27 July, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia August 2023 Download:Click Here Views: 14553 Downloads: 788

(7)-مجدد الف ثانی كے فضائل و كرامات

آخری قسط

ڈاکٹر غلام مصطفیٰ مجددی

عزم و استقلال:

حضرت مجددالف ثانی قدس سرہ کا دور از حد پر آشوب تھا۔ بدعت و ضلالت کے اندھیرے پھیلے ہوئے تھے۔ کفر و شرک کی خزائیں زوروں پر تھیں۔ اکبر اعظم کی اسلام دشمنی اور جہانگیر کی آزاد روی کے سامنے ایک فقیر بارگاہ رسالت تھا جس کے عزم و استقلال نے اندھیروں اور خزاؤں کا تسلط ختم کیا اور شہنشاہوں کی اکڑی ہوئی گردنیں خم کر دیں ۔ اللہ ! اللہ ! آپ کے عزم و استقلال کی درخشندہ مثال سے تاریخ حرّیت جگمگا رہی ہے۔ بادشاہ وقت نے سجدہ تعظیمی کے لیے مجبور کیا لیکن آپ نے فرمایا : جوسر بارگاہِ الوہیت میں جھکتا ہو، کسی اور کے دروازے پہ کیسے جھک سکتا ہے۔ بادشاہ غیظ و غضب کا نشان بن گیا ، ادھر آپ کے مخلصین نے یہ مشورہ دیا کہ بادشاہوں کے لیے سجدۂ تعظیمی جائز ہے، سجدۂ تعظیمی کر لیں ، آپ کو کوئی گزند نہ پہنچے گی۔ اس مردحق آگاہ نے فرمایا:

”یہ فتویٰ تو رخصت ہے۔ عزیمت یہ ہے کہ غیر حق کے سامنے سجدہ نہ کیا جائے“۔ (مناقب آدمیہ و حضرات احمد یہ بحوالہ سیرت مجددالف ثانی ، ص : ۱۷۲)

 پھر اس کے بعد طرح طرح کے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا لیکن مجال ہے جوعزم و استقلال کے عظیم پیکر کے قدموں میں لغزش پیدا ہوئی ہو۔ ایسی استقامت کی توقع فاروق اعظم کے لخت جگر سے ہی کی جاسکتی ہے۔ ڈاکٹر اقبالؔ آپ کے عزم و استقلال کو سلام پیش کرتے ہیں ۔

گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے

جس کے نفسِ گرم سے ہے گرمیِ احرار

تسليم ورضا:

 ڈاکٹر محمد مسعود احمد صاحب لکھتے ہیں:

” نہ معلوم اس ہندو راجپوت نے کیا سلوک کیا ، آگرے سے گوالیار کس طرح لے گیا، قلعہ گوالیار میں لے جا کر کیا کیا ؟ ہاں اس پائے نازنین کو پابند سلاسل کیا، یہ کیسا ظلم کیا۔ سرزمین ہند میں اس کے جاں نثار و فدا کار اس کے اشارے کے منتظر ہیں مگر وہ اپنے رب کریم کی رضا پر راضی ہے۔ ظالم ظلم کیے جارہے ہیں مگر وہ لطف اٹھارہا ہے۔ کیا چشم عالم نے بھی یہ منظر دیکھا ہے؟ ظالم نے نہ صرف پابند سلاسل کیا، گھر اجاڑا ... کتب خانہ ضبط ، جائیداد ضبط، کنواں ضبط، زمین ضبط ، جو کچھ پاس تھا سب ضبط کر کے آپ بے آسرا کر دیے گئے مگر جس کا آسرا خدا پر ہو وہ کسی آسرے پر نہیں رہتا ۔

(سیرت مجددالف ثانی ص:۱۶۷)

حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ کے اپنے مکتوبات آپ کے جذبۂ تسلیم و رضا کے بہترین عکاس ہیں۔ آپ عالم اسیری میں لکھتے ہیں:

”میر نعمان کو معلوم ہوا ہوگا کہ میرے خیر اندیش دوستوں نے ہر چند میری رہائی کے اسباب پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن کچھ نتیجہ نہ نکلا۔ جو کچھ خدا نے کیا وہی بہتر ہے۔ بمقتضائے بشریت مجھ کو بھی اس سے کچھ رنج ہوا اور دل میں تنگی ظاہر ہوئی ۔لیکن تھوڑے ہی زمانہ میں اللہ کے فضل سے وہ رنج اور دل کی تنگی فرحت و شرح صدر سے بدل گئی، اور یقین خاص سے معلوم ہوا کہ اگر اس جماعت کی مراد جو میرے در پئے آزار ہے، اللہ جل سلطانہ کی مراد کے موافق ہے تو پھر اس پر نا پسندیدگی اور دل تنگی بے معنی اور دعویٰ محبت کے منافی ہے ۔ ( مکتوب ۱۵، دفتر سوم)

ایک مقام پر فرماتے ہیں:

” آپ دوستوں سے کہہ دیں کہ وہ دل کی تنگی دور کریں اور جولوگ در پئے آزار ہیں ان کی طرف سے بد دل نہ ہوں بلکہ ان کے فعل سے لذّت حاصل کریں ۔ اور جو میں نے جور و جفا کو صورت غضب کا آئینہ کہا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ حقیقت میں غضب دشمنوں کا حصہ ہے، دوستوں کے لیے صورتاً غضب ہے اور حقیقتاً عین رحمت۔ اس صورت غضب میں محب کے لیے اتنے منافع ودیعت کیے گئے ہیں کہ اس کی شرح کیا بیان کی جائے“۔ ( مکتوب ۱۵ ، دفترسوم)

اپنے شہزادوں سے فرماتے ہیں:

” فرزندانِ گرامی ! خاطر جمع رہو، لوگ ہر وقت ہماری تکلیفوں پر نظر رکھتے ہیں اور اس تنگی سے خلاصی چاہتے ہیں، ان کو معلوم نہیں کہ نامرادی، بے اختیاری اور ناکامی میں کس غضب کا حسن و جمال ہے، اس کے برابر کون سی نعمت ہوگی۔ اللہ تعالیٰ جس شخص کو بے اختیار کر کے خود اس کے ارادے اور اختیار سے باہر نکال لے اور اپنے ارادے کے مطابق زندگی بخشے حتیٰ کہ اس کے امور اختیار یہ کبھی اس بے اعتباری کے تابع بنا کر اس کو اپنے ارادے اور اختیار سے بالکل دست بردار کر دیا جائے اور اس کو مردہ بدست زندہ بنا دیا جائے۔  قید کے زمانے میں جب اپنی ناکامی و بے اختیاری کو دیکھتا تھا تو عجب لطف اٹھاتا تھا اور انوکھا مزہ پاتا تھا۔ فراغت والے مصیبتوں کے حسن کا کیا اندازہ کریں، بچوں کو صرف شیرینی میں مزہ ملتا ہے۔ لیکن جس کو نفی میں لذت ملی وہ شیرینی کو ایک جو میں بھی خریدتا۔ وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى ( مكتوب ۸۳، دفتر سوم )

حق گوئی:

 حضرت مجددالف ثانی قدس سرہ حق گو، بیباک ، نڈر اور بہادر شخصیت کے مالک تھے۔ قاضی ظہور احمد اختر لکھتے ہیں:

”حضرت مجدد نے جس سیاسی گھٹن اور جاہ وجلال اقتدار کے ہوتے شاہانِ وقت پر تنقید کی وہ انھیں کا حصہ تھا۔ اس نازک دور میں حکومت یا سر براہانِ حکومت پر تنقید کرنا اتنا آسان نہ تھا جتنا آج آسان ہے۔ ذرا ذراسی باتوں پر تختۂ دار پر چڑھا دیا جاتا تھا، بلکہ اکبر کے متعلق مورخین نے لکھا ہے کہ اپنے مخالفین کو اپنے ہاتھ سے زہر دے کر تڑپا تڑپا کر ماردیا کرتا تھا۔ (فسانۂ سلطنت مغلیہ،ص:۱۳۰، بحوالہ مجدد نمبر نور اسلام، ص: ۲ / ۱۵۲)

 آپ کی حق گوئی کا ایک واقعہ ہے کہ ایک دفعہ آپ ابوالفضل سے ملنے آئے۔ ابوالفضل کو معلوم ہوا کہ آپ روزے سے ہیں۔ اس نے وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا، چاند کے متعلق ابھی تک شرعی شہادت فراہم نہیں ہوئی۔ ابوالفضل نے کہا، بادشاہ نے تو حکم دے دیا ہے، اب کیا عذر ہے؟ بےساختہ آپ کے منہ سے اس وقت یہ جملہ نکلا بادشاہ بے دین است، اعتبار ندارد “۔ (بادشاہ بے دین ہے، اس کا کوئی اعتبار نہیں)۔ (الفرقان، مجدد الف ثانی نمبر ، ص: ۸۷)

اندازہ کیجیے کہ مغل اعظم کے بہت بڑے ”حواری“ کے سامنے  مغل اعظم پر اس قدر سخت تنقید کرنا کس بے خوفی، حق گوئی اور بہادری کی علامت ہے۔ مکتوبات شریفہ کا مطالعہ کریں ، آپ نے حکومت وقت کی خوب خبر لی ،مثلاً جہانگیر کے دور میں اس کے باپ پرتنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”بادشاہ کی درستگی سے عالم کی درستگی ہے اور بادشاہ کے فساد سے عالم کا فساد۔ آپ جانتے ہیں کہ زمانۂ ماضی (یعنی عہد اکبری ) میں اہلِ اسلام پر کیا کچھ نہیں گزرا۔ اسلام کی غربت حد کو پہنچی ہوئی تھی ۔ اہلِ اسلام کی بدحالی اس سے آگے نہیں بڑھی تھی کہ مسلمان اپنے دین پر رہیں اور کافر اپنے طریقہ پر، جیسا کہ آیت لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِی دِین“ سے ظاہر ہے۔ لیکن زمانۂ ماضی میں تو یہ حال ہوا کہ کفار تو بر ملا پورے غلبہ کے ساتھ دار اسلام میں احکام کفر جاری کرتے تھے اور مسلمان احکام اسلام ظاہر کرنے سے عاجز و قاصر تھے، اگر ظاہر کرتے تو قتل کر دیے جاتے تھے۔ ( مکتوبات ۷ ۸ ، دفتر اول)

حسن أدب:

حضرت امام ربانی قدس سرہ ادب کی دولت سے مالا مال تھے۔ اللہ تعالیٰ کے نام پاک کے ساتھ جل سبحانہٗ تعالیٰ جل سلطانہٗ کے کلمات اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم گرامی کے ساتھ درود و سلام کا خصوصی اہتمام فرماتے۔ جہاں اللہ و رسول کا ذکر خیر کرتے وہاں حسنِ ادب کی تابانیاں قابلِ دید ہوتیں۔ بزرگوں کی بارگاہ میں نہایت عاجزی و انکساری کا مظاہرہ کرتے ۔ مولانا بدرالدین سرہندی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

”حضرت مجد دسر تا پا اکا بر سلف و خلف کی محبت اور مدحت میں غرق تھے ،لیکن اگر ان بزرگوں کے کلام سے آپ نے اعراض فرمایا ہے تو وہ محض نیک نیتی اور حکمت والہام و اعلام پر مبنی ہے“ ۔ (حضرات القدس، ص: ۲/۱۵۲)

مزید فرماتے ہیں:

”حضرت مجدد بزرگوں کا ادب جیسا کہ ہونا چاہیے ملحوظ رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ کے خاص مریدوں نے کتاب عوارف المعارف پڑھنی شروع کی اور آپ سے استدعا کی کہ اس کی شرح فرما دیں۔ چنانچہ آپ نے اس کتاب کے ایک جزو کی شرح نہایت فصیح و بلیغ عربی میں لکھی، لیکن وہاں کہ ہم نے اب اس کا کتاب کی شرح لکھنی چھوڑ دی ہے۔ اس خوف سے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی مقام پر ایسی بات آ جائے جس سے اس کے مصنف (حضرت شہاب الدین سہروردی علیہ الرحمہ ) کا ادب ہاتھ سے جاتا رہا ہے۔ (ایضا ص: ۲/۱۵۳)

آپ نے بعض مقامات پر بعض بزرگانِ دین سے اختلاف فرمایا لیکن ہر مقام پر ان کا ادب  ملحوظ خاطر رکھا۔ حضرت بایزید بسطامی اور حضرت منصور حلاج علیہما الرحمہ کے اقوال کی تاویل و توضیح اس انداز سے کی کہ ان پر کوئی حرف نہ آئے۔ یہ آپ کے حسن ادب کا ثبوت ہے۔ بعض مقامات پر اختلاف کے باوجود حضرت شیخ اکبر علیہ الرحمۃ کے متعلق فرماتے ہیں: کیا عجب معاملہ ہے کہ باوجود اس کلام کے اور ایسی شطح خلاف جواز کے جناب شیخ مقبولانِ بارگاہ کبریا میں سے نظر آتے ہیں اور اولیاء اللہ کی جماعت میں ان کا مشاہدہ ہوتا ہے۔بر کریماں کا رہا دشوار نیست۔(مکتوب ۷۷، دفتر سوم )

ایک جگہ ان کے اس طرح شکر گزار ہیں:

”اور جناب شیخ کے بعد جو مشائخ آئے ہیں ان میں سے اکثر نے جناب شیخ کی پیروی کی ہے اور آپ ہی کی اصطلاح کو اختیار کیا ہے۔ ہم پس ماندگان انہی بزرگوار کے فیوض و برکات سے مستفید ہوئے ہیں اور ان کے علوم و معارف سے فوائد حاصل کیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری طرف سے ان کو جزاے خیر عنایت کرئے“۔ (مکتوب ۷۹ ، دفتر سوم)

آپ خود بزرگوں کا احترام کرتے تھے، اس لیے دوسروں سے بھی یہی توقع رکھتے تھے کہ وہ کسی بزرگ کی گستاخی نہ کریں۔ بزرگوں کی گستاخی کرنے والے سے اپنا تعلق توڑ لیتے تھے۔ جیسا کہ مشہور واقعہ ہے کہ ابوالفضل نے حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ کے بارے میں فرمایا: ”غزالی نا معقول گفته است“ آپ کو اس کی تاب نہ ہوئی اور یہ فرما کر فورً چلے گئے، ”اگر ذوق صحبت ما اہل علم داری از یں حرف ہائے دور از ادب زبان باز دار“۔ اگر ہم جیسے اہل علم سے ملنے کا شوق ہے تو ایسی بے ادبی کے الفاظ سے زبان کو روکو۔ ( زبدۃ المقامات)

 آپ اپنے شیخ کامل، مر شد ربانی سید نامحمد عبدالباقی المعروف خواجہ باقی باللہ قدس سرہ کا بے پناہ ادب کرتے ۔ خواجہ ہاشم کشمی لکھتے ہیں کہ :

”مجھ سے خواجہ حسام الدین احمد نے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت خواجہ نے مجھے حکم دیا کہ اپنے پیر و مرشد ( مجددالف ثانی ) کو بلا لاؤ۔ جب میں نے آپ سے حضرت خواجہ کے یاد کرنے کا ذکر کیا تو آپ کے چہرے کا رنگ ایک دم بدل گیا۔ خوف کے آثار ظاہر ہو گئے۔ انتہائے خشیت سے بدن میں اضطرابی کیفیت پیدا ہوگئی گویا کہ رعشہ طاری ہو گیا ہے۔ ان کی اس حالت کو دیکھ کر میں نے دل میں کہا ، اب تک سنتا آیا تھا؛” نزدیکاں را بیش بود حیرانی“ لیکن آج اپنی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کر رہا ہوں ۔“ ( زبدة المقامات، فصل سوم )

 آپ نے اپنے مخدوم زادوں کی خدمت میں ایک مکتوب ارسال فرمایا جس کے ایک ایک حرف سے شکر وادب کے سوتے ابلتے ہیں:

” حمد وصلوٰۃ کے بعد اپنے مخدوم زادوں کی جناب میں عرض ہے کہ یہ فقیر سر سے پاؤں تک آپ کے والد بزرگوار کے احسانات میں ڈوبا ہوا ہے۔ فقیر نے اس طریقہ کی الف با کا سبق انہی سے لیا ہے، حضرت خواجہ سے جو اعلیٰ دولت اس فقیر کو ملی ہے اس کے عوض اگر یہ فقیر ساری عمر اپنے سر کو اپنے صاحبان کے عتبۂ عالیہ کے خدام سے پامال کراتا رہے تب بھی بیچ ہے؂

گر  بر تنِ من زبان شود ہر موئے

یک شکر دے از ہزار نتوانم کرد

حضرت خواجہ کی آستاں بوسی سے یہ فقیر تین مرتبہ مشرف ہوا ہے/ (مکتوب ۲۶۶، دفتر اول)

جب کوئی بزرگ ملنے کے لیے آتا تو اس کی تعظیم کے لیے کھڑے ہو جاتے اور صدر مجلس میں ان کو جگہ دیتے۔ ( حضرات القدس ص : ۲/۱۰۰)

 آپ متبرک کا غذات کا بہتر احترام کرتے تھے، ایک دن ناگاہ گھبرا کر اٹھے اور ایک کاغذ کو جس پر کچھ تحریر تھا، اٹھایا اور فرمایا: ” بے ادبی ہے کہ کوئی تحریر ہم سے نیچے رہ جائے ۔ “ ( زبدة ا لمقامات )

 یہ تو صرف کاغذ تھا، حسن ادب کی ایک اور درخشاں مثال دیکھئے:” ایک دن آپ اسرار و معارف تحریر فرما رہے تھے، ناگاہ ضرورت بشری کی وجہ سے بیت الخلا تشریف لے گئے۔ تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ آپ باہر تشریف لائے اور آپ نے پانی طلب فرما کر بائیں ہاتھ کے انگوٹھے کے ناخن کو دھویا اور آپ نے فرمایا، ناخن پر سیاہی کا دھبہ تھا اور سیاہی حروف قرآنی کے اسباب کتابت میں سے ہے۔ بنابریں لائق ادب نہ سمجھا کہ اس دھبہ کے ہوتے ہوئے طہارت کروں اور پھر آپ براے طہارت تشریف لے گئے“۔ (زبدة المقامات فصل ششم)

اسی طرح ایک دفعہ ایک حافظ جس کے سرہانے کے پاس فرش بچھایا ہوا تھا، قراءت میں مشغول ہوا۔ آپ نے دیکھا کہ آپ جس جگہ بیٹھے ہیں وہ اس فرش سے کسی قدر بلند ہے جس پر حافظ قرآن تلاوت کر رہا ہے۔ چنانچہ آپ نے اس زائد فرش کو اپنے پاؤں کے نیچے سے لپیٹ کر کنارے پر کر دیا ۔(ایضاً)

ایک دفعہ طہارت خانے میں ایک کوزے پر نظر پڑی جس پہ اللہ تعالیٰ کا اسم جلالت کندہ تھا۔ آپ نے اس کوزے کو اچھی طرح صاف کیا اور نہایت ادب سے اونچی جگہ پر رکھ دیا۔ پھر جب بھی پانی کی طلب ہوتی ، اس کوزے میں پانی نوش فرماتے ۔ اسی پر الہام ہوا کہ تم نے ہمارے نام کو بلند کیا ہے، ہم تمہارے نام کو بلند کریں گے۔

 اور آپ فرماتے ہیں:

” اگر میں سو سال بھی ریاضت کرتا تو اتنے فیوض و برکات حاصل نہ ہوتے جتنے اس عمل سے حاصل ہوئے ۔“ (حضرات القدس، ص: ۱۱۳ / ۲)

عاجزى و انكسارى :

حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ کی اس درجہ شان جلالت کی ایک وجہ آپ کی عاجزی و انکساری ہے۔ حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم  فرماتے ہیں : ”جس نے اللہ کے لیے عاجزی کی، اللہ نے اس کا رتبہ بلند کر دیا“۔ جب آپ پر الزام لگا کہ آپ معاذ اللہ اپنے آپ کو صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے افضل سمجھتے ہیں، آپ نے بھرے دربار میں فرمایا:

” میں تو خود کو سگ سے بہتر نہیں سمجھتا تو پھر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کیسے افضل سمجھ سکتا ہوں۔“ ( مناقب آدمیہ ورق ، ص: ۱۷۱، بحوالہ سیرت مجددالف ثانی ص: ۱۷۷(

خواجہ ہاشم کشمی فرماتے ہیں :

اس کمترین نے بار ہا آپ سے سنا کہ کیا ہم اور کیا ہمارا عمل، جو کچھ بھی ملا ہے، اللہ کا کرم ہے، اور اگر کوئی چیز اس کے کرم کے واسطے بہانہ بنی ہے تو وہ سید الاولین والآخرین صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت ہے۔ ہمارے کام کا مدار اس پر ہے ۔ ( زبدة المقامات)

فرماتے ہیں:

” عمل صالح کو تکبر اس طرح تباہ کر دیتا ہے جس طرح لکڑی کو آگ تباہ کر دیتی ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ اپنی پوشیدہ برائیوں اور خامیوں کو یاد کرتا رہے اور اپنی نیکیوں پر پردہ ڈالے، بلکہ اپنی عبادتوں کے ادا کرنے سے شرمندہ ہو۔“ (حضرات القدس، ص: ۲/۱۶۷)

اوصاف متفرقه:

(۱)-حضرت مجددالف ثانی قدس سرہ بہت فیاض و در یا دل تھے۔ کبھی نیا لباس پہنتے تو پہلا کسی غریب یا عزیز خادم یا مسافر کو دے دیتے۔ آپ کی خدمت میں پچاس ساٹھ بلکہ سو لوگ علما، عرفا، مشائخ، حفاظ ، اشراف و سادات میں سے ہوتے تھے جن کو آپ کے مطبخ سے کھانا ملتا تھا۔ (حضرات القدس ص: ۱۰۰ / ۲)

(۲)- آپ کو اہل کفر سے سخت نفرت تھی ۔ کافروں کی ہرگز تعظیم نہ کرتے گو کہ وہ صاحب حکومت اور صاحب جاہ کیوں نہ ہوتے۔ (حضرات القدس ص: ۱۰۰ / ۲)

(۳)-ہر شخص سے سلام میں پہل کرتے۔ مولانا بدرالدین سرہندی فرماتے ہیں، مجھے معلوم نہیں کہ بھی کوئی شخص سلام میں آپ پر سبقت کر سکا ہو۔(حضرات القدس ص: ۱۰۰ / ۲)

(۴)- فرض و سنت کی ادائیگی تو بڑی بات ہے، آپ مستحبات پر بھی سختی سے عمل کرتے تھے۔ ایک دن کالی مرچ کے دانے طلب کیے۔ مولانا صالح ختلانی چھ عدد دانے لے آئے ۔ آپ نے رنجیدہ ہو کر فرمایا، ہمارے صوفی کو دیکھو انھوں نے ابھی اللّٰهُ وِتْرَ وَ يُحِبُّ الْوِتر نہیں سنا۔ اگر چہ یہ عمل مستحب ہے لیکن لوگ مستحب کو کیا سمجھتے ہیں؟ مستحب وہ کام ہے جو اللہ کو پسند ہے، اور اللہ کی پسند پر دنیاو آخرت قربان کر دی جائے تب بھی کچھ نہیں دیا۔ ( زبدة المقامات )

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved