27 July, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia May2023 Download:Click Here Views: 19275 Downloads: 693

(5)-اسلام کا نظریۂ توحید عقل و سائنس کی روشنی میں

مبارک حسین مصباحی

ایک بچہ ماں کی گود سے شعور کے سفر کا آغاز کرتا ہے، گردوپیش کے ماحول کو پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھتا ہے،کبھی دل و دماغ پر فرحت و انبساط کے آثار نمودار ہوتے ہیں، چہرے پرتبسم ریز سویرا چھا جاتا ہے۔کبھی بھوک  پیاس یاناسازگار ماحول سے اضطرابی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور بچہ  جھنجلا کر چیخ اٹھتاہے ،اشاروں کنایوں سے مدعاے دل سنانے کی کوشش کرتا ہے، نقل وحرکت سے افہام وتفہیم کا آغاز کرتا ہے۔ تو تلائی زبان سے قلبی احساسات کی ترجمانی کرنے لگتا ہے، آہستہ آہستہ مافی الضمیر کی ادائیگی پرقدرت پاتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ادراکات ومحسوسات کے بارے میں طرح طرح کے سوال کرنے لگتا ہے، دنیا کتنی بڑی ہے، یہ آسمان سے پانی کون برساتا ہے، موسم کیوں بدلتے ہیں، یہ ہوا ئیں کون چلاتا ہے، یہ ہری بھری فصلیں کون اگاتا ہے، یہ چھوٹے چھوٹے پودے بڑے بڑے درخت کیسے بن جاتے ہیں ،یہ سبز ٹہنیوں پر گلابی پھولوں کو کون لگا جاتا ہے، یہ گلوں کے چہروں پر خوشبوئیں کون نچوڑ جاتا ہے، یہ درختوں میں پھل کون لگا جاتا ہے، یہ آموں اور سیبوں میں مٹھاس کون گھول جاتا ہے، یہ انار اور سنتروں میں رس کون بھر جاتا ہے، یہ زمین کے سینے میں پانی کا اسٹاک کس نے بنارکھاہے۔جب یہ سورج مغرب کے آنچل میں روپوش ہو جاتا ہے تو ہر روز مشرق کے افق پر کیوں نمودار ہوجاتا ہے، یہ آسمانوں پر کہکشاں کون سجادیتا ہے، یہ حد نظر پہاڑوں کے سلسلے کس نے تعمیر کیے ہیں، یہ سمندروں میں پانی کون چھوڑ دیتا ہے، یہ گاے اور بھینس کے پیٹ میں چارے کا دودھ کیسے بن جاتا ہے،یہ مکھیاں پھولوں کا رس نکال کر شہد کیسے بنا دیتی ہیں، یہ گردش لیل ونہار، یہ نظام شمس وقمر ،ٹائم ٹیبل کے مطابق کسی نے جاری کر رکھاہے۔ انسان فکر و شعور کی بلندیوں کو جیسے جیسے عبور کرتا ہے، ہر قدم پر نت نئے اور حیرت انگیز سوال پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں اور ایک دن جھنجلا کر سراپا سوال بن جاتا ہے۔ آخریہ کائنات کیا ہے اور وہ طاقت کون ہے جو نظم وضبط کے ساتھ اس نظام کائنات کو رواں دواں رکھے ہوئے ہے؟

یہ کائنات کوئی محسوس حقیقت ہے یا صرف وہم و خیال کا واہمہ ہے۔ اگر اس کا واقعی وجود ہے تو یہ کسی اتفاق و حادثہ کا نتیجہ ہے یا اس کا کوئی خالق ومربی ہے۔ اگر کسی نے پیدا کیا ہے تو پیدا کرنے والا پیدا کر کے معطل ہو گیا یا اس کی تخلیق و پرورش کامسلسل سفر جاری ہے۔  اس کائنات کے خالق ومربی متعدد ہیں یا کوئی ایک ذات ہے۔ اس کائنات کا آغاز و انجام ہے یا ابدی اور ازلی ہے، یہ کائنات اگر حادث ہے تو اس کا خالق ومربي حادث ہے یا ازلی اور ابدی ہے، ان تمام سوالات کا جواب انسان کی عقل نارسا نے بھی تلاش کیے اور مذاہب عالم نے بھی، لیکن آج کے دور میں ان سوالات کا اطمینان بخش جواب اگر کہیں ملتا ہے تو اس کا نام صرف اور صرف اسلام ہے۔ اب آیئے اس مدعا کے دلائل پر ایک تجزیاتی نگاہ ڈالیں۔

کائنات اور خالق کائنات کے تعلق سے انسان کے دل و دماغ میں اس قسم کے سوالات ہر دور میں پیدا ہوتے رہے ہیں اور عقل پرستوں نے اپنے اپنے معیار عقل سے ان کو حل کرنے کی کوششیں بھی کی ہیں لیکن صدیوں کے فکری سفر کے مضحکہ خیز نتائج ہمارےسامنے ہیں ۔انسانی فکر نے جب بھی اس کائنات اور نظام کائنات میں عقل کے گھوڑےدوڑائے ہیں، انسان  چند قدم چل کر اپنی علمی بے مائیگی اور فکری در ماندگی کی دل دل میں لڑ کھڑا کر گر پڑا ہے۔ مذہب کا دامن جھٹک کر کسی انسان کو کائنات کے مابعدطبیعيات حقائق اور راز ہاے سربستہ کا سرا ڈھونڈنے سے نہیں ملتا، اور جیسے جیسے انسان سائنسی دریافتوں اور کائناتی مشاہدات کی منزلوں کو عبور کر رہا ہے، لمحہ بہ لمحہ نئےنئے جہان اس کی آنکھوں کو خیرہ کرتے چلے جارہے ہیں اور جوں جوں انسان کائنات کے نظم و ضبط اور تہہ دار حقائق میں غور وفکر کرتا ہے، ورطۂ حیرت کے اندھیروں میں اس طرح ڈوب جاتا ہے کہ ہاتھ پیر مارنے پر بھی کسی سمت سفر کا سراغ نہیں ملتا۔ ہم ان باتوں کو مذہب کے روایتی دباؤ میں نہیں بلکہ عقل وسائنس کی روشنی میں سپردِ قلم کر رہے ہیں۔

اب ہم اس اجمال کی تفصیل سے پہلے ایک غلطی کا ازالہ کرتے ہوئے اس نقطۂ فکر کو آپ کے ذہنوں میں اتار دینا ضروری سمجھتے ہیں،بعض نا پختہ اور مغرب زده دماغوں نے اس مفروضے کو بڑے طمطراق سے پیش کرنا اپنا روز مرہ بنا لیا ہے کہ کوئی مذہب اکیسویں صدی کے چیلنجز کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ یہ بالکل بے بنیا مفروضہ ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ عقل اور مذہب میں کوئی ٹکراونہیں، سائنس اور مذہب میں کوئی تضاد نہیں بشرطےکہ وہ مذہب سچا اور صحیفۂ آسمانی کے عین مطابق ہو۔ جنگ لامذہبیت اور عقل وسائنس کے درمیان ہے ، اس طے شدہ حقیقت کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کے بعد ہم یہ دعویٰ  کرنے میں حق بجانب ہیں کہ لا مذہبیت اکیسویں صدی عیسوی میں پتھر کا ایک مجسمہ بن کر رہ گئی ہے، اکیسویں صدی سائنس کی صدی ہے۔ سائنسی انکشافات اور نت نئے حقائق کی دریافتوں نے انسانی عقل و شعور کو مذہب کی دہلیز پر لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ جوں جوں انسان عالم فطرت سے آشنا ہوتا چلا جائے گا اس کے دل کا دروازہ دین فطرت کے لیے واہوتا چلا جائے گا۔ یورپ و امریکہ کے دانش کدوں میں جس کا آج مشاہدہ کیا جارہاہے،میڈیا پر نظر رکھنے والے اہل دانش مغربی ممالک میں قبول اسلام کی بڑھتی ہوئی رفتار سے اچھی طرح واقف ہیں ۔ سردست یہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔ اب آئیے کائنات اور خالق کائنات کے حوالے سے عقل پرستوں کے نظریات اور ان کے دلائل کا جائزہ لیں۔

کیا کائنات کا وجود ایک فریب نظر ہے؟

عالم کیا ہے؟ اس معمے کو حل کرنے کے لیے انسانی تاریخ میں بارہا کوششیں کی گئیں کہ یہ مادی عالم اپنے وجود میں کسی خالق ومربی کا محتاج ہے یا نہیں لیکن اس عالم کا وجود بہر حال امر واقعہ ہے۔ ایک معمولی عقل والا انسان بھی اس حقیقت کا انکارنہیں کر سکتا۔ لیکن فریب خوردہ انسانوں کا ایک گروہ اس کے وجودکاہی سرے سے منکر ہے،اس کا کہنا ہے اس عالم کا وجود ایک فریب اور واہمہ ہے، اس کی اصل حقیقت کچھ بھی نہیں۔ علم طبیعیات کے ماہر جیمس جیز نے اپنی کتاب ”پراسرار کائنات“ میں اس مفروضے پران الفاظ میں راے زنی کی ہے:

” علم طبیعیات کے جدید تصورات کے مطابق کائنات کی کوئی مادی توجیح ممکن نہیں اور اس کی وجہ میرےنزدیک یہ ہے کہ کائنات کا سارا معاملہ ہی اب ایک تخیلاتی معاملہ بن گیا ہے۔“

اس نظریہ کا واضح مطلب یہ ہے کہ یہ زمین اور اس کے سبزہ زارے، یہ نیلگوں آسمان اور اس کی کہکشاں ، یہ سر بہ  فلک پہاڑوں کے سلسلے اور ان کے دامن سے ابلتے ہوئےدل فریب  چشمے ، یہ انسانی کائنات اور روے زمین پر اس کی آبادکاری ، یہ سائنسی نظام اور اس کی حیرت انگیز ایجادات ، یہ گردوپیش کا ماحول اور خوردونوش کی سیکڑوں نعمتیں ، یہ جنگلات کا خوفناک منظر اور اس کے خطرناک درندے، کیا یہ سب کچھ ایک خواب و خیال ہے، اس مضحکہ خیز نظریہ پر گفتگوکرنا قارئین کا وقت ضائع کرنے کے سوا کچھ نہیں لیکن اس نظریے کے حاملین کی فکری بے راہ روی کی نشاندہی کے لیے ہم اتنا ضرور کہیں گے کہ ایک انسان جب اس واہمہ کو پیش کرتا ہے تو ٹھیک اس وقت وہ انسان اور کائنات کے وجود کو غیر شعوری طور پر تسلیم کر لیتا ہے، اس کا سوال کرنا چیخ چیخ           کر اعلان کر رہا ہے کہ کوئی چیز ہے جس کے بارے میں وہ سوال کر رہا ہے اور کوئی ہے جو اس سوال کو بار بار دہرارہا ہے، اس طرح یہ فلسفۂ تشکیک بیک وقت انسان اور کائنات دونوں کو تسلیم کر لیتا ہے، اس مقام پر علامہ قمرالزماں اعظمی کا ایک اقتباس نقل کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے:

انسان نے وہیں تک سمجھا اور سمجھایا جہاں تک اس کی عقل نے ،اس کے تجربے اور مشاہدے نے اس کا ساتھ دیا اور جہاں عقل و تدبیر، تجربہ و مشاہدہ نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا انسان نے اس منزل پر اعتراف شکست کو جواب سمجھ لیا اور خاموش ہو گیا ، مثال کے طور پر بعض فلسفیوں نے جب کائنات کے بارے میں غور کرنا شروع کیا تو یہ دیکھ کر ان کی حیرت و استعجاب کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا کہ ابھی ہم کائنات کی ایک حقیقت کے بارے میں غور وفکر کر رہے ہیں ، اس کی آغوش سے ہزاروں اشیا جنم لیتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں اور ہمیں دعوت دیتی ہیں ،اس طرح ہر ذرہ ایک جہان تازه معلوم ہوتا ہے اور یہ سب کچھ بالکل خیال کی تیزی اور سرعت کے ساتھ ہوتا ہے۔ اسی منزل تحقیق میں پہنچنے کے بعد وہ پکار اٹھتا ہے۔

عالم تمام حلقۂ  دام خیال ہے

(سہ ماہی کوثر مبارک پور، ۱۹۸۵ء، ص:۱۲)

 کیایہ کائنات بخت  واتفاق کا نتیجہ ہے؟

عقل پرستوں کا ایک طبقہ اس پوری کائنات اور اس کے مربوط نظام کو بخت و اتفاق کا نتیجہ کہتا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ یہ مادے اور اس کی تمام تر توانائی از خود پردهٔ عدم سے وجود میں آگئیں ۔ دہریے اس تصور کو نہ صرف ممکن مانتے ہیں بلکہ ایک یقینی واقعہ کے طور پر بے تکلف  بیان کرتے ہیں ۔ مکسلے کے الفاظ یہ ہیں:

”چھ بندر ایک ٹائپ رائٹر لے کر بیٹھ جائیں اور اربوں کھربوں سال تک الل ٹپ طریقے سے ان کو پیٹتے رہیں تو ہوسکتا ہے کہ ان کےسیاہ کیے ہوئے کاغذات کے ڈھیرسے کسی صفحہ پر شیکسپیئر کی ایک نظم نکل آئے۔ اسی طرح اربوں کھربوں سال تک مادّے کے اندھے عمل کے دوران میں بالکل اتفاق سے یہ دنیا بن گئی ہے ۔“

نادان عقل پرستوں کا نظریہ اس حقیقت کا واضح اعتراف ہے کہ انسانی عقل نے وجود کائنات کی کوئی تو جیہ تلاش کرنے کی جدوجہدکی لیکن چند ہی لمحوں کے بعداس کی عقل کی روشنی غائب ہوگئی اور ہر طرف اسے گھٹاٹوپ تاریکیوں نے گھیر لیا اور محض عقل نا رسا سے وجود کائنات کی کوئی گتھی نہ سلجھ سکی تو بخت و اتفاق کے مضحکہ خیز نظریہ کا سہارا لے کر خودفریبی کی دنیا میں مطمئن ہو گیا۔ در اصل یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ اس نے اپنے فکری تاج محل  کی بنیاد انکارِخدا کی زمین پر اٹھائی تھی ، فکر کی دیواروں کے نیچے جب اثبات خدا کی زمین محسوس ہوئی تو اس کی فکر کا اٹھتا ہوا تاج محل اسی لمحہ دھواں دھواں ہو گیا اور بر وقت اپنے مزعومے کے باقی رکھنے کے لیے  دور تک کوئی سہارا نہ مل سکا تو گھبرا کر یہ کہہ کر خاموش ہو گیا کہ یہ پوری کائنات اور اس کامنظم مربوط نظام محض بخت و اتفاق کا نتیجہ ہے۔

پرنٹس یونیورسٹی کے استاذ حیاتیات پروفیسر      کانکلن Conklin  کہتے ہیں:”عناصر کے اجتماع سے  زندگی کا اتفاقاً پیدا ہو جانا اتنا ہی امکان رکھتاہے جتنا چھاپےخانے میں یکلخت دھماکا ہو جانے سے ایک پوری ڈکشنری مرتب اور اور طبع ہو کر نکل آنے کا اتفاق ہے۔“

سائنس کے نظریات ہر وقت تغیر پزیر رہتے ہیں ۔ اہل سائنس ہر وقت اپنے محدود محسوسات و تجربات کی روشنی میں حق وصداقت کی تلاش میں سر گرداں رہتے ہیں۔ اس کائنات کے بارے میں سائنس نے بارہا عقل و تجر بہ کا سہارا لیا لیکن چند قدم اٹھا لینے کے بعد اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کی تمام تر جدوجہد ایک حکایت تشنہ  وسراب سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ ایک امریکی طبیب نے بڑے پتے کی بات کہی ہے:

”جوں جوں علم ترقی کرتا ہے اسی رفتار سے سائنس کا مذہب پرتفوق ختم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ سائنس سے اگرصحیح کام لیا جائے تو انسان خود بخود خدا پر ایمان لے آتا ہے۔“

 اور بقول ماہر علوم طبعی ارونگ ولیم نابلاخ:

” سائنس کے پاس اس بات کا کوئی معقول جواب نہیں کہ مادے کے یہ چھوٹے چھوٹے ذرات کیوں کر معرض وجود میں آئے محض اتفاقات تو ان کے وجود کا سبب نہیں ہوسکتے، پھر سائنس اس معمے کو بھی حل کرنے سے قاصر ہے کہ ذرات سے زندگی کیوں کر پیدا ہوگئی ۔ وہ نظریہ جو وثوق کے ساتھ اس بات کا دعوے دارہے کہ زندگی کی یہ ترقی یافتہ حالتیں بخت و اتفاق کی رہین منت ہیں ، ایک قسم کا اندها اعتقادہی ہے۔ سائنس بھی ایمان کے بغیر ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتی۔ اس مذہب میں ہمیں اپنے حواس، اپنے حالات اور اتفاقات پر ایمان لانا پڑتا ہے۔ اس نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو سائنس اور مذہب ایک ہی سطح پر ہیں۔ (خدا موجود ہے ،ص:۸۵-۸۶)

ماہر طبیعیات لارڈکیلون کا ایک بڑا مشہور قول ہے:

”آپ جتنا زیادہ غور و فکر سے کام لیں گے اتناہی سائنس آپ کو خدا کے ماننے پر مجبور کردے گا۔“

ایک عیسائی سائنس داں کیمیاوی عناصر کے دوری نقشے Periodic Chart پر مفصل گفتگو کرتے ہوئے سوال کرتا ہے کہ ان کی یہ حیرت انگیز ترتیب کیا محض اتفاق کا نتیجہ ہوسکتی ہے کیا یہ ممکن ہے کہ بہت سے پروٹون، نیوٹرون اور الیکٹرون لے کر کسی ہنڈیا میں پکائے جائیں اور نتیجے میں ۱۰۲ کے قریب عناصر تیار ہو کر نکلیں؟ وہ کہتا ہے اس کا امکان اتناہی ہے جتنا مختلف کھانوں کے اجزاے ترکیبی ملا کر ایک ساتھ پکانے سے مختلف کھانے الگ الگ رنگ ، شکل ، مزے اور خصوصیات کے ساتھ خود بخود پک کربرآمد ہونے کا امکان ہے۔

کیایہ کائنات ازلی و ابدی ہے؟

فلسفۂ قدیم کا اس کائنات کے بارے میں ایک نظریہ ہے کہ اس کائنات کا حصار مادہ پر ہے اور قدیم ہے، لیکن حر کیات حرارت کے قوانین سے حقیقت واضح ہو کر سامنے آ گئی ہے کہ یہ کائنات انحطاط پزیر ہے اور ایک دن آنے والا ہے، جب تمام موجودات اپنی حرارت کھو بیٹھیں گے اور زندگی کے ہنگاموں سے بھر پور اس کائنات کا نقطۂ آغاز ضرور ہے اور ایک مقررمعین ساعت میں یہ کائنات وجود میں آئی ہے اور یہی حقیقت اس امر کی طرف رہنمائی کرتی ہے کہ کائنات خود بخود وجود میں نہیں آ گئی بلکہ یہ کسی کی قوت تخلیق کا کرشمہ ہے اور یہ تسلیم کے بغیر چارہ نہیں ۔

 علت اولیٰ کی حیثیت سے ایک ازلی و ابدی ذات اور علیم وقدیم ہستی ضرور ہے جس نے اس کائنات کو وجود بخشا اور صورت گری کی ، زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے اس کرۂ ارض پر اتنے انتظامات نظر آتے ہیں اور نظام کائنات اتنے نظم وضبط سے جاری ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کسی خالق ومربی کے بغیر یہ سب کچھ ہو گیا اور مسلسل ہورہا ہے۔ یا یہ سارا نظامِ  کائنات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ جس نے سائنس کا مطالعہ کیا ہے اور سائنس کے جدید نظریات پر نظر رکھتا ہے وہ کبھی یہ بات نہیں کہہ سکتا کہ یہ کائنات ازلی اور ابدی ہے تغیر وانقلاب اس کا بنیادی اصول ہے اور اس معاملہ میں مذہب و سائنس ایک دوسرے کے ہم نوا ہیں۔

حضرت امام غزالی  نے کائنات کے حدوث پر متعدد عقلی دلائل سپردِ قلم کیے ہیں ہم ذیل میں ان کی تلخیص پیش کرتے ہیں:

یہ عالم حادث ہے یعنی ازلی وابدی نہیں ہے، کیوں کہ آپ اس کائنات میں کسی بھی جسم کو دیکھ لیجیے حرکت و سکون سے خالی نہیں اور حرکت و سکون دونوں حادث ہیں اور جو حادث چیزوں  سے خالی نہ ہو وہ بھی حادث ہے۔ اس مدعا میں تین دعوے کیے ہیں ۔

(1)تمام اجسام متحرک ہیں یا ساکن ہیں اور یہ دعویٰ بالکل بدیہی ہے اگر کوئی شخص کسی جسم کے بارے میں یہ کہے کہ نہ وہ متحرک ہے اور نہ ساکن ہے تو اس کی جہالت و نادانی ہے۔ ایک معمولی عقل والا انسان بھی اس کی نفی نہیں کرسکتا ۔

(۲)دوسرا دعویٰ یہ کیا گیا کہ حرکت وسکون حادث ہیں ،اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے بعد آتے ہیں یعنی ایک کاوجود دوسرے کے بعد ہوتا ہے اور یہ تمام اجسام میں سرکی آنکھوں سے دیکھی جاسکتی ہے ۔ اس لیے کہ جو ساکن ہے عین تقاضائے عقل ہے کہ وہ متحرک ہوسکتا ہے اور جو متحرک ہے اس کا ساکن ہونا عقلاً ممکن ہے تو ان دونوں میں سے جو حالت بھی جسم پر طاری ہوگی وہ طاری ہونے کی وجہ سے حادث ہوگی اور پہلی حالت اپنے معدوم ہونے کی وجہ سے حادث ہوگی اس لیے کہ اگر وہ حادث نہ ہو تو لامحالہ قدیم ہو تو عدم محال ہوگا۔

(۳) اور تیسرا دعویٰ یہ کہ جو چیز حوادث سے خالی نہ ہوگی وہ خود حادث ہوگی اور اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ اگر ایسانہ ہوتو ہرحادث سے پہلے بہت سے حوادث ہوں گے جن کی اتبدا نہ ہوگی اور اگر یہ حوادث منقطع نہ ہوں گے توجواب موجودہےاس کے وجود کا سوال ہی پیدا نہ ہوگا۔

کیا اس کائنات کے چند خالق ممکن ہیں؟

یہ کائنات اپنے منظم نظام کے تحت قائم ہے، اگر اس کائنات کے چند خالق و مربی تسلیم کر لیے جائیں تو سارا نظام درہم برہم ہوجائے گا اور نہ صرف یہ کہ چند الٰہ نہیں ہو سکتے بلکہ اس کی صفات ذاتیہ میں بھی کسی کو شریک مانناممکن نہیں ۔ خداے تعالیٰ کی ذات و صفات میں کسی غیرکوشریک ماننے کا نام ہی شرک ہے۔ قرآن عظیم نے بڑے واضح انداز میں شرک کی جڑ کاٹ کر رکھ دی ہے اور شرک کی تردید میں انتہائی معقول دلیل دیتے ہوئے قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:

”لَوْ كَانَ فِیْهِمَاۤ اٰلِهَةٌ اِلَّا اللّٰهُ لَفَسَدَتَاۚ-فَسُبْحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا یَصِفُوْنَ۝۲۲ لَا یُسْــٴَـلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَ هُمْ یُسْــٴَـلُوْنَ۝۲۳“(سورۃ الانبیاء، آیت:۲۲، ۲۳)

ترجمہ: اگر آسمان و زمین میں اللہ کے سوا اور خدا ہوتے تو ضرور وہ تباہ ہوجاتے تو پاکی ہے اللہ عرش کے مالک کو ان باتوں سے جو یہ بناتے ہیں  اس سے نہیں پوچھا جاتا جو وہ کرے اور ان سب سے سوال ہوگا۔ 

صدر الافاضل مولانا نعیم الدین مراد آبادی ان آیات قرآنی کے تحت چند خداؤں کے عقلی امکانات کی تردید کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

” کیونکہ اگر خدا سے دو خدا مراد لیے جائیں جن کی خدائی کے بُت پرست معتقد ہیں تو فسادِ عالَم کا لزوم ظاہر ہے کیونکہ وہ جمادات ہیں ، تدبیرِ عالَم پر اصلاً قدرت نہیں رکھتے اور اگر تعمیم کی جائے تو بھی لزومِ فساد یقینی ہے کیونکہ اگر دو خدا فرض کئے جائیں تو دو حال سے خالی نہیں یا وہ دونوں متفق ہوں گے یا مختلف  ، اگر شے واحد پر متفق ہوئے تو لازم آئے گا کہ ایک چیز دونوں کی مقدور ہو اور دونوں کی قدرت سے واقع ہو یہ محال ہے اور اگر مختلف ہوئے تو ایک شے کے متعلق دونوں کے ارادے یا معاً واقع ہوں گے اور ایک ہی وقت میں وہ موجود و معدوم دونوں ہو جائے گی یا دونوں کے ارادے واقع نہ ہوں اور شے نہ موجود ہو نہ معدوم یا ایک کا ارادہ واقع ہو دوسرے کا واقع نہ ہو یہ تمام صورتیں محال ہیں تو ثابت ہوا کہ فساد ہر تقدیر پر لازم ہے ۔ توحید کی یہ نہایت قوی بُرہان ہے۔“

اب رہا یہ سوال کہ باری تعالیٰ سے نہیں پوچھا جائے گا اور باقی سے سوال ہوگا ۔ اس پر روشنی ڈالتے ہوئے صدرالا فاضل رقم طراز ہیں:

” کیونکہ وہ مالکِ حقیقی ہے جو چاہے کرے ، جسے چاہے عزّت دے جسے چاہے ذلّت دے ، جسے چاہے سعادت دے جسے چاہے شقی کرے ، وہ سب کا حاکم ہے کوئی اس کا حاکم نہیں جو اس سے پوچھ سکے ۔“ (تفسیر خزائن العرفان سورۃ الانبیاء ،آیت:۲۳)

موجودہ سائنس نے دہریت اور مادہ پرستی کے ساتھ ساتھ شرک کی بھی پوری طرح کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ آج یہ ثابت ہو گیا ہے کہ پوری کائنات ایک مادّہ سے بنی ہے اور ایک ہی طرح کے قوانین اس میں کارفرماہیں ،یہ عظیم الشان کارگاہِ ہستی، جس میں کم ازکم 125 بلین نظام فلکی پائے جاتے ہیں اور جس کے صرف ایک نظام میں ہمارے سورج  اور اس سے بھی ہزاروں گنا زیادہ جسیم ۱۰۰ بلین سے ۵۰۰ بلین تک سورج سورج اپنے  نظاموں کے ساتھ موجود ہیں ۔ اس کے عناصر ترکیبی ہر جگہ یکساں ہیں اور وہ وہی عناصر ہیں جن سے ہماری زمین اور اس کی مخلوقات بنی ہیں ۔ آج بعید ترین تاروں کا بھی جو مشاہدہ کیا گیا ہے ان میں وہ عناصرپہچانے گئے ہیں جو ہماری زمین پر عام ہیں اور قوانین فطرت کی عالم گیری ہی انسان کو اس قابل بنارہی ہے کہ زمین سے اٹھ کر فضائے بسیط میں جانے اور دوسرے سیاروں پر پہنچنے کے منصوبے سوچ سکے۔ ان معلومات نے اس وہم و گمان کے لیے بھی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی ہے کہ یہ کائنات مختلف خداؤں کے درمیان بنی ہوئی ہے۔ قرآن عظیم کے اس اعلان کی دہلیز پر آج سائنس بھی جبیں سائی کرنے پرمجبور ہے۔

”وَ هُوَ الَّذِیْ فِی السَّمَآءِ اِلٰهٌ وَّ فِی الْاَرْضِ اِلٰهٌؕ-وَ هُوَ الْحَكِیْمُ الْعَلِیْمُ۝۸۴ “ (الزخرف:۸۳)

ترجمہ: اور وہی آسمان والوں کا خدا اور زمین والوں کا خدا اور وہی حکمت والا ہے۔

”وَ هُوَ اللّٰهُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ فِی الْاَرْضِ“ (الانعام:۳)

 ترجمہ: اور وہی اللہ ہے آ سمانوں کا اور زمین کا۔

خدا کے وجود پر ایک اور عقلی دلیل:

ارباب مذہب کا یہ دعویٰ ہے کہ اس کائنات کا خالق ومربی ایک خدا ہے، خدا کے وجود کے منکرین کے لیے بلاشبہ یہ ایک دعویٰ ہے اور کسی بھی دعوے کو عقل کی میزان پر پرکھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے فرض کیا جائے کہ یہ دعویٰ  صحیح ہے یعنی کسی دعوےکے صحیح یا غلط ہونے کے نتیجے تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ عقل کی میزان کے شرائط پورے کیے جائیں ان سے مزعومہ نتائج اخذ کیے جائیں اور اس کے بعد یہ فرض کر کے کہ یہ دعویٰ صحیح ہے آگے بڑھا جائے۔ اب آیئے ہم اپنے اس مدعا کو کہ خدا موجود ۔۔۔عقل کی میزان پر پرکھنے کے لیے ذیل میں چند مبادیات پرغورکرتے ہیں۔

(۱)-یہ ایک مکمل سچائی ہے کہ ہمارا علم و مشاہدہ کائنات کے تمام حقائق ووقائع کو محيط نہیں بلکہ ہماراعلم ومشاہده جزوی طور پر بھی ناقص اور ایک رخا ہے اور ہمارا یہ دعویٰ کہ خداکاو جود ہی ایسے حقائق پر مبنی ہے جوعقل وسائنس کے تجربہ اور مشاہدہ سے ماوریٰ ہے۔

(۲)-اہل مذہب کا دعویٰ ہے کہ خدا ایک روحانی وجود ہے اور جسم و جسمانیات سےپاک ومنزہ ہے بلکہ اس کی ذات اقلیم فطرت کی لامحدود وسعتوں پر محیط ہے اور زمان و مکان کی ان تمام قیود سے بالاتر ہے جن پر ہم اپنے تجربات و مشاہدات کی بنیادر کھتے ہیں اور کوئی ذی عقل اور انصاف پسند انسان اس حقیقت کا انکارنہیں کرسکتا کہ عالم طبیعی اور زمان و مکان کی حدود و قیود جن میں ہم رہتے ہیں ،کل کائنات نہیں بلکہ کائنات کا ایک حصہ ہیں اور ہمارے علم و مشاہدہ کی دنیا ایک معمولی جہان کی حیثیت رکھتی ہے۔

اب جب عقلی طور پر تسلیم کر لیا گیا کہ انسانی عقل و مشاہده کادائرہ محدود ہے اور کائنات کا ایک بڑا حصہ ہم سے اوجھل ہے اور مابعد الطبعی عالم سائنس و تجربات کی رسائی سے بالاتر ہے تو اب کل کائنات اور مابعد الطبیعیات سے باخبر ہونے کا ہمارے پاس ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ اہل مذہب جس خدا کے قائل ہیں کیا اس کی ذات ان حقائق سے باخبر کرسکتی ہے جہاں عقل انسانی کی رسائی نہیں ہے تو جواب اثبات میں ملتاہے اورعقلی طور پر اس تصدیق کے لیے ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے جو مستقبل کی خبریں دی ہیں یا کائنات کے پنہاں حقائق کے بارے میں جو خبریں دی ہیں وہ حرف بہ حرف ہمارے مشاہدات کی روشنی میں ہیں اور آسمانی کتابوں میں اس کی پیش کی ہوئی پیشین گوئیاں آنے والے ادوار میں بالکل حق و سچ ثابت ہوئیں۔ اس انداز فکر پر بہت سے محققین اور اہل سائنس نے تاریخ عالم کا مطالہ کیا اور وجود باری تعالیٰ کی ذات کو تسلیم کرنے پر سرخمیدہ ہوگئے ۔ ہمارے سامنے قرآن وحدیث کے ذخائر میں عالم روحانیت اور مابعد الطبیعیات کے بارے میں معلومات کا ایک وسیع ذخیرہ ہے۔ انبیاے کرام نے اپنے مستقبل کے بارے میں جو پیشین گوئیاں کیں وہ احوال وقائع مستقبل میں رونما ہوئے ،غیب کی خبر یں اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہیں کہ ان کے علم کا منبع اور سرچشمہ عالمِ کون و مکاں سے ماوری ٰہے۔

نبی آخر الزماں ﷺ کی بعثت سے ہزاروں برس قبل آسمانی کتابوں میں ان کی آمد کے بارے میں جو پیشین گوئیاں کی گئیں ان کے معجزات اور ان کے تبلیغی مشن کی تفصیلات بیان کی گئیں، پھر ان کے بعد آخری نبی کابعینہ ان ہی خرق عادات حالات ومعجزات کے ساتھ ظہور پذیر ہونا اور ان الہامی کتب میں جو پیشین گوئیاں کی گئیں تھیں ان ہی خصوصیات کے ساتھ آپ ﷺ کا جلوہ گر ہونا اس مدعا کا واضح  عقلی ثبوت ہے کہ کوئی ذات ہے جس کاعلم پوری کائنات کو محیط ہے اور کوئی ذات ہے جو اس کائنات کومر بوط اور منظم نظام کے ساتھ رواں رکھے ہوئے ہے۔ ان حقائق سے نہ صرف ذات الٰہی کا ثبوت، اخبارالٰہی اور الہامی کتب کی تصدیق ہوتی ہے۔ بلکہ یہ بات بھی پورے طور پر ثابت ہوگئی کہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکی نبوت اور ان کی تعلیمات بھی مبنی بر حق ہیں۔

 اسلام ہی دین حق کیوں؟

گزشتہ بحثوں کے مطالعہ کے بعد عقل انسانی کو اس حقیقت کی دہلیز پرسرخمیده ہوجانا چاہیے کہ یہ کائنات مربوط اور منظم نظام کے تحت جاری ہے اور اس کا پیدا کرنے والا اور پرورش کرنے والا ایک خدا ہے جو ازلی اور ابدی- مذہب اس حقیقت کاداعی ہے جب کہ لادینیت اور دہریت اس کی منکر ہے۔

سچا مذہب وہی ہوسکتا ہے جس میں مکمل نظام حیات خدا کے بنائے ہوئے قانون کے عین مطابق ہو اور جس میں مابعد الطبیعیات یعنی ما قبل کائنات ، مافوق الفطرت اور آخرت کے تعلق سے مکمل  اور صحیح معلومات ہوں۔

 آج عالمی سطح پر جو نظام حیات یا مذاہب پائے جاتے ہیں ان کو ہم تین قسموں پر تقسیم کر سکتے ہیں۔

 (1)-ونظام حیات یا مذہب  جوصرف انسانی عقل وشعور اور فکر و تدبر کا نتیجہ ہیں اور ان کے پاس آسمانی ہدایت نامہ کے نام سے کوئی چیز نہیں اور نہ وہ اس کے داعی ہیں جیسے:جین مذہب، بودھ مذہب، کمیونزم اور سوشلزم وغیرہ ۔ ان مذاہب میں عبادات و معاشرت کے چند اصول ہیں اور بس کائنات اور خالق کائنات اور قبر و حشر کے تعلق سےکوئی تصور نہیں اورنہ نظام زندگی کامکمل دستور حیات ہے۔

(۲)- وہ مذاہب جو کائنات اور خالق کائنات کے علم کے داعی تو ہیں لیکن انسانی زندگی کے تمام گوشوں کے تعلق سے خدائی اصول نہیں رکھتے بلکہ اپنے اپنے لکھے ہوئے چند قوانین حیات کو الہامی تصور کرتے ہیں بلکہ خدا اور اس کے پیغمبروں کے تعلق سے بھی ان کی معلومات شک وشبہ سے خالی نہیں ہیں۔ اس کے مذاہب میں موجودہ عیسائیت، یہودیت اور ہندوازم وغیرہ کے نام پیش کیے جاسکتے ہیں۔

(۳)- کائنات اور خالق کائنات اور مابعد الطبيعيات معلومات کے ساتھ انسانی زندگی کامکمل دستور حیات ہو اور سارا نظام خدائی اصولوں پر مبنی ہو۔ اس وقت روئے زمین پر ایسامذہب اسلام اور صرف اسلام ہے۔

 اسلام کی حقانیت پر ایک اور زاویے سے ذرا غور کیجیےاس وقت دنیا میں تقریباً ایک درجن بڑے مذاہب پائے جاتے ہیں اور ہر ایک کا دعویٰ یہی ہے کہ وہ حق ہے اور اس کے پاس حقیقت کاعلم ہے لیکن صرف دعوے کی بنیاد پر آج کے شعوری دور میں کسی مذہب کو تسلیم  نہیں کیا جاسکتا ۔ضروری ہے کہ کسی مذہب کو قبول کرنے سے پہلے عقل وادراک کے طے شدہ اصول پر اسے پرکھا جائے عقل وادراک کی میزان پر جو مذہب پورا اترے اسے قبول کیا جائے اور باقی کو رد کر دیا جائے ، مذاہب کی واقعیت کوتسلیم کرنے کے لیےحسب ذیل تین اصول ہو سکتے ہیں۔

 (1)-اس مذہب کی کوئی تاریخی واقعیت بھی ہے یا صرف مفروضات پر مبنی  ہے۔

 (۲)-انسانی دنیا میں علم و سائنس کا جو ارتقا ہوا ہے اس مذہب کی تعلیم اس علم کی تصدیق کرتی ہے یا تردید۔

 (۳)-اس مذہب کی تعلیمات میں انسانی زندگی گزارنے کے لیے مستحکم اور ہر دور کا ساتھ دینے والے اصول وضوابط ہیں یا نہیں اور انسانی دنیا انھیں قبول کرنے کے لیے تیار ہے یانہیں۔

آج انسانی دنیا میں اسلام کے سوا کوئی مذہب تاریخ کے معیار پر پورانہیں اترتا۔ اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کی تاریخ کا ہر پہلو آئینہ کی طرح شفاف ہے۔ اسلام کا ایک ایک کردار روز اول سے آج تک تاریخی نقد ونظر پر پورا اترتا ہے قرآن و حدیث کی شکل میں اس کی تعلیمات بھی روشن حقیقت ہیں، جن پر امتداد زمانہ کی کوئی گرد آلود تہہ جمی ہے اورنہ  نفسیات کا کوئی گدلا رنگ چڑھا ہے۔ اسی طرح پیغمبر اسلام ﷺ کی مقدس سیرت کا ایک ایک پہلوبھی درخشاں آفتاب کی طرح منور اور بے داغ ہے۔

اسلام کے برخلاف دیگر تمام مذاہب کی تاریخی واقعیت انتہائی مشکوک ہے بلکہ اکثر مذاہب کا کوئی تاریخی پس منظر نہیں صرف مفروضات پر ان کی بنیادیں قائم ہیں آج کے فکری اور سائنسی دور میں جنھیں بحث کے اسٹیج پر بھی نہیں لایا جاسکتا ہے۔ ہندوازم میں رام کو ایک راجا کا بیٹا بتایا گیا ہے مگر حقیقی طور پر تاریخ میں ایسے کسی راجا کے خاندان کا سراغ نہیں ملتا، اسی طرح ویدوں کو ہندوازم کی مقدس کتاب تسلیم کیا جاتا ہے مگر ویدوں کی حقیقت سے تاریخ قطعاً خاموش ہے۔ خالص تاریخی ماخذ کی بنیاد پر کوئی نہیں بتاسکتا کہ وہ کب لکھے گئے اور ان کے لکھنے والے کون تھے ۔ گوتم بدھ کون سی زبان بولتے تھے تاریخ اس کی نشان دہی کرنے سے قاصر ہے۔

حضرت عیسی ﷤ کے بارے میں جو قرآن عظیم نے بتایا ہے وہی حرف آخر ہے مگر فلسطین اور شام کی تاریخ میں ان کا کچھ اتا پتا نہیں ۔ حضرت مسیح کا ترجمہ کیا ہوا کچھ کلام عہد نامہ جدید (انجیل) کی صورت میں ملتا ہے مگر اس کو معتبر نہیں کہا جا سکتا، ان کے ماننے والوں کو اس کا بھی علم نہیں کہ وہ کسی زبان میں گفتگو کرتے تھےکیوں کہ اس وقت فلسطین کے علاقہ میں کئی زبانیں رائج تھیں، اسی طرح باقی مذاہب کا حال ان سے بھی زیادہ غیرمعتبر ہے۔

اس پوری بحث کا حاصل یہ ہے کہ عقل و سائنس کی روشنی میں بھی یہ حقیقت مسلم ہے کہ اسلام کا پیش کردہ نظریۂ توحیدہی حق ہے اور خداے کریم نے اپنے آخری پیغمبر محمد ﷺ پر جو کتاب ہدایت نازل فرمائی وہ حرف بہ حرف حق ہے اور انھی تینوں پرایمان لانے اور انھیں تسلیم کرنے کا نام ایمان و اسلام ہے۔ آج پوری انسانی دنیا کی فلاح وکامرانی اور امن وشانتی اسی میں ہے کہ وہ اسلام کے دامن میں آجائے۔

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved