27 July, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia May2023 Download:Click Here Views: 19183 Downloads: 692

(14)-علامہ یٰسٓ اختر مصباحی کا وصال پر ملال تاثرات و تعزیات

جامعہ اشرفیہ میں رئیس التحریر علامہ یٰسٓ اختر مصباحی

  اور مفتی محمد اعظم  ٹانڈوی کے لیے محفل ایصال ثواب کا انعقاد

از: مفتی محمد اعظم مصباحی، استاذ  جامعہ اشرفیہ، مبارک پور

7مئ 2023 رات تقریباً دس بجے یہ اندوہناک خبر موصول ہوئی کہ حضرت علامہ یٰسین اختر مصباحی علیہ الرحمہ ،کا دہلی ایمس ہاسپٹل میں انتقال ہوگیا ہے۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡن

8 مئی 2023 بروز دو شنبہ فجر کی نماز کے بعد بحکمِ سربراہ اعلیٰ صاحب قبلہ عزیز المساجد جامعہ اشرفیہ مبارک پور،میں ایصال ثواب کی ایک محفل منعقد ہوئی،نماز کے بعد فوراً طلبہ اور اساتذہ جامعہ اشرفیہ نے قرآن خوانی کی، اس کے بعد نعت خوانی اور پھر اس کے بعد حضرت مفتی بدر عالم مصباحی صدر المدرسین جامعہ اشرفیہ مبارک پور،نے علامہ یٰسٓ اختر مصباحی کی حیات و خدمات پر مختصر مگر جامع خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

رئیس القلم علامہ یٰسین اختر مصباحی کی رحلت،اہل سنت کا عظیم خسارہ ہےآپ کی رحلت ایک زریں عہد کا خاتمہ اور علمی باب کا اختتام ہے۔

ساتھ ہی مفتی بدر عالم مصباحی صاحب نے،مفتی محمد اعظم علیہ الرحمہ،ٹانڈوی  کا ذکر خیربھی فرمایا اور ان کی حیات و خدمات  پر روشنی ڈالی۔اخیر میں قل شریف پڑھا گیا اور دونوں حضرات کے لیے ایصال ثواب اوردعاے مغفرت کی گئی۔اس مبارک محفل میں اپنے محسن کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے جامعہ اشرفیہ کے اساتذہ اور طلبہ شریک ہوئے۔

علامہ یٰسٓ اختر مصباحی کے وصال پر مفکر اسلام حضرت علامہ قمر الزماں اعظمی کا تعزیتی پیغام

از: محمد فروغ القادری، ورلڈ اسلامک لندن

یہ جان کر بے حدافسوس ہوا کے رئیس التحریر حضرت علامہ یٰسٓ اختر مصباحی رکن شوری الجامعۃ الاشرفیہ ، مبارک پور، اعظم گڑھ بانی رکن المجمع الاسلامی مبارک پور ، بانی دار القلم دہلی مورخه ۷ مئی ۲۰۲۳ء  شب دوشنبه 9 بج کر ۵۰ منٹ پر دہلی کے ایمس ہاسپٹل میں شدت علالت کے بعد وصال فرما گئے۔انا للہ وانا إلیہ رٰجعون.  

علمی دنیا پر ایک طویل عرصے سے ان کی علمی کاوشوں کے اثرات اور قلمی، تحریکی و تنظیمی سرگرمیوں کا فیضان جاری تھا ۔ وہ ایک عالم ربانی ، مایہ ناز مصنف، کہنہ مشق مدرس اور دینی و سیاسی مسائل پر دقت نظر رکھنے والے عظیم قائدانہ صلا حیتوں کے حامل تھے ۔ دینی درس گاہوں کے جلسے ہوں یا پھر یونیورسٹیز کے سمینارس ان دونوں مقامات پر ان کی یکساں پذیرائی تھی ۔ ہمارے ہاں اب ایسا کوئی شخص نہیں جسے ان کی جگہ کھڑا کیا جاسکے ۔ ان کی مختلف الجہات شخصیت بے پناہ صلاحیتوں سے مرصع اور فقید المثال تھی ۔ وہ ایسے وقت میں ہم سب سے اوجھل ہو گئے جس وقت ان کی بہت زیادہ ضرورت تھی ۔ انھوں نے جن حساس موضوعات پر قلم اٹھایا ہے اس کے لیے ارباب علم و دانش انھیں رہتی دنیا تک اپنے دلوں کا خراج پیش کرتے رہیں گے ۔ وہ اپنے فکروفن کی آئینہ بندیوں میں زندہ رہیں گے اور ان کی یادوں کا چراغ عکس در عکس تصورات کی شاہراہوں کو بہت دیر تک روشن و تابندہ رکھے گا؂

شمع کی طرح جئیں بزم گہِ عالم میں

خود جلیں دیدۂ اغیار کو بینا کر دیں

حضرت علامہ یٰسٓ اختر مصباحی کے وصال پر مفکر اسلام، خطیب اعظم، سیاح یورپ و امریکہ حضرت علامہ قمرالزماں اعظمی سیکرٹری جنرل ورلڈ اسلامک مشن انگلینڈ نے اپنے گہرے دکھ اور غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ :”ہماری جماعت کے انتہائی مدبر، بہترین مصنف ، اور اہلِ قلم کے امیر کارواں حضرت علامہ یٰسٓ اختر مصباحی کا وصال پوری علمی دنیا کے لیے ایک عظیم سانحہ اور ناقابل تلافی نقصان ہے ۔ گذشتہ دو سال اہل سنت و جماعت کے لیے نہایت ہی کرب ناک رہے ہیں ۔ بڑی عظیم شخصیتیں ہم سے روپوش ہو گئیں ۔ علامہ یٰسٓ اختر مصباحی رحمۃا للہ علیہ  صرف ذاتی طور پر قلم کار نہیں تھے بلکہ آپ نے قلم کاروں کی ایک روایت قائم کی ۔ شہنشاہِ قلم حضرت علامہ ارشد القادری کے بعد انھوں نے نوجو ان علمامیں لکھنے کا شعور پیدا کیا ، تنقید کا شعور پیدا کیا ۔ اور خود احتسابی یہ وہ عظیم جوہر ہے جو کسی قوم یا فرد میں پیدا ہو جائے  تو وہ عظیم تر ہوتا ہے ۔ اور ان کے اندر یہ صلاحیت موجود تھی ۔ وہ اچھے نقاد،، اچھے مدبر، بہترین مصنف اور عظیم رائٹر تھے  اور قوم وملت کا حقیقی درد ان کا سرمایۂ حیات تھا ۔ جب بھی ملت اسلامیہ پر کوئی بھی مصیبت آتی وہ علما کے ساتھ جمع ہو کر اس کا حل تلاش کرنے کی کو شش کرتے ۔ میٹنگ  کبھی ممبئی میں ہوتی کبھی دہلی میں اور علما ان کی آواز پر حاضر ہو جایا کرتے تھے  اور مسائل پر کھلے انداز سے گفتگو ہوتی تھی۔اب ان کے جیسا  کوئی نہیں ہے ۔ جن لوگوں نے ان سے لکھنے کا شعور حاصل کیا ، خدا کرے ان میں علامہ یٰسٓ اختر صاحب جیسے لوگ پیدا ہوں ۔ اور انھوں نے سب سے بڑا کارنا مہ جو انجام دیا ہے ،یہ ہے کہ غیر سنی دنیا میں، پڑھی لکھی دنیا میں ، جدید طبقے ہیں ، آزاد خیال طبقے میں، یونیورسٹی کے طلبا و مدرسین میں اعلیٰ حضرت کا تعارف کروایا ۔“

حضور مفکر اسلام علامہ اعظمی نے مزید کہا کہ:

” وہ الزامات جو بدعت طرازی کے حوالے سے اعلیٰ حضرت پر تھے یا اس طرح کے دوسرے الزامات اس کا جواب انھوں نے” امام احمد رضا اور ردبدعات و منکرات“ لکھ کر دیا ۔اس کتاب نے ہزاروں افراد کے دل و دماغ کو صاف کیا ۔ اور اس کتاب کو جس نے بھی پڑھا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کی بارگاہ میں خراج عقیدت پیش کرنے پر مجبور ہوا ۔ اس کے ساتھ ساتھ حالات پر ان کی نظر ہوتی تھی وه ما ہنامہ حجاز دہلی اور ماہنامہ کنز الایمان دہلی میں برسوں تک اداریے لکھتے رہے اور ان اداریوں کا مجموعہ ”نقوش فکر “کے نام سے ایک ضخیم جلد میں شائع ہو چکا ہے ۔ اور اس مجموعے سے لکھنے والے بہت کچھ استفادہ کر سکتے ہیں ۔ ہندوستان کی عظیم درس گاہ الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ یوپی میں ایک طویل عرصے تک تدریس کے فرائض انجام دیے ۔ ان کے بے شمار تلامذہ ملک و بیرون ملک دینی خدمات میں شب و روز مصروف عمل میں ۔ ہم  ان کی خدمات کو ہر گز فراموش نہیں کر سکتے ۔ اللہ تعالیٰ ہم میں ان کے اماثل پیدا فرمائے، ان کی مغفرت فرمائے ،انھیں اپنی جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے ، ان کے مقامات کو بلند فرمائے  اور ان کی خدمات کی بہترین جزا عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین ۔“

 ورلڈ اسلامک مشن انگلینڈ کے دیگر قائدین اور علما میں تلمیذ حافظ ملت حضرت علامہ قاری محمد اسماعیل مصباحی را چڈل ، علامه محمد ارشد مصباحی مانچسٹر، علامہ محمد میاں مالیگ مانچسٹر، علامہ غلام یزدانی مصباحی لندن ،علامہ محمد ارشاد احمد شیدا مبارک پوری، حضرت علامہ مفتی محمد شفیق الرحمٰن عزیزی مصباحی، ڈاکٹر وقار الزماں اعظمی ، بیرسٹر معین الزماں اعظمی اور علامہ راشد ضیا نعیمی نے بھی حضرت علامہ یٰسٓ اختر مصباحی کے وصال پر گہرے دکھ درد کا اظہار کیا ہے اور ان کے اہل خانہ کو تعزیت پیش کرتے ہوئے ان کے غم میں برابر کے شریک ہیں ۔ یہاں برطانیہ اور یورپ کی مساجد میں دعاے مغفرت کی گئی ۔ اللہ ان کے درجات کو بلند فرمائے ۔ اور غریق رحمت فرمائے ۔ آمین

مٹ نہیں سکتا کبھی مرد مسلمان کہ ہے

اس کی اذانوں سے فاش سر کلیم و خلیل

اسیر غم -محمد فروغ القادری

 ورلڈ اسلامک مشن انگلینڈ

 

آہ! رئیس التحریر علامہ یٰسٓ اختر مصباحی

از: محمد فروغ القادری، ورلڈ اسلامک لندن

خمیر بندۂ مومن سے ہے نمود اس کی

بلندترہے ستاروں سے اس کا کا شانہ

یہ جان کر بے حد افسوس اور قلبی صدمہ گزرا کہ رئیس التحریر حضرت علاه یٰسٓ اختر مصباحی  رکن شوریٰ الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور  ۷؍ مئی ۲۰۲۳ء کو شدت علالت کے بعد انتقال فرما گئے۔انا للہ و انا الیہ رٰجعون.

ان کے جسد خاکی کو ان کے آبائی وطن ادری مئو لایا گیا اور وہیں دوسرے دن ہزاروں افراد کے ہجوم میں سپرد خاک کیے گئے۔ علامہ یٰسٓ اختر مصباحی رحمۃ اللہ علیہ ایک عظیم عالم ربانی اور علم و فضل کے جواہرات آراستہ، نابغۂ روزگار ، جامع الصفات شخصیت کے حامل تھے ۔ کم و بیش نصف صدی تک ان کا فکری و عملی آبشار اہل سنت و جماعت کی کشت ویراں پر برستا رہا۔ ایک طویل عرصے تک ان کی قلمی کاوشوں کے ہمہ گیر اثرات ، ان کی اصابت راے ، ان کی صالح قیادت، ان کے علمی تبحر، اور ان کی دقت طرازیوں کا فیضان جاری رہا۔ ان کے اچانک وصال سےآج علم وفن کی کائنات ان تمام تر شوکتوں سے محروم ہو گئی ۔

”ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہوں جسے“

خاص کر رضویات اور مسلک امام احمد رضا کے حوالے سے ان کی تصنیفی خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔ انھوں نے جن موضوعات پر قلم اٹھایا ہے ہماری جماعت میں اس طرز پر لکھنے والے افراد ہند و پاک میں کم نظر آتےہیں۔” امام احمدرضا ارباب علم و دانش کی نظر میں “- ”امام احمد رضا اور ردبدعات و منکرات “- ”امام احمد رضا کی فقہی بصیرت“-” کنز الایمان اور دیگر تراجمِ قرآن کا تقابلی جائزہ“ – ”مجاہدین جنگ آزادی“ – ”معارف قرآن“ اور ”المدیح النبوی“ جیسی ان کی معیاری اور علمی تصنیفات ایوان علم و ادب میں گراں قدر اضافہ کہی جا سکتی ہیں۔ ان کی شخصیت علمی و ادبی جہات سے پوری جماعت اہل سنت کے لیے فقید المثال تھی ۔ نظم ونثر دونوں اصناف سخن پر انھیں کمال درجہ عبور حاصل تھا۔ ان کے علمی کارناموں اور تحریری شہ پاروں سے دانش حاضر کے بام و در بہت دیر تک روشن و تابناک رہیں گے ۔ خصوصی طور پر عربی ، فارسی اور اردو زبان و ادب پر انھیں بے پناہ دسترس حاصل تھی ، اور اس حوالے سے وہ اپنے معاصرین میں بے حد ممتاز تھے ۔ ان کی قلمی و تحریری خدمات اور ایوان علم و عمل کی تشکیل میں فلسفۂ حیات سے لے کر مقصود فن تک بہت سارے عوامل کار فرما ہیں۔ ہے ان کی تحریروں میں مضامین کا انتخاب ، افکار و خیالات کی سنجیدگی ، عصری مسائل پر گہری نظر ، فنی محاسن  کی ہمہ گیریت اور تنوع قاری کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتا ۔ رب قدیر نے انھیں متاعِ لوح و قلم کے ساتھ ساتھ خود شعوری کے احساسات سے بھی نوازا تھا – علامہ یٰسٓ اختر مصباحی  ” اپنے میں ڈوب کر سراغِ زندگی“ پا جانے والے ارباب فقر و غیور میں تھے ۔ ان کی سراپا زندگی حد درجہ متحرک ، علم آشنا ، فکر انگیز اور انقلابی تحریکات سے آباد تھی ، وہ دعوت و عزیمت کے حامل ایک پر عزم انسان تھے۔ انھیں جہاد زندگانی میں ”راز حیات“ کا ادراک تھا ۔ تضیع اوقات ان کے نزدیک کسی علی معصیت سے کم نہ تھی ۔ وہ ایک طویل عرصے تک ماہنامہ کنز الایمان دہلی کی ادارت سے وابستہ رہے، ان کی مذہبی صحافت اور عصری مسائل پر ان کی دقت نظر کا عظیم شاہکار ”نقوش فکر “. کتابی شکل میں منظر عام پر آچکا ہے ۔ جو دینی، ملی، قومی، سیاسی اور بین الاقوامی مسائل کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ بلا شبہ وہ قدیم نصاب تعلیم کے پروردہ تھے ، تاہم  انھوں نے اپنی انتہا درجہ محنتوں ، شب بیداریوں ، اور وسعت مطالعہ کے ذریعہ عملی درس گاہوں کے طلبا و مدرسی کے لیے اسلامی تعلیمات و اقدار کی مختلف جہتوں کو بھی اپنے دامنِ قرطاس و قلم میں محفوظ کر لیا ہے ۔

 علامہ یٰسٓ اختر مصباحی کے فن اور شخصیت کو مختلف حوالوں سے دیکھا جا سکتا ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ عہدِ حاضر کے قلم کار اور طلبا ان کی تحریر ی مہارت، ان کی تنقید نگاری اور فکری انعکاس کی حنا بندیوں کو درخور اعتنا ضرور سمجھیں گے ۔

 ان کی پوری  زندگی متاعِ لوح و قلم سے مربوط رہی، اور وہ مسلسل لکھتے رہے ۔ ان کی فنی نشوونما میں ان کی اپنی دقت طرازی کا بے حد دخل تھا ۔ ان کی ذہنی تحریک ، ان کا تہذیبی و ثقافتی رنگ، آہنگ ، اور ان کی روحانی تربیت وسیع و عریض جہتوں پر محیط تھا ۔ وہ درس گاہ حافظ ملت کے عظیم خوشہ چیں اور عربی و فارسی کے ممتاز فاضل تھے ۔ انھیں بلاشبہ یہ حق حاصل تھا کہ علم و فن کی دنیا میں سیرت نگاری ، بین الا قوامی مسائل پر تجزیه کاری، تنقیحِ مسائل ، نقد و نظر اور اسلامیات کا بڑا ماہر تسلیم کیا جائے۔

علامہ یٰسٓ  اختر مصباحی نور اللہ مرقدہ ہماری جماعت کی ان قد آور شخصیات میں تھے جنھیں ہند و بیرون کی دینی کانفرنسوں میں مدعو کیا جاتا تھا ۔ ۱۹۹۵ ء میں جمعية الدعوة الاسلامیۃ - ليبيا طرابلس  میں انعقاد پذیر کانفرنس میں وہ حضور مفکر اسلام خطیب اعظم علامہ قمرالزماں اعظمی مدظلہ العالی سیکرٹری جنرل ورلڈ اسلامک مشن انگلینڈ کی معیت میں ایک مندوب کی حیثیت سے شریک رہے ۔ شاہ بانو کیس میں عدالت عالیہ کے غلط فیصلے کے بعد اس کے ردِعمل کے نتیجے میں ۱۹۸۳ء تا ۱۹۸۶ء مسلم پرسنل لاء  کے حوالے سے پورے ملک میں ”تحفظ شریعت کا نفرنس“کی دھوم مچی تھی۔ان کا نفرنسوں میں مجاہد دوراں حضرت مولانا سید مظفر حسین کچھو چھوی ، قائد اہلِ سنت شہنشاہ قلم حضرت علامہ ارشد القادری، مفکر اسلام علامہ قمر الزماں اعظمی ۔ اور مولانا عبید اللہ خان اعظمی کے ولولہ انگیز خطابات کےساتھ ساتھ علامہ یٰسٓ اختر مصباحی کا قلمی جہاد اور سنجیدہ خطابت نے بھی حکومت ہند کو اپنے دیے گئے فیصلے پر نظر ثانی کے لے مجبور کر دیا تھا۔ پھر ایک دور ایسا بھی آیا کہ اسلامیان ہند کے ملی، مسلکی ، اور قومی مسائل کے حوالے سے انعقاد پذیر ہر بڑی کانفرنس میں ان کی شرکت ہو نے لگی ۔ ان کی آواز دلوں میں ایمان کی تڑپ، زبان کو درس حق گویائی  اور باطل قوتوں کے مد مقابل جذبۂ حریت کو جلا بخشتی تھی ۔ وہ احساس کمتری کو احساس برتری میں بدلنے کا ہنر جانتے تھے۔

انھوں نے ”حجاز جدید دہلی“اور ماہنامہ ”کنز الایمان دہلی“ میں لکھے گئے اپنے اداریوں سے مسلمانان ہند کو ذہنی ،فکری، علمی اور سیاسی طور پر بیدار کرنے کی ہر ممکن کوشش کی  اور زندگی کے آخری لمحے تک ارباب دعوت و عزیمت کو خواب غفلت سے جگانے کا فریضہ انجام کے دیتے رہے ۔ شہنشاہ قلم رئیس التحاریرحضرت علامہ ارشد القادری کے بعد ان کا جدید اسلوب نگارش نہایت ہی موثر اور فکرانگیز تھا  جو قاری کے ذہن و دماغ کو فہم دین کے لیے بنیادیں فراہم کرتا ہے۔

دریا متلاطم ہوں تری موج گہر سے

شرمندہ ہو فطرت ترے اعجاز ہنر سے

علامہ یٰسٓ اختر مصباحی ایک عالی دماغ ، باوقار ، پاکیزه فکرو عمل اور نہایت ہی وسیع المطالعہ شخصیت کے حامل تھے ۔ ان کے رشحات قلم کی سحر آفرینی  قاری کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتی ہے ۔ بیان کی شوخی اظہار کا بانکپن،معاملات عشق کی حنا بندی اور تخیلات کی بلند پروازیوں کے باوجود بھی زمینی قدروں سے ان کی فکری آگہی کا رشتہ نہیں ٹوٹتا تھا سے ان کے انداز نگارش سے ”جلوۂ یوسف گمگشتہ“ کی تپش محسوس ہوتی تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ کوثر و تسنیم کے دھلے ہوئے لب ولہجے میں آپ کی تصنیف لطیف ”المديح النبوی“ دیکھ کر عرباے عرب کا شائبہ گزرتا ہے ۔ کہیں سے بھی آپ کی عجمیت ظاہر نہیں ہوتی تھی ۔مسلک امام احمد رضا کی ترویج و اشاعت میں ان کی صحرا نوردی اور جنوں خیزی کو اہل سنت و جماعت کے قدر شناس ارباب حل و عقد ہرگز فراموش نہیں کر سکتے ۔ ان کی تمام تر تصنیفات کی خصوصیت یہ رہی ہےکہ وہ اپنے قاری کو قرآن وسنت اور ائمۂ مجتہدین کے اقوال کی روشنی میں افراد ، اشخاص، نظریات ، رجحانات اور روایات کو پرکھنے کا تنقیدی شعور عطا کرتے ہیں ۔ انھوں نے اصول و کلیات کی تشریح و تعبیر میں کسی بھی مداہنت اور چشم پوشی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے ۔ ان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو ناخن گرہ کشا کی منت پذیری اور ظاہری مشاطگی سے بے نیاز ہر لمحہ ایک نئے آفاق کی تلاش میں رہتے ہیں ۔

علامہ یٰسٓ  اختر مصباحی عہدِ جدید میں ہزاروں نوجوان علما اور ارباب علم و دانش کے نقیب اعظم تھے۔انھوں نے  امت مسلمہ کی اجتماعی بیداری اور مسلک اہل و سنت و جماعت کی ترویج و اشاعت کی راہوں میں ایک فکر انگیز اور تعمیری رنگ و آہنگ سے مرقع ایک عظیم صاحب قلم کا فریضہ انجام دیا ہے ، جسے ارباب وفاکبھی بھی فراموش نہیں کر سکتے۔ علم وفن کے ایوان میں ان کی صداے بازگشت بہت دیر تک باقی رہے گی۔ ان کا دل مذہب و مسلک کے حوالے سے حد درجہ پر خلوص اور حساس تھا ، یہی وجہ تھی کے وہ مسلک اہل سنت کے موجودہ انتشار کے نتیجے میں دل گیر اور کبیدہ خاطر تھے۔ معقولیت پسندی، جامعیت، وضاحت اور صراحت ان کی تمام تحریروں کی نمایاں خصوصیت رہی ہے۔ ان کی نگارشات میں پیچیدگی اور ابہام کا کوئی نام و نشان نہ تھا ۔ ان کی ہر تصنیف اپنے پورے ربط و ضبط کے ساتھ کسی زندہ مسئلے  اور اہم علمی واقعے سے بحث کرتی ہے ۔ ان کی ہر کتاب میں رہنمائی ، مأخذ و مراجع ، مثبت تنقید اور با ضابطہ تعمیری لوازمہ موجود ہے ۔ ان کے وسیع و عمیق مطالعے اور تجزیہ نگاری نے عصر حاضر کے ارباب قلم کو ایک نئی شاہراہ حیات سے آگاہی بخشی ہے ۔ان کی تعمیری خصوصیات میں یہ بات بھی شامل ہےکہ انھوں نے اپنے موقف کی بنیاد موروثی توہمات و تخیلات کے بجاے مشاہدات و تجربات پر رکھی ہے ۔

علوم و معارف کے جواہرات سے آراستہ اس طرح کی جامع الصفات شخصیات آفاق کی وسعتوں میں کبھی کبھی اور کہیں کہیں پیدا ہوتی ہیں ، ایسا عالم ، عارف ، شارح ،محشی ، عاشق رسول ، علوم شریعت کا بے باک ترجمان اور کاروان ملت کا حدی خوان صدیوں کے بعد پیدا ہوتا ہے ۔ اور شاید پھر صدیوں کے بعدپیدا ہو ۔ سینکڑوں صفحات پر پھیلے ہوئے ان کے قلمی مسودات تا ہنوز زیور طبع سے آراستہ ہونے کے منظر ہیں ۔مجھے یقین ہے کہ ملت کے ارباب فقرو غیور اور علم دوست افراد اس جانب خصوصی توجہ فرمائیں گے ۔ ساتھ ہی اہم اور منفرد موضوعات پر تقریباً دو درجن سے زائد تصنیفات آپ کی یادگار میں رہتی دنیا تک آپکے ایوان علم و عمل کو باقی رکھنے کے لیے کافی ہیں۔

علامہ یٰسٓ اختر مصباحی جماعت اہل سنت کے ایک سنجیدہ مزاج ، حلیم الطبع اور متبحر عالم دین تصور کیے جاتے تھے ۔ آپ سواد اعظم اہل سنت و جماعت میں باہمی اتفاق و اتحاد کے پر جوش داعیوں میں تھے  اور اس کے لیے وہ اپنی مصروف کن زندگی کے آخری لمحے تک کوشاں رہے ۔ وہ نہ صرف ایک پختہ عزم و ارادت کے مالک صاحب قلم تھے ، بلکہ مذہبی صحافت اور نثر نگاری کی ایک نئی جہت کے تعین کے موجد بھی تھے ۔ غالباً یہی وجہ ہے کے علما و مشائخ کے مابین وہ قدر و منزلت کی نگاہوں سےدیکھے جاتے تھے ، اور ہر طبقے میں انھیں عام مقبولیت حاصل تھی ۔الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ سے فراغت کے بعد ۱۹۷۴ء تا ۱۹۸۲ءوہیں  درس و تدریس کا فریضہ انجام دیا ۔ اس درمیان سیکڑوں طلبا نے آپ کی درس گاہ فیض  سےاستفادہ کیا ۔ آپ کچھ عرصہ حجاز مقدس میں بھی رہے ، پھر وطن عزیز ہندوستان لوٹ کر راجدھانی دہلی کو اپنی تحریکی ، تنظیمی اور علمی سرگرمیوں کا مرکز بنایا ۔ دار القلم کی بنیاد رکھی پھر وہیں پوری زندگی دعوت و ارشاد ، خدمت دین اور قوم و ملت کی تعمیرو ترقی میں گزار دی ۱۹۸۴ء تا ۱۹۹۲ء کئی سال تک آپ نے دہلی سے ماہنامہ حجاز نکالا ۔ ماہنامہ حجاز لندن ، جو مفکر اسلام علامہ قمر الزمان اعظمی صاحب قبلہ مد ظلہ العالی کی ادارت میں شائع ہوتا تھا اس کی طباعت و اشاعت کی ذمہ داری آپ پر تھی ۔ تقریباً ۷سال تک ماہ نامہ کنزالایمان دہلی کی ادارت فرمائی ۔ ہندوستان کے علاوہ بیرونی ممالک بالخصوص پاکستان ، لیبیا، اور ساؤتھ افریقہ کی متعدد عالمی کا نفر نسوں میں آپ شریک رہے ۔ تاہم وہ اپنی تحریکی وقلمی جد و جہد کی طویل مدت میں جن حوادثات زمانہ کے مد مقابل جس صبرو تحمل اور نا قابل تسخیر دعوت و عزیمت کے ساتھ عشق رسالت کا چراغ جلایا ہے ، اس لیے وہ پورے عالم اسلام سے مبارکبادیوں کے مستحق رہیں گے ۔

 علامہ یٰسٓ اختر مصباحی نے اپنی دعوتی زندگی کے آغاز سے ہی  مسلک امام احمد رضا  اور اشاعت دین و سنت کی ایک عظیم الشان تحریک کو اپنی زندگی کا حقیقی مقصد بنایا تھا جس سے مسلمانان ہند میں جہالت و گمرہی کے اندھیرے شعور زندہ کی روشنیوں میں قیامت کی صبح تک تبدیل ہوتے رہیں گے اور ان کی یہ دینی ، روحانی ، تحریکی اور علمی خدمات تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ جگمگاتی رہیں گی ۔

افسوس ! کہ ملت اسلامیہ کے اضطراب میں دھڑکنے والا دل ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا۔ درس گاہ حضور حافظ ملت کی آبرو ہم سے اچانک رخصت ہو گئی۔قوم و ملت کا یہ غم خوار ، عالم ربانی اب عرشِ الٰہی کے سائے میں محوِ خواب ہے - قبول و مغفرت کے پھول اور ملکوتی فرشتوں کی ہزار ہا رحمتیں ان کے وجود پاک پر برسائی جارہی ہوں گی۔ دعا ہے کہ رب قدیر ان کی مغفرت اور جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ۔ اور ان کے اہل خانہ، تلامذہ اور متعلقین کو صبر جمیل سے نوازے ۔ آمین یارب العالمین -

اے ہمایوں زندگی تیری سرا پا سوز تھی

تیری چنگاری چراغ انجمن افروز تھی

 

پیغام تعزیت

از: محمد یعقوب صدیقی نقش بندی، سربراہِ اعلیٰ جامعہ فیض الرحمٰن، جونا گڑھ

 

 

اہلِ سنت و جماعت کے عالمی شہرت یافتہ مصنف وادیب عظیم محقق و ناقد ، تاریخ داں، اسلامک اسکالر، سیاسی مد برد نبض شناس صائب الرائے شخصیت، متبحر عالم دین، رئیس التحریر حضرت علامہ یاسین اختر مصباحی علیہ الرحمہ (بانی دار القلم نئی  دہلی کی وفات ملت اسلامیہ کے لیے فرمان رسالت : ”موت العالم مصیبۃ لا تجبر، وثلمۃ لا تسد “کے مطابق عظیم سانحہ اور نا قابل تلافی نقصان ہے۔

علامہ مصباحی رحمۃ اللہ علیہ متعدد اوصاف و کمالات سے متصف تھے۔ آپ علیہ الرحمہ نے مسلک اہل سنت کے دفاع اور امت مسلمہ  کی رہنمائی میں جو کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں وہ آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔

دعاہے کہ رب کریم رؤوف رحیم حضرت کے تمام خدمات دینیہ کو قبول فرمائے اور انھیں غریق رحمت فرما کر اپنے جوار رحمت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ بندۂ عاجز و عاصی جامعہ فیض الرحمٰن جونا گڑھ، گجرات کے اساتذہ، طلبہ، اراکین اور جملہ اسٹاف کی جانب سے آپ رحمۃ اللہ علیہ کے پس ماندگان، لواحقین ، معتقدین و متوسلین کی خدمت میں کلمات تعزیت پیش کرتا ہوں۔ لا بقاہ الا للہ الواحد القہار، للہ ما أخذ ولہ ما أعطی و کل شیء عندہ بأجل مسمی.

 شریک غم- محمد یعقوب صدیقی نقش بندی

 

 علامہ یاسین اختر مصباحی بلند پایہ مصنف اور مفکر ودانشور تھے

از: محمد عرفان قادری۔ مدرسہ حنفیہ ضیاء القرآن لکھنؤ

  انسان کے اوصاف میں سب سے اہم وصف علم ہے۔علم کی اہمیت نسبت سے بھی زیادہ ہے۔حضرت آدم علیہ السلام کو فرشتوں پر برتری علم کی بنیاد پر عطا کی گئی۔جو انسان علم کے زیور سے آراستہ ہوجاتا ہے وہ اپنی پہچان خود بنا لیتاہے۔ دور حاضر میں اس کی مثال رئیس التحریر علامہ یاسین اختر مصباحی رحمۃ اللہ علیہ ہیں جو  7 مئ 2023 کی شب  اللہ کو پیارے ہوگئے۔

ان خیالات کا اظہار مولانا محفوظ الرحمن نوری مصباحی سابق پرنسپل جامعہ اہل سنت امدادالعلوم مٹہنابلرام پور نے مدرسہ حنفیہ ضیاءالقرآن شاہی مسجد بڑا چاند گنج لکھنؤ میں نئے تعلیمی سال کے آغاز کے موقع پر منعقد دعائیہ تقریب کو خطاب کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہاکہ علامہ یاسین اختر مصباحی عظیم عالم دین،بلند پایہ مصنف اور مفکر ودانش ورتھے۔صحافت میں ان کا مقام بہت اونچا تھا۔وہ سنگین مسائل پر قلم برداشتہ لکھتے تھے اور ملت اسلامیہ کی رہنمائی کرتے تھے۔علامہ نے درجنوں کتابیں تصنیف کیں۔ اردو کے  علاوہ عربی زبان وادب پر بھی انہیں عبور حاصل تھا۔ان کی عربی تصنیف   "المدیح النبوی"  مدارس کے نصاب میں شامل ہے ۔ان کے انتقال سے جماعت اہل سنت میں بہت بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے۔اللہ رب العزت ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔

مولانا محفوظ الرحمن نوری نے طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ کامیابی کے لیے دو چیزیں شرط ہیں۔ محنت اور وقت کی پابندی۔آپ ان دو باتوں کو ہمیشہ یاد رکھیں تو  ضرور کامیاب ہوں گے۔

مدرسہ حنفیہ ضیاءالقرآن کے صدر المدرسین قاری ذاکر علی قادری نے کہا کہ علامہ یاسین اختر مصباحی نوراللہ مرقدہ کا خاکسار سے دیرینہ تعلقات تھے۔میں نے ان کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔وہ صرف ایک عالم ہی نہیں عظیم مفکر بھی تھے۔وہ جو منصوبہ بناتے تھے۔ جماعتی سطح پر اسے پایۂ تکمیل کو بھی پہنچاتے تھے۔تصنیف وتالیف اور صحافتی میدان میں علامہ مرحوم نے جو کارنامہ انجام دیا ہے اسے فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ان کی تصنیفات سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں جن سےموجودہ اور آنے والی نسلیں استفادہ کرتی رہیں گی اور اسلامی تاریخ کے صفحات پر علامہ کا نام ہمیشہ روشن رہے گا۔ اللہ تعالیٰ ان کی دینی وملی خدمات کو قبول فرما کر بخشش فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل ہاجر جزیل عطا فرمائے۔

صلاة وسلام اور قل شریف کے بعد علامہ مرحوم کو ایصال ثواب اور مغفرت کی دعا کی گئی۔

اس موقع پر قاری نورمحمد اشرفی ،مولانا محمد عظیم ازہری،قاری محمد ایوب اشرفی ،قاری محمد ظفیر رضوی،مولانا محمد فہیم مصباحی،مولانا عبد القیوم مصباحی،قاری تبریز عالم قادری،قاری محمد احمد ضیائی کے علاوہ دیگر اساتذہ وطلبہ موجود تھے۔

   فکروفن کا آفتاب غروب ہو گیا

از: مولانا محمد عبد المبین نعمانی۔ دار العلوم قادریہ چریا کوٹ، مئو

یعنی رئیس التحریر حضرت علامہ یٰس اختر مصباحی رکن شوریٰ الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور، بانی رکن المجمع الاسلامی مبارک پور ،بانی دارالقلم دہلی، اب اس دنیا میں نہ رہے۔

مؤرخہ7مئی 2023ء،شب دوشنبہ،17شوال المکرم 1444ھ 9 بج کر 50 منٹ پر دہلی میں اپنی جان، جاں آفریں کے سپرد کر گئے، پھر میت خالص پور، ادری مئو آبائی وطن لائی گئی اور وہیں دوسرے دن بعد مغرب سپرد لحد کیے گئے۔

مولانا یٰس اختر مصباحی علیہ الرحمہ نے کچھ عرصہ دارالعلوم غریب نواز الٰہ آباد میں تدریسی خدمات انجام دیں، پھر الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور میں تقریباً سات سال تک شیخ الادب رہے، پھر سعودی عرب میں چند سال گزار کر ہندوستان آئے اور دہلی کی سرزمین کو اپنا مستقر بنایا، ذاکر نگر اوکھلا نئی دہلی میں دارالقلم قائم کیا، جس سے متصل قادری جامع مسجد بھی ہے۔

وہاں دارالقلم کی عمارت میں ایک شاندار لائبریری بھی قائم کی اور ایک عرصے تک اپنی قلمی خدمات سے قوم و ملت کو نوازتے رہے، "حجاز جدید" کے نام سے ایک ماہنامہ بھی جاری کیا،جو چند سالوں کے بعد بند ہوگیا، پھر ماہنامہ "کنزالایمان" سے وابستہ رہے، اس کے مدیر اعلیٰ بھی رہے، اور پھر اسے چھوڑنے کے بعد اس کے مشیر اعلیٰ کی حیثیت سے کام کرتے رہے، کئی درجن کتابوں کے مصنف ہیں، جن میں یہ کتابیں زیادہ مشہور ہیں:

* المدیح النبوی (عربی) * امام احمد رضا، ارباب علم و دانش کی نظر میں * امام احمد رضا اور رد بدعات و منکرات * ترجمہ الفوز الکبیر *خاک حجاز کے نگہبان* کنزالایمان اور دیگر تراجم قرآن کا تقابلی جائزہ*سواد اعظم* تعارف اہل سنت* گنبد خضرا اور انہدام کی سازش *امام احمد رضا کی فقہی بصیرت* امام احمد رضا اور مفتی اعظم*مجاہد ملت کی مجاہدانہ عزیمت*نقوش فکر (اداریوں کا مجموعہ) * مجاہدین جنگ آزادی*پیغام عمل* معارف قرآن*علماے اہل سنت کی قیادت و بصیرت، وغیرہ۔

یہ اور بہت ساری کتابیں آپ کے راہوار علم کی یادگار ہیں، عربی اور اردو دونوں زبانوں پر یکساں قدرت رکھتے تھے، ملک کی بڑی کانفرنسوں اور سیمیناروں میں اعزاز سے مدعو کیے جاتے تھے، بلکہ بیرون ملک بھی آپ کو یاد کیا جاتا۔آپ کے مقالات کی اچھی خاصی تعداد ہے جنھیں کئی جلدوں میں یکجا کیاجا سکتا ہے۔

علماے اہل سنت میں آپ کی شخصیت قائدانہ حیثیت کی مالک تھی، آپ کی دینی، تدریسی اور قلمی خدمات کا دائرہ نصف صدی کو محیط ہے، جرأت و بےباکی میں ممتاز تھے، استاذ العلما حافظ ملت علامہ شاہ عبدالعزیز محدث مرادآبادی علیہ الرحمہ، بحرالعلوم مفتی عبدالمنان اعظمی، علامہ حافظ عبدالرؤف بلیاوی ثم مبارک پوری، علامہ قاضی محمد شفیع اعظمی علیہ الرحمہ کے ممتاز تلامذہ میں شمار کیے جاتے تھے۔ 1970ء میں الجامعۃ الاشرفیہ سے فارغ ہوئے، آپ کے شاگردوں کی فہرست بہت طویل ہے۔

علامہ یٰس اختر مصباحی کیا گئے، فکر و قلم اور علم و دانش کا قطب مینار زمین بوس ہوگیا، میدان طریقت میں روحانیت کے تاجدار، شہزادہ اعلیٰ حضرت، سرکار مفتی اعظم ہند علامہ شاہ مصطفیٰ رضا نوری بریلوی قدس سرہ کے دست اقدس پر شرف بیعت سے مستفیض تھے۔ آپ کے اس دنیاے فانی سے چلے جانے سے جماعت اہل سنت کا بہت بڑا خسارہ ہوگیا، اور خاص طور سے المجمع الاسلامی کا ایک ستون گر گیا، دارالقلم دہلی میں تو بالکل سناٹا چھا گیا، الجامعۃ الاشرفیہ سوگوار ہے اور خانقاہ برکاتیہ مارہرہ شریف غم زدہ۔

آپ کیا گئے، فقیر نعمانی کا مخلص رفیق چلا گیا۔ جماعتی درد کا امین رخصت ہوگیا۔فکرو فن، علم و دانش کا نقیب نہ رہا۔ ان کی حیات کا سلسلہ ٹوٹ گیا تو تصنیف و تالیف کے لیے رواں دواں قلم بھی نذر جمود ہوگیا۔احباب غم زدہ ہیں۔ تلامذہ الم کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ گھر والوں پر کیا گزری ہوگی اس کا تو اندازہ لگانا ہی مشکل ہے، میں جملہ اہل خانہ و فرزندان کی خدمت میں تعزیت پیش کرتا ہوں اور تسلی کے لیے دعاگو اور خود بھی سوگوار میں شامل ہوں اور گہرے رنج و غم میں گرفتار۔

 

 علامہ یٰسین اختر مصباحی ایک عظیم اسلامی مفکر

از: مفتی محمد علی مصباحی۔ جنرل سکریٹری جماعت اہل سنت، کرناٹک

حضرت علامہ موصوف نور اللہ مرقدہ بلاشبہ ایک عظیم اسلامی اسکالر وملی مفکر ودانشور تھے۔

آپ نہ صرف اردو نثر ونظم پر مہارت تامہ رکھتے تھے بلکہ عربی نثر ونظم پر بھی بصیرت کاملہ وقدرت تامہ رکھتے تھے ۔ مختلف اسلامی وتاریخی اور قومی وملی موضوعات ومسائل پر آپ نے کم وبیش ۰ ۵ سے زیادہ تحقیقی کتابیں لکھیں ہیں ا ور برادرانِ اہلسنت واسلامیان  ہند میں دینی وملی شعور وبیداری لانے کی خاطر ہر ایشیو پر سینکڑوں مقالات تحریر فرمائے ہیں ۔ کبھی آپ نے دہلی سے ماہنامہ حجاز جاری فرمایا تھا، جس میں راقم الحروف کے بھی کئی مضامین شائع چکے ہیں ،جو آج بھی میرے پاس محفوظ ہیں۔ جہاں تک مجھے یادآتا ہے سن۱۹۷۸ سے ۱۹۸۲ کے دوران علامہ افتخار اعظمی دام فضلہ اور علامہ یٰسین اختر مصباحی نور اللہ مرقدہ ایک ساتھ دارالعلوم اشرفیہ میں بحیثیت عربی استاذ کے منصب تدریس پر فائز ہوئے۔الحمد للہ مجھے ان دونوں عظیم شخصیتوں سے شرف تلمذ حاصل رہاہے ۔ طبیعت میں خاموشی ، فکرو نظر میں گہرائی وگیرائی اور غیرضروری باتوں اور کاموں سے ہمیشہ دور ونفور اور ہردم کتب بینی و عربی لغات خوانی آپ کا مشغلہ رہا۔سچ ہے 

نگہ بلند ،سخن دل نواز جاں پر سوز

یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے

بعد تدریس کے اشرفیہ کے دفتر میں تشریف لاتے تو اُن ایام کی بات ہے کہ اردو کا ایک معروف اخبار سیاست کانپور دفتر اشرفیہ میں آیاکرتا تھا جس کو سارے اساتذہ خصوصاً علامہ موصوف پڑھاکرتے تھے۔چائے پیتے تھے،سگار کا شوق تھااور کبھی کبھار بے تکلف ہو جاتے  تو کھل کر ہنستے تھے۔افسوس کہ ایسی نایاب ہستی اب ہم میں نہ رہی ۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔

 بخاری ومسلم میں ہے  اَلَا کُلُّ شَئٍی مَاخَلَا اللہَ َباطلٌ یعنی اللہ کے سوا ہر چیز اپنی ذات میں محض بے حقیقت ہے۔ ظاہر ہے کہ یہا ں سے سب کوجانا ہے ۔حضرت خواجہ بندہ نواز کے ملفوظات میں ایک نصیحت ہے جس کا خلاصہ یہ کہ حیات وکائنات دونوں عارضی ہیں اور بے حقیقت ہیں ۔ایک روز آپ اپنے مریدین سے مخاطب ہوکر فرمانے لگے : دنیا ڈھول کا پول ہے۔ (کہتے ہیں کہ ) ایک روز چاشت کے وقت حضرت خواجہ  صاحب کے ہمسائے کے گھر ڈھول بج رہا تھا حضرت نے فرمایا دیکھو ڈھول کی کتنی ہیبت ناک آواز ہے ۔ڈھول دور سے دیکھنے میں عجیب ہیبت ناک حیوان معلوم ہوتا ہے مگر قریب آکر دیکھو تو سوائے لکڑی اور چمڑے کی کچھ نظر نہیں آتا ۔ڈھول کے ٹکڑے کردو تو اندر سے خالی ہی خالی نظر آئے گا ۔یہی مثال دنیا کی ہے جو لوگ دنیا کی حقیقت سے آشنا ہیں وہ جانتے ہیں کہ دنیا ڈھول کا پول ہے اور کچھ نہیں۔(روح تصوف ص۶۹)

 مگر دنیا کی زندگی اور آخرت میں وہی کامیاب ہے جس نے زندگی کا مقصد سمجھا اور اسے صحیح کاموں میں لگایا ارشاد خداوندی ہے مَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِنْ ذَکَرٍاَوْاُنْثیٰ وَھُوَمُوْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہُ حیوٰۃً طَیِّبَۃً (النحل ۱۶ آیت۹۷)

ترجمہ!جو اچھا کام کرے مرد ہو یا عورت اور ہو مسلمان تو ضرور ہم اسے اچھی زندگی جلائیں گے۔

بے شک ہمارے ممدوح مکر م نے ایک بامقصد زندگی گزاری  عالمانہ کردار اداکیا اور ہم چھوٹوں کے لئے ایک روشن مثال بن کر دنیا سے تشریف لے گئے اللہ تعالیٰ اپنے پیارے حبیب پاک ﷺ کے صدقے ان کے مرقد پر انوارورحمت کی بارش فرمائے اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل عطافرمائے۔ آمین !

 

 علامہ یس اختر مصباحی:میدان صحافت کے عظیم شہسوار 

از:افتخاراحمدقادری،کریم گنج،پورن پور،پیلی بھیت

 رئیس التحریر، ناز اہلسنت، پیکر علوم وفنون، محقق دوراں، زینت ایوانِ فکر وقلم حضرت علامہ یس اختر مصباحی صاحب قبلہ کی شخصیت ایک در نایاب کی حیثیت رکھتی ہے- رئیس التحریر چمنستانِ اسلام کی ایک ایسی کلی تھے جس پر موسم خزاں نے کبھی بھی اپنا اثر نہیں ڈالا- سوادِ اعظم اہل سنت کے ایسے معطر پھول تھے جو ہر ماحول میں مہکتے رہے- زمانہ کی باد مخالف اور نامساعد حالات نے ان کی نرم ونازک پتیوں کو مرجھانے کی تمام تر کوششیں کیں لیکن یہ پتیاں ان کی بے پناہ مصروفیت کے باوجود خدمتِ خلق اور مسلک ومذہب کی بے لوث اشاعت کی وجہ سے ترو تازہ اور ہری بھری رہیں اور آسمان صحافت پہ ماہتاب بن کر زمانے کی اصطلاح اور مسلک کا پرچار کرتے رہے- یہ آسمان صحافت کا ماہتاب کسی بھی دور میں گہن آلود نہیں ہوا اور نہ اس کی مقبولیت میں ہلکی سی کمی آئی بلکہ ہر دور میں صف اول کے صحافی ومبلغ اور مفکر اسلام کی حیثیت سے پہچانے جاتے رہے اور میدان صحافت کے عظیم شہسوار بن کر رسالوں خاص کر (ماہنامہ کنزالایمان دہلی) اور جریدوں کی آبرو بن کر چھپتے رہے گویا آج محل صحافت ایوانِ سنیت مینارہ اسلام کا ایک عظیم ستون گر گیا جس کی کمی کا احساس ملت کو صدیوں کرنا پڑے گا- یہ لکھتے ہوئے قلم کانپ رہا ہے کہ 07/ مئی کو سوادِ اعظم اہل سنت کا صحافی و مبلغ  ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا-

انا لله وانا الیه راجعون.

حضرت علامہ یس اختر مصباحی صاحب قبلہ کی ذات بے شمار خصوصیات کی مرجع تھی-صحافت درس وتدریس اخلاص ومحبت مسلک کی بے لوث خدمت ان کا بہترین مشغلہ تھا- آپ نے کئی کتابیں تصنیف فرمائیں جس میں: ہندوستانی مسلمان اور ہندوتوا، قائدین تحریکِ آزادی، مسلم پرسنل لا کا تحفظ، سنگھ پریوار کا 21 نکاتی فارمولہ، ہم اور ہمارا ہندوستان، معارفِ کنزالایمان، آفتاب و ماہتاب، بابری مسجد کی شہادت اور تعمیر نو، اصلاح فکر واعتقاد، قائد انقلاب علامہ فضلِ حق خیرآبادی، خصائصِ رسول، گنبدِ خضریٰ، قابلِ ذکر ہیں- دعا ہے: خدائے قدیر و کارساز ان کی قبر پر رحمت ونور کی برکھا برسائے اللہ رب العزت ان کی مرقد پر گوہر افشانی کرے۔

 

 علامہ یٰسٓ اختر مصباحی:دو یادگار ملاقاتیں 

از:محمد ولی اللہ قادری، گورنمنٹ انٹر کالج، ضلع اسکول، چھپرہ، بہار

 

 

معتمد حضور مفتی اعظم ہند اور استاد الاساتذہ حضرت مفتی محمد اعظم رضوی ٹانڈوی سابق شیخ الحدیث دار العلوم مظہر اسلام بریلی شریف اور سابق صدر مفتی رضوی دار الافتا بریلی شریف کے وصال کے غم سے ابھر نہیں پایا تھا کہ رئیس التحریر علامہ یاسین اختر مصباحی کے انتقال کی خبر موصول ہوئی اور غم مزید گہرا ہو گیا انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ رئیس التحریر علامہ یاسین اختر مصباحی کی شخصیت کثیر الجہات تھی آپ بہ یک وقت محقق، مترجم اور صاحب اسلوب صحافی اورنئی نسل کے قلم کاروں کے مربی بھی آپ تھے۔ آپ درجنوں کتاب کے مصنف و مرتب کے باوجود منکسر المزاج  اور خلیق تھے۔ آپ کے انتقال سے مذہبی و ادبی دنیا ایک بے لوث قلم کے سپاہی سے محروم ہو گئی ہے۔ حضرت کی تحریر جس طریقے سے سلجھی ہوئی ہوتی تھی اسی طرح تقریر اور انداز تخاطب بھی سلجھا ہوا ہوتا تھا۔ حساس سے حساس مسائل کو بہت ہی آسانی سے حل فرماتے تھے۔ علامہ کی زیارت پہلی دفعہ بریلی شریف میں عرس رضوی کے موقع پر ہوئی۔ اس کے بعد دو مرتبہ سے می نار میں ۔ یاد آتا ہے کہ نومبر۲۰۱۱ ء میں بہار شریف میں مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد منیر ی علیہ الرحمہ پر منعقدہ بین الاقوامی سہ روزہ سے می نار تھا۔حضرت کی تشریف آوری دوسرے روز ہوئی۔ اس سے می نار میں جہاں اہل سنت کے موقر قلم کار علمائے کرام تشریف لائے تھے وہیں متعدد عصری دانش گاہوں کے پروفیسر ان اور ریسرچ اسکالرز بھی۔ سے می نار کے روح رواں پروفیسر سید شاہ شمیم الدین احمد منعمی سجادہ نشیں خانقاہ منعمیہ قمریہ، پٹنہ سیٹی جو ناظم اجلاس تھے، نے حضرت کا تعارف اس شان سے کرایا کہ مندوبین سے می نار حضرت کا خطاب سننے کے لیے سراپا منتظر ہو گئے۔ علامہ یاسین اختر مصباحی رحمۃ اللہ علیہ نے نہایت با وقار طریقے سے خطاب فرمایا ۔ موقع غنیمت جانتے ہوئے خدا بخش خاں اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ نے ۲۶؍ نومبر ۲۰۱۱ء کو مذکورہ لائبریری میں حضرت کاتوسیعی خطبہ رکھ دیا۔ اس لیے حضرت بہار شریف سے عظیم آباد پٹنہ تشریف لائے اور ادارہ شرعیہ میں آپ قیام ہوا ۔ ادارہ شرعیہ میں حضرت سے کافی دیر تک گفتگو ہوتی رہی حضرت نے پوچھا کہ کیا کر رہے ہیں؟ میں نے اپنی مصروفیت سے روشناس کرایا اور مستقبل کے منصوبہ سے واقف کرایا۔ حضرت نے دعائیں دیں اور مطالعہ اور کوشش جاری رکھنے کی تاکید فرمائی۔ اس دور میں پہلی جنگ آزادی۱۸۵۷ء کے موضوع پر حضرت کی متعدد کتابیں منظر عام پر آئی تھیں، اس لیے راقم نے اسی موضوع کو چھیڑ دیا ۔حضرت دیر تک اس موضوع پر اظہارِ خیال کرتے رہے اس کے باوجود آپ نے یہ انکساری والا جملہ ارشاد فرمایا کہ ”تیس سال سے تحریک آزادی کے موضوع پر مطالعہ کر رہا ہوں اب تھوڑی تھوڑی بات سمجھ میں آ رہی ہے“ ۔ حضرت کا یہ جملہ عہد حاضر کے محققین کو بہت بڑا پیغام دے رہا ہے۔ خود حضرت کا ایک جملے نے میری زندگی میں بہت تبدیلی لا دیا ۔خیر وقت مقررہ پر حضرت خدا بخش لائبریری، پٹنہ پہنچ گئے۔ خطبہ کا عنوان تھا”علامہ فضل حق خیر آبادی: ایک عہد ساز شخصیت “۔تقریب کی صدارت پروفیسر سید شاہ شمیم الدین احمد منعمی سجادہ نشیں پٹنہ سیٹی نے کی اور خطبہ استقبالیہ پروفیسر امتیاز احمدڈائرکٹر خدا بخش خان اورینٹل پبلک لائبریری پیش کیا۔ خدا بخش لائبریری کے دیگر توسیعی خطبات کے بر عکس سامعین سے پورا سیمینار ہال پر تھا ۔ خدا بخش کے دیگر خطبات سے علامہ یاسین اختر مصباحی کا خطبہ اس لحاظ سے الگ تھا کہ آپ نے لکھا ہو خطبہ پیش نہیں کیا ۔مسلسل دو گھنٹے تک موضوع پر سلسلہ وار طریقے سے زبانی خطبہ پیش کرتے رہے۔علامہ فضل حق خیر آبادی اور مرزا اسد اللہ خاں غالب کے مابین تعلقات پر یادگار غالب کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ مرزا اسد اللہ خاں کو غالب بنانے میں علامہ فضل حق خیر آبادی کا نمایاں حصہ ہے۔ یہاں تک کہ” دیوان غالب“ کی تربیت و اشاعت میں علامہ فضل حق خیر آبادی نے نا قابلِ انکار کردار ادا کیا ۔ اس کے بعد ۱۸۵۷ء کی تحریک آزادی میں علامہ فضل حق خیر آبادی کے قائدانہ کردار کو سال بہ سال ترتیب سے مدلل پیش کیا ۔ جب علامہ یاسین اختر مصباحی خطبہ پیش فرما رہے تھے تو وہاں موجود پروفیسر امتیاز احمد ،جن کی کتابیں بی پی ایس سی اور یو پی ایس سی کی تیاری کرنے والے امیدوار کے لیے ممد و معاون ہوتی ہیں، ان کوبھی متاثر ہوتے ہوئے دیکھا گیا۔ اردو زبان و ادب کا مستند محقق اور ناقد پروفیسر صفدر امام قادری نے تو ایک نجی گفتگو میں فرمایا کہ مولانا یاسین اختر مصباحی کی یادداشت غضب کی ہے کہ عربی فارسی کے ساتھ تاریخ پر یکساں قدرت رکھنے والی علمی شخصیت عہد حاضر میں خال خال نظر آتی ہے۔

حضرت رئیس التحریر علامہ یاسین اختر مصباحی سے دوسری بار جامعہ واجدیہ دربھنگہ میں امین شریعت ثالث ادارہ شرعیہ پٹنہ و مفتی اعظم ہالینڈ مفتی عبد الواجد نیر قادری علیہ الرحمہ پر منعقدہ قومی سے می نار کے موقع پر ہوئی ۔ یہ سے می نار ۲۰۱۳ء میں منعقد ہوا تھا۔ اس سے می نار میں فقیہ النفس حضرت مفتی محمد مطیع الرحمن مضطر رضوی مد ظلہ بھی تشریف فرما تھے۔ سے می نار کے روح رواں ڈاکٹر امجد رضا امجد تھے۔ امین شریعت کی شخصیت اور خدمات کے متعدد گوشے پر مقالات پی کیے گئے۔ معروف صحافی احمد جاوید نے حضرت کے سفر نامہ نگاری کے حوالے سے کہا کہ حضرت عہد حاضر کے ابن بطوطہ نظر آتے ہیں۔ راقم الحروف نے امین شریعت کا مجموعہ فتاوی ”فتاوی یورپ“کے حوالے سے پڑھا تھا۔ علامہ یاسین اختر مصباحی مجلس صدور میں شامل تھے۔ اس لیے مقالات پر تبصرہ کے لیے مدعو کیا گیا۔ حضرت نے مختصر وقت میں حضرت امین شریعت کی شخصیت کے ایک اہم گوشہ پر روشنی ڈالی، جس پر کسی نے روشنی نہیں ڈالی تھی، وہ یہ کہ امین شریعت کے ہاتھ پر سیکڑوں کی تعداد میں غیر مسلموں کا ایمان لانا اور حضرت کے ذریعے ان کو کلمہ طیبہ پڑھایا جانا ،بہت اہم بات ہے ۔حضرت کے خطبہ صدارت سے اندازہ ہو گیا کہ حضرت روایت کے بندھن میں بالکل جکڑے ہوئے نہیں ہیں کیوں کہ سے می نار میں دیکھا جاتا ہے صدر حضرات پڑھے گئے مقالات پر رسمی تبصرہ کر دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں ،لیکن حضرت رئیس التحریر نے جملہ مقالات کو غور سے سماعت فرمایا اور ان پر غور و فکر کرتے ہوئے صاحب سے می نار کی شخصیت اور خدمات کے گم شدہ گوشے کو اجاگر کیا جو ہمیں بڑی بات لگی۔

سیمینار کے اختتام پر حضرت رئیس التحریر سے ملاقات کی غرض سے ان کے قیام گاہ پر حاضر ہوا۔ سونے پر سہاگہ کہ حضرت رئیس التحریر اور حضرت فقیہ النفس دونوں حضرات کا قیام کا نظم ایک ہی کمرے میں تھا دونوں بزرگوں کی گفتگو سے خوب محظوظ ہوا ۔ ایک مسئلہ پر دونوں حضرات گفتگو فرما رہے تھے ،وہ یہ کہ سے می نار یا دیگر تقریبات میں سلام مع قیام پڑھنا کیسا ہے؟ پوری گفتگو تو یاد نہیں البتہ حضرت رئیس التحریر نے اپنے مطالعے کے حوالے سے فرمایا کہ حضور صدر الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مقام پر سلام مع قیام کو میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی محفل تک خاص لکھا ہے ،اس لیے متذکرہ تقریبات میں سلام مع قیام سے بچنا چاہیے ۔ حضرت رئیس التحریر کی اس رائے کی تائید حضرت فقیہ النفس مفتی محمد مطیع الرحمن مضطر رضوی مد ظلہ نے فرمائی ۔ اس کے بعد طعام کا دور چلا۔ دونوں بزرگوں کے ساتھ خاک سار کودوپہر کا کھانا کھانے کا شرف حاصل ہوا۔

۲۰۱۸ء میں اجمیر شریف کی زیارت سے واپسی پر دہلی میں قیام کیا تو حضرت رئیس التحریر سے ملاقات کی خواہش ہوئی۔ مولانا محمد ظفر الدین برکاتی سے دریافت کیا کہ حضرت سے ملاقات ہو سکتی ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ حضرت دار القلم میں ہی ہوں گے۔ لہذا مولانا سید اکرم نوری کے ہمراہ دار القلم پہنچا تو پتا چلا کہ کہ حضرت موجود نہیں ہیں ۔ بعدہٗ حضرت کی زیارت اخبارات یا سوشل میڈیا پر ہی ہو سکی۔ اب تو وہ وہاں تشریف لے گئے جہاں سے اب تک کوئی واپس نہیں آیاہے۔ حضرت رئیس التحریر کی شخصیت اس لحاظ سے منفرد رہی کہ ان کی زیادہ تر کتابیں ان کی زندگی میں شائع ہو کر مقبول ہوئیں ۔

اس مختصر تحریر کو راقم الحروف کاتعزیتی تاثر سمجھا جائے۔ اس مختصرتحریر کے ذریعے حضرت رئیس التحریر کے بارگاہ میں خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے اور دعا ہے کہ مولا تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول کر ان کو غریق رحمت فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل ادا کریں۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و سلم ۔ اخیر میں حضرت رئیس التحریر کے ادارت مندوں اور ورثہ سے ہماری گزارش ہوگی کہ حضرت کی شخصیت اور خدمات کے حوالے سے ایک سے می نار منعقد کیا جائے اور ان کی تصنیفات و تالیفات کے مالہ وما علیہ پر تفصیلی بحث و مباحثہ ہو ، جس سے رئیس التحریر جیسی انقلابی شخصیت کی تفہیم نئی نسل کو ہو سکے۔ ہماری ناقص رائے کے مطابق یہی کام حضرت رئیس التحریر کی بارگاہ میں بہترین خراج عقیدت ہوگا۔ امید ہے کہ ہماری آواز صدا بہ صحرا نہ ہوگی۔

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved