13 November, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia July 2023 Download:Click Here Views: 61413 Downloads: 1085

(10)-ہمارے ملک کی جمہوری قدریں

بزم دانش

ہمارے ملک کی جمہوری قدریں

اگست ۲۰۲۳ کا عنوان                 سیرتِ مصطفیٰ  صلی اللہ علیہ وسلم اور ہماری بچیاں

یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا معاملہ انتہائی مشکل ہے

از: صابررضارہبر مصباحی

مختلف مذاہب اورمتنوع تہذیبوں کی آماجگاہ ملک ہندستان کی اصل خوبصورتی اورہمہ جہت ترقی کا راز اس کی وحدت میں کثرت کےفلسفے میں مضمرہے ۔ یہاں جمہوریت کی جڑیں کافی پختہ ہیں کیوں کہ اسے آئین کی تمہید میں جگہ دی گئی ہے لیکن دائیں بازو کےنظریات کے حامل افراد اس سے اس کی اصل خوبصورتی پرگہن لگانے کی تاک میں ہیں۔ ملک کی اعلیٰ اقتدارپر قابض جماعتیں ہندوستان کی روح کا سودا کرنے کےلیے پے در پے تجربے کررہےہیں جیسے کوئی منجمد پانی میں پتھر اچھال کر چشم بینا کااندازہ لگاتا ہے ۔ ہندستان سے جمہوریت کا سہاگ چھیننا ایساہی ہے جیسے اس کی روح ختم کردی جائے اورایک سڑی گلی لاش زندہ و سلامت تصورکرلیاجائے۔

آرایس ایس اوراس کی ہم نوا جماعتیں ملک کی مختلف ریاستوں میں اقلیتوں،دلتوں اور آدیواسیوں کے آئینی حقوق پر حملے کررہی ہیں۔ کبھی لباس، کبھی طلاق ، کبھی شادی بیاہ اورایجوکیشن کے نام پر ایسے پروپیگنڈے کیے جارہے ہیں جن سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاری ہے کہ ہندستان ایک ہندوراشٹرہے ۔ہندوتوا تنظیموں کی جانب سے اس طرح کے ہنگامے کوئی اتفاق نہیں بلکہ اسے حکومت وقت کی سرپرستی حاصل ہے ۔ پہلے لوجہاد کے نام پر مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول پیدا کیا گیا اوراب لینڈ جہاد کے نام پر اتراکھنڈمیں مزاروں کی مسماری کاسلسلہ جاری ہے اوریہ کسی حکومتی فرمان کے تحت انتظامیہ کی جانب سے نہیں کیا جارہاہے بلکہ بھگوا بریگیڈ کےلونڈے گلے میں بھگوا رومال پہن کر یہ تخریبی کارروائیاں انجام دے رہےہیں اوراس کے آگے حکومتی اصول، ملکی آئین اورعدالتی گائیڈلائن سب پانی بھررہےہیں ۔کیا یہ سب اتفاق ہے ؟

گئورکشا کے نام پر کھلے عام ماب لنچنگ اورپھران قاتلوں کا پھولوں سے استقبال یہ سب صرف یہ جتانے کے لیے کیا جارہاہے کہ اب لوگوں کو یہ تسلیم کرلینا چاہیےکہ ہندستان ایک ہندوراشٹرہے ۔

ہندوستانی جمہوریت کے نکلتے جنازے پر پوری دنیا چیخ رہی ہے ۔ حقوق انسانی کے علمبردار چراغ پاہیں اورہندستان کی جمہوری قدروں کی حفاظت کے لیے انصاف پسند افرادکی جانب سےآوازیں بلند کی جارہی ہیں مگرحکمراں محاذ کان بندکیے یہ کہے جارہاہے کہ ہمارے یہاں سب کچھ چنگا ہے۔

آئین میں ذات پات اورمذہب کی بنیاد پر کسی طرح کی تفریق کی گنجائش نہیں رکھی گئی ہے، مگر آئین کی حفاظت کا حلف لینے والوں نے آئینی اصولوں کی دھجیاں اڑانے میں کوئی کسرنہیں چھوڑ رکھی  ہے۔

اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کے لیے یہ ایک آزمائش اورامتحان کا دورہے ۔ دانش مندی اوردوراندیشی سے ہی اس کامقابلہ کیا جاسکتاہے ۔ ہندوستان کی جمہوری قدروں کی پامالی کا سلسلہ انتہائی افسوس ناک ہے مگرابھی اس پر انا للہ پڑھنے کا وقت نہیں آیا اورنہ یہ آسان ہے ۔یکساں سول کوڈ کے نفاذ کامعاملہ ہویا پھرحقوق کی بازیافت وبحالی کا اس کے لیے قوت وطاقت سے زیادہ درست فہم اور دیرپا حکمت عملی کی ضرورت ہے ۔ یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا معاملہ انتہائی مشکل ہے کیوں کہ اس کی مخالفت میں جنوبی ہندکی ریاستیں سب سے آگے ہیں ۔ قبائلی ،آدیواسی اور دلت اسے کبھی قبول نہیں کریں گے ۔ سکھوں کورام کرنا بھی سہل نہیں ہے اس لیے اس معاملے پر مسلمانوں کوفرنٹ لائنربننے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے کیوں کہ جب مسلمان رہنما منظرنامے پر آکراس کے خلاف صداے احتجاج بلند کرتا ہے تواسے ایک خاص طبقہ سے جوڑدیاجاتاہے اوراس طرح حکومتی افراد دوسرے  مذاہب افرادکویہ جتانے کی کوشش کرتےہیں کہ دیکھو اس سے مسلمانوں کوخطرہ ہے تمھیں نہیں کیوں کہ تم تو ہندستانی ہو اور پھرمسلمانوں کی آواز صدابہ صحراثابت ہوتی ہے ۔ آپ کی پوزیشن ایسی نہیں ہے کہ لال قلعے پر سبزجھنڈاگاڑدولیکن سکھوں نے کسان آندولن کے دوران اپنا مذہبی پرچم لہرایا اوران کا سینہ پولیس فورس کی گولیوں سے محفوظ رہا ۔

ابھی حال میں سپریم کورٹ میں ہم جنس شادی کوقانونی درجہ دینے کامعاملہ زیرسماعت تھا ۔ مرکزی حکومت اس کے خلاف تھی اس کے باوجود مسلم تنظیمیں کود پڑیں اور پٹیشن دائرکرکے فریق بن گئیں جس کے بعد اسلام بہ نام ہم جنس پرستی بحث چھڑگئی ۔میرے خیال میں یہ ایک غلط فیصلہ تھا جس کے سبب وکیلوں کی موٹی فیس کے نام پر محض پیسے کا ضیاع ہوا ۔ اس لیے ہندستان کی جمہوری قدروں کے تحفظ کے لیے مسلم تنظیموں کو فرنٹ لائنر بننے کے بجاے ہم خیال برادران وطن کے ساتھ مل کر اپنی لڑائی لڑنی ہوگی ۔اس لیے مسلمانوں کو جذبات میں آئے بغیر اپنی حکمت عملی وضع کرنی ہوگی ۔

دراصل اگلے لوک سبھا انتخابات کے پیش نظر بی جے پی نے فرقہ وارانہ پولرائزیشن کی اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ یکساں سول کوڈ کا مسئلہ ایک بار پھر سامنے لانا اس سمت میں ایک قدم ہے۔۲۰۱۶ء میں مودی حکومت نے اس معاملے پر لاء کمیشن سے واضح رائے مانگی تھی۔ کمیشن نے اس سے متعلق تمام حقائق کا جائزہ لیا۔ تمام جماعتوں سے مشاورت کی۔ کمیشن نے۲۰۱۸ء میں واضح رائے دی تھی کہ اس پر عمل درآمد کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ منصفانہ بھی نہیں ہے۔ ایسے میں اس معاملے کو دوبارہ اٹھانا ملک کو فرقہ وارانہ انتشار میں ڈالنے کی سازش کہلائے گا۔انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت کو بتانا چاہیے کہ۲۰۱۸ء کے بعد ملک کے سماجی ڈھانچے یا مختلف مذاہب کے لوگوں کی سوچ میں کیا تبدیلی آئی ہے۔ ہمارا آئین مختلف مذاہب کے لوگوں کو اپنی مذہبی روایت پر عمل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس کے مطابق شادی، طلاق، جانشینی، گود لینے، جائیداد حاصل کرنے وغیرہ کا کام آسانی سے ہو رہا ہے۔ مختلف فریقوں کے لوگوں کو اعتماد میں لیے بغیر یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا معاملہ غیر ضروری تنازع اور تناؤ کو ہی جنم دے گا۔یقین مانیں اس بار بھی لاء کمیشن کی رپورٹ کچھ اسی طرح کی ہوگی ۔

نریندمودی نے ناقابل تکمیل وعدے اور ہندتوا کے ایجنڈے کے ساتھ اقتدار پر قبضہ حاصل کیا تھا اس کے بعد سے میڈیا کے سہارے دھرم کا افیون کھلاکر ہندوؤں کو مسلمانو ں کاخوف دکھاکر ہندوراشٹر کا خواب دکھاتے رہے مگر جب نان شبینہ کی بات آجاتی ہے تو سارا نشہ ہرن ہوجاتاہے ۔ نوٹ بندی اور لاک ڈاؤن کے بعدمہنگائی اور بے روزگاری سےپریشان ہوکر ہندؤں کے اکثریتی طبقہ نے اب حکومت سے سوال کرنا شروع کردیا ہے ۔ آرایس ایس کے ترجمان ’آرگنائزر‘ نے بھی اپنے اندرونی سروے میں واضح کردیا ہے کہ مودی اورہندوتو اکے نام پر عام انتخابات میں فتح حاصل کرنا پنگھٹ کی کٹھن ڈگرکے مترادف ہے۔ اب بی جے پی پھر اپنے سارے پتے دھیرے دھیرے پھینکنے لگی ہے ۔ اس لیے یکساں سول کوڈ کامعاملہ ایک بارپھر گرم کرکے پولرائزیشن کی کوشش کررہی ہے ۔

ادھرلاء کمیشن نے راے عامہ کی طلبی شروع کردی ہے ایسے میں مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس کی سائٹ پر جاکر اپنی رائے دیں اوریہ صرف ایک کوشش ہوگی ورنہ جمہوریت میں تعداد کی بنیاد پر فیصلے ہوتےہیں اورہماری تعداد اکثریت کے مقابلے بہت ہی کم ہے ۔ بہرحال لاء کمیشن کے سامنے اپنی بات مضبوطی سے رکھنے کی ضرورت ہے ۔

مودی حکومت کے نوسالہ دوراقتدارکے دوران مسلمانوں کوایک طرح سے نفسیاتی خوف میں مبتلا کردیاگیا ہے مگر اطمینان کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے حوصلے نہیں ٹوٹےہیں اورنہ ہی وہ مایوس ہے ۔ اس دوران مسلمانوں کا ضبط اورگہری خاموشی نے حکمراں محاذ کوبے چین کررکھاہے کیوں کہ اب مسلمان کے نام پر اس کی سیاست نہیں چمک رہی ہے اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ حالات کا مقابلہ حکمت عملی اور خاموشی کے ساتھ کریں ۔ چیخ وپکار اور شوروغل سے کچھ نہیں ہونے والاہے کیوں کہ ابھی ہرطرف کی ہوا آپ کے خلاف ہے ۔ یقین جانیں کہ ہوائیں آوارہ ہوتی ہیں اوران کے اندرٹھہراؤ نہیں ہوتا۔ آنے والا کل قدرے بہتر ہوگا۔

ملک کی کمزور ہوتی جمہوری قدریں

از:مولانا محمد عابد چشتی

انگریزوں کی تقریباً دو سو سالہ آمرانہ حکومت اور ظلم و تعصب پر مبنی نظام سے آزادی حاصل کرنے لیے ہندوستان کے ہزاروں جیالوں اور سرفروشوں نے اپنی جان کے قیمتی نذرانے مادر وطن کے قدموں میں پیش کر دیے اورمسکراتے ہوئے دار و رسن کی منزلوں سے گذر گئے، ان کی بے لوث قربانیاں رنگ لائیں اور طویل جد و جہد کے بعد آخر ایک صبح آئی جس میں آزادی کا سورج نوید جاں فزا بن کر نمودار ہوا اور یہیں سے ایک نئے ہندوستان کی شروعات ہوئی ۔

آزادی کے بعدملک عزیز کو از سر نو اپنے آئین کی بنیاد رکھنا تھی ، ایک ایسا آئین جو کروڑوں ہندوستانیوں کے لیے یکساں طور پر قابل قبول ہو،جس کے لیے  ارباب اقتدار اور ملک کے وہ دانشور سر جوڑ کر بیٹھے جنہیں ملک کی آئینی جہت کا تعین کرنا تھا ،بحث و مباحثے ہوئے ، رد و تکرار ہوئی ،فکر و قلم کی ساری توانائیاں بروے کار لائی گئیں اور پھر ملک کی فضا اور حالات کے نشیب و فراز کا صحیح اندازہ کرنے کے بعد نظام کے طور ’’جمہوریت ‘‘ پر آخری مہر ثبت کر دی گئی اورمتفقہ طور پر ’’جمہوری نظام‘‘ کو اس ملک کے آئین کی روح قرار دے دیا گیا جس سے انحراف بلا واسطہ آئین سے انحراف کے مترادف مانا گیا ۔

ہندوستان ایک ایسا  ملک ہے جہاں قدم قدم پر مختلف قبائل ، طبقات ، رنگ و نسل ، علاقہ و زبان اور رسم و رواج کے ماننے والے رہتے ہیں  اس تناظر میں دیکھا جائےتو بخوبی اس بات کا احساس مزید گہرا ہو جاتا ہے کہ ’’ جمہوریت ‘‘ اس  ملک کی’’ پسند ‘‘نہیں بلکہ’’ مقدر‘‘ ہے اور جمہوریت میں ہی اس ملک  کی بقاے با ہمی، سالمیت ، تحفظ اور بین الاقوامی سطح پر اس کی ہمہ جہت ترقی کا راز مضمر ہے  ، اس لیے کہ جمہوری نظام حکومت کے علاوہ  کوئی اور متبادل نظام حکومت نہ تو اس ملک کی مختلف المزاجی ، گونا گوں تہذیبوں ، رنگا رنگ ثقافتوں اور متضاد عقائد و رسوم  کی نمائندگی کر  سکتا ہے اور نہ ہی سوا سو کروڑ عوام کو اپنے اعتماد میں لے سکتا ہے ۔ خیر ! آزادی کے بعد ملک کے آئین کے طور میں جمہوریت  کا جو فیصلہ لیا گیا تھا جیسے جیسے زمانہ آگے بڑھتا گیا اور زمانے کے رفتار بڑھتی گئی ویسے ویسے ہندوستانی قوم کے حق میں لیا گیا یہ فیصلہ اپنی صالحیت کا اعتراف کراتا چلا گیا اور آج ہندوستان کی جمہوری قدروں اور اس کے تکثیری مزاج کی گونج چہار دانگ عالم میں سنائی دیتی ہے اور دنیا کے نقشے میں سب سے بڑی جمہوریت کے نام پر اسے عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ، جو اپنے سوا سو کروڑ باشندوں کے اندر مذہب و عقیدہ اور تشخصات کے تحفظ کا مضبوط احساس بنائے رکھنے میں مجموعی طور پر  ہمیشہ  کامیاب رہا ہے ۔

مگر ایک طرف مندرجہ بالا تاریخی اور تجرباتی حقائق ہیں تو دوسری طرف جمہوریت کے اس پورے سفر میں کچھ تلخ حقیقتیں بھی ہیں جو ہمیشہ سےہندوستان کے جمہوری مزاج کا نہ صرف پیچھا کرتی رہی ہیں بلکہ انہیں روز اول سے چیلنج بھی کرتی رہی ہیں ۔ در اصل ہندوستان کی آزادی کے بعد سے ہی ایک طبقہ نظریاتی سطح پر ہندوستان کے جمہوری نظام سے نہ صرف نا خوش رہا بلکہ اس کی مخالفت پر بھی آمادہ رہا ، جن کا ماننا تھا کہ ہندو سماج کی اکثریت کی بنیاد پر اس ملک کو ’’ہندو راشٹر‘‘ بنا دیا جائے ، تاکہ یہاں کی دیگر اقلیات ہمیشہ دوئم درجہ کا شہری بن کر اکثریتی سماج کے رہین منت اور ان کے رحم و کرم پر زندگی گزاریں۔ ’’ساورکر‘‘ اور ’’گوڈسے‘‘ جیسے عناصر اس نظریہ کی بھر پور وکالت اور پور زور حمایت کر رہے تھے اور در پردہ اکثریتی سماج کی ذہن سازی کرکے اس نظریہ کو ہندوستان کی عوام پر تھوپنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے تھے ۔ مگر اس وقت کے سیکولر اور اعتدال پسند ذہنوں اور امن پسند عوام نے اس نظریہ کو پوری طرح بحث سے خارج کرکے مسترد کر دیا اور ملک کی سالمیت کے لیے جمہوری نظام کی بنیاد رکھی جس نے  صدیوں سے چلی آ رہی گنگا جمنی تہذیب کی روایت کو نہ صرف آگے بڑھایا بلکہ اس کی جڑوں کواور مضبوط کر دیا ۔

جمہوریت اور جمہوری نظام کے خلاف اٹھنے والی ان آوازوں کو وقتی طور پر دبا تو دیا گیا تھا مگر جمہوریت مخالف نظریات  کے لیے ذہن سازی کا یہ عمل اندر ہی اندر پوری تندہی کے ساتھ چلتا رہا جو آر ایس ایس جیسی انتہا پسند تنظیموں کے بینر تلے مکمل تحریک کی شکل اختیار کر گیا ، اور مرکز میں بی جے پی کی حکومت کے بر سر اقتدار آنے کے بعد ، جو آر ایس ایس کے سیاسی نظریات کی نمائندگی کرتی ہے ، جمہوریت مخالف آوازیں جو مصلحت اور حالات کی ناسازگاری کی تہہ میں کہیں دبی ہوئی تھیں وہ کھلے عام اور بلا خوف اٹھنا شروع ہو گئیں ہیں جس نے ملک کے امن پسند شہریوں اور سیکولر مزاج قائدین کو تشویش و فکر میں مبتلا کر رکھا ہے۔

جمہوریت اپنے شہریوں کو مذہب و عقیدہ اور تحریک و عمل کی آزادی کی ضمانت دیتی ہے اور اقلیات کے آزادانہ حقوق کو تحفظ فراہم کرتی ہے ، کسی بھی جمہوری ملک کی یہی بنیاد اور اس کی شناخت کا امتیازی حوالہ ہوتا ہے ، اگر اس  پس منظر میں گذشتہ نو  ، دس سالوں کا جائزہ لیا جائے تو مایوس کن نتائج نکل کر سامنے آتے ہیں جو ہندوستان کی قدیم اور مضبوط جمہوری قدروں کی متزلزل ہوتی بنیادوں کا واضح اشاریہ دے رہے ہیں ۔ ۲۰۱۴ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی  واضح اکثریت کے ساتھ مرکز میں بر سر اقتدار آئی جس کی مسلم دشمن شبیہ کسی خارجی ثبوت کی محتاج نہیں ہے ، اقتدار میں آتے ہی نہ صرف یہ کہ مسلم مخالف ماحول بنایا گیا بلکہ مسلم مخالف نظریات کی بھرپور پشت پناہی کے ساتھ ساتھ غیر اعلانیہ حوصلہ افزائی بھی کی گئی  جس سے شہہ پا کر شر پسند عناصر مسلسل ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے خلاف منافرت کا زہر اگل رہے ہیں اور انہیں ہر سطح پر ہراساں کرکے عدم تحفظ کے احساس کی طرف ڈھکیل رہے ہیں اور اب اس منظم نفرت انگیزی کے اثرات سماجی سطح سے لے کر تعلیمی ، تجارتی اورمعاشرتی ہر سطح پر محسوس کیے جار ہے ہیں ۔

حجاب پر پابندی کے تعصب آمیز مطالبے ، تین طلاق کو شرعی حیثیت پر خط تنسیخ کھینچ کر پرسنل لا میں مداخلت ، اذان پر پابندی ، دینی تعلیم کے مراکز پر سوالیہ نشان ، اور نان نہاد ’’لو جہاد‘‘ جیسے بے بنیاد پروپیگنڈوں کے ذریعہ مسلم نوجوان نسل کو مسلسل ٹارچر کرنے کی ناپاک اور منصوبہ بند کوششیں اصل میں جمہوریت مخالف زعفرانی فکر کی ہی زائیدہ ہیں۔ سردست اس فہرست میں ’’یکساں سول کوڈ‘‘ کو جوڑا جا سکتا ہے جسے لے کر زعفرانی فکریں اور موجودہ حکومت ضرورت سے زیادہ جذباتی دکھائی دے رہے ہی ۔’’ ایک ملک اور ایک آئین ‘‘ یہ نعرہ جس قدر خوش نما معلوم ہوتا ہے اس کی تہہ میں اتنے ہی زیادہ خطرناک عزائم چھپے ہیں ، ماہرین کے مطابق یہ قانون ملک کی جمہوری قدروں کو نیست و نابود کرنے کی طرف ایک مضبوط اور مستحکم قدم ثابت ہو سکتا ہے ۔

ملک کے پریشان کن حالات ، مسموم ہوتی فضا ، تعصب و منافرت ، پروپیگنڈے ،سب ہمارے سامنے ہیں مگر اس پورے منظر نامے میں سب سے زیادہ تشویس اور فکر کی بات  یہ ہے کہ جمہوری قدروں کی بنیاد جن چار ستون پر مانی جاتی ہے یعنی حکومت ، پارلیمان ، عدلیہ  اور میڈیا ، اب ان چاروں ستونوں پر زعفرانی  نظریات کا تسلط بالکل صاف دکھائی دے رہا جس نے ملک کے سنجیدہ طبقہ کو بری طرح بے چین کر رکھا ہے۔اصل میں عدلیہ اور میڈیا  جمہوری ملک میں حکومتوں کی ظالمانہ کارروائیوں کے خلاف عوام کی طاقت کے مضبوط حصے سمجھے جاتے ہیں جن کی بدولت مطلق العنان حکومتوں اور ان کے آمرانہ رویوں پر  نہ صرف قدغن لگایا جا سکتا ہے  بلکہ میڈیا اور عدلیہ کی غیر جانب داری نہ جانے کتنی حکومتوں کے تختے بھی پلٹ دیتی ہے ۔  مگر افسوس کہ ہندوستان  میں عدلیہ اور میڈیا اب حکومت کے اشارۂ ابرو پر اپنی ترجیحات طے کرتا ہوا نظر آر ہا ، آپ خود دیکھیں کہ ملک کا میڈیا کس طرح اسلام اور مسلمانوں کے خلاف رات دن زہر اگلنے میں لگا ہوا ہے  ان حالات میں ملک عزیز کی جمہوریت اور جمہوریت کی بقا پر سوالیہ نشان قائم ہونا فطری ہے   جس سے جمہوریت کا شفاف تصور مستقبل کے آئینہ میں دھندھلا سا ہوتا جا رہے ۔

یہ بات کسی دلیل کی محتاج نہیں ہے کہ اگر ہندوستان کی جمہوری قدروں پر کوئی آنچ آتی ہے تو اس کے منفی اثرات آنے والی نسلوں کی عزت و آبرو، روشن مستقبل ، شخصی حقوق اور ان کی زندگی کے ہر پہلو پر بہت گہرے اور دور تک پیوست ہوں گے جس سے ابر پانا بہت مشکل ہو سکتا ہے ۔ تعصب زدہ ماحول کے اندھیروں میں اگر جمہوری قدروں کا وجود گم ہوتا ہے تو اس کا براہ راست اثر اگر چہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت پر پڑے گا تا ہم اس کے منحوس اثرات کا دائرہ دیگر اقلیات کو بھی اپنی چپیٹ میں لیے بغیر نہیں رہے گا ۔ایسے حالات میں وقت کا جبری تقاضا یہ ہے کہ ملک کے وہ تمام سلجھے دماغ جو ملک کی جمہوریت کا تحفظ چاہتے ہیں  اب وہ بحث و مباحثہ کی میزوں سے اٹھ کرمیدان عمل میں آئیں اور حال کے بین السطور سے مستقبل کی سنگینی کا اندازہ لگا کر اس کے لیے پورے ملک کو تیار کریں اس لیے کہ نوشتہ دیوار ہمارے سامنے ہے اگر وقت رہتے ٹھوس اقدامات نہ کیے گئے تو ہم آنکھوں کے سامنے ہی تعصب کے افق پر جمہوریت کا چمکتا سورج غروب ہوتے دیکھیں گے جس کے بعد صرف اندھیرے ہوں گے ، نفرت کے ، حقارت کے ،حیوانیت کے اور ان مظالم کے جن کے تصور سے ہی پورا وجود کانپ سا اٹھتا ہے۔

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved