا نہ چلا، مجبورًا یہ فوجی دستہ کیرانہ واپس ہوا، حالات پر قابو پالیا گیا ، مولانا رحمت اللہ کے خلاف مقدمہ قائم ہوا، وارنٹ جاری ہوا، آپ کو مفرورو باغی قرار دے کر گرفتاری کے لیے ایک ہزار روپیہ کا انعام کا اعلان ہوا، مولانا اپنا نام مصلح الدین بدل کر دہلی پیدل روانه ہوئے،یہ بڑی سخت آزمائش کا وقت تھا، ایمانی عزم و ہمت اورصبرواستقلال کے ساتھ جے پور اور جو دھ پور کے مہیب ریگستانی جنگلوں اور خطرناک راستوں کو پا پیاده طے کرتے ہوئے سورت پہنچے اوروہاں سے مکہ روانہ ہو گئے۔

مولانا رحمت اللہ کے حجاز چلے جانے کے بعد ان کے خاندان کی جائداد ضبط ہو کر نیلام ہوئی، مولانا کی جائداد کیرانہ کے علاوہ پانی پت میں بھی تھی، پانی پت کی جائداد ایک مخبر شخص کمال الدین کی مخبری پر نیلام ہوئی، جائداد کے نیلام کا فیصلہ ڈپٹی کمشنر کرنال نے ۳۰ جنوری۱۸۶۲ءکو کیا“۔

(جنگ آزادی ۱۸۵۷، مطبوعہ کراچی ۱۹۷۶ء کے ص:۱۸۵ تا ۱۸۶)

 مکہ مکرمہ پہنچ کر آپ کی ملاقات شیخ العلما علامہ سید احمد بن زینی دحلان مکی مفتی شافعیہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (متوفی ۱۳۰۴/ ۱۸۸۶ء) سے ہوئی، تعارف کے بعد انھوں نے گھر پر دعوت کی اور بڑی محبت سے پیش آئے، اس دوران قسطنطنیہ (استنبول ۔ ترکی) سے سلطان عبدالعزیز نے امیر مکہ شريف عبد اللہ پاشا کوحکم بھیجا کہ اس سال ہندوستان سے جو علماے کرام  حج کے لیے آئیں، ان سے آگرہ میں پادری فنڈر اور مولانا رحمت اللہ کیرانوی کے مناظرہ کی تفصیلات معلوم کر کے روانہ کریں، امیر مکہ نے اس بات کا ذکر مفتی مکہ شیخ احمد دحلان سے کیا۔ مفتی مکہ نے کہا کہ مولانا کیرانوی بذات خود یہاں موجود ہیں، میں آپ سے ان کی ملاقات کرائے دیتا ہوں، چنانچہ آپ کی ملاقات امیر مکہ سے ہوئی، امیر مکہ نے تمام صورت حال سے سلطان عبد العزیز کو آگاہ کیا، چنانچہ آپ۱۲۸۰ھ/۱۸۶۴ء میں شاہی مہمان کی حیثیت سے قسطنطنیہ  پہنچے، مولانا کیرانوی کے دارالحکومت میں طلبہ کی وجہ یہ تھی کہ پادری فنڈر ہندوستان سے ناکام ہو کر واپس لندن گیا تو مشنری سوسائٹی لندن نے اسے ترکی میں دین عیسوی کی تبلیغ کے لیے بھیجا، پادری فنڈرنے وہاں کے مسلمانوں کو یہ تاثر دیا کہ ہندوستان میں عیسائیت کو  فتح اور اسلام کو شکست ہو چکی ہے، وہاں کے علماے اسلام لاجواب ہو چکے ہیں اور ہندوستانی مسلمان دھڑادھڑ عیسائیت قبول کر رہے ہیں، اس لیے سلطان حقیقت حال سے آگاہی کے لیےبے چین تھے، قطنطنیہ میں مولانا کیرانوی کی آمد کی اطلاع پہنچی تو پادری فنڈر ترکی سے فرار ہو گیا، بعد میں سلطان نے اہل علم کی ایک مجلس منعقد کرائی، جس میں مولانا کیرانوی نے مناظره آگرہ کی تفصیلات بیان کیں، سلطان نے آپ کی بہت قدرومنزلت کی اور آپ کو خلعت فاخره کے ساتھ تمغۂ مجیدی دوم عطا کیا، شیخ الاسلام شیخ احمد اسعد مدنی کی تجویز پر ”پایۂ حرمین‘‘ کا خطاب دیا اور گراں قدروظیفہ ماہانہ سے سرفراز فرمایا، سلطان عبدالعزیز نے آپ سے فرمائش کی کہ اس موضوع پر ایک جامع کتاب تحریر کریں، چنانچہ آپ نے اس موضوع پر معرکہ آرا کتاب ”اظہار الحق“ لکھی جو رہتی دنیا تک آپ کی یادتازہ رکھے گی، اور آج بھی اس موضوع پر اس سے جامع کتاب پیش نہیں کی جا سکی، ریاض یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر محمد احمد ملکاوی نے اس کتاب پر تحقیق و تخریج کا کام کیا،جسےسعودی حکومت کے قائم کردہ دار الافتا ریاض نے ۱۹۸۹ء میں چار جلدوں میں طبع کراکے مفت تقسیم کیا، پھر ڈاکٹر ملکاوی نے ہی اس کا عربي زبان میں خلاصہ ”مختصر کتاب اظہار الحق “کے نام سے تیار کیا ، جسے ۱۴۱۶ھ میں  سعودی وزارت اوقاف نے ایک جلد میں طبع کرا کے تقسیم کیا۔ قیام قسطنطنیہ کے زمانے میں بعض اہل علم کے سوالات کے جواب میں ”تنبیہات“ کے نام سے ایک رسالہ لکھا، آپ کی بعض کتابوں کے نام درج ذیل ہیں:

ازالة الأوهام، ازالة الشکوك، اعجاز عیسوی، احسن الأحاديث في ابطال التثلیث، بروق لامعه، البحث الشريف في اثبات النسخ و التحريف، تقليب المطاعن، معیار الحق.

مولانا کیرانوی علیہ الرحمہ نے سرزمین حجاز میں ایسے کارنامے سرانجام دیے جونہ صرف عرب کے لیے بلکہ عالم اسلام کے لیے بھی سود مند ثابت ہوئے، آپ کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ مکہ مکرمہ میں ایک ایسی درس گاہ ہونی چاہیے جو عالم اسلام کو اپنے علمی فیضان سے سیراب کرے، چنانچہ آپ نے اپنے دوستوں اور خصوصاً حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے مشورہ کے بعد نواب فیض احمد خاں رئیس علی گڑھ مقیم مکہ مکرمہ کی رہائش گاہ کے ایک حصے میں مدرسہ قائم کردیا، چند سال بعد ۱۱۸۹ھ/۱۸۷۲ءمیں کلکتہ کی ایک صاحب حیثیت خاتون صولت النساء بیگم حج و زیارت کے لیے آئیں تو ان کی مالی معاونت مدرسہ صولتیہ قائم ہوا،جو مسجد الحرام کے حلقات دروس کے بعد اس صدی کی نصف اول کے مکہ مکرمہ کی دوسری بڑی درس گاہ ثابت ہوئی، مملکتِ ہاشمیہ حجاز کے پہلے بادشاہ سید حسین بن علی ہاشمی (متوفي ۱۳۵۰ھ/ ۱۹۳۱ء) نے اسی مدرسہ میں تعلیم پائی، نیز اس کے فارغ التحصیل علماے کرام مختلف اہم مناصب مفتی احناف ، مفتی مالکہ، مفتی شافعیہ، شیخ العلما ، شیخ الخطبا والائمہ، مدرس حرم، امام حرم، خطیب حرم، شیخ القرا، جسٹس، چیف جسٹس ، وزیر اعظم، رئیس مجلس شوریٰ، شرعی عدالت کے جج اور بیت اللہ کے کنجی بردار وغیرہ پر فائز رہے۔

 جسٹس، چین، وزیر اعظم، رییس مجلس شورای شری عدالت سے اور بیت اللہ کے کردار وغیر پر فائز رہے۔

موجودہ دور میں سعودی حکومت کے اکابر علما میں سے ایک اہم قلم کار ، ندوۃ العالیہ للشاب الاسلام، ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ(Wamy)کے سکریٹری جنرل ڈاکٹر مانع بن حماد الجہنی (متوفیٰ:۱۴۲۳ ھ/۲۰۰۲ء) رقم طراز ہیں:

” موجودہ صدی کے آغاز میں دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل ایک عالم نے مکہ مکرمہ میں مدرسہ صولتیہ قائم کیا جس نے دینی علوم کے فروغ میں شاندار خدمات انجام دیں۔“

(الموسوعة الميسرة في الأديان والمذاهب والاحزاب المعاصره طبع سوم ۱۴۱۸ھ ،دارالندوة العالية للطباعة والنشر والتوزیخ الرياض، ج 1، ص ۳۱۱)

ڈاکڑ موصوف نے اپنی اس تصنیف میں متعدد مقامات پر بہت سی باتیں بے بنیاد لکھ دی ہیں، مذکورہ بالا عبارت ان میں سے ایک ہے، جب کہ اس بات میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ مدرسہ صولتیہ مولانا رحمت اللہ کیرانوی نے قائم کیا تھا، جس کا دارالعلوم دیوبند سے کسی بھی نوعیت کا کوئی تعلق نہیں تھا ، اور یہ مدرسہ موجودہ صدی کے آغاز کے بجاےگزشتہ صدی کے آخر میں قائم ہوا۔ ۱۲۷۰ھ/۱۸۵۴ء میں مولانا کیرانوی اور پادری فنڈر کے درمیان آگرہ( ہندوستان) میں مناظرہ ہوا، جس کی روئدادعربی، اردو وغیرہ زبانوں میں شائع ہوچکی ہے، اس مناظرہ میں عیسائی مناظر کو شکست فاش ہوئی، اس مناظرہ کی وجہ سے انگریز حکمران مولانا کیرانوی پر برہم تھے، اس پر مزید یہ کہ ۱۲۷۳ھ/۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں مولانا نے بڑھ چڑھ  کر حصہ لیا تھا، جس پر انگریزوں نے آپ کی جائیداد ضبط کر کے آپ پرفوج داری مقدمہ چلانے کا حکم دے کر مولانا کی گرفتاری پر انعام مقرر کر دیا، چنانچہ آپ ہندوستان سے ہجرت کر کے یمن کے راستے ۱۲۷۴ھ/۱۸۵۸ء میں مکہ مکرمہ پہنچ گئے، انگریزی حکمرانوں نے ہندوستان میں مولانا کیرانوی کی تمام جائیداد و املاک ۳۰ جنوری۱۸۶۴ کو نیلام کردی۔(امام احمد رضا محدث بریلوی اور علماے مکہ مکرمہ، مطبوعہ ادارہ تحقیقات امام احمد رضا، کراچی ۱۴۲۷ھ/۲۰۰۶ء، ص:۲۸، بحوالہ اعلام الحجاز، ج:۲،ص:۲۹۳)               (جاری)

 

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved