27 July, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia July 2023 Download:Click Here Views: 13401 Downloads: 877

(15)-آنکھ-شاہکارِ قدرت و جہانِ حیرت

نقد و نظر

مفتی محمد اعظم مصباحی مبارک پوری

نام کتاب :     آنکھ شاہ کار قدرت و جہان حیرت

 مصنف :      افضل العلما مفتی محمد علی قاضی مصباحی جمالی،

نوری ایم اے

صفحات :        ۱۳۵

ناشر :            تاج پرنٹرس ، بنگلور

خداے وہاب نے انسان پر اپنی عنایات و نوازشات کا دریا بہایا ہے ، کائنات کی ہر شے اس کے لیے مسخرفرمائی ، لقد کرمنابنی آدم کا تاج زریں اس کے سر پر سجایا، اس کی بہترین تخلیق فرمائی ۔ اپنی ہر قسم کی نعمتوں سے اسے بہرہ ور فرمایا ، خود اس کے وجود میں اپنی بے شمار نعمتیں ودیعت فرمائیں، ہر نعمت اپنی جگہ بیش قیمت ، انمول اور نایاب ہے ان ہی نعمتوں میں سے ایک نعمت آنکھ بھی ہے۔ جس سے بندہ مظاہر ِقدرت کا نظارہ کرتا ہے ، کائنات کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہوتا ہے ، اچھے برے کی پہچان کرتا ہے ۔ یہ اتنی بڑی نعمت ہے کہ پانچ سو سال کی عبادات بھی اس کا عوض نہیں بن سکتیں ۔ حدیث پاک میں ہے ۔ حضرت جابر بن عبد اللہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور ارشاد فرمایا کہ ابھی میرے پاس سے جبرئیل یہ بیان کرتے ہوئے نکلے کہ اے  محمد !قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے ایک بندے نےسمندر کے اندر اورپہاڑ کی چوٹی پر پانچ سو سال تک عبادت کی جس کی چوڑائی اور لمبائی تیس ضرب تیس گز تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے ایک انگلی کی چوڑائی کا میٹھا چشمہ جاری فرمایا جس سے میٹھا پانی نکلتا اوروہ پہاڑ کی تہہ میں چلا جاتا ، ایک انار کا درخت اگایا جس میں ہر رات اس کے لیے ایک انا را گتا ہے، دن بھر وہ رب کی عبادت کرتا ہے اور جب شام ہوتی ہے تو نیچے اتر کر وضو کرتا ہے اور انار کا پھل توڑ کر کھالیتا ہے اور پھر نماز کے لیے کھڑا ہوتا اپنی وفات کے وقت اس نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اے اللہ تعالیٰ مجھے سجدے کی حالت میں موت عطا فرما اورمرنے کے بعد زمین میں دوسری چیزوں سے میری حفاظت فرما کہ وہ میرے جسم کو نقصان نہ پہنچائیں یہاں تک کہ  اے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن  مجھے سجدے کی حالت میں اٹھا۔ راوی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ ایسا ہی معاملہ فرمایا، پھر قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں اسے کھڑا کیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے میرے فرشتو! میرے اس بندے کو میری رحمت سے جنت میں داخل کر دو، بندہ کہے گا میرے عمل کے عوض مجھے جنت میں داخل فرما  پھر اللہ فرمائے گا اے میرے فرشتو میری رحمت کے عوض اس بندے کو جنت میں داخل کر پھر بندہ کہے گا بلکہ میرے عمل کی وجہ سے۔ تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرمائےگا میرے اس بندے پر جو میں نے انعام فرمایا ہے اسے اور اس کی عبادات کو وزن کرو پھر آنکھ کی نعمت پانچ سو سال کی عبادت کے برابر ہو جائے گی اور جسم کی باقی نعتیں اس پر مزید۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرے اس بندے کو میرے عدل کی بنیا دپر جہنم میں داخل کر دو۔ فرشتے اسے جہنم کی طرف لے چلیں گے تو وہ پکارے گا اللہ اپنے فضل سے مجھے جنت میں داخل فرما۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرے اس بندے کو میری بارگاہ میں کھڑا کرو ، اس کے بعد اللہ اس سے پوچھے گا ؛آے میرے بندے تجھے کس نے پیدا کیا حالانکہ تو کچھ نہیں تھا، پھر پوچھے گا کہ پانچ سو سال تک عبادت کی قوت تجھے کس نے عطا کی؟ بھنور کے بیچ میں پہاڑ پر تجھے کس نے بسایا ؟ تیرے لیے کھاری پانی سے میٹھا پانی  کس نے نکالا، ہررات انارکے  پھل  کاکس نے انتظام کیا ؟حالاں کہ انار سال میں ایک بار اپنے موسم میں اگتا ہے۔ تو نے دعا کی تھی کہ مجھے سجدے کی حالت میں موت آئے تو تجھے یہ سب نعمتیں عطاکی گئیں۔ بندہ عرض کرے گا تو نے یا رب !پھر اللہ فرمائے گا اے میرے بندے یہ میری رحمت ہے ،میری رحمت ہے میں تجھے اپنی رحمت سے جنت میں داخل کروں گا تو کتنا خوش نصیب بندہ ہے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائے گا۔ (الترغیب والترہیب )

 زیر تبصرہ کتاب” آنکھ کا شاہکار قدرت و جہان حیرت “ افضل العلما مفتی محمد علی قاضی مصباحی کی تصنیف ہے۔آپ کا تعلق ہبلی کرناٹک سے ہے ، جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے ایک فرزند ہیں ۔ آپ کی شناخت کے کئی حوالے ہیں ،مثلاً آپ ایک داعی، مبلغ ، انشاپرداز صاحب خامہ وقرطاس اور قوم ملت کے خادم ہیں ۔ کئی کتابیں آپ کے نوک قلم سے منصۂ شہود پر آچکی ہیں جن میں ”عددتین کی حیرت انگیز دنیا ، عدد چارکی حیرت انگیز دنیا ،  میرے چاند کہاں گئے ،مضامین قرآن، مساجد میں تکرار عید کے مسائل“ وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ آپ کے مضامین ماہنامہ اشرفیہ مبارک پور، ماہنامہ کنز الایمان ، سہارا ، المیزان بھیونڈی، ماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی شریف وغیرہ جرائد و رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔

مذکورہ بالا کتاب میں مصنف نے آنکھ کے حوالے سے دل چسپ اور معلوماتی باتیں بیان کی ہیں ، آنکھ اور نظر کی شرعی و سائنسی حیثیت کو بھی اجاگر کیا ہے، آنکھ پر مشتمل بزرگوں کے واقعات ، بری نظر ڈالنے والوں کے مفسدات ، اس کے متعلق عقل مندوں کے اقوال و نظریات ، شعر و سخن میں آنکھوں کے حسن و جمال ، قرآن واحادیث میں نظر کی اہمیت و افادیت ، نظر سے متعلق شرعی احکام ، نظر کو کمزور کر دینے والے امور ، نگاہوں کو تیزکر دینے والے اعمال و وظائف اور دعا اور آنکھوں کے عطیہ سے متعلق علماے کرام کا نقطۂ نظر وغیرہ عناوین کے تحت خامہ فرسائی کی ہے ۔

یقیناً آنکھ اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے اور اللہ کی جانب سے بندوں کے لیے پیش بہا تحفہ ہے، انسانی اعضا کے درمیان آنکھ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے ، اس کے بغیر دنیا تاریک ہے، اگر کوئی انسان بینائی سے محروم ہو جائے تو اس کے لیے زندگی کی ساری بہاریں ماند پڑ جاتی ہیں۔ سچ پوچھیے تو سارا کھیل آنکھوں کا ہے، آنکھیں بڑی اہمیت کی حامل ہیں، مصنف کتاب آنکھ پر تبصرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :

” آنکھ قدرت کا ایک حیرت انگیز تحفہ ہے۔ غور کیجیے کہ ہماری آنکھیں جب دیکھتی ہیں تو سمندر سے موتی نکال لیتی ہیں آنکھیں جب مسکراتی ہیں تو کائنات کی تمام معصومیت اپنے اندر جذب کر لیتی ہیں، آنکھیں جب روتی ہیں تو عرش الٰہی کو ہلا کر رکھ  دیتی ہیں ، آنکھیں جب چمکتی ہیں تو زمانے بھر کی حیا اپنے اندر سمو لیتی ہیں ، آنکھیں جب کھلتی ہیں تو کائنات کے راز کے پردے کھول دیتی ہیں اور آنکھیں جب چاہتی ہیں تو دنیا بھر کو روشنی عطا کر دیتی ہیں۔

آنکھ دروازۂ دل ، دل ہے چراغ محفل

دل سے روشن ہے جہاں ورنہ جہاں ہے بے آب

چشم حق بیں ہو تو ہے نافع دین و دنیا

چشم بدبیں ہو تو دارین کا خسران و عذاب

( ص:۱۰، ۱۱)

کہنے کو تو یہ آنکھیں چہرے کی طاق نما دو ہڈیوں کے درمیان انڈے کی شکل میں گوشت کے دو ٹکڑے ہیں اور ان کے وسط میں رائی کے دانہ برابر دو پتلیاں ہیں لیکن ان سے وہ کام لیے جاتے ہیں جو مصنوعی آلہ سے نہیں لیے جا سکتے اور ان کی بناوٹ، ساخت ، سجاوٹ میں احسن الخالقین کی حسن تخلیق  اور احسن تقویم کا بہترین نظارہ ہے ۔ اتنے چھوٹے گوشت کے ٹکڑے میں کیا کیا کاریگری ہے، کون کون سی چیزیں اور ان کے عمل کیا کیا ہیں؟ آئیے مصنف کی زبانی سنتے ہیں:

”آنکھ کا موازنہ اگر دنیا کے سب سے بڑے ٹیلی وژن سے کیا جائے تو یہ آنکھ کی insult ہوگی۔ اور اگر دنیا کے سب سے چھوٹے کیمرے سے بھی ملایا جائے تو بھی اس کا مقابلہ نہیں ہو سکتا ۔ آئیے آنکھ کے اندر چلیں اور دیکھیں کہ اندر کا حال کیا ہے؟ سب سے پہلے آنکھ کا پہلا حصہ cornea ہمیں ملتا ہے جس کا کام ہے کہ جو کچھ ہم دیکھتے ہیں انہیں شعاعوں کی شکل دے کر آنکھ کے اندر لے ۔ پھر ان شعاؤں کو موڑ کر وہ شبیہ بنادیتا ہے اور دیکھی ہوئی چیز کاimage آنکھ کے اندر بن جاتا ہے ۔ آگے بڑھیے تو ہمیں ایک بڑا gateway ملے گا جس کا کام ہوتا ہے کہ روشنی کی ضرورت کے مطابق گیٹ کو بند کر دے کھول دے، تھوڑا کھولے یا زیادہ کھولے یہ گیٹ اٹو میٹک کام کرتا ہے۔ زیادہ روشنی میں اگر ہم چلے جاتے ہیں تو اس روشنی کو کم کرنے کے لیے ہمارا گیٹ وے یعنی pupil خود بخود کام کرنے لگ جاتا ہے۔ زیادہ روشنی میں بالکل چھوٹا ہو جاتا ہے، تا کہ زیادہ روشنی سے اندر کا ماحول خراب نہ ہو جائے ،بالکل اسی طرح ہمارے pupil اندھیری راتوں میں پوری طرح کھل جاتے ہیں تا کہ کم روشنی میں ہم بہت کچھ دیکھ سکیں۔ ہم آگے بڑھیں تو ہمیں ایک lens دکھائی دے گا جو شکل سے کسی وٹامین کی گولی کے سائز کا ہے ۔ ہمارا یہ lens ایک envelope سے بنا ہے جس میں رطوبت بھری ہوئی ہے، اگر ہم دور کی چیز دیکھتے ہیں تو یہ لینس اٹو میٹک لمبا ہو جاتا ہے اور اگر ہم نزد یک کی چیز دیکھتے ہیں تویہ سکڑ کر موٹا بن جاتا ہے ۔ واہ رے قدرت !ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا کہ ہم نے کتنی بار دور کی چیز دیکھی اور کتنی بار نزدیک کی چیز دیکھی مگر یہ سب کچھ آٹو میٹک چلتا رہتا ہے۔ لینس کے اطراف ذرا غور سے دیکھیں کہ اس لینس کے اطراف بہت نازک اور بے حد مضبوط muscles کا حلقہ بنا ہے آپ انھیں چھو کر دیکھیں یہ بے حد مضبوط اور لگا تار کام کرنے والے مسلس بنائے گئے ہیں ۔ جن کا کام ہر سکنڈ جاری رہتا ہے انہی مسلس کا کام ہے کہ یہ لینس کو سکوڑ یں اور لمبا کر یں ایسا سمجھیے کہ یہ لینس کوکھینچ کر لمبا کرتے ہیں جب ہم دور کی چیز دیکھتے ہیں ۔ اور جب ہم نزدیک کی چیز دیکھتے ہیں تو یہ مسلس لینس کو ٹھونس کر دبا کر گول کر دیتے ہیں ۔ آپ سوچیے کہ آپ نے دن بھر کتنی بار دور دیکھا اور کتنی بارنز د یک دیکھا”۔ (ص:۹، ۱۰، ۱۱)

آنکھیں اور نظریں بھی کئی قسم کی ہوتی ہیں ان کی حیثیت بھی الگ الگ ہوتی ہے ۔ مومن کی نظر کا کچھ اور ہی مقام ہے کہ اس کی نظر میں حیا اوربصیرت ہوا کرتی ہے اور اللہ کے نیک بندوں مثلاً انبیاے کرام و اولیاے عظام کی نظریں  لوح محفوظ پر ہوتی ہیں، عرش الٰہی کا نظارہ کرتی ہیں، اللہ تعالی کے جلووں کا مشاہدہ کرتی ہیں اور جس پر اٹھ جاتی ہیں اس کی تقدیریں بدلتی ہیں ،اسے بلندیوں کے ثریا تک پہنچا دیتی ہیں اور وہ ان کی نگاہ کی برکت سے صاحب نظر ہو جاتا ہے۔ اور ہمارے آقا سید المرسلین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی نظر کا کیا کہنا وہ جس طرف اٹھ جاتی ہے دم میں دم آجاتا ہے۔ ان کھلی آنکھوں کا معجزہ یہ ہے کہ ان کے لیے کوئی شے حاجز نہیں،آگے،پیچھے، دائیں بائیں، اجالے اندھیرے میں یکساں دیکھا کرتی ہیں ۔ ان کے لیے مرئی غیر مرئی سب برابر ہیں۔  مصنف کتاب نے اس کتاب میں خاص طور پر نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی نگاہ کیمیا اثر پر کئی صفحات میں گفتگو کی ہے جو یقیناً  ہر عاشقِ رسول کے لیے قابلِ مطالعہ ہے۔ان آنکھوں کا کمال یہ ہے کہ ؂

سر عرش پر ہے تری گزر دل فرش پر ہے تری نظر​

ملکوت و ملک میں کوئی شے نہیں وہ جو تجھ پہ عیاں نہیں

 مصنف لکھتے ہیں:

”صحیح معنوں میں اگر کسی کو آنکھ ملی ہے تو وہ سید المرسلین خاتم النبیین حضور سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی ہے۔ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم ک ارشادِ عالی ہے: اَوَّلُ عَیۡنٍ تَنۡظُرُ اِلَی اللہِ عَیۡنِیۡ. حضور نے   فرمایا سب سے پہلی آنکھ جو اللہ کو دیکھے گی وہ میری آنکھ ہوگی۔

بخاری شریف کی ایک روایت ہے:وَاللهِ مَا یخفی عَلَی رُكُوعُكُمْ وَلَا خُشُوعُكُمْ  خشوع دل میں خوف الٰہی اور عاجزی کی ایک کیفیت کا نام ہے جو آنکھ سے دیکھنے کی چیز ہی نہیں ہے مگر نگاہ نبوت کا یہ معجزہ دیکھو کہ ایسی چیز کو بھی آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ امام اہلسنت فرماتے ہیں؂

شش جہت سمت مقابل شب و روز ایک ہی حال

دھوم وَالنَّجْم میں ہے آپ کی بینائی کی

فرش تا عرش سب آئینہ ضمائر حاضر

بس قسم کھائیے اُمّی تِری دانائی کی

پھر وہ آنکھیں بڑی شرمیلی بھی؂

نیچی آنکھوں کی شرم و حیا پر درود

اونچی بینی کی رفعت پہ لاکھوں سلام

 ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم جن کی نظر فلک رسا و ماوری اور جن کی چشم حق بیں کی شان کا کیا کہنا کہ قرآن کا ارشاد ہوتا ہے مَازَاغَ الْبَصَرُ وَمَاطَغَى لَقَدْ رَاٰى مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الۡکُبۡرٰی (النجم ۵۳ آیت ۱۷ - ۱۸) ترجمہ ! آنکھ نہ کسی طرف پھری نہ حد سے بڑھی بے شک اپنے رب کی بہت بڑی نشانیاں دیکھیں؂

فرشتے بھی دیکھیں تو کھل جائیں آنکھیں

بشر کو وہ جلوے دکھائے گئے ہیں

(ص:۷۷، ۷۸)

کا فر اور بعض گنہ گاروں کی نظریں بڑی بری ہوتی ہیں ۔ ان کی نگاہ اور نظر جب کسی ہرے بھرے درخت کو لگ جاتی ہیں تو وہ سوکھ جاتا ہے ، انسانوں پر پڑتی ہیں تو وہ بیمار ہو جایا کرتا ہے ،ایسی نظروں سے حفاظت کے لیے صاحب کتاب نے اس کتاب میں کئی دعائیں نقل کی ہیں ان میں سے ایک دعاکے ذکر پر اکتفا کرتے ہیں اور وہ یہ ہے:

أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّةِ مِنْ شَرِّ كلِّ هَامَّةٍ وَعَيْنٍ لَامَّةٍ.

آنکھوں سے متعلق کئی ایک مسائل صاحب کتاب نے " اس کتاب  میں ذکر کیے ہیں لیکن” آنکھوں یا جسم کے دیگر اعضا کے عطیہ سے متعلق علماے کرام کا نقطۂ نظر“ عنوان کے تحت مصنف نے جو خامہ فرسائی کی ہے وہ محلِ نظر ہے آنکھ یا جسم کے دیگر اعضا کو کسی دوسرے شخص کو ہبہ کرنے کے حوالے سے جن مفتیوں کی رائیں ذکر کی ہیں، ان میں علماے اہل سنت کا کہیں تذکرہ نہیں۔ حالاں کہ علماے اہل سنت کے اس موضوع کے حوالے سے کئی فتاویٰ ہیں اور جامعہ اشرفیہ مبارک پور کی مجلس شرعی نے اس موضوع سے متعلق  سیمینار بھی منعقد کیا اور اس کے فیصلے بھی کتابی صورت میں دستیاب ہیں، مصنف کو اس کی طرف مراجعت کر کے علماے اہل سنت کا بھی نقطۂ نظر پیش کرنا چاہیے۔

من جملہ کتاب کے مندرجات اور معلومات قابل مطالعہ ہیں، کتاب کا ٹائٹل دیدہ زیب ہے ، پروف کی غلطیاں بھی براے نام ہیں البتہ مصنف نے حوالے کے التزام میں ثانوی مآخذ پر اعتبار کیا ہے  اور انھی کا حوالہ کتاب میں ذکر کیا ہے۔

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved