27 July, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia June 2023 Download:Click Here Views: 19807 Downloads: 842

(11)-لڑکیوں کے مرتد ہونے کے اسباب اور ان کا تدارک

از: محمد زاہد رضا،دھنباد

آئے دن ہمیں الکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعہ سے یہ روح فرساخبریں موصول ہو رہی ہیں کہ مسلم دو شیزائیں اسلامی تعلیمات اور اسلامی تہذیب کو چھوڑ کر کفر و الحاد کے راستہ پر چل پڑی ہیں،دختران اسلام غیر مسلم لڑکوں سے مشرکانہ رسم و رواج کے ساتھ شادی کر رہی ہیں اور ہندو مذہب اپنا رہی ہیں۔

   ایک رپورٹ کے مطابق اب تک تقریباً دس لاکھ لڑکیاں مرتد ہو چکی ہیں جو کہ انتہائی تشویش ناک ہے۔آخر اتنی برق رفتاری کے ساتھ مسلم لڑکیاں کیوں مرتد ہو رہی ہیں؟ کیوں اپنے مہذب مذہب کو چھوڑ کر غیروں میں شامل ہو رہی ہیں؟ کیوں اپنی عفت و عصمت کے قیمتی جوہر سر عام نیلام کر رہی ہیں؟ جب ہم ارتداد کے اسباب پر غور و فکر کرتے ہیں تو ہمیں مندرجہ ذیل وجوہات کا پتہ چلتا ہے ہم کچھ بنیادی اسباب اور علاج آپ کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔

          فتنہ اردتداد کے اسباب:

   اولاد کی تربیت و اصلاح میں والدین کی کوتاہی: بچوں کی تعلیم و تربیت  میں ماں باپ کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے۔ بلاشبہ والدین کی گود بچوں کی وہ پہلی درسگاہ ہوتی ہے جہاں سے شعور و آگہی اور تہذیب و اخلاق کی کرن پھوٹتی ہے اور اس کی روشنی میں بچہ شاہ راہ حیات طے کرتے ہوئے منزل مقصود تک پہنچتا ہے۔مگر صد حیف کہ  سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں والدین کی مصروفیت اور غفلت کے باعث بچے اسلامی اور معاشرتی تربیت سے محروم نظر آتے ہیں۔اسلامی نہج پر ان کی شخصی اور فکری تربیت کرنا مشکل امر ہوتا جارہا ہے۔لہذا آج اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ایک ماں اپنے بچوں کی تربیت اور پرورش کرنے میں بزرگ خواتین اسلام کے احوال و آثار کو اپنائے۔ان کی زندگیوں کا مطالعہ کرے،اپنے بچوں اور بچیوں کی زندگی کو بہتر بنانے میں مثالی کردار ادا کرے۔ماں کا مقام بہت بلند ہے،اس کے قدموں کے نیچے جنت ہے،اسے چاہیے کہ وہ خود یا اسلامی تعلیم سے آراستہ خواتین سے اپنی بچیوں کے لیے کچھ وقت حاصل کریں۔

  دینی تعلیم کا فقدان: آج ارتداد کی سب سے بڑی وجہ دینی تعلیم کا فقدان ہے۔عام طور پر بچے اور بچیاں جب چار،پانچ سال کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں تو ہم انھیں انگریزی اور عصری علوم سے مزین کرنے کے لیے مشنری اسکولوں میں داخل کردیتے ہیں جہاں عمدہ تعلیم کے نام پر عیسائیت اور ہندوئیت کو فروغ دے رہے ہیں،اسلامی تہذیب،اسلامی اخلاق  اور اسلامی تشخص کو فروغ دینے کا تو ہلکا تصور بھی ان کے ذہن و دماغ میں نہیں ہوتا، جس کی جہ سے مشرکانہ عقائد و افکار کی قباحت مسلم بچیوں کے دل سے نکل رہی ہے،بعض دفعہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ پڑھائی جانے والی کتابیں اسلام کے خلاف ہیں اور باطل افکار پر مشتمل ہیں۔ تو ایسی صورت میں مسلم لڑکیاں کیسے دینی تعلیم سے آراستہ و پیراستہ ہوں گی؟کیسے سیرت فاطمہ کو پڑھ پائیں گی؟کیسے صلاۃ و صوم کی پابند ہوں گی؟ ظاہر سی بات ہے جب مسلم لڑکیوں کے اندر دینی تعلیم کا فقدان اور عصری تعلیم کی رغبت ہوگی تو وہ فتنۂ ارتداد کے شکار تو ہوگی ہی۔اللہ تعالی دختران اسلام کی حفاظت فرمائے۔

مخلوط نظام تعلیم: اسکولوں اور کالجوں میں  رائج مخلوط نظام تعلیم ایک ایسا سم قاتل ہے جس نے ملت اسلامیہ کے نوجوان نسل کے اندر غیرت ایمانی،حیاء اور شرافت کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے،مخلوطی تعلیم کی وجہ سے مسلم لڑکیاں غیر مسلموں کے دام محبت میں آسانی سے پھنس کر ان کی شیطانی حملے کا شکار بن جاتی ہیں اوروقتی دوستی اور معمولی منفعت کے چکر میں آسانی سے مرتد ہوجاتی ہیں،اسی وجہ سے اسلامی تعلیمات میں مخلوطی تعلیم کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے،دین اسلام تعلیم نسواں کا مخالف نہیں ہے، بل کہ مذہب اسلام عورت کو اجنبی مردوں کے ساتھ اختلاط کو منع کرتا ہے اور پردے کے اہتمام کے ساتھ تعلیم کی اجازت دیتا ہے،صرف حصول تعلیم کے ان طریقوں  سے منع کرتا ہے جس کے ذریعہ سے نسوانیت کا تقدس یا اس کی عزت و عصمت کے داغ دار ہونے کا خدشہ ہو۔ کیوں کہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ لڑکیاں گھر سے یہ کہ کر نکلتی ہیں کہ پڑھنے جا رہی ہوں لیکن وہ پڑھنے جانے کے بجاے اپنے Boyfriend کے ساتھ ہوٹلوں، پارکوں اور نائٹ کلبوں میں چلی جاتی ہیں اور رنگ ریلیاں مناتی ہیں،تو ایسی تعلیم کا کیا فائدہ جو مسلم شہزادیوں کو بدکرداری،فحاشی، اور عریانیت کے سمندر میں ڈبو کر انھیں نور ایمانی سے محروم کر دے اور ایمان جیسی عظیم دولت سے تہی کر کے کافروں کی گود میں ڈال دے۔

  مخلوط ملازمتیں: آج دواخانہ،شفاخانہ، اسپتال، بازار،کال سینٹر،دفاتر اور کالجز وغیرہ میں خواتین بغیر شرم و حیا اور بے پردگی کے  مردوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر ملازمت کی خدمات انجام دے رہی ہیں اور اپنے اہل خانہ کی پرورش کر رہی ہیں۔مسلم لڑکیاں بھی ان جگہوں پر ملازمت کرتی ہوئی نظر آرہی ہیں،مخلوط ملازمت کے دوران ان کا غیروں کے ساتھ اختلاط میل جول اور گھنٹوں تک ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا رہتا ہے،اجنبی مردوں کے ساتھ تنہائی کی نوبت بھی آتی ہے، ایسے وقت میں بیمار ذہن و اخلاق کے لوگ موقع کا فائدہ اٹھا کر انھیں اپنا شکار بنا لیتے ہیں اور ہماری بہنیں بغیر غور و فکر اور تردد کے ان کے ساتھ شادی کر کے اپنی خاندانی وجاہت و شرافت کو بھرے بازار نیلام کردیتی ہیں۔

 بے جا خرچ والی شادیاں: آج ہم جھوٹی شان و شوکت کی خاطر شادیوں میں بےدریغ رقم خرچ کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے غریب اور متوسط گھرانوں کی لڑکیوں کی شادی نہیں ہورہی ہے،ان کے والدین کی راتوں کی نیند اور دن کا چین و سکون حرام ہو گیا ہے۔مہنگے لباس،قیمتی سامان،جہیز،اعلی شادی خانے کا نظم،لوازمات سے بھر پور طعام کا مطالبہ بچیوں کے گناہ میں ملوث ہونے کا ذریعہ بن رہا ہے۔ ہم ان جوان بچیوں کے تئیں ذرہ برابر بھی فکر مند نہیں ہو رہے ہیں  جو اپنے والدین کی غربت اور مہنگی شادیوں کی وجہ سے باطل مذہبوں کے لڑکوں سے رشتہ ہموار کر رہی ہیں اور ان سے شادی کر کے ہندو مذہب کے مطابق اپنی زندگی گزار رہی ہیں۔

کثرت سے  سوشل میڈیا کا استعمال: آج موبائل ہماری زندگی کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے،ہرشخص کے پاس قیمتی اسمارٹ فون موجود ہے۔آج سوشل میڈیا نے صارفین کو اپنا ایسا دیوانہ بنا لیا ہے کہ اب اس سے ان کا نجات پانا بے حد مشکل ہو گیا ہے۔ کیا جوان کیا ضعیف؟کیا مرد کیا عورت؟ کیا لڑکا کیا لڑکی؟ہر شخص سوشل میڈیا کا زلف اسیر ہو چکا ہے۔مسلم لڑکیاں کثرت کے ساتھ فیس بک،ٹویٹر،انسٹاگرام،ٹک ٹاک، واٹس ایپ استعمال کر رہی ہیں اور اپنی ویڈیو بناکر شیئر کر رہی ہیں اور لائک وغیرہ حاصل کر رہی ہیں،ذرا سوچیے جس باپ کی پوری زندگی بیٹی کو کپڑا پہنانے اور سنوارنے میں گزر گئی آج وہی بیٹی سوشل میڈیا میں اپنے جسم کی نمائش کر کے چند رقم اور لائک حاصل کر رہی ہیں اور اپنی عفت و پاک دامنی کو چاک کر رہی ہیں۔

   والدین کی بیٹیوں پر بے انتہا شفقت و محبت، ان کی تمام خواہشات کی تکمیل اور سوشل میڈیا کے کثرت استعمال نے لڑکیوں کو ارتداد کے سمندر میں غرقاب کرنے میں ایک اہم کلیدی رول ادا کیا ہے۔

                ہماری ذمہ داریاں:

    فتنہ ارتداد کے سدباب کے لیے ہمیں غور و فکر کرنی چاہیے کہ آخر اس دجالی فتنہ کو کیسے روکا جائے؟ کیسے اس فتنہ کی بیخ کنی کی جائے؟ کیسے اس فتنہ سے مسلم بچیوں کی حفاظت کی جائے؟جب ہم ان چیزوں پر غور و فکر کرتے ہیں تو چند باتیں سطح ذہن پر آتی ہیں جن سے لڑکیوں کو مرتد ہونے سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔

  (١) والدین کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی بہترین انداز اور اسلامی ماحول میں اصلاح و تربیت کریں،انھیں عمدہ طور پر تعلیم و نصیحت کریں،ہر قدم پر ان کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیں،ان کی ذہنی و نفسیاتی تربیت پر کامل توجہ دیں، اسلامی تعلیمات سے روشناس کرائیں،سیرت رسول،اسوۂ صحابہ، صالحین و صالحات کے سچے واقعات سنائیں،پڑھائیں اور احکام شریعت پر مکمل کار بند کریں۔ نیز اسلامی تعلیمات و تربیت سے مزین کرنے کے لیے علماے کرام سے قرآن عظیم اور دینی کتابوں کے درس کا بھی اہتمام کریں۔

    (٢) مخلوطی نظام تعلیم سے بچیوں کو حتی الامکان بچایا جائے۔ جو لڑکیاں اسکولوں اور کالجوں میں پڑھ رہی ہیں والدین کو چاہیے کہ ان کے ہر اٹھنے والے قدم اور عادات و اخلاق پر گہری نظر رکھیں اور کوشش کریں کہ سایہ کی طرح ہمہ وقت ان کے ساتھ رہیں۔ ٹیوشن کے نام پر اجنبی لڑکوں سے اختلاط کا موقع ہرگز نہ دیں اور کالج کی آمد و رفت کا انتظام خود کریں۔

(٣) موبائل ریچارج،زیراکس،کریم پاؤڈر،صابن،فیس واش کی خرید و فروخت  یا کسی اور کام کے لیے لڑکیوں کو ہرگز غیر مسلموں کی دکان پر  جانے کی اجازت نہ دی جائے،اسی طرح کالج کے اندر یا اس سے قریب غیر مسلموں کے کینٹین سے بچنے کی ہدایت کی جائے۔

(٤) لڑکیوں کو موبائل اور لیپ ٹاپ سے دور رکھا جائے، اگر کوئی لڑکی کسی تعلیمی ضرورت کے تحت انٹرنیٹ استعمال کر رہی ہے تو ان کی مکمل نگرانی کی جائے،ان کو ایسی نششت دی جائے جہاں سے ہر شخص کا گزر ہو اور اس  کی نظر اس پر پڑ سکے کیوں کہ بھٹکنے اور بہکنے کے اکثر دروازے انٹرنیٹ کے ذریعہ ہی کھلتے ہیں۔

 (٥) وقفے وقفے سے خواتین کے اجتماعات کیے جائیں، لڑکیوں کی بے راہ روی اور دینی بگاڑ کی اصلاح کی جائے،خصوصاً جوان لڑکیوں کو اجتماع میں لانے کی مکمل کوششیں کی جائے اور انھیں سیرت مصطفوی اور سیرت فاطمہ سے روشناس کرایا جائے۔ مزید برآں ایں کہ انھیں فتنۂ ارتداد کے سخت عذاب سے  باخبر کیا جائے اور یہ بھی بتا دیا جائےکہ انتہا پسند کٹر ہندتوا کے حامی لیڈران غیر مسلم لڑکوں کو باضابطہ تربیت دے رہے ہیں کہ وہ مسلم لڑکیوں کے پیچھے پاگل کتے کی طرح پڑ جائیں اور انھیں سبز خواب دکھا کر ان سے شادی کرکے ان کی زندگی کو اجیرن کر دیں اور ان کے عوض داد و تحسین،موٹی رقم،جاب اورفلیٹ وغیرہ بشکل انعام حاصل کریں۔

    یہاں پر یہ بھی بتاتا چلوں کہ جو لڑ کیاں اپنی قوم اور مذہب کو چھوڑ کر کافروں کے مذہب میں داخل ہو جاتی ہیں ان کی زند گیاں جہنم بنا دی جاتی ہیں،ان کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے بلکہ زد و کوب کر کے ان کی جان تک لے لی جاتی ہے۔اس طرح کے دل دہلا دینے والی کئی خبریں ہم اخبارات میں پڑھ چکے اور ویڈیوز میں دیکھ چکے ہیں۔

اگر کوئی لڑکی اس طرح کی ناپاک حرکت کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو انھیں ہوش کا ناخن لینا چاہیے اور اپنی جان کی حفاظت کرنی چاہیے۔ورنہ ان کا بھی وہی انجام ہوگا جو دوسری لڑکیوں کا ہوا ہے۔ اگر ماری نہیں جائے گی تو بے یارو مدگار چھوڑ دی جائے گی اس کے بعد نہ وہ گھر کی رہے گی نہ کہیں اور کی بلکہ ذلت بھری زندگی گزارنے پر مجبور ہوجائے گی۔ 

 (٦) ذمہ داران قوم و ملت کو اس فتنہ کے اسباب و عوامل پر غور و خوض کرنا چاہیے جس سے اس فتنہ کی جڑوں تک آسانی سے پہنچا جا سکے۔

 (٧)  فتنۂ ارتداد کے خلاف ملک گیر یا علاقائی سطح پر ایک کامیاب مہم چلانا چاہیے،جس سے مسلم سماج میں حتی الوسع بیداری لائی جاسکے۔

( ٨) جو مسلم بچیاں اس فتنہ کا شکار ہو چکی ہیں یا اس کی زد پہ ہیں،اس علاقہ کے علما،مشائخ اور با اثر شخصیات کو فوری ان کے گھروں پر جاکر ان کی بہتر اصلاح و تفہیم کرنا چاہیے اور انھیں یہ باور کرانا چاہیے کہ وہ جو کر رہی ہیں وہ جہاں سماج و معاشرہ کی حیثیت سے غلط ہے،وہیں اسلام و شریعت کے بھی منافی ہیں۔اس کی اس غلط حرکت کی وجہ سے اس کے افراد خاندان کی سماج و معاشرہ میں عام ذلت و رسوائی تو ہوگی ہی ساتھ ہی ساتھ اس کی آخرت بھی برباد ہو جائے گی۔

      (٩)ملک گیر یا ریاستی اور ضلعی سطح پر ایسی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جو ان تمام حالات پر گہری نظر رکھ سکیں اور ان کا تدراک و حل نکال سکیں۔

   (١٠)جو بچیاں شادی کی عمر کو پہنچ جائے تو فوری طور پر ان کی شادیوں کا انتظام کر لیا جائے ،یاد رہے کہ تاخیر کی صورت میں اس طرح کے فتنہ خیز حالات پیش آسکتے ہیں لہذا اس بات کا بخوبی خیال رکھیں۔

   (١١)سماج سے جبری جہیز کی لعنت اور شادیوں میں من مانی مطالبات کو یکسر طور پر ختم کریں،کیوں کہ بچیوں کا غیروں کے ساتھ شادیاں کرنے کا ایک سبب یہ بھی ہے۔اس طرح کرنے والوں کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں جو بعد والوں کے لیے درس عبرت بنیں۔(٦ نمبر سے لے کر ١١ نمبر تک"سوغات جمعہ" خطبہ نمبر٨٦ سے ماخوذ ہے)

    جس طرح بیسویں صدی کے نصف میں شہزادۂ اعلی حضرت حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ اور دیگر علما و مشائخ اہل سنت نے”شدھی تحریک“ کو اپنی دعوت و تبلیغ،حکمت و موعظمت اور قلم و قرطاس کے ذریعہ عوام و خواص کے سامنے طشت از بام کیا تھا اور اس کے استیصال و انسداد میں ناقابل فراموش کارنامہ انجام دیا تھا، آج علماے کرام و پیران عظام کو بھی چاہیے کہ اپنے اکابر و اسلاف کے طریقہ کار اور ان کے نقوش راہ پر چلتے ہوئے اس فتنۂ عظیم کے خاتمہ کے لیے جد و جہد کریں اور مسلم بہن بیٹیوں کو ان منصوبہ بند اور گھنونی سازشوں کا شکار ہونے سے بچائیں، کیوں کہ بہن بیٹیاں خاندان کی زینت،گھروں کی زونق  اور والدین کے آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتی ہیں انھیں غیروں کا لقمۂ ہوس نہ بننے دیں۔

 

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved