مولانا محمد شہاب الدین رضوی
’’نواب سید یوسف علی خان ہمیشہ شب کے تین بجے سے اُٹھ کر رپورٹ سُنا کرتے تھے لیکن اس روز خلاف عادت صبح تک آرام میں رہے کہ ولسن صاحب آئے اور نواب صاحب کو بیدار کرایا، اسی وقت گاڑی کی تیاری کا حکم ہوا، نواب صاحب مع ولسن صاحب کے ہوا خوری کو گئے اور راہ میں جج صاحب نے خبر مفسدۂ میرٹھ کی کل کیفیت بیان کی اور پھر اسی وقت مراد آباد کو چلے گئے۔ 12 مئی کو مراد آباد میں پریڈ پرحکم سنادیا گیا کہ کارتوس جدید نہیں کٹوایا جائے گا۔ 18 مئی کو سفر مینا کی پلٹن کے ستر آدمی میرٹھ سے مراد آباد کو آئے اور گانگن کے پل پر جو مراد آباد سے تین میل ہے، ٹھہرے۔ اُن کے آنے سے اطراف مراد آباد میں فساد شروع ہوا۔ جب کہ مراد آباد میں عام طور پر فساد دہلی و میرٹھ کی خبریں مشتہر ہوئیں۔ تو 29 نمبر پلٹن کے لوگ کسی قدر خیرہ سر ہوئے مگر پھر فوراً انھوں نے اپنی حرکات ناسزا کی معافی چاہی، اور بہت بڑی خیر خواہی کے ساتھ سرکاری کام میں جانفشانی کرنے لگے، رام پور میں بھی عام طور پر یہ خبریں مشہور ہوئیں۔ بلکہ اکثر ایسی افواہیں مفسد مشہور کرتے تھے جن سے تمام دولت مند گروہوں میں ہل چل ہوجاتی تھی۔ بدمعاش آوارہ گرد خوشی کے نعرے لگاتے تھے اور فساد کی تخم ریزی اور ایک دوسرے سے کنایات بغاوت کرتے تھے۔ تاہم فوج یا شہرمیں بدنظمی یا خودسری کی کوئی صورت نہ تھی۔ 21 مئی کو دو سو آدمیوں کا غول جواپنے آپکو غازی کہتا تھا، بلا علم نواب صاحب و حکام شہر کے مراد آباد کو شہر سے فرداً فرداً روانہ ہوا اور باہر جاکر جمع ہوئے۔ مراد آباد کی جانب رخ کیا۔ کہتے ہیں مولوی مَنّونے انکو بلوایا تھا، ولسن صاحب جج مراد آباد اس خبر کو سن کردو عہدہ دار اور9 2 نمبر کی پلٹن کے چند سپاہی اور تھوڑے سے سوار لے کرغازیوں کے استقبال کے واسطے رام گنگا کے کنارے پر پہنچے، اس فوج نے غازیوں کی خوب خدمت گزاری کی یہاں تک کہ وہ گروہ بالکل منتشر ہوگیا اور بھاگ گیا۔ فقط اتنا ہوا کہ ایک شخص نے شیر بچہ بھر کے جج صاحب کی طرف چھوڑنا چاہا تھا کہ ایک سپاہی نے اسکو دوڑ کرمار ڈالا۔ اور مولوی مَنّوکو ملازمان پولیس نے گرفتار کر کے سر شام گولی سے مارڈالا۔ اس جماعت میں سے کچھ آدمیوں کا محاصرہ بھی کر لیا تھا، جن کو سواروں کے دستے کی حراست میں مسٹرولسن نے رام پور کو سزادہی کے لیے بھیج دیا، نواب سید یوسف علی خان نے ان قیدیوں کو سزا تجویز کرنے کے لیے اپنے ولی عہد نواب سید کلب علی خان کے حوالے کر دیا جنھوں نے اُن سب کو جیل خانے میں قید کر دیا۔ جس کی وجہ سے مفسدوں کو بہت ہی خوف ہوا اور نہایت بارعب اثر پڑا۔ پھر 30 مئی کو سنیچر کے دن مراد آباد میں خبر پہنچی کہ دو کمپنیاں سفر مینا کی پلٹن کی رڑکی سے سرکشی کر کے لوٹ کا اسباب لیے ہوئے مراد آباد کی طرف آرہی ہیں، اس طرف دو کمپنیاں مع دو ضرب توپ کے بھیجیں جنھوں نے سفرمینا کی کمپنیوں کے تمام ہتھیار اور جملہ سامان چھین لیا ،اور وہ سپاہی بالکل مفلس ہوکر ترائی کی طرف بھاگ گئے۔ 29 نمبر پلٹن مراد آباد کی گویا یہ آخری خیر خواہی تھی، اس کے بعد انکو سوائے مفسدہ پردازی کے اور موقع خیر خواہی کا نہ ملا۔ نواب صاحب نے بھی فوراً مزید احتیاط فوج کی درستی اور شہر کے ضروری انتظامات کی طرف توجہ فرمائی۔ ہر شخص کے چال چلن پر نظر رکھی جاتی تھی کہ وہ کیا کہتا اور کیا کرتا ہے۔ ‘‘(اخبار الصنادید از حکیم نجم الغنی خاں، ج:2 ص:33،34، مطبوعہ رضا لائبریری رام پور 1997ء)
بریلی اور مراد آباد کی بغاوت کے اثرات سے رام پور کا محفوظ رہپانا بہت مشکل تھا،مگر یہاں پر نواب مکمل طور پر انگریزوں کی حمایت میں کمربستہ تھے، آگے حکیم نجم الغنی خاں رام پوری کچھ اس طرح حالات بیان کرتے ہیں:
’’.گو بریلی میں فساد کی صورت مطلق نہ تھی مگر مسٹر آرالگزینڈر کمشنر بریلی و ایجنٹ ریاست رام پور ایک ایسے ہوشیار اور عالی دماغ افسر تھے کہ اُنھوں نے فوراً یہ تجویز کی کہ تمام میم اور بچے وغیرہ اس وقت نینی تال بھیج دینے مناسب ہیں، اکثر یورپین نے جن کے نزدیک ان کا خیال معتمد تھا اپنے اہل و عیال کو 20 مئی تک نینی تال روانہ کر دیا۔ اور بعض نے اپنے متعلقین کو بریلی میں بجائے خود محفوظ مقامات میں رکھا۔ روز مرہ مختلف مقامات سے لوگ آتے تھے اور فوج کو بغاوت اور سرکشی کی ترغیب دیتے تھے۔ فروما یہ لوگ یہی چاہتے تھے کہ ہنگامہ برپا ہو اور لوٹ کھسوٹ سے اپنے گھر بھریں، مگر فوج ہر وقت بظاہر اطاعت اور فرمانبرداری ظاہر کرتی تھی، گویا وہ لوگ اپنی جمعیت بہم پہونچنے اور وقت کے منتظر تھے۔ ناگہان 29 مئی 1857ء کو یہ خبر اڑی کہ آج فوج میں ضرور فساد ہو گا، اس خبر کو سُن کر بعض یورپین افسروں نے جن کے اہل و عیال بریلی میں تھے، خاص شہر میں امن تلاش کر کے میموں اور بچوں کو بظا ہر محفوظ کر دیا۔ لیکن فوج سے جب حال دریافت کیا تو وہ اُسی طرح مطیع اور تابعدار تھی بلکہ تمام ہندوستانی فوجی عہدہ دار اس بات پر حکام سے اصرار کرتے تھے کہ یہ خبریں محض غلط ہیں، آپ لوگ اپنے اہل و عیال بدستور چھاؤنی میں بھیج دیں۔0 3 مئی کی شام تک کوئی بدنظمی نہ تھی۔ اسی تاریخ بعد مغرب 45 رجمنٹ خیر پور والی کے بھاگے ہوئے لوگ یہاں آئے اور فوج سے مشورہ کیا کہ: اب اپنے ارادے میں توقف کرنا خلاف مصلحت ہے۔ فوراً افسروں کو تلوار کے نیچے رکھ لو کیونکہ گورہ فوج بہت قریب آچکی ہے اور جس جگہ جاتی ہے ہندوستانیوں کا قتل عام کرتی ہے۔ اس شب چند رخصتی سپاہی بھی آئے اور اُنہوں نے اول کے بیان پر اور بہت کچھ حاشیہ چڑھایا۔ یہ تمام رات سپاہیوں کو مشورہ اور مصلحت میں گزری، یہاں تک کہ کوئی شخص لین میں بھی نہیں آیا۔ چونکہ بے اطمینانی اول ہی سے پیدا ہو گئی تھی اس لیے حکام نے بھی کچھ اس طرف توجہ نہ کی۔ صبح یعنی1 3 مئی کو اتوار کے دن سب یورپین اور کرسچین معمولی عبادت کے واسطے گرجا میں جمع ہوئے۔ نو اور دس بجے کے در میان میں مسمیٰ محمدبخش عرف بخت خان صوبہ دار توپخانہ مع پلٹن نمبر 18 و 8 6 پیادگان ہندوستانی اور آٹھویں رجمنٹ سواران ہندوستانی متعینہ چھاؤنی بریلی کے باغی ہوا ،اور توپ کا ایک فیر ہوا۔ یہ فیر گویا اطلاع اس بات کی تھی کہ فوج باغی ہوگئی۔ فیر کے بعد جلد جلد گولے چلنے لگے اور مسلح سپا ہی دیوانوں کی طرح انگریزوں کی تلاش میں ادھر ادھر پھرتے تھے۔ یہ فساد عجلت سے قائم ہواکہ اکثر انگریزوں کو خبر نہیں ہوئی۔ اور جو شخص جہاں تھا وہیں رہ گیا۔ اس واقعہ کے قبل منجملہ اور انتظامات کے ایک یہ امربھی طے ہو چکا تھا کہ: فساد کے وقت سب یورپین آٹھویں رسالے کی لین کے متصل جمع ہوجائیں۔ چنانچہ سب لوگ اُس طرف دوڑے۔ جو افسر کہ اپنی فوج کی جانب بغرض تنبیہ گئے وہ سب قتل ہوئے، اُسی وقت جنرل سپالڈ صاحب کو ایک ہندوستانی سوار نے کہ جو ان کی اردلی میں تھا شتر خانے کے متصل بندوق سے مارڈالا، اور افسائن مکر صاحب کو تلنگوں نے مسکوٹ میں مار ڈالا۔ میگزین اور خزانہ سرکاری بھی اپنے قبضے میں کر لیا۔ کوٹھیوں اور بنگلوں کا اسباب و مال لوٹ کر آگ لگادی۔ سرکاری دفتر پھونک دیا۔ جیل خا نہ توڑ کر قیدیوں کورہا کر دیا۔ رابرٹ الیکزینڈر صاحب کمشنر اور مسٹر گٹھری صاحب مجسٹریٹ ضلع بریلی حکام فوج و ملیٹری میں سے تخمیناً تیس آدمیوں کو اپنے ہمراہ لیکر گھوڑوں پر نینی تال چل دیے۔ اُسی دن خان بہادر خان ابن ذوالفقار خان بن حافظ رحمت خان، شوبھارام اور مدار علی وغیرہ اور سادات نو محلہ کی مدد سے کو توالی میں آکر نواب بن کر بریلی پر حکمراں ہوئے۔ رابرٹسن صاحب جج اور ڈاکٹر ہنس پرو صاحب اور آر صاحب ڈپٹی کلکٹر تمازت آفتاب کی وجہ سے مولوی حامد حسن منصف کے مکان میں اور بچ صاحب پرنسپل کالج بریلی اور ریکس صاحب سیشن جج امان علی کی کوٹھی میں پناہ گیر ہوئے۔ یہ سنتے ہی شہر کے بدمعاش جوق در جوق دونوں مکانوں پر حملہ آور ہوئے اور اُن کو تہ تیغ کر کے لاشیں ان کی گھسیٹ کر کو توالی میں ڈالدیں۔ اور امان علی کے تہ خانے کو جس میں یہ لوگ چھپے تھے جلاکر خاک کر دیا، اُسی دن مسٹر امپل مع والدہ اور بیوی اور دو بچوں کے شام کے وقت کوتوالی کے روبروقتل کیے گئے اور اکثر عیسائیان کم رتبہ کو جہاں دیکھا مارڈالا۔ پیرسن صاحب میجر رجمنٹ 18 نینی تال کو جاتے تھے کہ راستہ بھول کر پیلی بھیت کی سڑک پر چلے گئے۔ موضع مٹیا پرگنہ نواب گنج میں گاؤں والوں نے ان کو قتل کیا۔ البتہ گون صاحب کپتان رجمنٹ 18 اپنی پلٹن کے سپاہیوں کی مدد سے چھاؤنی سے نکل گئے، اور کھیرا بجھیرا ضلع شاہ جہانپور میں جا چھپے اور بچ گئے۔ جس وقت باغیوں نے جیل خا نہ توڑنے کا ارادہ کیا تو ڈاکٹر ہنس برو صاحب نے حتی المقدور باز رکھنا چاہا، جس قدر چھپر وہاں موجود تھے باغیوں نے ان کو دروازے کے متصل رکھ کر آگ دیدی جب کہ دروازہ جلنے لگا ،اور ڈاکٹر کومعلوم ہو گیا کہ جیل خانے کے سارے سپاہی بھی باغیوں کے طرفدار ہیں تو مجبور ہو کر بالائی دروازہ سے اتر کر جیل خانے کے اندر جاچھپے۔ دوسرے روز باغی لوگ جیل خانہ لوٹنے لگے تو ڈاکٹر کوبھی پکڑ لائے اور کوتوالی کے سامنے ان کو قتل کیا۔‘‘
’’اس کے بعد خان بہادر خان نے فوج بھرتی کرنا، توپیں ڈھلوانا شروع کیا، اور جابجا تھانے اور تحصیلیں مقرر کیں۔ لیکن اس وقت روپیہ کہاں تھا جو نوابی ٹھاٹ درست کیے جاتے، اس لیے متمول باشندگان شہر پر تحصیل زر کے واسطے بلا نازل ہوئی۔ اُن کو قید کر کے روپیہ وصول کرتے تھے، اہل رام پور غول کے غول جاتے اور نوکر ہوتے۔ فوج باغی نے بھی شہر والوں پر بہت دست درازی کی، مصر بیجناتھ ساہوکار کنھیا لال خزانچی کو بخت خان نے پکڑ کر قید کیا۔دونوں شخصوں نے باون ہزار روپے دیکر مخلصی پائی۔ ‘‘
’’رام پور میں اسی روز حالات غدر کی اطلاع شیخ وجیہ الزمان خان سفیر ریاست خلف شیخ محمد منعم الزمان خان متوطن قصبۂ فرخ آباد عرف چلاوان ضلع بجنور صوبۂ اودھ کی تحریر سے ہوئی۔ نواب صاحب نے بنظر خیر خواہی و ہمدردی برٹش حکومت علی الصباح یکم جون 1857ء کو اپنا ایک معتمد آدمی جج صاحب وکلکٹر مراد آباد کے پاس روانہ کیا، تا کہ جمیع صاحبان موجودہ مراد آباد اپنی جانوں کی حفاظت بخوبی کرلیں۔‘‘
’’بریلی کے حالات سن کر مراد آباد کے اکثر انگریز نینی تال اور میرٹھ چل دیے اور کچھ افسر مراد آباد ہی میں مقیم رہے، جس وقت بریلی کی بغاوت کی خبر مراد آباد میں عام ہوئی اس وقت 29 نمبر پلٹن با وجود چند خیر خواہیوں کے خود داری ناکرسکی ،اور 3 جون کو کھلم کھلا فساد شروع کیا، خزانہ لوٹ لیا، جیل خانہ توڑ دیا، اور اپنے افسروں پر تلواریں علم کیں۔ جب انگریز مراد آباد سے بھاگ کر میرٹھ اور نینی تال کو چلے گئے تو مجو خان ہندوستانی انیسویں باغی پلٹن کا افسر بنایا گیا اور اسد علی خان، عباس علی خان کا باپ ہندی تو پخانے کا افسر مقرر ہوا۔‘‘
’’ان دونوں مقامات کی تباہی اور انگر یزوں کی بربادی کا نواب سید یوسف علی خان کو سخت رنج و افسوس ہوا، نواب صاحب کے بہت سے انگریز دوست تھے جو مارے گئے اور تباہ ہوئے۔ لیکن یہ موقع نہایت خوفناک تھا، مختلف مقامات کے مفسدوں کے آنے سے یہاں بھی عام خیالات فساد کی طرف مستحیل ہو چلے تھے اور اکثر لوگ مفسدہ پردازی کے ذریعے ڈھونڈھتے تھے۔ اگر نواب صاحب کی بیدار مغزی میں کچھ بھی کمی ہوتی تو فساد کی صورت قائم ہو گئی تھی۔‘‘ (اخبار الصنادید، ج:2 ص37،8 3)
رام پور کے نواب یوسف علی خاں نے مجاہدین کی سرگرمیوں کو کچلنے اور انگریزوں کی حمایت میں مراد آباد کو اپنے ماتحت حکومت میں شامل کرلیا، اور مجاہدین کو بزور طاقت کچل دیا گیا، حکیم نجم الغنی خاں رام پوری نے نواب خان بہادر خان بریلوی پر جو الزامات لگائے ہیں وہ سب طرفداریِ انگریزی حکام میں لگائے ہیں ، جب کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ مزید حالات انہی کے مؤرخ حکیم نجم الغنی خاں نے اس طرح کہانی بیان کی ہے، رقم طراز ہیں:
’’نواب صاحب کو واقعۂ بریلی اور مراد آباد کے بعد فوراً یہ خیال ہوا کہ مفسدوں کی دلیری اور شورش زور پر ہے، اگر ان کو ان اضلاع میں زیادہ موقع دست برد کاملا تو انتظام میں دقتیں واقع ہوں گی، اور پھر جب یہ حالت ترقی کرے گی توریاست کو بھی مشکلات کا سامنا ہوگا۔ اس لیے ایک معتمد کو مع ایک تحریر و چند پیغامات زبانی کے کمشنر صاحب بریلی کے پاس نینی تال کو روانہ کیا، اس تحریر کا یہ مطلب تھا کہ فی الحال عموماً رعایا کے خیالات میں فساد پیدا ہو گیا ہے اور اسکی کوئی انتہا بھی مقرر کرنا محال ہے، لیکن اضلاع مراد آباد و بریلی میں ابھی دست درازی شروع ہوئی ہے، تھوڑے زمانے تک انکو کسی جانب سے مدد ملنے میں بھی تامل ہے، یہ موقع بہت مناسب ہے کہ اگر آپ منظور کریں تو ہم روہیل کھنڈ میں حکومت قائم رکھیں، کیونکہ جب انکو تقویت کامل ہوجائیگی تو پھر اجرائے حکومت میں مدتوں مشکلیں واقع ہونگی اور ریاست کو خطروں میں مبتلا ہونا پڑے گا۔‘‘
’’ہنوز جواب تحر یر نینی تال سے نہیں آیا تھا کہ نواب سید یوسف علی خان بہادر نے بحسن اعتماد اجازت ملنے کے جو مصلحت ملکی کے لحاظ سے ایک ضروری بات تھی 4 جون 1857ء کو کہ اس وقت با غیوں کی قوت بڑھ چکی تھی، اور اکثر مفسد گروہ اطراف و جوانب سے آکر مقیم ہوگئے تھے اور خزانے پر قبضہ کر لیا تھا اور جیل کو توڑ کر قیدیوں کو رہا کردیا تھا، صاحبزادہ سید عبد العلی خان عرف منجھلے صاحب اپنے حقیقی چچا کو مع ایک عمدہ فوج کے اور حکیم سعادت علی خان کو بطور منتظم مراد آباد روانہ کیا، راہ میں حکیم سعادت علی خان کو معلوم ہوا کہ صاحبزادہ سید باقر علی خان برادر صاحبزادہ سید مہدی علی خان قریب سو سوا سو آدمیوں کے ساتھ بخیال حصول حکومت مراد آباد جاتے ہیں۔حکیم صاحب نے بہت عجلت سے پیش قدمی کی اوران سے قبل مردآباد پہنچ کر رام گنگا کے گھاٹوں کا بندوبست کر لیا۔ اس لیے سید باقر علی خان بلا حصول مطلب پریشانی کے ساتھ رام پور واپس آئے۔ اسی روز آدھی رات کو حکیم سعاد ت علی خان کچھ ملازموں کے ساتھ آگے سے داخل مراد آباد ہوئے اور جیل خانے کا ملاحظہ کیا۔ سید موسی رضا جیلر کی بہت تسلی کی اور کہا کہ: صبح کے قریب منجھلے صاحب آئیں گے میں بھی اُن کے ساتھ ہوں گا، تم اطمینان رکھو انتظام بخوبی کیا جائے گا۔ چنانچہ صاحبزادہ سید عبدالعلی خان و حکیم سعادت علی خان مع فوج د توپخانۂ شائستہ کے مراد آباد پہونچے۔ وہاں دیکھا کہ مجدالدین احمد خان عرف مجوخان اولاد نواب عظمت اللہ خان فاروقی اور عباس علی خان نبیرۂ نواب دوندے خان نے اپنے آپ کو حاکم قرار دیا ہے، اور اُن دونوں میں بابت ریاست قدرے تنازع بھی ہوا تھا اور اُن کے ملازمین انتظام شہر میں مصروف ہیں۔اُس وقت حکمت عملی اور فوج کی شان و شوکت کے ذریعہ سے اُن کو حکومت شہر سے خارج کیا، اور منادی کرائی گئی کہ حکومت شاہی اور انتظام ضلع نواب صاحب رام پور کے متعلق ہے اور تمام کچہریوں کے ملازموں کو بدستور اپنی اپنی جگہ کام کرنے کی اجازت ہے، اگر چہ اُن سے کوئی قصور بھی سرزد ہوا ہو، اس کا کچھ مواخذہ نہیں۔ اس منادی کوسن کر تمام انگریزی ملازم سید عبدالعلی خان کے دربار میں نذر کے واسطے حاضر ہوئے۔ چونکہ فوج باغی اور دوسرے مفسدوں کا جماؤ بہت زیادہ تھا، اس لیے بعض لوگوں کے ساتھ حسب صلاح وقت تالیف اور تنبیہ سے کام لیا، اورسرکار رام پور کی حکومت بالاستقلال تمام شہر اور بعض اطراف میں قائم کی، شیخ امام الدین کوتوال فرار ہوگیا تھا، اس کی جگہ سید موسی رضا کو کوتوال اور سید غلام شبیر پسر سید موسیٰ رضا کو جیلر مقرر کیا، اور جتنے ملازمان سابق موجود تھے بدستور قائم رکھے۔ صرف محمد مرزا ساکن مراد آباد محلۂ سبز منڈی کو تھانہ دار موضع بھجوی کا کیا، کچھ زن ومرد اور یورپین بچے مجو خان کے پاس قید تھے اور ان کے ساتھ بہت سختی اور بے رحمی کا برتاؤ ہوتا تھا۔ ان کو بھی اپنی حفاظت میں لے کر کانمل والے مکان میں نہایت آسائش سے رکھا۔’’ تاریخ خورشید جاہی‘‘ کے ص: 693 میں مذکور ہے کہ: نواب صاحب کی طرف سے اُن کی حفاظت کے واسطے ایک پہرہ مقر ہوگیا، اور ہر آدمی کی خوراک کے لیے پانچ روپیے ماہوار مقرر کر دیے گئے، انتہیٰ کلام میرے نزدیک پانچ روپیے ماہوار غلط ہے پانچ روپیے روز ہونگے۔‘‘
’’6 جون کو نواب صاحب کا معتمد کمشنر کی ایک تحریر مورخہ 4 جون اور چند خفیہ پیام لے کر رام پور پہنچا ،اس تحریر میں صرف اضلاع مراد آباد پر حکومت رکھنے کی اجازت تھی۔ لہٰذا جو کچھ انتظامات پیشتر کیے گئے تھے اُن کی حالت بدستور رہی۔ 6 جون کو نواب صاحب خود رام پور سے مراد آباد کو گئے، ایک افسر 29 نمبر پلٹن کا اُن کے استقبال کے واسطے رام پور آیا اور ان کو اپنے ہمراہ مراد آباد کو لے گیا۔ نواب صاحب کے پہونچتے ہی توپوں کی سلامی سر ہوئی۔ نواب صاحب نے دربار کر کے تمام افسروں کو دوشالے انعام میں دیے اور دو ہزار روپیہ باغی سپاہیوں پر تقسیم کرا یا۔ یہ دربار نواب صاحب کی کوٹھی پر گھوڑ دوڑ کے میدان کے پاس قائم ہواتھا، اس در بار میں مجوخان کو ضلع کا ناظم اور حکیم سعادت علی خان کو جج مقرر کیا گیا۔ نیاز علی خان ڈپٹی کلکٹر کیے گئے باقی اور ماتحت افسران کے ہاتھ کے نیچے مامور ہوئے۔ قرآن شریف کے بموجب انصاف ہونے لگا۔ نیاز علی خان نے چند آدمیوں کے ہاتھ وغیرہ کاٹنے کی سزا بھی دی۔ نواب صاحب نے سادات اور شرفائے امروہہ کو طلب کیا تو وہ بھی نواب صاحب کے دربار میں حاضر ہوئے اور تا حصول رخصت وہیں مقیم رہے، بعد اسکے نواب صاحب رام پور چلے آئے۔‘‘ (اخبار الصنادید، ج:2 ص 41،2 4)
بریلی کے نواب خان بہادر خان نے انگریزوں سے خوب نبرد آزمائی کی مگر بیچ میں نواب یوسف علی خاں کی وجہ سے کمزور پڑ گئے،انگریزوں کو محفوظ نینی تال بھیج دیا، ان کے خرچہ کے لیے روپیہ بھیجا، رام پور پر قبضہ کے لیے جنرل بخت خان اور خان بہادر خان کے منصوبہ کو بھانپتے ہوئے نواب یوسف علی نے اپنی حفاظت کی، بقول حکیم نجم الغنی خاں رام پوری :
’’ بریلی کی باغی فوج صرف اس وجہ سے بریلی میں چندے مقیم رہی کہ شاہ جہانپور کی فوج بھی آجائے اور اس کو ساتھ لے کر دہلی کی جانب کوچ کرے، جس وقت خان بہادر خان کو مراد آباد پر ریاست رام پور کے قبضے کا حال معلوم ہوا اُس وقت تشویش ہوئی کہ مبادا اسی طرح پر بریلی میں بھی ریاست کی طرف سے دست اندازی ہو، اس کے دفعیہ کی یہ تدبیر نکالی کہ تمام باغی فوج موجودۂ بریلی کو اس امر پر آمادہ کرنا شروع کیا کہ وہ ریاست پر یورش کرے، اور اُن لوگوں کے اچھی طرح ذہن نشین کردیا کہ نواب سید یوسف علی خان بالکل انگریزوں کے طرفدار ہیں، اور رات دن اس فکر میں رہتے ہیں کہ تم کو دہلی جانے سے روکیں اور بشرط حصول موقع تم کو قتل و غارت کریں۔اگر ریاست رام پور کا قدم درمیان میں نہ ہو تو انگریزوں کا اس طرف کہیں نام و نشان باقی نہ رہے۔ لیکن نواب صاحب برابر روپیہ اور سامان ضروری سے اُن کی پوری مدد کرتے ہیں، اس لیے بہتر ہے کہ پہلے اس کانٹے کو راہ سے دور کرو اور پھر بدل جمعی تمام روہیل کھنڈ پر حکومت اور شاہ دہلی کی حمایت کرو۔ اس وقت موقع بھی اچھا ہے کیونکہ ریاست میں نہ تمھارے مقابلے کی فوج ہے اور نہ سامان جنگ۔ زر نقد اور سامان اپنے قبضے میں لاؤ، اور شمسۂ تاجدار بیگم بنت نواب سید احمد علی خان کو جو سب طرح مستحق ریاست ہیں وہاں کا حکمران جائز بنادو۔ اگر رام پور میں تمھاری حکومت قائم ہوگئی تو پھر نینی تال والوں کی سزا دہی کوئی مشکل کام نہیں ہے، بلکہ میرٹھ تک کو ئی تمھارا سد راہ نہیں ہو سکتا ادھر دہلی کی راہ میں بہت سے خطرے ہیں، وہ بھی جاتے رہیں گے۔‘‘
’’ان سب مراتب پر تمام باغی بھی متفق ہو گئے اور خیر خواہان ریاست نے بریلی سے ان تمام کارروائیوں کی اطلاع بھی کردی، جس کی وجہ سے ایک تشویش کا عالم طاری ہوا۔ اس میں شک نہیں کہ اگر ریاست کا قدم درمیان میں نہ ہوتا تو روہیل کھنڈ میں انگریزوں کو کسی جگہ پناہ ملنا محال تھا۔ اور دوبارہ حکومت نہایت دقتوں سے قائم ہوتی۔ جس وقت باغی فوج شاہجہانپور اور لکھنؤ وغیرہ سے بریلی میں پہونچی، اس وقت سب نے متفق ہو کر بقصد دہلی رام پور کی جانب کوچ کیا، گو اصلی مقصود دہلی جانا تھا مگر ضمن میں ریاست کی پامالی بھی منظور تھی، اس کوچ کا حال سن کر نواب صاحب نے اپنی تمام طاقت کو جمع کرنا مناسب سمجھا اور کل فوج و معتمدین جو مراد آباد میں قریب چھ سو کے تھے واپس طلب کیے، چنانچہ سید عبدالعلی خان8 جون کو اپنی فوج لے کر رام پور کو روانہ ہوگئے، اس لیے کہ رام پور کے بعض باشندے بھی برسر شورش اور ہنگامہ پسند طبیعتیں موقع فسادکی منتظر تھیں، گو یہاں قریب بارہ تیرہ ہزار کے قدیم و جدید فوج تھی لیکن اس زمانے میں کسی شخص کی نسبت اعتماد کلی نہیں ہو سکتا تھا، اور نہ اس جنگ آزمودہ فوج کے مقابلے کا یہاں سامان تھا۔ حسب رائے صاحب کمشنر بہا در بنظر تالیف مناسب معلوم ہوا کہ باغی فوج کے واسطے چیز ے بچیزے سامان رسد کیا جائے۔ چنانچہ ریاست کی حدود میں اس کو کسی قدر رسد بھی دی گئی۔ 9 جون کو فوج باغی بیرون شہر گنیش گھاٹ پر ٹھہری، جب کہ یہ کثیرالتعداد باغی جماعت یہاں آگئی تو اس نے اس امر کی خواہش کی کہ ’’نواب صاحب اگر بذات خاص شریک نہ ہوسکیں تو اپنی فوج سے ہمکو مدد دیں تا کہ ہم نینی تال کے انگریزوں کا قلع وقمع کریں، اور ولی عہد بہادر (نواب سید کلب علی خان) کو ہمارے ساتھ ملازمت شاہ دہلی کے لیے روانہ کریں، اگر نواب صاحب ہماری ان باتوں کو قبول کریں گے تو ہم بے شک یقین کر سکتے ہیں کہ وہ ہمارے اور عام مسلمانوں کے دوست ہیں۔‘‘
’’اس خاص معاملے میں سرفراز علی کی معرفت جو مولوی مشہور اور فوج باغی کا مقتد ا تھا بہت گفتگو ہوئی، لیکن مفسد اپنی بات پر بار بار زور دیتے تھے، آخر کار مولوی سرفراز علی کو قریب چھ سات ہزار کے روپیہ اور سامان تالیف کے لیے دیا گیا، اور ان کے اصرار کو بلطائف الحیل ٹالا۔ مگر وہ آخر تک یہی بات کہتے رہے کہ: ہم یہ مراتب بنظر خیرخواہی کہتے ہیں، کیونکہ نواب صاحب ایک قدیمی رئیس اور مسلمانوں کے حاکم ہیں۔ شہر کے مفسدوں نے یہ طرز اختیار کی کہ رات دن فوج باغی میں جاکر طرح طرح کی باتیں بناتے اور اُس کو فساد پر آمادہ کرتے تھے، یہ حال سن کر نواب صاحب نے حکم عام دیا کہ: کوئی شخص ہمارے متوسلین اور شہر کے باشندوں میں سے وہاں نہ جانے پائے۔ لیکن مفسدوں نے اس حکم کی بھی بخت خان سے شکایت کی اور اس نے نواب صاحب سے اس امر کا گلہ کیا، بہر حال 13 جون کو یہ باغی فوج مراد آباد کی طرف چلی گئی۔ اگر مفسدوں کا منصوبہ پورا پڑ جاتا تو اس موقع پر ریاست بھی ایک آتش بازی کا میدان ہو جاتی۔ ‘‘ (اخبار الصنادید، ج:2 ص 45،6 4)-------(جاری)
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org