27 July, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia May2023 Download:Click Here Views: 19179 Downloads: 692

(11)- عید الاضحیٰ اور ہماری ذمہ داریاں

بزمِ دانش میں آپ ہر ماہ بدلتے حالات اور ابھرتے مسائل پر فکر و بصیرت سے لبریز نگارشات پڑھ رہے ہیں۔  ہم اربابِ قلم اور علماے اسلام کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ دیے گئے موضوعات پر اپنی گراں قدر اور جامع تحریریں ارسال فرمائیں۔  غیر معیاری اور تاخیر سے موصول ہونے والی تحریروں کی اشاعت سے ہم قبل از وقت معذرت خواہ ہیں۔          از :مبارک حسین مصباحی

جولائی ۲۰۲۳ کا عنوان                    مسلم لڑکیاں اور غیر مسلموں سے شادیاں-ایک اصلاحی جائزہ

اگست ۲۰۲۳ کا عنوان                    شاعروں اور مقرروں کا متعین اوقات کی اجرت طے کرنا— شرعی نقطۂ نظر

عیدقرباں اور ہماری ذمہ داریاں

از: مفتی محمد ساجد رضا مصباحی

عید قرباں امت مسلمہ کا بڑا عظیم اور بابرکت تہوار  ہے، قربانی کا بنیادی فلسفہ ایثار، خلوص اور اللہ کی راہ میں اپنی عزیز ترین چیز نچھاور کردینا ہے۔ عید الاضحیٰ  کے موقع پرجانوروں کی قربانی اس بات کو یاد دلاتی ہے کہ اللہ کے دیے ہوئے جانوروں کو جب ہم اللہ کی راہ میں قربان کرتے ہیں تو اپنے اس عقیدے کو تازہ کرلیتے ہیں کہ ہماری جان اور ہمارا مال سب کچھ   ہمارے رب  تعالیٰ کا ہے، وقت آنے پر ہم اپنی ہر چیز اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے تیار رہیں گے۔

’عید اضحیٰ‘‘اسوۂ ابراہیمی کی ایک   عظیم یادگار بھی ہے۔ لیکن یاد رہے کہ عیدالاضحیٰ جہاں  رضاے الہی کے لیے قربانی کا جانور ذبح کرکےسنت ابراہیمی کے اداکرنے کانام  ہے وہیں اس سے ہمیں ایثار،امن وسلامتی، عفوودرگزر اورجاں سوزی وجاں نثاری کاپیغام حاصل بھی ملتاہے ۔

عید قرباں ہمیں محبت، بھائی چارہ، ایثارو اخوت کا لازوال پیغام دیتا ہے۔ اس مبارک دن میں ہمیں غریب، بے سہارا اور مستحق لوگوں کی بھرپور امداد کرنی چاہیے۔ مصائب و مشکلات میں گھرے اسلامی بھائی ، غرباو مساکین، اور مستحقین کی حاجت روائی اور ان کی ضرورتوں کو اس دن پورا کر کے ان کے درمیان گوشت تقسیم کر کے ان کے چہروں پر مسکراہٹیں لائی جا سکتی ہیں، یہ عید ہم سے مطالبہ کرتی ہے کہ دوسرے ضرورت مندوں کی خوشیوں پر اپنی خوشیوں کو قربان کرتے ہوئے ان کے لیے کچھ ایسا کیا جائے کہ وہ خوش ہو سکیں کیوں کہ اپنی خواہشوں پر ضرورت مندوں اور محتاجوں کی خواہشوں کو مقدم کرنا بھی  ایک طرح کی قربانی ہے، لیکن یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب انسان اپنے  نفس کے درندےکو حقیقی جانور سے پہلے قربان کر چکا ہو۔

عید قرباں ایک عظیم اسلامی  تہوار بھی اور ایک عظیم عبادت بھی ، اس تہوار میں بے شمار سماجی ومعاشرتی پیغامات بھی پنہاں ہیں ، اس عبادت کی ادائیگی کے حوالے سے ہم  پرمتعدد شرعی ودینی اور سماجی ومعاشرتی ذمے داریاں عائد ہو تی ہیں ، جن کا بجالانا اور ان کی رعایت انتہائی ضروری ہے ۔

قربانی  محض رضاے الٰہی  کے لیے ہو نی چاہیے ، کسی طرح کی نمود ومائش اور ریا کاری اس عبادت کے بر کات وحسنات کو زائل کر نے کے لیے کافی ہیں ۔ سر کار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفر مایا :

من ضحیٰ طیبۃ نفسہ  محتسبا لاضحیۃ  کانت لہ حجابا من نار ۔

ترجمہ: جس نے خوش دلی کے ساتھ ثواب کی نیت سے  قر بانی کی  توہ قربانی اس کے لیے آگ سے حجاب بن جائے گا ۔

[التر غیب والتر ہیب ، ج:۲، ص: ۱۵۵]

قرآن کریم میں ارشاد فر مایا گیا :

لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا وَ لٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ١ؕ [ الحج /۳۷]

اللہ تعالیٰ تک  قربانی کے ان جانوروں کے گوشت اور خون  نہیں پہنچتے ، اس کی بارگاہ میں تو تمھارا تقویٰ  اور اخلاص پہنچتا ہے ۔

قربانی  کا جانور تندرست وتوانا ، فر بہ اور عیوب ونقائص سے پاک ہو نا چاہیے ،آج عام طورپر قر بانی کا جانور خرید تے وقت ہم ان باتوں کو خیال نہیں رکھتے ،بعض مسلمان صرف کسی بھی طرح کا جانور خرید کر اس رسم کو ظاہری طور پر ادا کر لینا ہی کافی سمجھتے ہیں ، حالاں کہ قربانی صرف گوشت خوری کے لیے جانور ذبح کر لینے کا نام نہیں  بلکہ وہ ایک  عبادت ہے ، جس کے لیے شریعت مطہرہ نے دیگر عبادات کی طرح    احکام وقوانین مقرر فرمائے ہیں جن کی پاس داری ہر حال میں لازم ہے ،خاص طور  بڑے جانور کی قربانی جس میں کئی افراد شریک ہو تے ان کے ضروری مسائل کا جاننا اور ان پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے ۔ شر کت والی قر بانی میں  اخلاص قلب اور گوشت کی تقسیم کے حوالے سے شریعت مطہرہ نے جو احکام عطا فر مائے وہ بہت اہم اور توجہ طلب ہیں ۔

 صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی قدس سرہ فر ماتے ہیں :

’’ان[ شرکاے قر بانی ] میں سے  ایک شخص کا مقصود قر بانی نہیں بلکہ  گوشت حاصل کر نا ہے  تو کسی کی قر بانی نہ ہو ئی ۔‘‘

[بہار شریعت ، حصہ ۵، قر بانی کا بیان ]

قربانی کے جانور کے گوشت کی تقسیم کے حوالے سے فر ماتے ہیں :

اگرشرکت میں گائے[ بڑے جانور] کی قُربانی کی تو ضَروری ہے کہ گوشت وزن کر کے تقسیم کیاجائے، اندازے سے تقسیم کرنا جائز نہیں ، کریں گے تو گنہگار ہوں گے ۔بخوشی ایک دوسرے کو کم زیادہ معاف کر دینا کافی نہیں ۔[مُلَخَّص ازبہارِ شریعت ج۳ص۳۳۵ ] ہاں اگر سب ایک ہی گھر میں رہتے ہیں کہ مل کر ہی بانٹیں گے اور کھائیں گے یاشُرَکاء اپنا اپنا حصّہ لینا نہیں چاہتے ، ایسی صورت میں وَزْن کرنے کی حاجت نہیں ۔

قربانی   کے جانور کو اسلامی طریقے پر ذبح کر نا چاہیے اور اس سلسلے میں شریعت کے احکام کو پیش نظر رکھنا چاہیے ، قر بانی کے جانور کو اپنے  ہاتھوں سے ذبح کر نا افضل ہے ، ور نہ کسی دوسرے مسلما ن سے بھی کرادے  تو ہو جائے گی ، ہمارے ملک میں عام طور پر بڑے جانور کو قصاب  کے یہاں ذبح کرایا جاتا ہے ، جو  حد در جہ غیر محتاط ہو تے ہیں ، ذبح کے فورا بعد   جب کہ جانور تڑپ رہا ہوتا ہے اور وہ  چمڑا نکا لنا شروع کر دیتے ہیں ، حالاں کہ سر کار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فر ما یا ہے :

حضرت بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سر کار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جانور کے سانس بند ہو نے سے پہلے  اس کی کھال اتار نےا  ور گوشت بنانے سے  منع فر مایا ۔

[ سنن ابو داؤد، ج:۲، ص:۳۴]

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی قدس سرہ فر ماتے ہیں :

’’ذبح کے  بعد جب تک  جانور  ٹھنڈا نہ ہو جائے  اور اس کے تمام اعضا سے  روح نہ نکل جائے  اس وقت تک اس کے ہاتھ پاؤں نہ کاٹیں  اور  نہ چمڑہ اتاریں ۔‘‘[بہار شریعت ، حصہ ۵، قر بانی کا بیان ]

بعض علاقوں میں  قر بانی کر نے والے قصاب  کو جانور کا سِرا  وغیرہ بطور اجرت دے دیتے ہیں ، شرعا یہ درست نہیں ہے ، ہدایہ  میں ہے :

ولا یعطیٰ اجر الجزار  من الاضحیۃ  شیئا ۔۔۔۔۔ والنھی عنہ نھی عن البیع  ایضا لانہ  فی معنی البیع۔[ہدایہ ، ج: ۲، ص: ۴۳۴، کتاب الاضحیۃ ]

یعنی  قربانی  کے جانور میں سے  کوئی بھی چیز قصاب کو اجرت کے طور پر نہیں دی جا سکتی ... اس لیے کہ  اس کو اجرت کے طور پر دینا بھی بیچنے کے مترادف ہے ،  او ر جانور  کے کسی جز کو بیچنا منع ہے ۔ہاں اگر یہ چیزیں بطور اجرت نہیں بلکہ  بطور تحفہ  دے تو دے سکتا ہے ۔

عید قر باں کے موقع  پر  مسلمانوں  کی ذمے داری ہے کہ وہ صفائی  اور پاکیزگی کا  مکمل اہتمام کریں، قربانی کے جانور کے  فضلات ،باقیات  اوجھڑیا ں سڑکوں، گلیوں  محلوں اور کھلے مقامات پر نہ پھینکیں ،اس سے لوگوں کو پریشانی بھی ہوتی ہے اوربیماریوں  کے پھیلنے کا  اندیشہ بھی رہتا ہے، ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ جانوروں کی آلائشیں سڑکوں اور کھلے مقامات پر پھینکنے کے عمل سے ہم دوسروں کے لیے پریشانی کا باعث بنتے ہیں، لوگوں کو کن کن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وطن عزیز  کے مسلمانوں پر تو  دوہری ذمہ داری عائدہوتی ہے  کہ وہ اپنے مذہبی رسوم وشعائر پرعامل بھی رہیں اور اپنے ہم وطنوں کی دل آزاری بھی  نہ ہو، اس بات کو بھی یقینی بنائیں۔ جہاں تک ممکن ہو  عوامی مقامات پر قر بانی سے بچیں ،  گلی کوچوں کو خون  او ر دوسری آلائشوں سے محفوظ رکھیں ، بد بو اور تعفن نہ پھیلے اس کے لیے ضروری تدابیر اختیار کر یں ، قر بانی کے گوشت اور ذبح شدہ  جانور کی تصویریں  سوشل میڈیا پر نہ ڈالیں ، جن علاقوں میں مسلمانوں  اور غیر مسلموں کی مشترک آبادی ہے وہاں خاص طور سے  احتیاط سے کا م لیں ، جذباتی عمل او ر رد عمل سے کئی طرح کے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں اور کبھی کبھار سے  جس سے بھاری نقصانات اٹھانے پڑتے ہیں ۔اللہ جل شانہ ہمیں عید قرباں اسلامی طریقے  پر منانے کی توفیق عطا فر مائے ۔ آمین ۔***

 

عیدقرباں میں امت کےلیےاہم پیغام

از: بلال احمد نظامی مندسوری

 

اےمسلماں! سن یہ نکتہ درس قرآنی میں ہے

عظمت اسلام ومسلم صرف قربانی میں ہے

زندگئیِ جاوداں مومن کی قربانی میں ہے

لذتِ آبِ بقا تلوار کےپانی میں ہے

عید قرباں اطاعت،محبت ایثار،قربانی اور وفاکا دوسرا نام ہے۔ سیدناحضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نےاپنےرب عزوجل کی محبت واطاعت میں ایثاروقربانی کے جذبے سے سرشار ہو کراپنےعزیزازجان فرزند سیدنا اسماعیل ذبیح اللہ علیہ السلام کو چھری کےنیچےلٹادیا،منظورنظر،جان پدر پسر ابراہیم نے وفاکی تاریخ رقم کرتےہوئےعرض کیا:اے والد محترم! آپ وہی کیجیے جس کاآپ کو حکم دیاگیاہے،آپ ان شاء اللہ مجھے عنقریب صبر کرنےوالوں میں سے پائیں گے ۔(صورہ صافات،آیت: ۱۰۲)

 خلیل اللہ نے عزیز ازجان فزرندکو چھری کےنیچےلٹایااور قربانی دیناچاہی ادھرسےرحمت رب جوش میں آئی اوربہ حکم الٰہی حضرت جبریل امین علیہ السلام نے سیدنااسماعیل ذبیح اللہ علیہ السلام کےبدلےایک جنتی دنبہ اس چھری کےنیچےرکھ دیا۔اور یوں حضرت ابراہیم واسماعیل علیہماالسلام کےاس عظیم عمل کو اللہ رب العزت نےامت مسلمہ کے صاحب حیثیت بندوں پر واجب کردیاتاکہ جب جب عیدقرباں آئےان کےدلوں میں بھی ایثارو وفا اور قربانی کےجذبات بیدار ہوں اور یہ بھی اعلاےکلمۃالحق کےلیے قربانیاں پیش کرسکیں۔

اسلامی تہوار محض تفریح یادل بہلانےکےلیےنہیں ہوتے ہیں بلکہ ان کاپس منظربھی نہایت روشن ہوتاہےاور امت کے لیےخیرہی خیر اور بھلائی ہی بھلائی لیےآتےہیں۔

دیکھےابھی اسلام کا ایک عظیم تہوار عید الفطر گزرا ہے، ایک مہینہ بھوکاپیاسارہنےکےبعد بطور انعام اللہ نے عیدالفطر کا دن عنایت کیاہےتاکہ میرےبندےمہینہ بھربھوکےپیاسےرہ کر بھوکےاور پیاسےلوگوں کےغم کااحساس کرسکیں،غریبوں کی خیرخواہی اور بھلائی والےکام کرسکیں۔ اسی طرح عیدقرباں بھی امت کی خیرخواہی اور بھلائی کادرس دیتی ہے۔ عیدقرباں محض کسی جانور کےخون بہانےکانام نہیں بلکہ اپنےرب کےحضور صدق نیت، تقوی شعاری اور جذبہ اخلاص  سےسرشارہوکر اپنی اطاعت و محبت کانذرانہ پیش کرناہے۔جیساکہ قرآن مقدس میں رب تبارک و تعالی نےفرمایاہے:

ان کے خون اور ان کے گوشت اللہ کے پاس ہرگز نہیں پہنچتے لیکن تمہارا تقویٰ اس کے پاس پہنچتا ہے۔(سورہ حج،آیت: 37)

یہ تقویٰ تقاضاکرتاہےکہ جس طرح راہ خدا میں اطاعت الہی کےجذبےسےسرشارہوکر اپنےمحبوب ترین مال سے جانور کی قربانی پیش کی ہےاسی طرح اپنےنفس کی سرکشی،انانیت،غرور اور  خواہشات نفس کوبھی قربان کردیاجائے،اگر ان تقاضوں کوپورا کیاجائےتوبندہ مومن بارگاہ رب العزت میں سرخرو ہو سکتا ہے۔

علاوہ ازیں عیدقرباں کےتعلق سےہماری کچھ ذمہ داریاں بھی بنتی ہیں جن سےفرار ناممکن ہے۔عیدقرباں پر غریب، یتیم، مسافر، مزدور،نادار اور بےآسرا لوگوں کاسہارا بننےکی کوشش کریں،جس جانورکو رضاےالٰہی کےلیےقربان کررہےہیں اس کا گوشت خوشنودی ِرب کےلیےغربامیں تقسیم کریں۔حدیث رسول  ﷺکےمطابق جواپنےلیےپسند کرے وہی اپنےبھائی کے لیےبھی پسندکرے۔قربانی کرنےسےقبل تمام شرعی تقاضوں کو پورا کریں تاکہ ہماری قربانی بارگاہ رب میں شرف قبولیت کادرجہ پالے۔ صفائی ستھرائی کاخاص خیال رکھیں۔ اسلام میں صفائی ستھرائی کو نصف ایمان سےتعبیرکیاگیاہے۔

عمومی طورپر مسلمان صفائی ستھرائی کاخیال نہیں رکھتے اور خاص کر قربانی کےایام میں بےفائدہ چیزیں،نجاست آلود چیزیں گلی محلے کے کنارےپر پھینک دیتےہیں،ہڈیاں برسر راہ پھینک دیتے ہیں، اور پور علاقہ فضائی آلودگی نیز تعفن کاشکار ہو جاتا ہے، اگر اس علاقےمیں غیرمسلم ہےتو وہ بھی پریشانی کا شکار ہو کر سرکاری اہل کاروں سےشکایتیں کرتے ہیں جس کےسبب آنےوالےسالوں میں ہمارےلیےمزید مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔

اس لیےاگرممکن ہوتو پورےعلاقےکی قربانی کسی ایک جگہ کی جائےجیسےدیگر کچھ اسلامی ممالک میں بوچڑ خانے بنے ہوتے ہیں تمام  قربانیاں اسی جگہ ہوتی ہیں،تاکہ صفائی کرنے والے اہل کار صفائی کرسکیں،یا علاقائی افراد خود ہی صفائی کااہتمام کریں۔اوجھڑی اور اس قسم کی دیگر اشیا محلےکےکنارےیا کوڑا کرکٹ میں پھینکنےکی بجائےیاتو انھیں زمین میں گاڑھ دی جائےیا غیرمسلم جواسےاستعمال کرتےہیں ان کےحوالےکردی جائے، نالیوں میں خون بہانے سے گریز کریں، ہڈیاں گھر کے آگے یا برسر راہ پھینکنےکی بجائےکہیں دورکچرا ڈالنےوالی جگہ ڈالیں یا زمین میں دفن کر دیں ۔ صفائی ستھرائی کا اس قدر اہتمام کریں کہ غیربھی یہ تاثرلیں کہ ان کےتہوار سماجی اور صفائی کے اعتبارسےبھی کس قدر بہترین اور دل کش ہیں کیوں کہ غیر مطالعۂ کتب سےاسلام کو سمجھنےکی کوشش نہیں کرے گا بلکہ مسلمانوں کےمعاملات سے اسلام کو اچھےیابرےکےخانےمیں فٹ کرنےکی کوشش کرے گا۔

مدارس کاخیال بھی رکھیں،قربانی کے جانور کے چمڑے کی قیمتیں نہایت کم ہونےکےسبب مالی طورپر بھی ان کی امداد کریں کیوں کہ یہ مدارس ہی جن کےوجود سےچمن اسلام ہربھرا ہے۔

دیہات یاشہروں میں ایسےعلاقےبھی ہوتےہیں جہاں غربت کےسبب قربانیاں نہیں ہوتی ہیں، اجتماعی طورپرقربانی کا گوشت جمع کرکےان علاقوں میں تقسیم کریں تاکہ وہ بھی اظہار خوشی میں شریک ہوکر اپنےرب عزوجل کاشکربجالاسکے۔

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved