27 July, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia March 2023 Download:Click Here Views: 82046 Downloads: 3365

(12)-۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کا ایک مجاہد مبلغ اسلام مولانا رحمت اللہ کیرانوی علیہ الرحمہ

سید منور علی شاہ بخاری قادری رضوی غورغشتوی

ڈاکٹر مانع تسلیم  کرتے ہیں کہ دارالعلوم دیوبند کا قیام ۱۲۸۳ھ/ ۱۸۶۶ء میں عمل میں آيا (الموسوعة الميسرة، ج 1، ص ۳۰۸) لہذا اوپر دیے گئے حقائق کی روشنی میں بات پورے طور پر واضح ہو جاتی ہے کہ مولانا کیرانوی دارالعلوم دیوبند کے قیام سے آٹھ سال پہلے ہندوستان چھوڑ چکے تھے اور لوٹ کر نہیں آ ئے تا آں کہ مکہ مکرمہ میں وفات پائی۔دارالعلوم کے قیام کے زمانہ میں آپ کی عمر ۴۹ برس سے زائدتھی اور آپ مسجد الحرام مکہ مکرمہ میں تدریس کی خدمات انجام دے رہے تھے اور نہ صرف ہندوستان بلکہ پورے عالم اسلام میں آپ کے علم وفضل کا طوطی بول رہا تھا، چنانچہ یہ دعویٰ کہ مولانا کیرانوی نے دارالعلوم دیوبند میں تعلیم پائی یا اس کے قیام میں کسی قسم کی معاونت کی، یا یہ کہ اس دارالعلوم کے فارغ التحصیل کسی عالم نے مدرسہ صولتیہ کی بنیا درکھی، سراسر بے بنیاد ہے۔

مولانا کیرانوی علیہ الرحمہ نے جب مکہ مکرمہ میں وفات پائی، اس وقت مدرس صولتیہ پورے جزیرہ عرب کا سب سے اہم مدرسہ بن چکا تھا، آپ کے بعد آپ کے بھائی کے پوتے مولانا محمد سعید بن محمد بن علی اکبر بن خلیل الرحمٰن کیرانوی علیہ الرحمہ (پ:۱۲۹۰ھ/ ۱۸۷۳ء-ف:۱۳۵۷ھ/۱۹۳۸ء)  نے ہم مدرسہ کی ذمہ داری سنبھالی۔ مولانا غلام دستگیر قصوری علیہ الرحمہ کی معروف کتاب ”تقدیس الوکیل‘‘ پر مولانا محمد سعید علیہ الرحمہ کی تقریظ موجود ہے، علاوہ ازیں حاجی امداد اللہ مہاجرمکی  علیہ الرحمہ کی اختلافی مسائل پر فیصلہ کن کتاب” فیصلہ ہفت مسئلہ“ کا پہلا ایڈیشن انھی مولانا محمد سعید کے اہتمام سے مکہ مکرمہ سے شائع ہوا، جوان کے اہل سنت ہونے کی بین ثبوت ہے۔

علاوہ ازیں مدرسہ صولتیہ کے مدرس اول مولانا حضرت نور افغانی پشاور مہاجر مکی رحمت اللہ علیہ (متوفی ۱۳۲۱ھ/۱۹۰۳ء) اور مدرس دوم مولانا عبدالسبحان رحمۃ اللہ علیہ نے مولانا غلام دستگیر قصوری علیہ الرحمہ کی کتاب ”تقدلس الوکیل‘‘ پرتقریظ لکھی ، امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کے خلیفہ علامہ سید احمد درس اور شیخ عبد الرحمٰن دحلان حنفی مکی مدرس اول رہے، جن علماے مکہ مکرمہ نے مسجد الحرام میں اور بعدازاں مدرسہ صولتیہ میں مولانا رحمت اللہ کیرانوی سے تعلیم پائی اور پھر مسلک اہل سنت پر اپنی تحریریں یادگار چھوڑیں، ان میں مفتی احناف شیخ  عبدالرحمٰن سرج مکی ، مفتی احناف و چیف جسٹس شیخ عبد اللہ سراج، شیخ الخطبا شیخ احمد ابو الخیر مرداد، قاضی مکہ شیخ دحلان، علامہ سید حسین دحلان، مفتی مالکیہ شیخ محمد عابد بن حسین مالکی، قاضی مکہ شیخ عبد اللہ ابوالخیر مرداد شہید ،مبلغ اسلام علامہ سید عبد اللہ دحلان، قاضی جده علامہ سید حامداحمد جداوی اور قاضی جده ومفتی احناف شیخ محمد صالح کمال حنفی کے اسماے گرامی اہم ہیں، رحمہم اللہ تعالیٰ ۔

حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ ۱۳۰۷ھ/ ۱۸۸۹ء میں مکہ مکرمہ حاضر ہوئے تو مدرسہ صولتیہ میں قیام فرمایا، اس وقت مولانا رحمت اللہ کیرانوی رحمۃ اللہ علیہ زندہ تھے اور مدرسہ میں موجود تھے۔

مولانا رحمت اللہ کیرانوی نے زندگی کے آخری ایام میں محلہ جیاد( مکہ مکرمہ) میں ایک اور مدرسہ احمدیہ قائم کیا، جس میں تجوید و حفظ قرآن پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی، حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے خلیفہ اور امام احمد رضا فاضل بریلوی کی کتاب ”حسام الحرمین“ کے مقرظ(تقریظ لکھنے والے قاری حافظ شیخ احمد مکی بنگالی رحمت اللہ علیہ اس مدرسہ کے مدرس ومہتمم تھے۔

سعودی عہد شروع ہوا تو اس مدرسہ کے ذمہ داران نے دیوبندیت اختیار کرلی اور انھی ایام میں مدرسہ کے زوال کی ابتدا ہوئی، مولانا محمد سعید کیرانوی کی وفات کے بعدان کے بیٹے مولوی محمد سلیم کیرانوی اور پھر مولوی ماجد کیرانوی نے یہ ذمہ داری سنبھالی ، ۱۳۵۴ھ/ ۱۹۴۵ء میں اس مدرسہ کے طلبہ کی تعداد۶۴۳ تھی جو ۱۳۷۹ھ/۱۹۶۰ء  میں گھٹ کر محض ۷۸ طلبا  تک آگئی، اس مدرسہ کا وجود آج بھی باقی ہے، لیکن اعلیٰ تعلیم میں اس کا کردار ختم ہو کر رہ گیاہے۔(امام احمد رضا محدث بریلوی اورعلاے مکہ مکرمہ، از محمد بہاء الدین شاه، مطبوعہ کراچی ۱۴۲۷ھ/ص:۲۷، تا ۳۰، ۴۸)

مولانا کیرانوی کے عقائد:

مولانا کیرانوی کے عقائد خودان کی تحریروں سے واضح ہیں، چنانچہ حاجی امداد اللہ مہاجرمکی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۱۳۱۷ھ) کے مرید وخلیفہ مولانا عبد السمیع  بیدل رحمۃ اللہ علیہ (رام پور، منہاراں، ضلع میرٹھ، یوپی، ہندوستان) متوفی ۱۳۱۸ھ/۱۹۰۰ء لکھتے ہیں کہ ”تصحیح عقائد اہل سنت کا حصہ میں نے مولانا رحمت اللہ کیرانوی مہاجر مکی سے لیا، آپ میرے اساتذہ میں اول استاذ ہیں۔“(انوار ساطعه در بیان مولود و فاتحہ، طبع ۱۳۴۶ھ،  مطبع مجتبائی دہلی، ص۲۹۷)

۱۳۰۲ھ میں جب مولوی رشید احمد گنگوہی و مولوی خلیل احمد انبیٹھوی وغیرہ علماےدیوبند نے مسلک اہل سنت کے خلاف ایک فتویٰ جاری کیا تو مولانا عبدالسمیع میرٹھی نے اسی برس اس کی تردید میں ایک ضخیم کتاب ’’انوار ساطعہ“ لکھی جس کے دوسرے ایڈیشن پر ہندوستان بھر کے چوبیس اکابر علماے اہل سنت نے تقریظات لکھیں، ان میں مولانا رحمت اللہ کیرانوی علیہ الرحمہ کی تقریظ بھی شامل ہے، جو درج ذیل ہے۔

تقريظ

مجدد زمان پایۂ حرمین شریفین شیخ العلما حضرت مولانا رحمت اللہ مہاجر مکی مدظلہ العالی مد الايام والليالی:

اس رسالہ کو میں نے اول سے آخرتک اچھی طرح سنا اسلوب عجیب اور طرز غریب، بہت ہی پسند آیا ،اگر اس کے دصف میں کچھ لکھوں تو لوگ اسے مبالغہ پرحمل کریں گے، اس لیے اسے چھوڑ کر دعا پر اکتفا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس کے مصنف کو اجر جمیل اور ثواب جزیل عطا فرمائے، اور اس رسالہ سے منکروں کے تعصب بیجا کوتوڑ کے ان کو راہ راست پر لاوے اور مصنف کے علم اورفیض اور تندرستی میں برکت بخشے اور میرے اساتذۂ کرام کا اور میرا عقیده مولد شریف کے باب میں قدیم سے یہی تھا اور یہی ہے، بلکہ بحلف سچ سچ کرتا ہوں کہ میرا ارادہ یہی ہے کہ ،ع:”بریں زیستم ہم بریں بگذرم“ اور عقیدہ یہ ہے کہ انعقاد مجلس بشرطے کہ منکرات سے خالی ہو ، مغنی، باجا اور کثرت روشنی بے ہودہ نہ ہو بلکہ روایات صحیحہ کے موافق ذکر معجزات اور ذکر ولادت حضرت ﷺسے کیا جاوے اور بعد اس کے اگر طعام پختہ یا شیرینی بھی تقسیم کی جائے، اس میں حرج نہیں بلکہ اس زمانہ میں جو ہر طرف سے پادریوں کا شور اور بازاروں میں حضرت ﷺاور ان کے دین کی مذمت کرتے ہیں اور دوسری طرف سے آریہ لوگ جو ،خدا ان کو ہدایت کرے، پادریوں کی طرح بلکہ ان سے زیادہ شور مچارہے ہیں، ایسی محفل کا انعقاد ان شرائط کے ساتھ جو میں نے اوپر ذکر کیں، اس وقت میں فرض کفایہ ہے، میں مسلمان بھائیوں کو بطور نصیحت کے کہتا ہوں کہ ایسی مجلس کرنے سے نہ روکیں اور اقوال بے جا منکروں کی طرف جو تعصب سے کہتے ہیں، ہرگز التفات نہ کریں، اور تعین یوم میں اگر یہ عقیدہ نہ ہو کہ اس کے سوا اور دن جائز نہیں  تو کچھ حرج نہیں، اور جواز اس کا بخوبی ثابت ہے اور قیام وقت ذکر میلاد کے چھ سو برس سے جمہور علماے صلاحین نے متکلمین اور صوفیہ اورعلماے محدثین نے جائز رکھا ہے ،اور صاحب رسالہ نے اچھی طرح ان امور کو ظاہر کیا ہے، اور تعجب ہے ان منکروں سے ایسے بڑھے کہ فا کہانی مغربی کے مقلد ہو کر جمہور سلف صالح کو متکلمین اور محدثین اور صوفیہ سے ایک ہی لڑی میں پرودیا، اور ان کو ضال مضل بتلایا اور خدا سے نہ ڈرے کہ اس میں ان لوگوں کے استاد اور پیر بھی تھے، مثل حضرت شاہ عبد الرحیم دہلوی اور ان کے صاحب زادے شاہ ولی اللہ دہلوی اور ان کے صاحب زادے شاہ رفیع الدین دہلوی اور ان کے بھائی شاہ عبد العزیز دہلوی اور ان کے نواسے حضرت مولانا محمد اسحاق دہلوی قدس اللہ اسرارہم سب کے سب انھی ضال مضل میں داخل ہوئے جاتے ہیں، اف ایسی تیزی پر کہ جس کے موافق جمہور متکلمین اور محدثین اور صوفیہ سے حرمین اور مصر اور شام اور یمن اور دیار افریقہ میں لاکھوں گمراہی میں ہوں اور یہ حضرات چند ہدایت پر، یا اللہ ہمیں اور ان کو ہدایت کر اور سیدھے رستہ پرچلا، آمین ثم آمین۔

وہ جو بعضے میری طرف نسبت کرتے ہیں کہ عربوں کے خوف سے تقیہ کے طور پر سکوت کرتا ہوں اور ظاہر نہیں کرتا، بالکل جھوٹ ہے اور ان کا قول مغالطہ وہی ہے۔ بحلف کہتا ہوں کہ میں نے کبھی حضرت سلطان کے سامنے جو میرے نزدیک خلاف واقع ہو ان کی رعایت یا ان کے وزراو امراکی رعایت سے کبھی نہیں کہا بلکہ صاف صاف دونوں دفعہ جب میں بلایا گیا ہوں، کہتا رہا ہوں اور کبھی خیال نہیں کیا کہ حضرت سلطان المعظم یا ان کے وزراناراض ہوں گے ، اور میرا جھگڑا اور گفتگو جو عثمان نوری پاشا کہ بڑے مہیب اور زبردست تھے اور اپنے حکم کی مخالفت کو بدترین امور کا سمجھتے تھے، میری گفتگو سخت جومجلس علم میں آئی، تمام حجاز عالی خاص کی حرمین کو بڑے چھوٹے سب کے سب بخوبی جانتے ہیں، بلکہ اگر میں تقیہ کرتا تو ان حضرات منکرین کے خوف سے تقیہ کرتا، مجھے یقین ہے کہ جب ان کے ہاتھ سے امام سبکی اور جلال الدین سیوطی اور ابن حجر اور ہزارہا علماےتقوی شعار خاص کر ان کے استادوں اور پیروں میں شاہ ولی اللہ وغیرہ قدس اللہ اسرارہم نہ چھوٹے تو میں غریب نہ ان کے سلسلہ استادوں میں شامل ہوں اور نہ سلسلہ پیروں میں، کس طرح چھوٹوں گا؟ تو ہر طرح سے تفسیق اور بلکہ تکفیر  میں قصور نہ کریں گے، پر میں ان کی حرکات سے نہیں ڈرتا اور جو میرے ان اقوال کی تائید اور سند مؤلف رسالہ نے جابجا تحریر فرمائی ہے، اسی پر اکتفا کرتا ہوں، واللہ  اعلم وعلمہ اتم فقط امر برقمہ وقال بفہمہ الراجی رحمتہ ربہ المنان محمد رحمت اللہ ابن خلیل الرحمٰن غفرلہما اللہ المنان۔

 (انوار ساطعہ، مطبوعہ لاہور، سنِ اشاعت ندارد، ص:۲۹۴ تا ۲۹۷)

انعقاد محفل میلاد کے بارے میں مولانا رحمت اللہ کیرانوی علیہ الرحمہ کا عقیدہ آپ نے ملاحظہ فرمالیا، اب دیوبندیوں کا عقیدہ بھی ملاحظ فرمائیں:

مولوی رشید احمد گنگوی سے سوال ہوا کہ” انعقادمجلس میلاد بدون قیام (بغیر قیام) بروایت صحیح  درست ہے یا نہیں؟“

جواب:” انعقاد مجلس مولود ہر حال ناجائز ہے تداعی امر مندوب کے واسطے منع ہے فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔“

 (فتاوی رشیدیہ ،مطبوعہ کراچی، حصہ دوم، ۱۵۰)

سوال :محفل میلاد میں جس میں روایات صحیحہ پڑھی جاویں اور لاف و گزاف اور روایات موضوعہ اور کاذبہ نہ ہوں شریک ہونا کیسا ہے؟

جواب۔ نا جائز ہے بسبب اور وجوہ کے۔

(فتاوی رشیدیہ ، مطبوعہ  کراچی، حصہ دوم، ص۱۵۵)

 مولانا کیرانوی کی تقریظ

بر کتاب ”             تقديس الوکیل عن توہین الرشيد والخليل

بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم

بعد حمد اور نعت کے کہتا ہے راجی رحمتِ ربہ المنان ،رحمت اللہ بن خلیل الرحمٰن، غفرلہما الحنّان کہ مدت سے بعض باتیں جناب مولوی رشید احمد صاحب کی سنتا تھا۔ جو میرے نزدیک وہ اچھی نہ تھیں، اعتبار نہ کرتا تھا کہ انھوں نے ایسا کہا ہوگا۔ اور مولوی عبد السمیع صاحب کو جو ان کو میرے سے رابطہ شاگردی کا ہے، جب تک مکہ معظمہ میں نہیں آئے تھے تحریرًا منع کرتا تھا۔ اور مکہ معظّمہ میں آنے کے بعد تقریباً بہت تاکید سے بالمشافہ منع کرتا تھا کہ آپس میں مختلف نہ ہوں، اور علماے مدرسہ دیوبند کو اپنا بڑا سمجھو۔ پر وہ مسکین کہاں تک صبر کرتا؟ اور میرا اعتبار نہ کرنا کہ کس طرح ممتد رہتا کہ حضرات علماے مدرسہ دیوبند کی تحریر اور تقریر بطریقِ تو اتر مجھ تک پہنچی کہ تمام افسوس سے کچھ کہنا پڑا، اور چپ رہنا خلاف دیانت سمجھا گیا۔

”سو کہتا ہوں کہ میں جناب مولوی رشید کو رشید سمجھتا تھا، مگر میرے گمان کے خلاف کچھ اور ہی نکلے“۔ جس طرف آئے اس طرف ایسا تعصب برتا کہ اس میں ان کی تقریر اور تحریر دیکھنے سے رو مٹاکھڑا ہوتا ہے۔

حضرت نے اول قلم اس پر اٹھایا کہ جس مسجد میں ایک دفعہ جماعت ہوئی ہو اس میں دوسری جماعت گو بغیر اذان اور تکبیر کے ہو، اور دوسری جگہ ہو جائز نہیں۔ آپ کا اور آپ کے متبعین کا وہ حکم تو نہ تھا جو نجدیوں کا وقت حکومت مکہ معظّمہ کے تھا کہ جو جماعتِ اول میں حاضر نہ ہو اس کو سزا دیتے تھے، سو آپ کا اور آپ کے متبعین  کا ایسا حکم جاہلوں  کے واسطے من وسلویٰ ہوگیا کہ سب موسموں میں خاص کر شدت گرمی کے موسم میں عذر ہاتھ لگ گیا ،کہ عذر کے سبب اب تو جماعت فوت ہوگئی ہے، دوسری جماعت جائز نہیں، دوکان اور گھر چھوڑ کر  مسجد میں کس واسطے جاویں؟ اور علما نے مخالف ان کے لکھا کب سنتے تھے؟ اپنی ہٹ پر روز بروز بڑھتے تھے۔

پھر ایک فاسق مردود کو جو اپنے کو حضرت عیسیٰ کے برابر سمجھتا تھا، اور سب انبیاے بنی اسرائیل سے اپنے کو افضل گنتا تھا، اور اپنے بیٹے کو درجۂ خدائی پر پہنچاتا تھا، عیسیٰ اور موسیٰ اور پیغمبر علیہم السلام کا کیا ذکر ہے۔اور اس کے مرید تو کھلم کھلا  حضرت شیخ عبد القادر جیلانی اور حضرت بہاء الدین نقش بندی اور حضرت شہاب الدین سہروردی اور حضرت معین الدین چشتی قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم کو کہ جن کے سلسلوں میں لکھوکہا صالحین اور ہزارہا اولیاے مقبولِ رب العالمین گزرے ہیں کافر اور گم راہ بتلاتا تھا، اور بفحواے ؂

ایں سلسلہ از طلاے ناب است

ایں خانہ تمام آفتاباست

بڑا بھائی اس مردود کا دنیا کی کمائی کے لیے اور ہی طریقہ برتتا ہے، اور دوسرا چھوٹا بھائی اس کا امام الدین نام چوہڑوں اور بھنگیوں کی پیغمبری کا دعویٰ کرتا ہے، اور ان کے نزدیک بڑا مقبول پیغمبر ہے، حضرت مولوی رشید احمد اس مردود کو مرد صالح کہتے تھے، اور جو علما اس مردود کے حق میں کچھ کہتے تھے مولوی رشید احمد اپنی ہٹ سے نہیں ہٹتے تھے، اور کہتے تھے مرد صالح  ہے۔ الحمد للہ کہ خداے تعالیٰ نے اس کو جھوٹا کیا، اور بیٹے کے حق میں جو دعویٰ کرتا تھا اس میں بالکل ہی جھوٹا کیا۔

پھر حضرت مولوی رشید احمد رسول اللہ ﷺ کے نواسے کی طرف متوجہ ہوئے، اور ان کی شہادت کے بیان کو بڑی شدت سے محرم کے دنوں میں گو کیسا ہی روایت صحیح سے ہو منع فرمایا۔ اور حالاں کہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب سے جناب مولانا اسحاق مرحوم تک عادت تھی کہ عاشورے کے دن بادشاہِ دہلی کے پاس جاکر روایاتِ صحیح سے بیان حال شہادت کرتے تھے۔ سو یہ سب ان مشائخ کرام و اساتذۂ عظام میں ہیں، سو آپ کے تشدد کے موافق ان مشایخ کرام و اساتذۂ عظام کا جو حال ہے وہ ظاہر ہے۔ اور میرے نزدیک  اگر روایاتِ صحیحہ سے حال شہادت کا بیان ہو، تو فائدہ سے خالی نہیں۔ میں نے خود تجربہ کیا ہے کہ جب میں ہندوستان میں تھا اور  عاشورے کے دن حال شہادت کا بیان کرتا تھا، اُس مجلس میں کم سے کم ہوں  تو ہزار آدمی سے زیادہ ہی ہوتے تھے، اور اس بیان شہادت میں تعزیوں  کے بنانے کی برائی اور جو رسوم اور بدعات تعزیوں  کے سامنے کی جاتی ہے ان کی برائی بیان کرتا تھا، اور اس میں تین فائدے تھے:

اول یہ کہ میں چھ گھڑی  دن چڑھے اس وعظ کو شروع کرتا تھا اور دوپہر تک اِس مجلس کو ممتد بناتا تھا۔ سو ہزار سے زیادہ آدمی تعزیوں  کے دیکھنے اور اِن رسوم اور بدعات کے کرنے سے رکے رہتے تھے۔

دوسرے یہ کہ اس بستی میں ساٹھ تعزیے بنتے تھے، جن میں سے دو شیعوں کے اور اٹھاون اہل سنت و جماعت کے، سو اٹھاون میں سے دو ہی برس میں اکتیس کم ہوگئے تھے۔ دو برس بعد غدر پڑ گیا اور میں ہندوستان سے نکل کھڑا ہوا۔ امید کہ ایک برس اگر رہنا میرا اور ہوتا یہ ستائیس جو اٹھاون میں سے باقی تھے یہ بھی موقوف ہوجاتے۔

تیسرے یہ کہ ہزارا آدمیوں سے اونچے کو بلا واسطہ اور ہزاروں مرد اور عورت اور بچوں کو بہ واسطہ ان ہزار کے برائی  تعزیہ کی اور ان بدعات کی معلوم ہوجاتی تھی۔

پر شکر کرتا ہوں کہ حضرت رشید نے حرمت بیان شہادت پر قلم اٹھایا اور شہادت کے باطل کرنے پر لب نہ کھولی۔

پھر حضرت رشید نے جو نواسے کی طرف توجہ کی تھی، اس پر بھی اکتفا نہ کر کے خود ذات نبوی صلی اللہ علیہ وعلیٰ اخوانہ واٰلہ واصحابہ وسلم کی طرف توجہ کی۔ پہلے مولود کو کنھیّا کا جنم اشٹمی ٹھہرایا اور اس کے بیان کو حرام بتلایا اور کھڑے ہونے کو گو کوئی کیسے ذوق و شوق میں ہو بہت بڑا منکَر فرمایا۔ اس ٹھہرانے، بتلانے، فرمانے سے لکھو۔کھا علماے صالحین اور مشائخ مقبول رب العالمین ان کے نزدیک بڑے نفرتی ٹھہر گئے۔ پھر ذات نبوی میں اس پر بھی اکتفا نہ کر کے اور امکان ذاتی سے تجاوز کر کے چھ خاتم النبیین  بالفعل ثابت کر بیٹھے، اور امکان ذاتی کے باعتبار  تو کچھ حد ہی نہ رہی اور ان کا مرتبہ کچھ بڑے بھائی سے بڑا نہ رہا۔ اور بڑی کوشش اس میں کی کہ حضرت کا علم شیطان لعین کے علم سے کہیں کم تر ہے، اور اس عقیدے کے خلاف کو شرک فرمایا۔

پھر اس توجہ پر جو ذات اقدس نبوی  کی طرف تھی اکتفا نہ کیا ذات اقدس الٰہی کی طرف بھی متوجہ ہوئے اور جناب باری تعالیٰ کے حق میں دعویٰ کیا کہ اللہ کا جھوٹ بولنا ممتنع بالذات نہیں بلکہ امکان جھوٹ بولنے کو اللہ کی بڑی وصف کمال کی فرمائی۔ نعوذ باللّٰه من ھذہ الخرافات۔

میں تو ان امور مذکورہ کو ظاہر اور باطن میں بہت برا سمجھتا ہوں، اور اپنے محبین کو منع کرتا ہوں کہ حضرت مولوی رشید کے اور ان کے چیلے چانٹوں کے ایسے ارشادات نہ سنیں۔ اور میں جانتا ہوں کہ مجھ پر کھلم کھلا  تبرّا ہوگا، لیکن جب جمہور علماے صالحین اور اولیاے کاملین اور رسول رب العالمین اور جناب باری جہاں آفرین ان کی زبان اور قلم سے نہ چھوٹے تو مجھے کیا شکایت ہوگی؟

قصبہ گنگوہ مدت ہاے دراز تک محل اولیاے کرام سلسلہ چشتیہ صابریہ کا رہا۔ ان میں سے ایک ناپاک اللہ بخش نامی بعد مرنے کے خلق کے نزدیک ایسی روح نجس موذی مشہور ہوا کہ صدہا کوس تک اس کی ایذا سے خلق ڈرتی ہے۔ کیا اس روح نجس کے سبب ان اولیا کو جو بکثرت ہوئے برا کہ،  سکتا؟ حاشا و کلّا، وہ تو اپنی زندگی جہل کے سبب بڑا اعتبار نہ رکھتا تھا۔ خوف یہ ہے کہ اگر کوئی بڑا اعتبار والا حضرت گنگوہ میں نکل کھڑا ہوا تو اس سے کتنا خوف ہوگا؟

اور جیسا کہ مشکوٰۃ المصابیح میں کتاب الامارہ میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے:

نعوذ باللّٰه من رأس السبعين وامارۃ الصبیان

میں بھی اس زمانے کے حالات اور حضرت رشید اور ان کے چیلے چانٹوں کی تقریر اور تحریر سے پناہ مانگتا ہوں۔

جو اس مقدمہ میں وہ کچھ میرے اوپر تحریر کریں گے، تین سبب سے اس کے جواب کی طرف التفات نہ کروں گا۔

اول: یہ کہ شدت کا ضعف ہے، اور مجھ میں طاقت ان چیزوں کی طرف توجہ کی ہی نہیں۔دوسری: یہ کہ اس امر میں توجہ مصلحت زمانہ کے بالکل مخالف ہے۔تیسری: یہ کہ اور بہت اللہ کے بندے ان کے مقابلہ پر کھڑے ہیں۔

باقی رہی اور دو بات ۔ ایک یہ کہ فرماتے ہیں بموجب خواب کسی شخص کے کہ علما دیوبند کے علماے حرمین سے افضل ہیں۔

سبحان اللہ چھوٹا منھ بڑی بات۔ شیخ عبد الرحمٰن سراج نے بیس برس منصب افتا پر قیام کیا، اس بیس برس میں صغیر اور کبیر موافق، مخالف ان کی دیانت کے قائل ہیں۔ ان سے پہلے سید عبد اللہ مرغنی جو مفتی تھے، ان کی دیانت ، امانت بھی ضرب المثل ہے۔ اور اکثر علماے صالحین یہاں موجود ہیں، گو بعض غیر صالحین بھی یہاں موجود ہیں۔ بعض کی خطا سے اکثر کے حق میں بد گمان ہونا شان مسلم کی نہیں۔

دوسرے یہ کہ فرماتے ہیں: مسجد الحرام میں ایک عالم نابینا سے مولود کا حال پوچھا گیا۔ انھوں نے کہا: بدعت و حرام۔

شاید وہ نابینا مولوی محمد انصاری سہارن پوری ہوں گے جو تقیہ سے نام ان کا نہیں لیا کہ ان کو مکہ کا ہر صغیر و کبیر اہل علم سے برا کہتا ہے، یا اورکوئی ایسا اندھا عقل اور بینائی کا ہوگا۔ سبحان اللہ! خواب ایک شخص مجہول سے دیوبند کے علما حرمین کے علما سے افضل ٹھہریں، اور ایک بینائی کے اندھے کے کہنے سے جو حقیقت میں وہ عقل کا بھی اندھا ہے، مولود بدعت اور حرام ٹھہر جائے۔

اس پر مجھے ایک نقل یاد آئی کہ مداری فقیروں میں کہ اکثر ان میں کے رندو بد مذہب ہوتے ہیں گو شاذونادر بعض ان میں کے اچھے بھی ہوں، ایک اپنے مرید کو کہتا تھا کہ بعد کچھ خدمت کے تجھے ایک نکتہ فقیری کا بتاؤں گا۔ بعد چند مدت کے اس نے خدمت کر کے جو وہ نکتہ پوچھا تو كہا کہ مولیٰ، محمد، مدار، تینوں کے اول میں میم ہے، اور اس میں اشارہ ہے کہ تینوں کا درجہ ایک ہی رہا۔ دوسرا نکتہ تجھے بعد اور کچھ خدمت کے بتاؤں گا۔ بعد گزرنے مدت اور کرنے خدمت کے جو وہ دوسرا نکتہ پوچھا تو کہا کہ مکہ مدینہ، مکھن پور تینوں کے اول میں میم ہے، اور اس میں اشارہ ہے کہ یہ تینوں آپس میں برابر ہیں۔

اس رند نے مکہ مدینہ کو مکھن پور کے برابر بتلایا تھا، حضرت مرجح نے بفحواے ”ہر کہ آمد براں مزید کرد“ دیوبند کو مکہ مدینہ دونوں سے افضل ٹھہرا دیا۔ کیوں نہ ہو؛شاباش   ع:                ”ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کنند“

اور دوسری بات یہ ہے کہ براہین قاطعہ میں انوار ساطعہ کے جواب میں کوئی فقرہ نہ ہوگا کہ اس کے مصنف کو صراحۃً کلماتِ فحش سے یاد نہ کرتے ہوں۔ اس پر مجھے دوسری نقل یاد آئی کہ جامع مسجد کے شہدے کہ رندی اور گالی گلوج بکنے میں مشہور ہیں، ان میں سے ایک کی بیعت کا جو میں نے حال سنا تو معلوم ہوا کہ اس کے مرشد نے وقت بیعت لینے کے یہ کہا تھا کہ سن لے، جواکھیلیو، گالی گلوج بکیو، پر کاف لام سے رُکیو۔ سن کر کے یہ مضمون میری سمجھ میں نہ آیا۔ میں نے ان کے ایک معتبر سے پوچھا کہ اس قول کے کیا معنیٰ ہیں؟ کہا کاف سے مراد کسی کو کافر کہنا اور لام سے لعنت کرنا۔

سبحان اللہ! جامع مسجد کے شہدے کافر کہنے اور لعنتی کہنے کو ایسا برا سمجھیں، اور براہین قاطعہ کے مصنف انوار ساطعہ کے مصنف کو مشرک اور کافر بتلاویں۔

بعض جگہ،بعض چیزوں میں مشہور ہیں، جیسے میری بستی کیرانہ اور نانوتہ جس کے رہنے والے مولوی قاسم اور مولوی یعقوب وغیرہما تھے نحوست میں مشہور ہے کہ عوام صبح کو ان کا نام بھی نہیں لیتے۔ کیرانہ کو بیریوں والا شہر اور نانوتہ کو پھوٹا شہر کہتے ہیں، اور کرسی اور کاندہلہ اور انبیٹھ جو حمق میں مشہور ہیں، اور ان بستیوں کے اہالی میں کچھ نہ کچھ تأثر ہوتے ہیں۔ میری بستی کی تاثیر میرے میں یہ ہوئی کہ ایسا زمانۂ نحوست دیکھا۔ اللہ تعالیٰ مولوی خلیل احمد کو ان کی بستی کے خواص سے بچاوے۔ اور حضرت مولوی غلام دستگیر صاحب کو ان کے رد میں جزاے خیر عطا فرماوے۔ آمین ثم آمین۔

(العبد محمد رحمت اللہ بن خلیل الرحمٰن غفرلہما المنان- ۱۵؍ ذی قعدہ ۱۳۰۷ھ از مکہ معظّمہ)     مہر-محمد رحمت اللہ ۱۲۹۳ھ

تقدیس الوکیل پر

 مولانا کیرانوی کے بھائی کے پوتے کی تقریظ

حامدًا ومصلّیًا ومسلّمًا۔ رسالہ تقدیس الوکیل عن اہانۃ الرشید والخلیل پر علاوہ تصدیق حضرت مولانا و مولیٰ الکل حامی دینِ متین سید الرسلﷺ حضرت مولانا الحاج المہاجر فی اللہ مولانا محمد رحمت اللہ عافاہ اللہ جو مخاطب بہ خطاب پایۂ حرمین شریفین زادھما اللہ تعالیٰ عزۃً وشرافةً کے، مفتیان اربعہ مذاہب مکہ معظّمہ و مدینہ منورہ کی تصحیح و تعریف و تقریظ سے مزین ہوا۔ اور اب بتداے ربیع الاول ۱۳۰۸ھ میں جناب حاجی صاحب پیشواے سالکان شریعت و طریقت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکہ معظّمہ نے بھی اس رسالہ کی ملخص تحریر پر اپنے دستخط خاص سے تصدیق تسطیر فرمائی، اور اس کے مؤلف کے حق میں امداد دعا لکھ کر اپنی مہر شريف ثبت کی۔ ایسے جلسہ میں جہاں اکثر مولوی صاحبان و دیگر صالحانِ طریقت و مفتیانِ سلسلہ حاضر تھے، چناں چہ آپ کی تقریظ اور مہر کے نیچے مولانا مولوی انوار اللہ صاحب جو مشاہیر علماے حیدر آباد و استاذِ نظامِ ریاستِ موصوفہ ہیں، اور نیز مولوی سید حمزہ صاحب(شاگرد مولوی رشید احمد گنگوہی) وغیرہما مریدان حضرت حاجی صاحب موصوف و ممدوح نے اپنے تصحیحات و مواہیر درج کیں۔ الحق يعلو ولا یُعلٰی کا مضمون خوب ظاہر ہوا۔

اب غالب امید ہے کہ مولوی رشید احمد و خلیل احمد صاحبان مع دیگر ہم مشربوں اور مؤیدین کے اپنی خطاؤں سے باز آئیں گے، اور ہٹ دھرمی نہ فرماویں گے کیوں کہ ان کے خطا حضرت مولانا صاحب پایۂ حرمین شریفین کی شہادتِ صادقہ سے جن کی حقانیت و تبحرعلم و فضل کا ان کو خود اقرار ہے، جیسا کہ بجا ہاے متعددہ براہین قاطعہ میں اس کا اشتہار ہے، اور نیز ان کے پیر و مرشد جناب حاجی صاحب موصوف و ممدوح کے ارشاد سے ثابت ہوگئے ہیں اور کوئی شک و شبہہ مردود ہونے اعتقاد امکان کذب باری تعالیٰ و امکان نظیر رسول اکرم ﷺ و تصریحِ قلّتِ علم سرور عالم ﷺ شیطان لعین کے علم سے معاذ اللہ بد گمان ہونا معاذ اللہ شانِ مسلم نہیں۔

دوسرے یہ کہ فرماتے ہیں: مسجد الحرام میں ایک عالم نابینا سے مولود کا حال پوچھا گیا۔ انھوں نے کہا: بدعت و حرام۔شاید وہ نابینا مولوی محمد انصاری سہارن پوری ہوں گے جو تقیہ سے نام ان کا نہیں لیا کہ ان کو مکہ کا ہر صغیر و کبیر اہل علم برا کہتا ہے، یا اورکوئی ایسا اندھا عقل اور بینائی کا ہوگا۔ سبحان اللہ! خواب ایک شخص مجہول سے دیوبند کے علما حرمین کے علما سے افضل ٹھہریں، اور ایک بینائی کے اندھے کے کہنے سے جو حقیقت میں وہ عقل کا بھی اندھا ہے، مولود بدعت اور حرام ٹھہر جائے۔

اس پر مجھے ایک نقل یاد آئی کہ مداری فقیروں میں کہ اکثر ان میں کے رندو بد مذہب ہوتے ہیں گو شاذونادر بعض ان میں کے اچھے بھی ہوں، ایک اپنے مرید کو کہتا تھا کہ بعد کچھ خدمت کے تجھے ایک نکتہ فقیری کا بتاؤں گا۔ بعد چند مدت کے اس نے خدمت کر کے جو وہ نکتہ پوچھا تو كہا کہ مولیٰ، محمد، مدار، تینوں کے اول میں میم ہے، اور اس میں اشارہ ہے کہ تینوں کا درجہ ایک ہی رہا۔ دوسرا نکتہ تجھے بعد اور کچھ خدمت کے بتاؤں گا۔ بعد گزرنے مدت اور کرنے خدمت کے جو وہ دوسرا نکتہ پوچھا تو کہا کہ مکہ مدینہ، مکھن پور تینوں کے اول میں میم ہے، اور اس میں اشارہ ہے کہ یہ تینوں آپس میں برابر ہیں۔

اس رند نے مکہ مدینہ کو مکھن پور کے برابر بتلایا تھا، حضرت مرجح نے بفحواے ”ہر کہ آمد براں مزید کرد“ دیوبند کو مکہ مدینہ دونوں سے افضل ٹھہرا دیا۔ کیوں نہ ہو؛شاباش   ع:      

”ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کنند“

اور دوسری بات یہ ہے کہ براہین قاطعہ میں انوار ساطعہ کے جواب میں کوئی فقرہ نہ ہوگا کہ اس کے مصنف کو صراحۃً کلماتِ فحش سے یاد نہ کرتے ہوں۔ اس پر مجھے دوسری نقل یاد آئی کہ جامع مسجد کے شہدے کہ رندی اور گالی گلوج بکنے میں مشہور ہیں، ان میں سے ایک کی بیعت کا جو میں نے حال سنا تو معلوم ہوا کہ اس کے مرشد نے وقت بیعت لینے کے یہ کہا تھا کہ سن لے، جواکھیلیو، گالی گلوج بکیو، پر کاف لام سے رُکیو۔ سن کر کے یہ مضمون میری سمجھ میں نہ آیا۔ میں نے ان کے ایک معتبر سے پوچھا کہ اس قول کے کیا معنیٰ ہیں؟ کہا کاف سے مراد کسی کو کافر کہنا اور لام سے لعنت کرنا۔

سبحان اللہ! جامع مسجد کے شہدے کافر کہنے اور لعنتی کہنے کو ایسا برا سمجھیں، اور براہین قاطعہ کے مصنف انوار ساطعہ کے مصنف کو مشرک اور کافر بتلاویں۔

بعض جگہ،بعض چیزوں میں مشہور ہیں، جیسے میری بستی کیرانہ اور نانوتہ جس کے رہنے والے مولوی قاسم اور مولوی یعقوب وغیرہما تھے نحوست میں مشہور ہے کہ عوام صبح کو ان کا نام بھی نہیں لیتے۔ کیرانہ کو بیریوں والا شہر اور نانوتہ کو پھوٹا شہر کہتے ہیں، اور کرسی اور کاندھلہ اور انبیٹھہ جو حمق میں مشہور ہیں، اور ان بستیوں کے اہالی میں کچھ نہ کچھ تأثر ہوتے تھے۔ استغفر اللہ وغیر ذلك من الہفوات ہیں نہیں رہا ہے، اللہ تعالیٰ توبہ  توفیق اشتہار توبہ نصوح رفیق فرماوے، اور ناحقہ فساد کو رفع و دفع کرے۔ آمین یا رب العالمین۔

محررہ ۱۷؍ ربیع الاول ۱۲۹۸ھ از مکہ معظّمہ،مدرسہ صولتیہ

العبد محمد سعید عفی عنہ۔

حضرت مولانا کیرانوی کی وفات:

مبلغ اسلام حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی پچھتر برس کی عمر میں ۲۲/رمضان ۱۳۰۸ھ کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے، جنت المعلی میں حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا کے جوار میں دفن ہوئے، آپ کے ساتھ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، شیخ الدلائل مولانا عبدالحق الٰہ آبادی مہاجرمکی، مولانا عزیز بخش ، مولانا حضرت نور افغانی، مولانا عبد اللہ غازی، اورنواب عبد العلی رئیس چھتاری ضلع بلند شہر کی آخری آرام گاہیں ہیں، آپ کی کوئی اولاد نہ تھی اس لیے آپ کے برادر زاده مولانا سعید عثمانی مدرسہ صولتیہ کے مہتمم ہوئے۔(تجلیات مہر انور، از شاه حسین گردیزی، مطبوعہ مکتبہ مہریہ گولڑا شریف، اسلام آباد ۱۹۹۲ء ص: ۳۱۹،۳۱۸

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved