27 July, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia July 2023 Download:Click Here Views: 13293 Downloads: 875

(11)-خیر القرون میں خواتین کا علم و فضل

نور علم

ادارہ

---------------------------------------------------

تفسیر ابن کثیرمیں مذکور ہے کہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق اعظم نے ایک بار مسجد نبوی میں خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے اعلان کیا کہ بعض لوگوں نے نکاح میں مہر کے لیے بڑی بڑی رقمیں مقرر کرنا شروع کر دی ہیں جس سے مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ اس لیے وہ یہ پابندی عائد کر رہے ہیں کہ کوئی شخص نکاح میں چار سو درہم سے زیادہ مہر مقرر نہ کرے۔ حضرت خطبہ ارشاد فرما کر باہر تشریف لائے تو ایک قریشی خاتون نے انہیں روک لیا اور کہا کہ عورتوں کو خاوندوں کی طرف سے دی جانے والی رقوم کو قرآن کریم (سورۃ النساء آیت ۲۰) میں ’’قنطار‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے جس کا معنی ڈھیر ہے۔ اور جب قرآن کریم ہمیں ڈھیروں دلواتا ہے تو آپ کو اس پر پابندی لگانے کا اختیار کس نے دیا ہے؟ یہ سن کر حضرت عمر واپس منبر پر تشریف لے گئے اور دوبارہ اعلان کیا کہ میرے فیصلے پر ایک عورت نے اعتراض کیا ہے جو درست ہے اور وہ قرآن کریم کے مفہوم کو مجھ سے زیادہ بہتر سمجھی ہے اس لیے میں اپنا فیصلہ واپس لیتا ہوں۔

تابعین میں حضرت سعید بن الحسیب معروف بزرگ ہیں جنہیں ’’افقہ التابعین‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ بعض روایات کے مطابق حضرت حسن بصری جیسے بزرگ بھی مشکل مسائل میں ان سے رجوع کیا کرتے تھے۔ ان کے سوانح نگار لکھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بیٹی کا نکاح اپنے شاگردوں میں سے ایک ذہین شخص سے کر دیا۔ شادی کے بعد شب عروسی گزار کر صبح جب وہ صاحب گھر سے نکلنے لگے تو نئی نویلی دلہن نے پوچھا کہ کہاں جا رہے ہیں؟ جواب دیا کہ استاد محترم حضرت سعید بن الحسیب کی مجلس میں حصول علم کا سلسلہ جاری رکھنے کے لیے جا رہا ہوں۔ اس خاتون نے جواب دیا کہ اس کے لیے وہاں جانے کی ضرورت نہیں ہے، ابا جان کا سارا علم میرے پاس ہے اور وہ میں ہی آپ کو سنا دوں گی۔

امام مالک بن انس اہل سنت کے چار بڑے اماموں میں سے ہیں۔ امام اہل سنت اور امام مدینہ کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں اور اتباع تابعین میں شمار ہوتے ہیں۔ قاضی عیاض نے ’’ترتیب المدارک‘‘ میں لکھا ہے کہ حضرت امام مالک جب حدیث پڑھانے بیٹھتے تو ان کی بیٹی بھی دروازے کے پیچھے بیٹھتی تھی۔ امام مالک کے سامنے شاگردوں کا ایک بڑا ہجوم ہوتا تھا، ان میں سے کوئی صاحب احادیث سناتے تو حضرت امام مالکؒ سن کر تصدیق فرما دیتے یا ضرورت ہوتی تو اصلاح کر دیتے اور معنیٰ و مفہوم بیان فرما دیتے۔ ان کی دختر نیک اختر دروازے کے پیچھے بیٹھ کر یہ سب سنتی تھیں اور اگر حدیث پڑھنے والا کہیں غلطی کرتا تو وہ دروازہ کھٹکھٹا دیتیں جس پر امام مالک پڑھنے والے کو ٹوک دیتے کہ تم نے کہیں غلطی کی ہے۔ چنانچہ اسے دوبارہ چیک کیا جاتا تو کہیں نہ کہیں غلطی ضرور نکل آتی۔ قاضی عیاض لکھتے ہیں کہ بیٹی کا حال یہ تھا جبکہ امام مالکؒ کا بیٹا جس کا نام محمد تھا ادھر ادھر گھومتا پھرتا رہتا اور لاپروائی کے ساتھ سامنے سے گزر جاتا۔ اس پر امام مالک نے کئی بار شاگردوں سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ خدا کی شان دیکھو، وہ میری بیٹی ہے اور یہ میرا بیٹا ہے۔ ایک موقع پر فرمایا کہ اس بیٹے کو دیکھ کر بات سمجھ میں آتی ہے کہ علم وراثت میں منتقل نہیں ہوتا۔

امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اہل سنت کے بڑے اماموں میں سے ہیں اور ان کے پیروکاروں کی ایک بڑی تعداد دنیا کے مختلف حصوں میں آباد ہے۔ امام تاج الدین السبکی نے ’’طبقات الشافعیۃ الکبریٰ‘‘ میں حضرت امام شافعی کی والدہ محترمہ کا واقعہ نقل کیا ہے کہ انہیں کسی مقدمہ میں گواہ کے طور پر قاضی کی عدالت میں پیش ہونا پڑا۔ اصول کے مطابق ان کے ساتھ ایک اور خاتون بھی گواہ تھیں کیونکہ قرآن کریم نے بعض معاملات میں دو عورتوں کی گواہی کو ایک مرد کے برابر قرار دیا ہے۔ قاضی نے دونوں کی گواہی سنی اور جرح کے لیے دونوں کو الگ الگ کرنا چاہا تاکہ وہ گواہی میں ایک دوسرے کی معاونت نہ کر سکیں۔ امام شافعی کی والدہ محترمہ نے اس موقع پر قاضی کو ٹوک دیا کہ وہ دو خاتون گواہوں کو ایک ہی معاملہ میں گواہی دیتے ہوئے الگ الگ نہیں کر سکتے۔ کیونکہ قرآن کریم (سورۃ البقرۃ آیت ۲۸۲) میں دو عورتوں کی گواہی کا ذکر کرتے ہوئے اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ اگر ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا سکے۔ اس لیے دونوں کو الگ الگ کر کے گواہی لینا قرآن کریم کی منشا کے خلاف ہے۔ چنانچہ قاضی کو ان کا موقف تسلیم کرنا پڑا۔(ماخوذ از انٹر نیٹ)

 

نور علم

زندگی میں رشتوں اور محبتوں کی اہمیت

خالدہ فوڈکر

---------------------------------------------------

انسانی زندگی میں رشتوں کی خوبصورتی کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ قرابت داروں سے میل جول قائم کیا جائے۔ بد گمانی یا انا کی وجہ سے ٹوٹے ہوئے رشتوں کو باہمی افہام و تفہیم سے جوڑنے کی کوشش کی جائے۔ چھوٹےچھوٹے تنازعات اور ناراضگی بر وقت دور کر لی جائے تو کئی قیمتی تعلق ٹوٹنے سے بچ جائیں

رشتہ داروں کی خوشی اور غم میں پورے خلوص سے شرکت خاندان کے افراد کو دائمی انس و محبت کی ڈور میں باندھے رکھتی ہے۔

فطری طور پر انسان ایک سماجی جاندار ہے۔ تنہا رہنا کبھی بھی انسان کی سرشت نہیں رہی۔ گروہ میں رہنا انسانوں کی فطرت بھی ہے اور سماجی ضرورت بھی ہے۔ زندگی ہر انسان کو کسی نہ کسی مرحلے پر کسی دوسرے کا محتاج بنائے رکھتی ہے کہ ہماری متفرق ضرورتوں کی تکمیل ایک دوسرے کے وسیلے اور تعاون پر منحصر ہے۔ احباب اور رشتہ داروں کا ساتھ زندگی کے مشکل مراحل میں بڑی غنیمت ہے۔ مل جل کر رہنے میں تحفظ اور اپنائیت کا جو احساس ملتا ہے وہ سماج سے کٹ کر تنہا رہنے میں حاصل نہیں ہوتا۔ عزیزوں اور قرابت داروں سے جڑے رہنے والے طرز حیات کی بہترین مثالیں پرانے زمانوں کے مشترک رہائش والےخاندانوں میں پائی جاتی تھیں جہاں سارے قریبی رشتے ایک چھت کے نیچے رہتے تھے اور ایک دوسرے کے شریک حال ہوا کرتے تھے، آپسی محبت، ہمدردی، تعاون اور غمگساری جیسے سارے اوصاف اور سہولتیں اس طرز زندگی کا طرہ امتیاز ہوا کرتے تھے۔

 وقت بدلتا گیا، بدلتی ضروریات و رجحانات اور شہروں کی مصروف و مشینی زندگی نے اب بڑے خاندانوں کو چھوٹی چھوٹی اکائی میں بانٹ دیا ہے۔ تعلیم و روزگار کی خاطر شہروں کی جانب ہجرت کرنے پر مجبور افراد کے لیے پرانے زمانے والی مشترک رہائشیں اور بڑے کنبوں کا نظم اب ممکن نہیں رہا۔ اس سماجی تغیر کا کافی منفی اثر ہماری روایات اور اخلاقیات پر پڑا ہے۔ ہمارے معاشرتی رویوں اور زندگی کے اسلوب میں ہونے والی تبدیلیوں نے ہمارے متحد خاندانی نظام کا شیرازہ بکھیر دیا ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف ہم اپنے قریبی رشتوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں بلکہ آپسی تعلقات، ایک دوسرے کی خبر گیری، مدد اور تعاون کے اوصاف بھی ہماری زندگیوں سے دن بدن معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ تعلقات اور رشتے داری نبھانے کا جذبہ اور وقت دونوں ہی باقی نہیں رہے، ہر تعلق اب زبانی اور تکلف تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔

 گو کہ مواصلات کے جدید ترین ذرائع، موبائل اور سوشل میڈیا کے ان گنت ایپس نے فرد کو فرد سے غائبانہ یا آج کل کی زبان میں آن لائن سے جوڑ رکھا ہے مگر رو برو ملاقات والا لطف اور احساس و اخلاص غائب ہے۔ مصروفیات کے باعث کئی دفعہ ضرورت کے وقت بھی ہم اپنے دوستوں، عزیزوں کو ذاتی طور پر میسر نہیں ہو پاتے۔ رشتہ داری نبھانے کا کام موبائل کے سر ڈال دیا گیا ہے۔ اپنی آسانی کی خاطر مبارکبادی، تعزیت اور خبر گیری کےآن لائن پیغامات اور جوابی پیغام فارورڈ کرکے ذمہ داری سے فارغ ہو جانے کا مزاج عام ہوتا جا رہا ہے، اس تن آسانی نے ہمارے آپسی تعلق اور رشتہ داریوں کو برائے نام کر دیا ہے گویا؂

مختلف انداز میں اب ہے مزاج دوستی

رابطہ سب سے ہے لیکن واسطہ کوئی نہیں

 والی صورتحال ہے۔ ٹوٹتے بکھرتے رشتوں کی ایک افسوس ناک حقیقت یہ بھی ہے اب صرف ہمارے خاندان ہی چھوٹی چھوٹی اکائیوں میں نہیں بٹ رہے ہیں بلکہ دلوں اور گھروں کی وسعتیں بھی سکڑتی جا رہی ہیں۔ دیگر قریبی ترین رشتے تو درکنار، اکثر گھروں میں اب بزرگوں اور ضعیف والدین کی بھی گنجائش نہیں ہوتی، ہماری نیوکلیئر فیملی کی تعریف میں اب بوڑھے والدین بھی اضافی شمار ہونے لگے ہیں۔ ہماری تنک مزاجی کو بزرگوں کی باتیں، نصیحتیں اور رویے برداشت نہیں ہوتے۔ اولڈ ایج ہومز کے عام ہوتے رجحان اس تکلیف دہ صورتحال کے غماز ہیں۔

 یہ حقیقت مسلم ہے کہ خاندانی نظام اپنی آبائی شناخت اور رشتوں سے جڑے رہنے کا واحد ذریعہ ہے جس کی افادیت اور اہمیت سے کسی کو انکار نہیں۔ انسانی زندگی میں رشتوں کی خوبصورتی کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ قرابت داروں سے میل جول قائم کیا جائے۔

 بد گمانی یا انا کی وجہ سے ٹوٹے ہوئے رشتوں کو باہمی افہام و تفہیم سے جوڑنے کی کوشش کی جائے۔ چھوٹےچھوٹے تنازعات اور ناراضگی جو اکثر اوقات برسوں تک چلتی رہتی ہیں اگر بر وقت دور کی جاسکیں تو کئی قیمتی تعلق ٹوٹنے سے بچائے جا سکتے ہیں۔ امیری غریبی اور ادنیٰ و اعلیٰ اسٹیٹس کی تفریق بھی رشتہ داریوں کے کئی قیمتی تعلق برباد کر دیتی ہے، برتری اور تفاخر کے زعم سے بالاتر ہو کر  رشتہ داروں کی خوشی اور غم میں پورے خلوص سے شرکت خاندان کے افراد کو دائمی انس و محبت کی ڈور میں باندھے رکھتی ہے۔

 شائستہ و شیریں زبان ہر تعلق کی استواری کی بنیاد ہے لہٰذا ہم کوشش کریں کہ ہماری بد زبانی یا رویوں کی سختی و خرابی کسی رشتے کے ٹوٹنے کی وجہ نہ بن سکے۔

 رشتہ داری اور تعلقات کو خلوص اور ذمہ داری سے نبھانے کا وصف و ہنر ہمیں اپنی اولاد تک منتقل کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہمارے مشرقی خاندانی نظام کی خوبصورتی، رشتوں اور تعلقات کی قدر و قیمت مستقبل کی نسلوں تک پہنچے اور قائم و دائم بھی رہے۔ محبتوں اور خیر خواہی کا خوبصورت سفر جو ازل سے شروع ہوا تھا ابد تک جاری رہے۔

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved