27 July, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia Feb 2023 Download:Click Here Views: 34757 Downloads: 1268

(7)-معتزلہ، تفسیر کشاف اور علّامہ زمخشری

ریاض فردوسی

معتزلہ؛ اعتزال سے اسم فاعل ہے، اعتزال کے معنی ہیں الگ ہونا۔ اہل سنت والجماعت کے عقائد سے الگ ہو جانے کی بنا پر یہ فرقہ ’’معتزلہ‘‘ کہلایا۔معتزلہ کے مذہب کی بنیاد عقل پر ہے وہ خود کو اصحاب العدل والتوحید کہتے ہیں اور نقل پر عقل کو ترجیح دیتے ہیں۔عقل کے خلاف قطعیات میں تاویلات کرتے ہیں اور ظنیات کا انکار کرتے ہیں۔

معتزلہ ایک عقلیت پسند فرقہ ہے، جس کا بانی ایک ایرانی نژاد واصل بن عطا الغزال جو خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ کاشاگرد تھا، اس کے نزدیک قرآن مخلوق ہے، توحید عقلاً معلوم ہو سکتی ہے، گناہ کبیرہ کا مرتکب کافر ہے وغیرہ وغیرہ۔

مامون الرشید کے عہد میں یہ سرکاری مذہب بن گیا تھا۔ امت مسلمہ میں پانچ بڑے فرقے ہوئے ہیں ان میں سے ایک معتزلہ بھی ہے، سنی، خوارج، شیعہ، معتزلہ اور باطنیہ۔

دوسری صدی ہجری کے اوائل میں یہ فرقہ وجود میں آیا اور اس کا سب سے پہلا پیروکار عمرو بن عبید تھا جوامام حسن بصری رحمۃ اللہ کا شاگرد تھا، ان لوگوں کو اہل السنۃ و الجماعۃ کے عقائد سے الگ ہوجانے کی بنا پر معتزلہ کہا جاتا ہے۔ معتزلہ کے مذہب کی بنیاد عقل پر ہے کہ ان لوگوں نے عقل کو نقل پر ترجیح دی ہے، عقل کے خلاف قطعیات میں تاویلات کرتے ہیں اور ظنیات کا انکار کردیتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے افعال کو بندوں کے افعال پر قیاس کرتے ہیں، بندوں کے افعال کے اچھے اور برے ہونے کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کے افعال پر اچھے اور برے کا حکم لگاتے ہیں، خلق اور کسب میں کوئی فرق نہیں کرپاتے۔حضرت حسن بصری رح کے علمی حلقے میں شامل واصل بن عطاء دراصل فرقہ معتزلہ کا بانی ہے۔ دراصل کسی نے حضرت حسن بصری رح سے سوال پوچھا کہ ایک گروہ کہتا ہے کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب کافر ہے جبکہ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب کافر نہیں قرار دیا جاسکتا۔ آپ کے نزدیک ان میں سے کون درست ہے؟ حضرت حسن بصری رح کے جواب دینے سے قبل ہی واصل بن عطاء بول پڑاکہ میری رائے میں نہ ایسا شخص کافر ہے اور نہ ہی مومن بلکہ اسکے بین بین ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ واصل بن عطاء نے اس کی پرزور تلقین بھی دیگر حاضرین میں شروع کردی۔ اس پر حسن بصری رح نے کہا کہ ھذا الرجل اعتزال عنا  یعنی یہ شخص اعتزال کر گیا (ہم سے الگ ہوگیا)۔ یہی لفظ اعتزال پھر واصل کے فکری گروہ کی شناخت بن گیا۔ایک روایت کے مطابق معتزلہ کا یہ نام بابینا جلیل القدر تابعی قتادہ بن دعامہ سروسی ﷛نے دیا۔

 عمرو بن عبید اور ان کے ساتھی حضرت حسن بصری رح سے اختلاف کے بعد اپنا الگ حلقہ بنائے بیٹھے تھے۔ جہاں یہ نابینا تابعی اسے حسن بصری رح کا حلقہ سمجھ کر بیٹھ گئے۔ جلد ہی ان پر حقیقت واضح ہوئی تو اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا یہ تو معتزلہ ہیں۔ بس یہاں سے اس گروہ کو معتزلہ پکارا جانے لگا۔اہم بات یہ ہے کہ یہودیوں میں ایک گروہ فروشیم تھا جس کے معنی معتزلہ کے ہیں۔ان کے عقائد اسلامی فرقہ معتزلہ سے بہت ملتے جلتے ہیں۔

معتزلہ اور اہل سنت والجماعت کے نظریات وعقائد!

معتزلہ کے نزدیک گناہ کبیرہ کا مرتکب،ایمان سے خارج ہو جاتا ہے مگر وہ کفر میں داخل نہیں ہوتا یعنی نہ وہ مومن رہتا ہے نہ کافر، جب کہ اہل سنت والجماعت کے نزدیک مرتکب کبیرہ ایمان سے خارج تو نہیں ہوتا؛ البتہ وہ کامل مومن نہیں رہتا، اسی طرح معتزلہ کے عقائد میں سے ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کرتے ہیں ان کو ثواب دینا اور ان کو جنت میں داخل کرنا اللہ تعالیٰ پر واجب ہے اور جو لوگ گناہ گار ہیں ان کو سزا دینا اور ان کو جہنم میں داخل کرنا اللہ تعالیٰ پر واجب ہے یہ عدل کا تقاضاہے جب کہ اہل سنت و الجماعت کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پر کوئی چیز واجب نہیں، مطیع اور عاصی سب اللہ کے بندے اور اس کے مملوک ہیں اور مالک کو اپنی ملکیت میں ہر تصرف کا اختیار ہوتا ہے، اگر اللہ تعالیٰ عاصی کو جہنم میں ڈال دیں تو یہ اس کا عدل ہے اور اگر معاف کردیں اور جنت میں داخل کردیں تویہ اس کا فضل ہے۔

معتزلہ اللہ تعالیٰ کی صفات علم، حیات، قدرت وغیرہ کا بھی انکار کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اللہ کی ذات قدیم ہے اور صفات کو قدیم ماننے کی صورت میں تعدد قدماء لازم آتا ہے اور یہ توحید کے منافی ہے اس لیے صفات کا انکار کرتے ہیں، لیکن اہل سنت والجماعت اس کا جواب دیتے ہیں کہ صفات کو قدیم ماننا یہ توحید کے منافی نہیں، جو توحید کے منافی ہے وہ ذات قدیم کا تعدد ہے جو یہاں لازم نہیں آتا۔ معتزلہ کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کے افعال کا خالق نہیں ہے بلکہ بندہ خود اپنے افعال کا خالق ہے لیکن اہل سنت والجماعت کے نزدیک بندہ صرف رب کا سب ہے اور خالق اللہ تعالیٰ ہیں۔

معتزلہ کے پانچ نظریات!

(1) عقیدۂ عدل کے اندر درحقیقت انکارِ عقیدۂ تقدیر مضمر ہے، ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ شر کا خالق نہیں، اگر اللہ تعالیٰ کو خالقِ شر مانیں تو شریر لوگوں کو عذاب دینا ظلم ہوگا جو خلافِ عدل ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ عادل ہے ظالم نہیں۔

(2) ان کی توحید کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات اور قرآن مجید مخلوق ہیں، اگر انہیں غیر مخلوق مانیں تو تعدد قدماء لازم آتا ہے جو توحید کے خلاف ہے۔

(3) نفاذِوعید کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو جو عذاب بتلائے ہیں اور جو جو وعیدیں سنائی ہیں، گنہگاروں پر ان کو جاری کرنا اللہ تعالیٰ پر واجب ہے، اللہ تعالیٰ کسی کو معاف نہیں کر سکتا اور نہ کسی گنہگار کی توبہ قبول کر سکتا ہے، اس پر لازم ہے کہ گنہگار کو سزا دے، جیسا کہ اس پر لازم ہے کہ نیکو کار کو اجر و ثواب دے، ورنہ نفاذِ وعید نہیں ہوگا۔

(4) منزلۃ بین منزلتین کا مطلب یہ ہے کہ معتزلہ ایمان اور کفر کے درمیان ایک تیسرا درجہ مانتے ہیں اور وہ مرتکبِ کبیرہ کا درجہ ہے، ان کے نزدیک مرتکبِ کبیرہ یعنی گنہگار شخص ایمان سے نکل جاتا ہے اور کفر میں داخل نہیں ہوتا، گویا نہ وہ مسلمان ہے اور نہ کافر۔

(5) امر بالمعروف کا مطلب ان کے نزدیک یہ ہے کہ جن احکامات کے ہم مکلّف ہیں دوسروں کو ان کا حکم کریں اور لازمی طور پر ان کی پابندی کروائیں اور نہی عند المنکر یہ ہے کہ اگر امام ظلم کرے تو اس کی بغاوت کرکے اس کے ساتھ قتال کیا جائے۔یہ فرقہ اب بھی دنیا میں موجود ہے،اور چند گمراہ،اور قرآن وحدیث کی سہی تعلیمات سے نا آشنا نوجوان آج بھی اس کی پیروی کرتے ہیں۔

علامہ زمخشری اور تفسیر کشاف !مولیٰ علی کرم اللہ وجہ کی تعریف میں فرانسیسی مصنف نے ایک کتاب تحریر کی تھی ،جس میں آ م کرم اللہ وجہ کی بے انتہا تعریف اور توصیف کا بیان تھا،لیکن کتاب کے آخری اوراق میں مصنف نے لکھا ہے کہ!

مولیٰ علی کرم اللہ وجہ کے اندر تمام خوبیوں کے علاوہ سب سے بڑے خوبی تھی کہ وہ مصنوعی حدیث بنالیتے تھے۔اسی طرح تفسیرِکشاف میں علامہ زمخشری نے بہت ہی خوبصورتی سے قرآنی آیات کے معنی اور مطالب کی غلط تشریح بیان کی ہے،اس پر مدلل دلائل قائم کی، سوائے علمائے حق اور اہل دانش کے شائد ہی کسی کی اس طرف رسائی ہو،اور شائد ہی کوئی غوروفکرکرے۔

ملا علی قاری نے لکھا ہے کہ بسبب معتزلی الاعتقاد ہونے کے علامہ زمخشری نے تفسیر میں بعض مقام پر تاویل میں سوء تعبیری و تغیر کو کام فرمایا ہے جو اکثر لوگوں پر خفیہ ہے اس لیے ہمارے بعض فقہا نے آپ کی تفسیر کا مطالعہ کرنا حرام لکھاہے۔(حدائق الحنفیہ)

فرقۂ معتزلہ میں کثرت سے علماء تھے اور انہوں نے بہت بڑی تعداد میں کتابیں لکھیں مگر ان کی تمام کتابیں جلا دی گئیں۔ اس میں صرف ایک استثناء ہے اور وہ زمخشری کا ہے۔ زمخشری اگرچہ معروف معتزلی تھا۔ تاہم اس کی دو کتابیں المفصل (نحو) اور الکشاف (تفسیر قرآن) آج بھی موجود ہیں اور تعجب خیز بات ہے کی ناسمجھ علماے اہل سنت کے درمیان بدستور مقبول ہیں اور چند نادان علماء اکرام کوعلمی مرجع کے طور پر کام دیتی ہیں۔

علامہ زمخشری کی ولادت بروز بدھ 27 رجب المرجب 467ھ مطابق 18 مارچ 1075ء کو زمخشر میں ہوئی۔علامہ ابوالقاسم محمود بن عمرو بن احمد خوارَزمی المعروف علامہ زمخشری کی عربی تفسیر ِقرآن جو تفسیر کشاف کے نام سے معروف ہے اصل نام ’’الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل‘‘ ہے جو 4 ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے اس تفسیر میں علوم عربیت کو نہایت عمدہ طور پر جمع کیا گیا  ہے ۔یہ تفسیر علوم ادبیہ میں ایک سند شمار کی جاتی ہے۔

علامہ ابوالقاسم محمود بن عمر بن محمد خوارَزمی زَمَخْشَری (538-467 ھ / 1072ء - 1144ء) اپنے زمانے کے ممتاز معتزلی عالم اور مفسر قرآن تھے، اور اسکے علاوہ وہ فقہ، فلسفہ، علم کلام اور لسانیات کے بڑے ماہر تھے،بلاشک وشبہ علمی میدان میں امام بلا مدافع، علامہ، نحوی، لغوی، فقیہ جید، محدث متقن، مفسر کامل، فاضل مناظر، ادیب، متکلم، بیانی، شاعر،ذکی،تیز طبع، الفروع، معتزلی الاصول تھے۔ علم ادب ابی الحسن علی بن مظفر نیشا پوری اور ابی نعیم اصفہانی سے حاصل کیا اور آپ سے زین بقالی محمد ابی القاسم وغیرہ لوگوں نے اخذ کیا اور آپ کو اصحاب پیدا ہوئے۔کئی دفعہ بغداد میں آئے۔چونکہ بہ ایام طالب علمی جب آپ بخارا کو جا رہے تھے تو راستہ میں آپ سواری سے گر پڑے اور ٹانگ کو سخت ضرب آئی اور ہر چند علاج کیا کچھ فائدہ نہ ہوا اس لیے آپ نے ناچار ہو کر ٹانگ کو کٹواڈالا اور بجائے اس کے لکڑی کا پاؤں بنوایا،جب چلتے پھر تے تو اس پر کپڑاڈال دیتے جس سے دیکھنے والا گمان کرتا کہ آپ لنگڑے ہیں۔

ان کی پیدائش ایران کے خوارزم کے علاقہ زمخشر میں ہوئی تھی، اسی کی نسبت سے ان کو زمخشری کہا جاتا ہے۔ لیکن معتزلی ہونے کی وجہ سے ان کی توجہ زیادہ تر عقائد کی فلسفیانہ تعبیر و تفسیر سے ہے، اور وہ احادیث نبوی سے کم استفادہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، کیونکہ ان کا عقائد کے حوالے سے جو نقطہ نظر تھا، وہ معتزلی نظریات کا حامل تھا، اس لئے وہ معتزلی علماء میں ایک ممتاز مقام رکھتے تھے۔

 جب معتزلی علما کی طرف سے ان کے عقائد و نظریات کو لیکر ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوگیا تھا، تو ان کے معاصر علماء اور عام مسلمانوں کا ان سے اختلاف اس قدر بڑھ گیا کہ وہ اُن کی کتابوں کے دشمن بن گئے، چونکہ اس فرقہ معتزلہ میں کثرت سے علما پائے جاتے تھے، تو انہوں نے بہت بڑی تعداد میں کتابیں بھی لکھی تھیں، خاص کر علامہ زمخشری نے ایک درجن سے زائد کتابیں لکھی تھیں، لیکن جب معتزلی علما کی تمام کتابوں کو جلا نے کی کوشش کی گئیں، تو ان میں علامہ زمخشری کی بھی کئی کتابیں جلا دی گئیں، لیکن جو کتابیں بچ گئی تھیں، تو ان میں ایک ان کی تفسیر ” الکشاف “ بھی تھی، اور آج بھی ان کی یہ تفسیر موجود ہے، اور علم و بلاغت کے اعتبار سے مشہور بھی ہے، اور بعد کے ادوار میں لکھی گئی کتب تفاسیر میں اس تفسیر کے حوالے کثرت سے ملتے ہیں۔

    علامہ زمخشری کو اپنی تفسیر پر بڑا ناز تھا، اور وہ اپنی اس تفسیر کے بارے میں یہ اشعار پڑھا کرتے تھے۔

إن التفاسیر  فی  الدنیا  بلا عدد

و لیس فیہا  لعمری  مثل  کشافی

إن کنت تبغی الہدی فالزم قرائتہ

فالجہل کالداء  والکشاف کالشافی

 دنیا میں لا تعداد کتب تفاسیر موجود ہیں، مگر میری زندگی کی قسم، کشاف، جیسی ایک بھی تفسیر نہیں ہے۔اگر تو ہدایت کا طلبگار ہے، تو اسے پڑھتا رہ، اس لیے کہ جہالت ایک بیماری ہے، جس سے ' کشاف ' شفا بخشتی ہے۔(تاریخ تفسیر و مفسرین: ص 339، ایڈیشن 1985ء)

 علامہ زمخشری کی تفسیر ” الکشاف “ اس حوالے سے قابل قدر ماخذ تصور کی جاتی ہے کہ اس میں قرآن کے اعجاز اور اس کی فصاحت و بلاغت پر نہایت عمدہ تفسیر ملتی ہے، لیکن اس تفسیر میں معتزلی عقائد و نظریات کی تائید بھی ملتی اور اس کے لیے علامہ زمخشری نے منطقی طور پر ذہنوں کو الجھانے کی بہترین کوشش کی ہے،اور اس میں بہت حد تک کامیاب بھی رہے ہیں۔

بعض کم علم یا ناواقف لوگ اس تفسیر پر تعریفوں کے پل باندھتے ہوئے علامہ زمخشری کے معتزلی ہونے کا انکار کرتے ہیں یا یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اعتزال سے توبہ کی تھی، لیکن یہ بات قطعی طور پر درست نہیں ہے، بلکہ موجودہ دور میں جو ”تفسیرالکشاف “ چھپتی ہے، اس میں امام احمد بن المنیر الاسکندری کے حواشی شامل ہوتے ہیں، جو انہوں نے اس تفسیر کے معتزلی عقائد کے رد میں لکھے ہیں، اور اس تفسیر الکشاف کے سر ورق پر ہی یہ عبارت موجود ہے۔ وفی حاشیۃ: الاول: کتاب الانتصاف فیما تضمینہ الکشاف من الاعتزال للامام احمد بن المنیر الاسکندریہ .

  اس سے واضح ہوتا ہے کہ امام ابن المنیر کے حواشی کا مقصد اس تفسیر میں موجود معتزلی عقائد پر تنقید اور رد کرنا ہے، اور ان حواشی کا نام انہوں نے ” الانتصاف “ رکھا ہوا ہے۔ جس کے معنی کسی چیز کا ازالہ کرنے، حق وصول کرنے اور انتقام لینے کے ہیں۔

   آخرت میں رویت باری تعالیٰ عقائد اہل سنت میں شامل ہے، لیکن معتزلی علماء آخرت میں رویت باری تعالیٰ کا عقیدہ نہیں رکھتے تھے۔

  اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے۔ وُجُوہٌ یَّومَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ۔اِلٰی رَبِّہا نَاظِرَۃٌ. (القیامۃ: 22 - 23)اس دن کئی چہرے ترو تازہ ہوں گے۔ اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے۔

  اس آیت کی تفسیر میں امام فخرالدین رازی لکھتے ہیں۔ اعلم أن جمہور أہل السنۃ یتمسکون بہذہ الآیۃ فی إثبات أن المؤمنین یرون اللہ تعالی یوم القیامۃ. (التفسیر الکبیر: ج 30، ص 200)

   جان لو کہ جمہور اہل سنت اس آیت (23) سے اس عقیدہ کے اثبات میں دلیل پکڑتے ہیں کہ قیامت کے دن اہل ایمان اللہ تعالیٰ کو دیکھیں گے۔

   اس کے بعد پھر امام فخرالدین رازی نے معتزلی عقیدہ کے حوالے سے تفصیل سے بحث کی ہے۔

 علامہ زمخشری نے اس آیت کے تحت اپنے معتزلی عقیدہ کی ترجمانی کرتے ہوئے اس سے انہوں نے توقعات اور امید مراد لیا ہے (معنی التوقع و الرجاء) لیکن علامہ زمخشری کی اس تفسیر کا رد کرتے ہوئے حاشیہ میں امام ابن المنیر نے رویت باری تعالیٰ کے اثبات میں تفصیل سے لکھا ہے ۔(تفسیر الکشاف: ج 4، ص 663)

 علامہ ابن کثیر نے اس نظریہ کا رد کرتے ہوئے لکھا ہے۔وقد ثبت رؤیۃ المؤمنین للہ. عز و جل فی الدار الآخرۃ فی الأحادیث الصحاح من طرق متواترۃ عند ائمۃ الحدیث لا یمکن دفعہا و لا منعہا.(تفسیر ابن کثیر: ج 4، ص 578)آخرت کے گھر میں اہل ایمان کا اللہ عز و جل کا دیدار صحیح احادیث سے ثابت ہے، جو ائمہ حدیث کے نزدیک حد تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں، ان کا رد اور انکار ممکن نہیں۔

 مولانا سید ابو الاعلی مودودی نے بھی اس معتزلی عقیدہ کا رد کرتے ہوئے لکھا ہے!بکثرت احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی جو تفسیر منقول ہے، وہ یہ ہے کہ آخرت میں اللہ کے مکرم بندوں کو اپنے رب کا دیدار نصیب ہوگا۔ (تفہیم القرآن: ج 6، ص 172)

 سیکڑوں مقامات پر اس ” تفسیر الکشاف“ میں معتزلی عقائد کو صحیح ثابت کرنے کے لئے سعی کی گئی ہے، یہاں تک کہ علامہ زمخشری نے کئی مقامات پر اہل سنت سے اپنے بغض و کینہ کا بھی اظہار کیا ہے کہ کبھی ان کو مجوسی اور کبھی اصحاب بدعت لکھا ہے، لیکن اس مختصر سے مضمون میں ان تمام باتوں کا احاطہ ممکن نہیں ہے، اور اہل علم سے وہ قابل اعتراض باتیں پوشیدہ بھی نہیں ہیں، لیکن غلام احمد حریری کی مشہور و معروف تالیف ” تاریخ تفسیر و مفسرین “ میں علامہ زمخشری اور ان کی تفسیر الکشاف کے بارے میں 16 صفحات کا ایک تحقیقی مضمون شامل ہے، اور قابل مطالعہ بھی ہے۔(تاریخ تفسیر و مفسرین ، صفحہ 337 تا 352)

 علامہ زمخشری بلاشبہ ایک زبردست عالم اور دیدہ ور انسان تھے، اور انہوں نے اپنی تفسیر میں کئی مقامات پر اچھی تفسیر بھی لکھی ہے، لیکن اسی کے ساتھ ساتھ جمہور اہل سنت کے عقائد کے برعکس معتزلی عقائد کی خوب ترجمانی بھی کی ہے، جن میں رویت باری تعالیٰ سے انکار اور گناہ کبیرہ کے مرتکب مسلمانوں کا ہمیشہ جہنم میں رہنے کو ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ہے، لیکن محقق علما نے اس طرح کے بہت سارے باطل عقائد ونظریات کا سختی سے رد کیا ہے، خاص کر اس تفسیر الکشاف کے قابل اعتراض مقامات پر امام ابن المنیر کے حواشی قابل مطالعہ ہیں۔ نیز امام ذہبی علامہ زمخشری کی تفسیر الکشاف کے بارے میں لکھتے ہیں۔محمودُ بنُ عُمَرَ الزِّمَخْشَرِیُّ الْمُفَسرُ النَّحْوِیُّ صَالِحٌ، لٰکِنَّہ دَاعَیۃ إِلَی الاِعْتِزَالِ أَجَارَنَا اللّٰہ، فَکُنْ حَذِرًا مِنْ کَشَّافہ. (میزان الاعتدال: ج 5، ص 277)

  محمود بن عمر زمخشری جو مفسر، نحوی، صالح ہیں، لیکن ان کی تفسیر اعتزال کی طرف دعوت دیتی ہے، اللہ ہمیں اس (معتزلی تفسیر) سے بچائے، لہذا ان کی تفسیر کشاف سے بچو۔اگر حوالہ بھی دینا ہے تو پوری تحقیق کے ساتھ اور واقعات پر غوروفکر کر کے دیں۔علامہ زمخشری کی وفات شبِ دوشنبہ 8 ذوالحجہ 538ھ مطابق 12 جون 1144ء کو ہوئی۔

 آخر میں!....علامہ زمخشری کے عقائد کے بارے میں جانے بغیر ان کی تفسیر '' الکشاف '' کا مطالعہ کرنا مناسب نہ ہوگا،کیونکہ اس تفسیر میں جمہور اہل سنت سے شدید اختلاف رائے کرتے ہوئے معتزلی عقائد و نظریات کے دفاع میں کافی کچھ لکھا گیا ہے، اور کئی مقامات پر نصوص شرعی کی بھی تحریفانہ تعبیر و تفسیر کا سہارا لیا گیا ہے۔ اس لئے ان کی اس طرح کی باتوں کے بارے میں جب تک پہلے سے جانکاری حاصل نہ ہو، تب تک ان کی تفسیر کا مطالعہ کرنا کسی طرح بھی مفید مطلب نہ ہوگا۔ بلکہ الٹا نقصان پہنچنے کا خطرہ لاحق ہوگا۔

کتب تفاسیر میں ایک معروف تفسیر علامہ زمخشری کی ” تفسیر الکشاف “ بھی ہے۔جس سے ہمارے محترم علماےکرام علامہ زمخشری کے نظریات اور عقائد کو جانے بغیر ہی اس کا حوالہ اپنے خطاب اور مضامین میں دیتے رہتے ہیں۔کاش تفسیر الکشاف حوالہ دینے سے قبل مصنف کے حال واحوال کا بھی مطالعہ کر لیتے۔تفسیر الکشاف چار جلدوں پر مشتمل عربی زبان میں ہے۔

علامہ زمخشری کی اہم تصانیف:تفسیر کشاف،فائق اللغہ فی تفسیر الحدیث،اساس البلاعہ فی اللغہ،ربیع الابرار،متشابہ اسامی الرواۃ،نصائح الکبار،نصائح الصغار،الرائض فی علم الفرائض،المفصل فی النحو، انموذج،مفرو،شرح ابیات سیوبہ،شقائق النعمان،مقامات زمخشری، مستقصی فی الامثال،اطواق الذہب،شرح مشکلات المفصل،الکلم التواضع القسطاس فی العروض،الاحاجی النحویہ،المنہاج فی الاصول،رسالۃ ناصحیہ،مقدمۃ الادب،رؤس المسائل فی الفقہ،نصوص الاخبار،صمیم العربیہ،دیوان التمثیل،امال،معجم الحدودو المیاہ والا ماکن و الجبال،ضالۃ الناشد۔R۝R

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved