27 July, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia June 2023 Download:Click Here Views: 19799 Downloads: 842

(15)-معارف سلطان المناظرین

مختصر تجزیاتی مطالعہ

مبارک حسین مصباحی

600 صفحات پر مشتمل  ”معارف سلطان المناظرین“ مفتى عتيق الرحمٰن خان نعیمی بستوی علیہ الرحمہ پر ایک دستاویز ہے ۔ اس میں ۷۵برس کی حیات و خدمات اور افکار و معمولات کو جمع کیا گیا ہے۔اسے محب گرامی ادیب شہیر حضرت مولانا از ہر القادری دام ظلہ العالی نے بڑے سلیقے سے مرتب کیا ہے۔ سات ”نگارشات“ ابتدا میں ہیں۔ دس عدد” ادعیہ و افرہ “ہیں ۔ سترہ ”تاثرات“ ہیں۔ بارہ ”مکتوبات“ ہیں۔ مشمولات میں حسب ذیل دس ابواب ہیں :

باب اول:سلطان المناظرین ! حیات و خدمات

باب دوم:سلطان المناظرین اور ان کے مرشد برحق

باب سوم: سلطان المناظرین اور ان کے اساتذہ

باب چہارم:سلطان المناظرین اور ان کے معاصرین

باب پنجم:سلطان المناظرین اور ان کے تلامذہ

باب ششم:سلطان المناظرین! میدان مناظرہ میں

باب ہفتم :سلطان المناظرین اور مدارس عربیہ کا قیام

باب ہشتم:سلطان المناظرین اپنی تصانیف کے آئینے میں

باب نہم:سلطان المناظرین ! شخصیت اور کارنامے

باب دہم: سلطان المناظرین! ارباب علم و دانش کی نظر میں

مؤلف ایک نظر میں:

 آپ کی ولادت موضع او نٹیا پوسٹ اسکار بازار ضلع سدھار تھ نگر – یو پی میں 16 ربیع الثانی ۱۴۰۴ھ/11 فروری 1982 ء میں ہوئی۔ سدھارتھ نگر کے مختلف مدارس میں تعلیم حاصل کی اور دورہ حدیث جامعہ رضویہ منظر اسلام بریلی شریف سے 14 صفر 1423 ھ/ 28 اپریل 2002 ءمیں کیا۔ آپ فراغت کے بعد سے آج تک جامعہ اہل سنت امداد العلوم مٹہنا پوسٹ کھنڈسری ضلع سدھارتھ نگر میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

تحریر و نگارش اور شعر و شاعری میں امتیازی مقام رکھتے ہیں۔ لکھتے ہیں اور بھرپور لکھنے کی کاوش فرماتے ہیں ۔ متعددمو ضوعات 72 کتابیں مرتب فرما چکے ہیں۔ خوش مزاج ملنسار اور بلند اخلاق ہیں۔ ملک اور بیرون ملک تحریر کے حوالے سے گہرے روابط رکھتے ہیں ، ہم سے بھی رابطہ ہوا تو مسلسل گفتگو فرماتے رہتے تھے، عزم و حوصلہ کے مضبوط ہیں جو سوچ لیتے ہیں عام طور پر مکمل فرما دیتے۔ ہیں ۔ آپ نے نعتیہ شاعری میں بھی کمال حاصل کیا ہے، امام احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہ کی حدائق بخشش پر مکمل تضمین لکھ رہے  ہیں،ہو سکتا ہے پایۂ تکمیل تک پہنچ چکی ہوں۔ اسلام وسنیت کے فروغ کے لیے مسلسل لگے رہتے ہیں رضویات اور علماے اہل سنت آپ کے فکر و قلم کا اہم موضوعات ہیں ۔

سلطان المناظرین کا عہدِ طالب علمی:

سلطان المناظرین حضرت علامہ مفتی عتیق الرحمٰن خان نعیمی قدس سرہ کے نام اور ان کے بلند پایہ کام سے تو ہم عرصۂ دراز سے واقف ہیں ،مگر با ضابطہ ان کی شخصیت وفکر اور ان کے علوم و معارف کے مطالعہ کا موقع نہیں مل سکا تھا۔ ہم بے پناہ مبارک باد پیش کرتے ہیں حضرت مصنف کی بارگاہ عالی جاہ میں کہ آپ نے ہمیں ان کی حیات وخدمات کےمطالعہ کا موقع عنایت فرمایا۔ یہ صحیح ہے کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔ آپ ایک کثیر الجہات شخصیت ہیں، آپ کے بہت سے رخوں پر حضرت مصنف نے الگ الگ کتابیں لکھی ہیں۔

سلطان المناظرین کی ولادت 1327 ھ / 1909ء میں موضع اکڑ ہرا ، پوسٹ ڈھبر وا، ضلع بستی (حالیہ سدھارتھ نگر ) میں ہوئی۔ ان دنوں ضلع بستی، گونڈہ بہرائچی اور گورکھ پور کے علاقے بڑی حد تک غیر مقلد یت زدہ اور وہابیت کی یلغار سے دو چار تھے ۔ آپ کے گاؤں اور خاندان پر بھی ان ہی کا تسلط تھا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے مدرسہ میں حاصل کی ، دس برس کی عمر میں 1336 ھ / 1918 ء کو وہابیوں کے قدیم مدرسہ دار الہدی یوسف پور سدھارتھ نگر میں داخلہ لیا اور 1338 ھ / 1920 ء تک تین برس آپ نے یہاں گزارے۔ شوال 1339 ھ مئی 1921ء میں آپ غیر مقلدین کے مرکزی مدرسہ رحمانیہ بنارس میں داخل ہوئے اور شعبان 1341ھ 1923 ء تک مشکاة شریف اور ترمذی شریف تک آپ یہاں مغزماری فرماتے رہے۔

ان ایام میں آپ نے کیا پڑھا یہ خود سلطان المناظرین کی سمجھ سے بھی باہر تھا۔ عام طور پر ان بدعقیدوں کے مدارس میں پڑھایا کم جاتا ہے، مگر تعلیم وتربیت کا ڈھنڈورا زیادہ پیٹاجاتا ہے۔ حضرت سلطان المناظرین ذہین محنتی ،اور علم و فضل کی تلاش میں سرگرداں تھے، ۱۳۴۲ھ/ ۱۹۲۴ء میں حضرت علامہ مشتاق احمد کانپوری جامعہ معینیہ عثمانیہ اجمیر معلیٰ سے مستعفی ہو کر کان پور آگئے تھے۔ آپ کی جگہ مصنف بہار شریعت صدر الشریعہ حضرت مفتی امجد علی اعظمی قدس سرہ تشریف لے گئے۔ آپ کو معلوم ہوا کہ کان پور مدرسہ احسن المدارس میں علم و فضل کے بحر بے کراں حضرت علامہ مشتاق احمد ابن استاذ زمن مولانا احمد حسن علیہما الرحمہ بحیثیت مدرس خدمت انجام دے رہے ہیں۔خیر آپ وہاں پہنچے، استاذ گرامی نے آپ کی صلاحیت دیکھ کر از سر نو کافیہ سے پڑھانا شروع فرما دیا۔ اب سلطان المناظرین مطمئن ہوئے ، گویا کہ شدید پیاسے کوعلم وحکمت کا امنڈتا ہوا چشمۂ شیریں مل گیا۔ کم و بیش ایک ماہ کے بعد استاذ گرامی  علامہ مشتاق احمد کانپوری مدرسہ شمس العلوم بدایوں شریف 43-1342 ھ / 1923ء میں بحیثیت استاذ تشریف لے گئے ۔سلطان المناظرین بھی بحیثیت   طالب علم آپ کے ساتھ رہے،چند ماہ کے بعد آپ کان پورواپس تشریف لے گئے ،اور حسب سابق چند ماہ تدریسی خدمات انجام دیں۔

”حیات سالک میں ہے کہ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی (۱۳۵۳ھ/۱۹۱۶ء تا ۱۳۳۸ / ۱۹۱۹ء بدایوں اور ۱۳۳۸ھ/ ۱۹۱۹ء تا ۱۳۴۱ھ/۱۹۲۲ء مینڈھوعلی گڑھ سے پڑھ کر ) مراد آباد بہ غرض حصول تعلیم تشریف لائے اور حضرت صدر الا فاضل نے مفتی صاحب کو ، ان کے مطلوبہ معقولات کے اسباق شروع کرادیے۔“اس کے بعد تحریر ہے:

”اسباق شروع تو کرادیے مگر حضرت کی گوناگوں مصروفیات، ان کے پاس فراغت اور سکون کے لمحات کم ہی چھوڑتی تھیں، نتیجۃً اسباق میں ناغے ہونے لگے، تنگ آکر مفتی صاحب ایک بار مراد آباد سے نکل کھڑے ہوئے ۔ صدر الافاضل کو علم ہوا تو انہوں نے آدمی بھیجوا کر مفتی صاحب کو واپس بلوایا اور طے کیا کہ آئندہ مفتی صاحب کی تعلیم کا حرج نہیں ہونے دیا جائے گا، اس کا طریقہ اس کے سوا دوسرا کوئی نہ تھا کہ چوٹی کا کوئی مدرس مستقل طور پر دارالعلوم میں موجود ہو۔ چنانچہ حضرت صدرالافاضل نے حضرت علامہ مشتاق احمد کان پوری سے رابطہ قائم کیا جو اپنے وقت میں معقولات کے امام اور نہایت اونچے پایہ کے استاذ شمار ہوتے تھے۔ انہوں (مولانا مشتاق کان پوری ) نے یہ شرط پیش کی کہ میرے ساتھ میرے ان تمام طلبہ کے قیام و طعام کا انتظام بھی آپ (صدر الافاضل ) کے ذمہ ہوگا جو اس وقت میرے پاس اسباق پڑھ رہے ہیں ، حضرت صدر الافاضل نے یہ شرط منظور فرمالی اور حضرت علامہ کان پوری کو جامعہ نعیمیہ مراد آباد میں بلالیا گیا“۔(حیات سالک، ص:۳۰/معارف سلطان المناظرین، ص:۸۳)

 صدر الا فاضل حضرت علامہ سید محمد نعیم الدین مراد آبادی قدس سرہ نے حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ وغیرہ کی تعلیم کے لیے آپ کو جامعہ نعیمیہ دیوان بازار مراد آباد میں بلالیا حضرت علامہ مشتاق احمد کا نپوری نے اپنی آمد کے لیے کچھ طلبہ کو ساتھ لانے کی شرط رکھی جو منظور ہوئی ۔

حضرت مصنف نے یہ ثابت کیا کہ ان طلبہ میں سلطان المناظرین بھی تھے ۔ اس کے بعد آپ تحریر فرماتے ہیں :

ہاں اس کے برعکس کوئی دوسری تحقیقی صورت سامنے آتی ہے تو راقم اسے قبول کرنے کے لیے تیار ہے ۔

مدرسہ اسلامیہ اندر کوٹ میرٹھ کے سرپرست جناب بشیر الدین صاحب کا زبردست اصرار ہوا اور حضرت 1343ھ /مئی 1925ء میں میرٹھ تشریف لے گئے ۔ ساتھ میں حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی اور حضرت سلطان المناظرین بھی تھے۔ یہاں حضرت سلطان المناظرین نے تین سال اپنے استاذ گرامی سے پڑھا اورشعبان المعظم 1346ھ/ فروری 1928ء میں دستار فضیلت اور سند فراغت حاصل کی۔

 اب ہم یہاں یہ تحریر کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ حضرت مصنف نے تحریر فرمایا ہے کہ حضرت نے میرٹھ کے حصول علم کے دور میں ملاحسن کا عربی حاشیہ لکھا۔ آخری صفحہ پر آپ کی دستخط کے ساتھ 17 جمادی الثانی 1346 ھ مذکور ہے۔ حضرت مصنف نے اس سوال کے بھی انتہائی معلومات افزا تین جوابات تحریر فرمائے ہیں، یہ فکر انگیز جوابات بھی پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں، مگر ان کے تسلیم کرنے پر آپ پا بند نہیں ہیں، بلکہ آخر میں لکھتے ہیں:

”لہذا معاملہ بالکل واضح ہے کہ سلطان المناظرین نے سنہ مذکور ہی میں سند فراغت پائی اور ملاحسن کا حاشیہ آپ نے اس سے پہلے ہی لکھا۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔“

آپ بحیثیت سلطان المناظرین:

حضرت سلطان المناظرین اپنے عہد کے عظیم مناظر تھے، طالب علمی کے دور سے لے کر تا عمر آپ بد عقیدوں سے مباحثے اور مناظرے فرماتے رہے اور مستحکم دلائل و شواہد کے سامنے بڑے سے بڑا بد عقیدہ مولوی شکست فاش پا کر اپنا سا منہ لے کر رہ جاتا تھا۔ آپ نے فراغت کے بعد قریب دو برس ثبات قدمی کے ساتھ دعوت و تبلیغ کے فرائض انجام دیے ، اس کے بعد آپ حضرت شعیب الاولیا کے پاس پہنچے کہ آپ کوئی ادارہ قائم فرمائیں ، یہ کوئی 1351-52ھ/ 33-1932 ء کی بات ہے، تو براؤں شریف میں مدرسہ فیض الرسول قائم ہوا۔

آپ نے جن مدارس میں تدریسی خدمات انجام دیں ان میں مدرسہ ضیاء الاسلام گورکھ پور ، حضرت شعیب الاولیا ء قدس سرہ کے اسرار پر دار العلوم فیض الرسول براؤں شریف، اس کے بعد تلسی پور میں جامعہ انوار العلوم ۔

اس عہد کی قدرے تفصیل بحر العلوم حضرت مفتی عبد المنان اعظمی علیہ الرحمہ سابق استاذ مدرسہ انوار العلوم تلسی پور ضلع گونڈہ [م:۱۵ محرم الحرام ۱۴۳۴ھ/۲۹ نومبر ۲۰۱۲ء]نے اپنی معروف کتاب ”الشاہد“ میں رقم فرمائی ہے۔ واضح رہے کہ حضرت بحر العلوم نے یہ اہم کتاب ۱۹۴۹ء سے ۱۹۵۶ء کے درمیان تحریر فرما دی تھی، مگر بعض موانع کی وجہ سے اس کی اشاعت نہیں ہو سکی تھی۔ ۱۹۶۰ء میں اس کی اولین اشاعت ہوئی۔

”متشدد غیرمقلد خاندان کے ایک فرد کے دل میں علم دین کے حصول کا جذبہ پیدا ہوا ۔ اور قسمت نے ان کو ایک سنی عالم دین حضرت الاستاذ مولانا مشتاق احمد صاحب کا نپوری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں لاڈالا۔ علم کی حقیقی روشنی پانے کے بعد گھر لوٹے تو ان کی حالت ہی عجیب ہوگئی ۔ جیسے از سرنو وہ مسلمان ہوئے ہوں ۔ اور نو مسلموں کے سے ہی جوش و خروش کے ساتھ پورے علاقہ میں مسلک حنفیت کی تائید و نصرت کے لیے آمادہ ہو گئے، چونکہ خود ذی علم تھے اس لیے کثیر التعداد مناظروں میں ترکی بہ ترکی ان کا جواب دیا ۔ ایک دار العلوم بنام انوارالعلوم کی بنیاد ڈالی اور علماے اہلسنت کو بلا بلاکر سال بسال تبلیغی جلسے بھی کر دیے  اور اس راہ میں پیش آنے والی ہر مصیبت کا خندہ پیشانی سے استقبال بھی کیا ۔ مدعیان ایمان و توحید نے ان کے ستانے کے سارے ہی ہتھکنڈے استعمال کیے اور ذلیل سے ذلیل حرکتیں کیں ۔ لیکن استقلال کے ساتھ تھوڑی ہی جدوجہد کے بعد مطلع صاف ہونے لگا ۔ اور اہلسنت وجماعت کی حقانیت کا آفتاب نصف النہار پر چمکنے لگا ۔ وہ مردحق آگاہ اور عالم حق پناہ آج اس علاقہ کی مشہور دینی و علمی شخصیت مولانا عتیق الرحمٰن صاحب تھے ۔

حضرت بحر العلوم مزید لکھتے ہیں:

۱۹۴۹ء میں تدریس کے سلسلے میں جب میرا قیام مولانا کے قائم کردہ ادارے انوار العلوم تلسی پور ضلع گونڈہ میں ہوا ۔ تب بھی مولانا اور غیر مقلدین کے درمیان” مسئلہ حاضر وناظر“ پر تحریروں کا تبادلہ جاری تھا ۔ غیر مقلدوں کی طرف سے دور سالے ”جوابات حاضر وناظر “ اور” خیر الامم“ اس مسئلہ کے خلاف اور ”خیرالانبياء“ (مولانا عتیق الرحمٰن صاحب کی تحریر ) اس مسئلہ کی تائید میں شائع ہو چکے تھے ۔

 مولانا نے اپنی تحریرمیں ”مسئلہ حاضر و ناظر“ کے معنی کی وضاحت کی تھی، کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ سلم کے حاضر و ناظر ہونے سے علماے ہلسنت کیا مراد لیتے ہیں۔ کیوں کہ جب تک دعوی متعین نہ ہو ، دلیل کی حیثیت بے معنی بحث کی ہوتی ہے ۔“(الشاہد، ص:۴، ۵)

حضرت  بحر العلوم کی یہ کتاب اپنے موضوع پر بے مثال تھی اور آج بھی بے مثال ہے، کم از کم میری نگاہ سے کوئی دوسری کتاب اس موضوع پر اتنی اہم نہیں گزری۔

حضرت سلطان المناظرین بلند پایہ محقق و مصنف تھے۔ آپ نے ہند و نیپال میں اصلاح فکر و اعتقاد اور بدمذہبوں کی تردید میں تاریخی کردار ادا کیا، تاریخی مناظرے فرمائے ، اس لیے زمانہ آپ کو سلطان المناظرین کے نام سے جانتا اور مانتا ہے۔

تصانیف:

آپ نے دس عدد اپنی گراں قدر علمی اور تحقیقی تصانیف بھی چھوڑی ہیں۔ پیش نظر معارف کے باب ہشتم”سلطان المناظرین اپنی تصانیف کے آئینے میں“حضرت مصنف نے  ان کتب کا تعارف بھی رقم فرمایا ہے ، ہم ذیل میں صرف کتابوں کےنام رقم کرتے ہیں:

(۱)- التحقيقات المرضیۃ في رد تلبيسات الوہابیۃ-

(۲)- خير الانبياء

(۳)-المکالمہ نمبر (۱)قرأة خلف الامام

(۴)-المكالمة نمبر (۲) رفع يدين

 (۵)- المكالمة نمبر( 3) علم النحو عربی

(۶)- حاشیہ ملا حسن

(۷)- درہ سلطانی بر فاضل رحمانی

 (8) -اہمیت زکوٰۃ اور اس کے مصارف

(۹)-علم فلکیات

(۱۰)- كتاب الحكمة معروف بہ نسخہ جات ادویه

اللہ تعالی ان تمام کتابوں کو مستقل شائع کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

تدریسی فیضان اور تلامذہ:

آپ علوم وفنون کے امنڈتے ہوئے سیل رواں تھے، آپ نے متعدد مقامات پر تدریسی خدمات انجام دیں۔

 آپ کے تلامذہ میں عظیم خانقاہوں کے مرشدین طریقت بھی پیدا ہوئے اور ماہرین حدیث و تفسیر بھی ، درس گاہوں کےلیے غزالی دوراں پیدا ہوئے اور قابل صد افتخار محققین و مصنفین بھی۔ خدا جانے آپ کی درس گاہ میں وہ کون سا کمال تھا،جس رخ پر توجہ فرما دیتے اندھیروں میں اجالے چھا جاتے اور بد عقیدگیوں کے طوفانوں کا رخ موڑ دیتے۔

جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک

ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں

آپ کے تلامذہ کو ہم کم از کم پانچ خانوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ اس تقسیم کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ دوسرے خانوں کے تلامذہ علم و عمل کے بنیادی اوصاف سے خالی تھے، بلکہ مقصد صرف ترجیحی بنیاد ہے۔ ہر عالم کی ایک ترجیح ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنے احباب اور معاصرین سے ممتاز نظر آتا ہے جن کی قدرے تو ضیح اس طرح کی جاسکتی ہے۔

 (۱) صوفیائے کرام اور مرشدانِ طریقت ۔

(۲) ممتاز مدرسین اور حدیث و تفسیر کے نام ور مشائخ ۔

(۳) علوم عقلیہ اور نقلیہ کے ماہرین اساتذہ ۔

(۴) اعلیٰ مبلغین اور مناظرین۔

(۵) داعیانِ امت اور باکمال مصنفین۔

اب مضمون کا تقاضا تھا کہ ان خانوں میں آپ کے بزرگ تلامذہ کو تقسیم کیا جائے مگر اس تفصیل اور تجزیے میں گفتگو طویل ہو جائے گی جس کی یہاں گنجائش نہیں۔ ہم چند معروف تلامذہ کا ذکرتے ہیں:

(۱)- پیر طریقت شاہ صوفی صدیق احمد [خلیفہ صاحب] علیہ الرحمہ:

 آپ کی ولادت معروف خانقاہ قادریہ محبوبیہ یار علو یہ براؤں شریف ضلع سدھارتھ نگر میں 1916 ء میں ہوئی ، آپ کا سلسلہ نسب ۲۸ واسطوں سے امیر المومنین مولا علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم تک پہنچتا ہے۔ آپ کی تعلیم و تربیت براؤں شریف ، سکندرپور، دار العلوم منظر حق ٹانڈہ اور آخر میں براؤں شریف سے دورۂ حدیث کے بعد فراغت ہوئی۔سلطان المناظرین حضرت مفتی عتیق الرحمٰن نعیمی آپ کے خصوصی استاذ رہے باقی مشاہیر اساتذہ میں حضرت مولانا خلیل الرحمٰن اور حضرت مولانا عبد الباری  علیہ الرحمہ۔آپ کو اپنے والد گرامی حضرت شعیب الاولیاء علیہ الرحمہ سے مختلف سلاسل کی خلافتیں حاصل تھیں ۔ آپ نے دار العلوم فیض الرسول براؤں شریف اور اپنی خانقاہ کے روحانی سلسلے کی بھر پور خدمت انجام دی۔ طویل علالت کے بعد بہ عمر 77 برس 18 رجب 1412 ھ / 24 جنوری 1992 ء میں وصال پر ملال ہوا۔ خانقاہ شعیب الاولیا میں آپ کا مزار اقدس بھی مرجع انام ہے ۔

ناچیز مبارک حسین مصباحی حضرت شعیب الاولیا سیمینار اور عرس  میں براؤں شریف حاضری کی سعادت حاصل کر چکا ہے۔

(۲)- شیخ طریقت حضرت پیر عبد المتین علیہ الرحمہ:

 آپ کی ولادت 1918 ء میں قصبہ التفات گنج سے متصل موضع ڈھلمؤ شریف میں ہوئی، آپ کا نسب خاندان مغلیہ سے ہے دراصل آپ کے اجداد مغلیہ خاندان کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر سے جاری ہے ۔ آپ کے والد ماجد عارف باللہ شاہ محبوب علی [محبوب الاوليا] قدس سرہ تھے۔ براؤں شریف کے شعیب الاولیا آپ ہی کے نامور خلیفہ ہیں۔ حضرت پیر عبد المتین علیہ الرحمہ محبوب الاولیا کے سب سےچھوٹے فرزند ارجمند ہیں۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد بزرگوار سے حاصل کی ،مزید تعلیم کے لیے براؤں شریف داخل ہوئے۔ آپ کے استاذ گرامی حضرت مولانا خلیل الرحمٰن علیہ الرحمہ ٹانڈوی ظاہری بینائی سے محروم تھے ۔ برسوں تک حضرت متین الاولیا انہیں ٹانڈہ سے براؤں شریف پیدل آمد ورفت فرماتے، براؤں شریف آپ کی جماعت کی تدریس کے لیے سلطان المناظرین علیہ الرحمہ کو بلایا گیا ، مگر افسوس درس نظامی ابھی مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ والد گرامی حضرت محبوب الاولیا کا وصال  ۸ جمادی الاخریٰ ۱۳۵۷ھ/ ۵ اگست ۱۹۳۸ء کو ہو گیا۔ خانقاہی ذمہ داریاں آپ کے کاندھوں پر آگئیں روحانی معارف سے آپ پورے طورپر مالا مال تھے ۔

جب متين الاوليا بالغ ہو گئے تو حضرت محبوب الاولیا کے خلیفہ حضرت شعیب الاولیا نے وصیت کے مطابق چاروں سلاسل کی خلافتیں انھیں عطا فرما دیں ۔ حضرت متین الاولیانے دین و سنیت کے فروغ کے لیے بڑی خدمات انجام دیں ، 89 برس کی عمر پائی ۔26 محرم 1428 ھ/۱۵ فروری 2007ء میں وصال فرمایا۔ مزار شریف ڈھلمئو شریف میں مرجع عوام و خواص ہے ۔ احقر مبارک حسین مصباحی غفرلہ برسوں پہلے شاید دوبار خانقاہ کے اعر اس کے مواقع پر حاضری کی سعادت حاصل کر چکا ہے۔

(۳)- شیخ القرآن حضرت علامہ  عبداللہ عزیزی قدس سرہ

آپ کی ولادت با سعادت نومبر 1935 ء میں ناؤ ڈیہہ پچپڑوا  ضلع بلرام پور ہوئی، مختلف تعلیم و تربیت کے مراحل سے گزرتے ہوئے جامعہ انوار العلوم تلسی پور  میں برسوں حصول علم فرماتے رہے۔ سلطان المناظرین وہاں ایک مربی کی حیثیت سے جلوہ گر تھے ۔ اسی دوران آپ اور آپ کے اہل خانہ جلالۃ العلم حضور حافظ ملت بانی جامعہ اشرفیہ مبارکپور کے روحانی دامن سے وابستہ ہوئے ، آپ 1954ء سے 1957ء تک ایک باذوق اور سچے طالب علم کی حیثیت سے جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں رہے۔ آپ نے برسوں تک جامعہ اشرفیہ مبارک پور  میں ایک کامیاب استاذ ومربی کی حیثیت سے متعدد برس گزارے ۔

ہمیں بھی آپ کی درس گاہ سے استفادہ  کرنے کا شرف حاصل ہوا ، آپ نے ہماری جماعت کو دیوان متبنی اور الادب الجمیل یکے بعد دونوں کتابیں بڑھائیں، احقر مبارک حسین مصباحی سے بے پناہ محبت فرماتے تھے ۔ ہم لوگ جیسے ہی درس گاہ میں جا کر بیٹھتے حضرت ارشاد فرماتے : پڑھ رم پوری پڑھ ، متعدد بارآپ نے ارشاد فرمایا : رام پور کی دو چیزیں مشہور ہیں ، ٹوپی اور چاقو ، بتائیے آپ کو کیا پسند ہے ؟ سوال سن کر پوری جماعت مسکرانے لگتی ۔

1986 ء میں آپ دار العلوم علیمیہ جمدا شاہی تشریف لے گئے۔آپ نے اس ادارے کو اپنے نظم وضبط کے حسن سے بڑی بلندی عطا فرمائی ۔14 شعبان المعظم 1432 ھ/ 17 جولائی 2011ء میں وصال پر ملال ہوا ، آپ کا مزار اقدس  موضع جمدا شاہی میں ہے ۔

ان کے علاوہ بھی سلطان المناظرین کے نامور تلامذہ ہیں، ہم صرف اسماے گرامی پیش کرتے ہیں:

 (4) حضرت مفتى غلام علی ہمدم القادری گونڈوی علیہ الرحمہ

(5) حضرت علامہ صوفی محمد طیب لطیفی صابری بلرام پوری علیہ الرحمہ

(6) حضرت مولانا حافظ وقاری محمد فاروق نعیمی نیپالی علیہ الرحمہ

(7) شہزادۂ سلطان المناظرين حضرت مولانا كمال احمد خان نوری علیہ الرحمہ ۔

(۸)حضرت مفتی عزیز الرحمٰن حشمتی بھاؤ پوری  سدھارتھ نگری ۔

(۹) امین شریعت حضرت مولانا محمد امین الدین رضوی لوکہواں، بلرام پور۔

(۱۰)- حضرت مولانا خلیل الرحمٰن نعیمی علیہ الرحمہ، بڑھنی، سدھارتھ نگر۔

(۱۱) حضرت مفتی عنایت احمد نعیمی گونڈوی علیہ الرحمہ۔

(۱۲) حضرت مفتی شعبان على حبابی بلرام پوری علیہ الرحمہ

(۱۳)حضرت مولانا وکیل احمد نعیمی علیہ الرحمہ، پچپڑوا، بلرام پور

(۱۴)-مجاہدسنیت مولانا عبد الحی عثمانی تلسی پوری علیہ الرحمہ۔

(۱۵)- بابائے قوم مولوی جمال احمد عتیقی علیہ الرحمہ۔

(۱۶)- حضرت قاری فخر الدین قادری کامل چشتی ، لکھاہی بلرام پوری۔

 حضرت مرتب دام ظلہ العالی نے پینتالیس تلا مذہ کے کسی قدر تفصیلی احوال رقم فرمائے ہیں اور اس کے بعد بانوے ۹۲تک صرف اسماے گرامی سیر د قلم کیے ہیں۔

مرشدِ گرامی اور آپ کا روحانی فیضان:

آپ سلسۂ روحانیت میں اپنے عہد کے عظیم بزرگ مفسر قرآن صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی قدس سرہ کے دست گرفت تھے۔ ۲۱ صفر ۱۳۰۰ ہجری/ یکم جنوری ۱۸۸۲ء میں آپ کی ولادت ہوئی، بیس برس کی عمر میں ۱۳۲۰ھ /۱۹۰۲ء میں مدرسہ امدادیہ  مراد آبادمیں آپ کی دستار فضیلت ہوئی۔ آپ مختلف علوم و فنون خاص طور پر فن تفسیر میں یکتاے روزگار تھے۔ امام احمد رضا قدس سرہ کے ترجمہ قرآن کنز الایمان پر آپ کی تفسیر خزائن العرفان شہرہ آفاق ہے ۔ آپ اپنے استاذ گرامی شیخ الکل حضرت علامہ شاہ محمد گل قدس سرہ کے مرید و خلیفہ ہیں۔ آپ شیخ المشائخ سیدشاہ محمد علی حسین اشرفی کچھوچھوی قدس سرہ اور امام احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہ کے بھی خلافت یافتہ ہیں، آپ عظیم مفسر، محدث، متکلم، محقق، مناظر، بلند پایہ مصنف اور صحافی ہیں۔ آپ کا وصال ۱۸ ذی الحجہ ۱۳۶۷ھ / ۲۳ اکتوبر ۱۹۴۸ء میں ہوا۔ آپ کا مزار اقدس  جامعہ نعیمیہ مراد آباد کی مسجد کے پہلو میں مرجعِ عوام و خواص ہے۔ حضرت سلطان المناظرین ان ہی کے دامنِ کرم سے وابستہ اور مرید ہیں۔

نیپال میں مزار اقدس:

آپ فکر و دانش کے اعلیٰ معیار پر فائز تھے، کس سے کیسے ملنا چاہیے، شرعی نقطۂ نظر سے یہ آپ خوب جانتے تھے۔ عبادت وریاضت اور اوراد و وظائف آپ کی حیات کے لازمی عناصر تھے، تعویذات کی تاثیرات بارگاہ الٰہی میں مقبولیت کی کھلی نشانی تھی ۔

آخر میں آپ نے پڑوسی ملک نیپال کا رخ کیا ضلع کپل وستو کے قصبہ کرشنا نگر سے ایک کلومیٹر پچھم موضع لچھمی نگر قیام فرمایا، ایک مدرسہ قائم فرمایا اور خود تسبیح وذکر میں مصروف ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاؤں اور تعویذات میں بڑی تاثیر پیدا فرمائی تھی ، ضرورت مندوں کی بھیڑ لگنے لگی۔ ۲۰ محرم الحرام ۱۴۰۴ھ میں آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا، آپ کے تلاندہ ، مریدین اور معتقدین کی لمبی تعداد ہے، ہر سال اسی تاریخ میں عرس پاک کا انعقاد ہوتا ہے۔

چند آخری معروضات:

 ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ”معارف سلطان المناظرین “ کے محقق و مولف علم وعمل کے جامع اور مخلص شخصیت ہیں ۔ وہ سلطان المناظرین کی شخصیت کے تعلق سے مسلسل کوشاں رہتے ہیں، اس سے آپ کی ذاتی کوئی غرض نہیں بلکہ آپ کی آرزو یہ رہتی ہے کہ اسلاف کے کارناموں کو زندہ رکھنے کے لیے ان کے تذکار کا منظر عام پر آنا ضروری ہے۔ انھوں نے اس کی ترتیب کے لیےدیگر مکاتب فکر سے نہ صرف رابطہ کیا بلکہ مواد کی تلاش میں ان تک پہنچے بھی ہیں ۔ آپ کان پور اور میرٹھ وغیرہ مسلسل رابطے میں رہے ہیں۔ دراصل کامیاب وہی ہوتے ہیں جو بظاہر ناکامیوں کے بعد بھی مسلسل آگے بڑھتے رہتے ہیں۔

 محب گرامی حضرت مولانا از ہر القادری دامت برکاتہم العالیہ صرف اسی موضوع پر نہیں بلکہ دیگر موضوعات پر بھی مسلسل لکھ رہے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے خصوصی فضل و کرم سے سرفراز فرمایا ہے۔

ہم اس عظیم تاریخی کام کے حق میں مکمل آرزومند ہیں اللہ تعالیٰ اسے اور آپ کی دیگر کتب کو قبولیت سے مالا مال فرمائے ۔ عوام و خواص بے تابی سے ان کی جانب متوجہ ہوں اور زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش کریں ۔ آمین ۔

اب آخر میں ہم چند معروضات پیش کرتے ہیں۔ حضرت مرتب نے بڑی محنت و جانفشانی  سےمعارف سلطان المناظرین کے لیے مواد جمع کیا ہے۔ دیگر بزرگوں اور قلم کاروں کی تحریروں میں تکرار مباحث بھی زیادہ ہے، حالانکہ بحیثیت مرتب آپ کو ایڈٹ کرنے کا حق حاصل تھا۔ بعض معمولی باتوں کو بھی طول دیا گیا ،حالاں کہ وہ باتیں اختصار کے ساتھ پیش کی جاسکتی تھیں ۔ ہمارے مرتب مدظلہ العالی بعض حضرات سے ضرورت سے زیادہ متاثر ہیں ایک ہی صفحے میں اگر کئی بار بھی ان کا اسم گرامی آیا ہے تو نام سے قبل یا بعد القابات کے اضافے چہ معنی دارد ۔

اصول یہ ہے کہ کسی شخصیت سے آپ متاثر ہیں تو ایک بار القاب وغیرہ ذکر کر دیں ، یہی جدید طرز تحریر ہے۔

کتاب کےمندرجات سے اندازہ ہوتا ہے کہ معارف کے صفحات میں اضافہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے حالانکہ اس مصروف ترین دور میں اختصار و جامعیت کی ہی زیادہ اہمیت ہے۔ اب قارئین کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ غیر ضروری تفصیلات کا مطالعہ کریں۔

بہر کیف معارف سلطان المناظرین ایک معلوماتی دستاویز ہے ہم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرتے ہیں کہ مولا تو اسے شرف قبولیت سے مالامال  فرما اور مصنف اور ناشر کو دارین کی سعادتوں سے سرفراز فرما، آمین یا رب۔ بجاہ سید المرسلین علیہ الصلوٰۃ والتسلیم

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved